قیامت کا منظر سُوْرَةُ التَّكْوِیْر کی روشنی میں

 قیامت کا منظر  سُوْرَةُ التَّكْوِیْر  کی روشنی میں 

سید ابوالاعلی مودودی ؒ 

نام :

پہلی ہی آیت کے لفظ کوِّرَت' سے ماخوذ ہے۔ کوِّرَت تکویر سے صیغۂ ماضی مجہول ہے جس کے معنی ہیں لپیٹی گئی۔ اس نام سے مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لپیٹنے کا ذکر آیا ہے۔زمانۂ نزول :

مضمون اور اندازِ بیاں سےصاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔موضوع اور مضمون :

اس کے دو موضوع ہیں ایک آخرت اور دوسرے رسالت۔
پہلی چھ آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جب سورج بے نور ہو جائے گا، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑ زمین سے اکھڑ کر اڑنے لگیں گے، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں کے جانور بدحواس ہو کر اکٹھے ہو جائیں گے اور سمندر بھڑک اٹھیں گے۔ پھر سات آیتوں میں دوسرے مرحلے کا ذکر ہے جب روحیں از سرنو جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی، نامۂ اعمال کھولے جائیں گے، جرائم کی بازپرس ہوگی، آسمان کے سارے پردے ہٹ جائیں گے اور دوزخ جنت سب چیزیں نگاہوں کے سامنے عیاں ہو جائیں گی۔ آخرت کا یہ سارا نقشہ کھینچنے کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس وقت ہر شخص کو خود معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔
اس کے بعد رسالت کا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں اہل مکہ سے کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے، نہ کسی شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے، بلکہ خدا کے بھیجے ہوئے ایک بزرگ، عالی مقام اور امانت دار پیغام بر کا بیان ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھلے آسمان کے افق پر دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس تعلیم سے منہ موڑ کر آخرت تم کدھر چلے جا رہے ہو؟

