تلاوت قرآن کی سب سے پہلی آڈیوریکارڈنگ کب ہوئی ؟

مصر میں تاریخ اسلام میں پہلی بار تلاوت قرآن کی آڈیو ریکارڈنگ کا آغاز ، ۲۸ محرم الحرام ، بروز ہفتہ ۱۳۸۰ ہجری، بمطابق ​​ ۲۳جولائی ۱۹۶۰  کو ہوا ۔ اور ۱۸ ستمبر ۱۹۶۱ کو صبح چھ بجے قاہرہ ریڈیو پر شیخ الحصری کی آواز میں تلاوت قرآن کی پہلی تلاوت نشر ہوئی۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کی کتابت کے بعد یہ دنیا میں قرآن کریم کی پہلی آڈیو ریکارڈنگ تھی۔

قرآن کریم کی آڈیو کو یکجا کرنے کے اس بابرکت خیال کے مالک ڈاکٹر لبیب السعید ہیں۔ اس زمانے میں ڈاکٹر لبیب السعید امپورٹ اتھارٹی کے کنٹرولر جنرل کے عہدے پر فائز تھے اور عین شمس یونیورسٹی میں فیکلٹی آف کامرس میں پروفیسر تھے ۔

انہوں نے بڑے قارئین کی مدد سے قرآن کو ریکارڈ کرنے کا خیال پیش کیا، ان کا مقصد تھا کہ قرآن پاک کو سی ڈیز پر ریکارڈ کرنا اور مختلف روایتوں کے ساتھ اسٹیشنوں پر نشر کرنا تھا۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ تلاوت تجوید اور قراء ت کے فن کے ماہرین اور اچھی آواز اور مہارت کے حامل قاریوں کے ذریعہ کی جائے اور ان کا انتخاب ایک کمیٹی کے ذریعہ کیا جائے ۔ قرآن کریم اور اس کے علوم، جس میں الازہر الشریف اور سائنسی، لسانی اور ثقافتی ادارے کے ماہرین بھی شرکت کرے ۔

انہوں نے ایک مرتبہ کہا: "غیر عرب اسلامی ممالک کے لئے اس کام کی فوری ضرورت ہے، کیونکہ یہ قرآن کو اچھی طرح سے سن کر سیکھنے ے میں مدد کرے گا، اس کی بدولت قرآن کا پھیلاؤ وسیع ہوگا اور اس سے مستفید ہونے والے طلبہ بھی زیادہ ہوں گے۔" اور انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انفرادی طور پر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں کئی سال گزارے ہیں، اس لیے وزیر اوقاف نے ان کے خیال سے اتفاق کیا۔

پھر انہوں نے یہ آئیڈیا الازہر کے شیخ شیخ شلتوت کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اس خیال سے اتفاق کیا اور اسے منظور کر لیا۔ انہوں نے جامعہ پھر اور - تلاوت قرآن پروجیکٹ کے مالک، "قرآن کا آڈیو سینٹر "، وزیر اوقاف احمد طعیمہ کو پورے قرآن کی تلاوت ریکارڈ کرنے کو کہا گیا ۔ اس کے لئے مشہور قاریوں اور علماء کو ریکارڈنگ شروع کرنے کے لئے مدعو کیا، ان میں درج ذیل قراء حضرات شامل تھے :

۱۔ شیخ محمود خلیل الحصری عاصم کی سند پر حفص کی روایت کو ریکارڈ کرنے کے لئے مقرر ہوئے ۔

۲۔ شیخ مصطفیٰ الملوانی نے خلف عن حمزہ کی روایت پر تلاوت ریکارڈ کی ۔

۳۔ شیخ عبدالفتاح القادی، الازہر الشریف میں قرآن ریویو کمیٹی کے سربراہ، ابو جعفر کی قراءت بروایت ابن وردان ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کوشش سے پہلی بار قرآن کو صوتی طور پر محفوظ اور مرتب کیا گیا تھا، جس طرح ابوبکر اور عثمان کے دور میں تحریری طور پر مرتب کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر لبیب السعید رحمہ اللہ 3 جمادی الآخرہ ۱۴۰۸ھ بمطابق ۲۲جنوری ۱۹۸۸ء کو 74 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔



قرآن حکیم : فلسفہ جبر و اختیار - تلخيص: ابوالبشر احمد طیب

قرآن حکیم : فلسفہ جبر و اختیار 
انسان نے جب سے زندگی کے مسائل پر غور کرنا شروع کیا اسی وقت سے  اس کے سامنے یہ  سوال بھی رہا ہے کہ کیا انسان غیب کی طرف سے  ایک مقررہ ڈگر پر ہانک دیا گیا ہے کہ اب وہ بالکل بے اختیار ہے، یا وہ اپنے لیے خود راہ عمل اختیار کرتا ہے، اس کے ارادے اور عمل میں  کسی کا کوئی دخل نہیں ، وہ اپنے  فیصلے اور کام خود کرتا ہے۔؟  اس مسئلہ میں اہل دانش کے دو گروہ ہیں : ایک جبر کے قائل ہے کہ غیب کی طرف سے انسان کے لیے ایک راہ مقرر کردی گئی وہ اس پر چلنے پر مجبور ہے  اور دوسرا گروہ  انسان کی آزادی اور اختیار کا قائل ہے ۔