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ ۪ۙ﴿۱﴾ وَ اِذَا النُّجُوۡمُ انۡکَدَرَتۡ ۪ۙ﴿۲﴾ وَ اِذَا الۡجِبَالُ سُیِّرَتۡ ۪ۙ﴿۳﴾ وَ اِذَا الۡعِشَارُ عُطِّلَتۡ ۪ۙ﴿۴﴾ وَ اِذَا الۡوُحُوۡشُ حُشِرَتۡ ۪ۙ﴿۵﴾ وَ اِذَا الۡبِحَارُ سُجِّرَتۡ ۪ۙ﴿۶﴾ وَ اِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۪ۙ﴿۷﴾ وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ﴿۸﴾ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ ۚ﴿۹﴾ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۰﴾ وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتۡ ﴿۪ۙ۱۱﴾ وَ اِذَا الۡجَحِیۡمُ سُعِّرَتۡ ﴿۪ۙ۱۲﴾ وَ اِذَا الۡجَنَّۃُ اُزۡلِفَتۡ ﴿۪ۙ۱۳﴾ عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ ﴿ؕ۱۴﴾ فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالۡخُنَّسِ ﴿ۙ۱۵﴾ الۡجَوَارِ الۡکُنَّسِ ﴿ۙ۱۶﴾ وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ ﴿ۙ۱۷﴾ وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ ﴿ۙ۱۸﴾ اِنَّہٗ لَقَوۡلُ رَسُوۡلٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۱۹﴾ ذِیۡ قُوَّۃٍ عِنۡدَ ذِی الۡعَرۡشِ مَکِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ ﴿ؕ۲۱﴾ وَ مَا صَاحِبُکُمۡ بِمَجۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۲﴾ وَ لَقَدۡ رَاٰہُ بِالۡاُفُقِ الۡمُبِیۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾ وَ مَا ہُوَ عَلَی الۡغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾ وَ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾ فَاَیۡنَ تَذۡہَبُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٌ لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۲۷﴾ لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾ وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿٪۲۹﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
جب سورج لپیٹ دیا جائے گا1 ، اور جب تارے بکھر جائیں گے2 ، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے3، اور جب دس مہینے کی حاملہ اُونٹنیاں اپنے حال پر چھوڑ دی جائیں گی4، اور جب جنگلی جانور سمیٹ کر اکٹھے کر دیے جائیں گے5، اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے6، اور جب جانیں 7﴿جسموں سے﴾ جوڑ دی جائیں گی8، اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قُصور میں مار ی گئی9؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے، اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا10، اور جب جہنّم دہکائی جائے گی، اور جب جنّت قریب لائی جائے11 گی، اُس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔
پس نہیں12 ، میں قسم کھاتا ہوں پلٹنے اور چھُپ جانے والے تاروں کی ، اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہوئی اور صبح کی جبکہ اس نے سانس لیا13، یہ فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے14 جو بڑی توانائی رکھتا ہے15، عرش والے کے ہاں بلند مرتبہ ہے ، وہاں اُس کا حکم مانا جاتا ہے16، وہ بااعتماد ہے17۔ اور ﴿اے اہلِ مکّہ﴾ تمہارا رفیق18 مجنون نہیں ہے، اُس نے اُس پیغام بر کو روشن اُفق پر دیکھا ہے19۔ اور وہ غَیب ﴿کے اِس علم کو لوگوں تک پہنچانے﴾ کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے20۔ اور یہ کسی شیطان ِ مردُود کا قول نہیں ہے21۔ پھر تم لوگ کِدھر چلے جا رہے ہو؟ یہ تو سارے جہان والوں کے لیے ایک نصیحت ہے، تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے جو راہِ راست پر چلنا چاہتا ہو22۔ اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ ربّ العالمین نہ چاہے23۔ ؏
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :1
1۔ سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی لپیٹنے کے ہیں۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے ا ور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل سارے نظام شمسی میں پھیلتی عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا، یعنی اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :2
2۔ یعنی وہ بندش جس نے ان کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے، کھل جائے گی اور سب سارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ان کدار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہو گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں گے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :3
3۔ دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ کشش بھی ختم ہو جائے گی جس کی بدولت پہاڑ وزنی ہیں اور جمے ہوئے ہیں۔ پس جب وہ باقی نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بے وزن ہو کر زمین پر اس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :4
4۔ عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کے لیے یہ بہترین طرز بیان تھا۔ موجودہ زمانہ کے ٹرک اور بسیں چلنے سے پہلے اہل عرب کے لیے اس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کے قریب ہو۔ اس حالت میں اس کی بہت ز یادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تاکہ وہ کھوئی نہ ہو جائے، کوئی اسے چرا نہ لے ، یا اور کسی طرح وہ ضائع نہ ہو جائے۔ ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کا غافل ہو جانا گویا یہ معنی رکھتا تھا کہ اس وقت کچھ ایسی سخت افتاد لوگوں پر پڑے گی کہ انہیں اپنے اس عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :5
5۔ دنیا میں جب کوئی عام مصیبت کام موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کر ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت نہ سانپ ڈستا ہ ے، نہ شیر پھاڑتا ہے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :6
6۔ اصل میں لفظ سجرت استعمال کیا گیا ہے جو تسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے۔ تسجیر عربی زبان میں تنور کے ادر آگ دہکانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں میں آگ بھڑ اٹھے گی۔ لیکن اگر پانی کی حقیقت لوگوں کی نگاہ میں ہو تو اس م یں کوئی چیز بھی قابل تعجب محسوس نہ ہو گی۔ یہ سراسر اللہ تعالی کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ھائیڈروجن، دو ایسی گیسوں کو باہم ملایا جن میں سے ایک آگ بھڑکانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے۔ اور ان دونوں کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کیا جو آگ بجھانے والا ہے۔ اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اس بات کے لیے باکل کافی ہے کہ وہ پانی کی اس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھڑکنے اور بھڑکانے میں مشغول ہو جائیں جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے۔
سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :7
7۔ یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :8
8۔ یعنی انسان از سر نو اسی طرح زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم و روح کے ساتھ زندہ تھے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :9
9۔ اس آیت کے انداز بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالی کی نگاہ میں ایسے قبال نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے بوچھا جائے گا کہ تو بے چاری آخر کس قصور میں ماری گئی ، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کردیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑی مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فحوی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی ا ولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ در گور کرتے ہیں، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ اپنی اسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اس اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ ﷺ ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا، آخر اس کی کہیں تو داد رسی ہونی چاہیے۔ اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا، آخر کبھی تو وہ قت آنا چاہیے جب ان سے اس بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے۔ دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد نیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا۔ جاہلیت کے معاشرے میں اس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی۔ نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا۔ نہ معاشرے میں کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں ظلم عظیم بالکل ہی بے داد رہ جانا چاہیے؟
عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا یے بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہو گیا تھا۔ ایک، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے و الے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار ان پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصول معیشت میں ہاتھ بٹائیں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں بیاہ دینا ہو گا۔ دوسرے، عام بد امنی جس کی وجہ سے سے بیٹوں کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مدد گار ہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع پر وہ کسی کام نہ آ سکتی تھیں۔ تیسرے عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انہیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے ایک گڑھا کھود رکھا جاتا تھا تاکہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے۔ اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو باپ بادل ناخواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کر دیتا۔ اس معاملہ میں جو شقاوت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک مرتبہ بیان کیا۔ سنن دارمی کے پہلے ہی باب میں حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضورؐ سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑ دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور ا پنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے ابا ، ہائے ابا۔ یہ سن کر ر سول اللہ ﷺ رو دیے اور آپ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضورؐ کو غمگین کر دیا۔ حضورؐ نے فرمایا اسے مت روکو ، جس چیز کا اسے سخت احساس ہے اس کے بارے میں اسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معاف کر دیا، اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کر۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہل عرب اس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ ر کھتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو، وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے قرآن پاک میں اس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی ہے، بلکہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ا یک وقت آئے گا جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی ۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو زمانہ جاہلیت میں اس رسم قباعت کا احساس تھا۔ طبرانی کی روایت ہے کہ فرزدق شاعر کے دادا صعصعہ بن ناجیۃ المجاشعی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ، میں نے جاہلیت کے زمانے میں کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے 360 لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا اور ہر ایک کی جان بچانے دو دو اونٹ فدیے میں دیے۔ کیا مجھے ا س پر اجر ملے گا؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں تیرے لیے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔
در حقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سے اس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادل ناخواستہ برداشت کیا جائے۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کو پرورش کرنا، انہیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں اس قابل بنانا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں، بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس معاملہ میں لڑکیوں کے متعلق لوگوں کے عام تصور کو جس طرح بدلاہے اس کا اندازہ آپؐ کے ان بہت سے ارشادات سے ہو سکتا ہے جو احادیث میں منقول ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم آپؐ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں:
من ابتلی من ہذہ البنات بشیء فا حسن الیھن کن لہ سنزاً من النار۔ (بخاری ، مسلم)
جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔

من عال جاریتین حتی تبلغا جاء یوم القیمۃ انا و ھذا او ضم اصابعہ(مسلم)
جس نے دولڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا۔

من عال ثلث بنات او مثلھن من الاخوات فاد بھن و رحمھن حتی یغنیھن اللہ او جب اللہ لہ الجنۃ، فقال رجل یا رسول اللہ او اثنتین۔ قال او اثنتین حتی لو قالوا او واحدۃ لقال واحدۃ۔(شرح السنۃ)
جس شخص نے تین بیٹیوں، یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کر دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اور دو، حضورؐ نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ ا گر لوگ اس وقت ا یک کے متعلق پوچھتے تو حضورؐ اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔

من کانت لہ انثیٰ فلم یئدھا و لم یھنھا و لم یؤثر والدہ علیھا ادخلہ اللہ الجنۃ۔ جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔

من کان لہ ثلاث بنات و صبر علیھن و کساھن من جدتہ کن لہ حجابا من النار۔(بخاری فی الادب المفرد۔ ابن ماجہ)
جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔

ما من مسلم تدرکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا ادخلتاہ الجنۃ۔(بخاری، ادب المفرد)
جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی۔

ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لسراقۃ بن جعشم الا ادلک علی اعظم الصدقۃ او من اعظم الصدقۃ قال بلی یا رسول اللہ قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سب غیرک۔(ابن ماجہ۔ بخاری فی الادب المفرد)
نبی ﷺ نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ۔ (فرمایا بڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیو ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔
یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی ان تمام قوموں میں بدل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔
سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :10
10۔ یعین جو کچھ اب نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ سب عیاں ہو جائے گا۔ اب تو صرف خلا نظر آتا ہے یا پھر بادل ، گرد غبار، چاند اور تارے۔ لیکن اس وقت خدا کی خدائی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پردہ ہو جائے گی۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :11
11۔ یعنی میدان حشر میں جب لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو گی اس وقت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آ رہی ہو گی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہو گی تاکہ بد بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے محروم ہو کر کہاں جانے والے ہیں، اور نیک بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں سے سرفراز ہونے والے ہیں۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :12
12۔ یعنی تم لوگوں کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جارہا ہے یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یا کوئی شیطانی وسوسہ ہے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :13
13۔ یہ قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ آگے کی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ مطلب اس قسم کا یہ ہے کہ محمد ﷺ نے تاریکی میں کوئی خواب نہیں دیکھا بلکہ جب تارے چھپ ئگے تھے، رات رخصت ہو گئی تھی اور صبح روشن نمودار ہو گئی تھی، اس وقت کھلے آسمان پر انہوں نے خدا کے فرشتے کو دیکھا تھا۔ اس لیے وہ جو کچھ بان کر رہے ہیں وہ ان کے آنکھوں دیکھے مشاہدے اور پورے ہوش گوش کے ساتھ دن کی روشنی میں پیش آنے والےتجربے پرمبنی ے۔
سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :14
14۔ اس مقام پر بزگ پیغامبر (رسول کریم) سے مراد وحی لانے والا فرشتہ ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے بصراحت معلوم ہو رہا ہے۔ اور قرآن کو پیغام بر کا قول کہنے وا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اس فرشتے کا اپنا کلام ہے، بلکہ ’’قولِ پیغامبر‘‘ کے الفاظ خود ہی یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ اس ہستی کا کلام ہے جس نے اسے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے۔ سورہ الحاقۃ آیت 40 میں اسی طرح قرآن کو محمد ﷺ کا قول کہا گیا ہے اور وہاں بھیمراد یہ نہیں ہے کہ یہ حضورؐ کا اپنا تصنیف کردہ ہے بلکہ اسے ’’ رسولِ کریم‘‘ کا قول کہہ کر وضاحت کردی گئی ہے کہ اس چیز کو حضورؐ خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں نہ کہ محمدؐ بن عبداللہ کی حیثیت سے۔ دونوں جگہ قول کو فرشتے اور محمد ﷺ کی طرف منسوب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ اللہ کا پیغام محمد صلی ا للہ علیہ و سلم کے سامنے پیغام لانے والے فرشتے کی زبان سے، اور لوگوں کے سامنے محمد ﷺ کی زبان سے ادا ہو رہا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد ششم، الحاقہ، حاشیہ 22)۔
سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :15
15۔ سورہ نجم آیات 4۔5 میں اسی مضمون کو یوں ا دا کیا گیا ہے کہ ان ھو الا وحی یوحی۔ علمہ شدید القوی۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نال کی جاتی ہے۔ اس کو زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے‘‘۔یہ بات درحقیقت متشابہات میں سے ہے کہ جبریل علیہ السلام کی ان زبردست قوتوں اور ان کی اس عظیم توانائی سے کیا مراد ہے۔ بہرحال اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں میں بھی وہ اپنی غیر معمولی طاقتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں۔ مسلم، کتاب الایمان میں حضرت عائشہؓ رسول اللہ ﷺ کا یہ قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے دومرتبہ جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے، ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے د رمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ بخاری، مسلم، ترمذی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس شان میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ اس سے کچھ ان کی زبردست طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :16
16۔ یعنی وہ فرشتوں کا ا فسر ہے۔ تمام فرشتے اس کے حکم کے تحت کام کرتے ہیں۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :17
17۔ یعنی وہ اپنی طرف سے کوئی بات خدا کی وحی میں ملا دینے والا نہیں ، بلکہ ا یسا امانت دار ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے اسے جوں کا توں پہنچا دیتا ہے۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :18
18۔ رفیق سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں، اور آپ کو اہل مکہ کا رفیق کہہ کر در اصل انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ آپ ؐ ان کے لیے کوئی ا جنبی شخص نہیں ہیں بلکہ انہی کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں۔ انہی کے دریان آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی ہے، اور ان کا شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آپ کس قدر دانا اور ہوشمند انسان ہیں۔ ایسے شخص کو جانتے بوجھتے مجنون کہتے ہوئے انہیں کچھ تو شرم آنی چاہیے (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآ ن، جلد پنجم، النجم، حواشی 2۔3)۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :19
19۔ سورہ نجم آیات 7 تا 9 میں رسول اللہ ﷺ کے اس مشاہدے کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا یا ہے۔ (تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم، النجم، حواشی 7۔8)۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :20
20 یعنی رسول اللہ ﷺ تم سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتے۔ غیب کے جو حقائق بھی اللہ تعالی کی طرف سے ان ر کھولےگئے ہی، خواہ وہ اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں ہوں، یا فرشتوں کے بارے میں، یا زندگی بعد موت اور قامت اور آخرت اور جنت اور دوزخ کے بارے میں، سب کچھ تمہارے سامنے بے کم و کاست بیان کر دیتے ہیں۔
سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :21
21۔ یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی شیطان آ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ باتیں پھونک دیتا ہے۔ شیطان کا آخر یہ کام کب ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کو شرک ا ور بت پرستی اور دہریت و الحاد سے ہٹا کرخداپرست اور توحید کی تعلیم دے۔ انسان کو شتربےمہار بن کر رہنے کے بجائے خدا کے حضور ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس دلائے۔ جاہلانہ رسموں اور ظلم اور بد اخلاقی اور بد کرداری سے منع کر کے پاکیزہ زندگی، عدل اور تقویٰ اور اخلاق فاضلہ کی طرف رہنمائ کرے ۔ (مزیدتشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، الشعراء، آیات 210 تا 212 معی حواشی 130 تا 133، اور آیات 221 تا 223 مع حواشی 140 ۔ 141)۔

سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :22
22۔ بالفاظ دیگر یہ کلام نصیحت ہے تو ساری نوع انسانی کے لیے گر اس سے فائدہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو خود راست روی اختیار کرنا چاہتا ہو۔ انسان کا طالبِ حق اور راستی پسند ہونا اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے شرطِ اول ہے۔
سُوْرَةُ التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :23
23۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورہ مدثر آیت 56، اور سورہ دھر آیت 30 میں گزر چکا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم، المدثر، حاشیہ 41۔



سید ابوالاعلی مودودی ؒ 
ماخوذ از تفہیم القرآن ج 6