اگر پہلی صورت ہے یعنی جبر تو انسان کے اعمال کے نیک اور بد ہونے کا  سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور انسان کو اس کے اعمال پر  جزا و سزا ملنے کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے ۔  اور اگر دوسری صورت ہے یعنی آزادی اور اختیار تو انسان کی آزادی کی نوعیت کیا ہے اور وہ کس حد تک اپنے فیصلے اور عمل میں آزاد ہے؟ ابارے میں فلسفیوں نے مختف رائی ظاہر کی ہے ،  ذیل میں اس فلسفہ جبر اور اختیار کے بارے میں  فلسفیوں کے مختلف دلائل کا تنقیدی جائزہ لیں گے پھر قرآن حکیم کا نقطہ نظر پیش کیا جائے گا ۔

  جو فلسفی جبر کے قائل ہیں ، ان کے دلائل یہ ہیں کہ انسان اس کائنات میں ایک میشن کے پرزہ کی مانند  ہے ، اس لیے کسی پرزے کی آزادی کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ ان کی طرف سے دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جس طرح دنیا کی ہرچیز طبیعات کے بے لچک قوانین کے تحت چل رہی ہے انسان بھی انہی بے لچک قوانین کے تابع ہے اس وجہ سے آزادی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ البتہ کچھ متعدل فلسفیوں کا کہنا ہے کہ ازل سے ابدتک تمام واقعات علت و معلول کی ایک طویل زنجیر کی کڑیاں ہیں ۔ انسان بھی اس زنجیر کی ایک کڑی ہے  اس وجہ سے اس کے اعمال ایسے عوامل کا نتیجہ ہیں جن پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ، اس گروہ کا نمائندہ فلسفی ، زینو (zeno) ہے،  مشہور فلسفی والٹئیر نے یہ کہ کر بات ختم کردی " میں جو چاہوں اگر کرسکوں تو آزاد ہوں لیکن کیا میں یہ چاہنے  میں بھی آزاد ہوں ؟ "  یونان کے ابتدائی عہد کے فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ دنیا پر چند جابر قوتوں کی حکمرانی ہے جن کے سامنے انسان بے بس ہے،  یہی قوتیں انسان کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں۔ یونان اور ہندوستان  کی ساری دیومالائی کہانی اسی تصور پر گھڑی گئی تھی ۔  فلسفیوں کا ایک بڑا گروہ جس میں قدیم یونانی رواقی فلسفی، وحدۃ الوجود کے قائل فلسفی سپنوزا اور پندرھویں صدی اور سولہویں صدی کے سائنسدان اور فرانس کا مشہور فلسفی  والٹیئر اس عقیدہ جبر کے قائل ہیں۔ 

حضرت شعيب عليہ السلام اور ان کى قوم

ابراہیم ؑ کی نسل :  بنی اسماعیل ، بنی اسرائیل اور بنی مدین تین مشہور شاخیں ہیں، اللہ تعالی نے ان کی نسل سے عظیم قومیں پیدا کیں ۔ جن سے نبوت کا سلسلہ آگے چلا ، آپ کے فرزند اسحاق ؑکے بیٹے یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے ، جوشام اور مصر میں آبادہوئے۔ ان میں جلیل القدر انبیاء اور بادشاہ پیدا ہوئے ۔ ابراہیم ؑ کا بیٹا مدین سے بنی مدین وجود میں آئے ، انہیں میں حضرت شعیب ؑ نبی بنے۔ ابراہیم ؑ نے اپنے فرزند اسماعیل ؑکو وادی غیر ذی زرع بکہ ( مکہ ) میں آباد کیا تھا ، جن سےبنی اسماعیل کی نسل چلی ، اسماعیلؑ کے بعد بنی اسماعیل میں کوئی نبی نہیں آیا، اس دوران نبوت کا سلسلہ بنی مدین اور بنی اسرائیل میں جاری رہا ۔ اسماعیل ؑ کے بعد اس سلسلہ نبوت کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اللہ نے جن کی رسالت کوتمام جہاں کے لیے تاقیامت رحمۃ للعالمین اور کافۃ للناس بنادیا ۔ 
آثار مدین 

بنو مدین کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ کی ایک تیسری بیوی قطورا سے تھا ، ان کے بطن سے ایک بیٹا مدین پیدا ہوا ، جو سب سے زیادہ مشہور ہو ا ، مدین کے کئی اور بھی بھائی تھے ، ان کی اولادیں بھی تھیں ، تورات میں صرف دو کی اولاد کا ذکر ہے ، بنی دوان اور بنی مدین ، اور شعیب ؑ کا تعلق بنی مدین سے تھا ، دوان کا ذکر قرآن مجید میں اصحاب الایکہ (جنگل والے ) کے نام سے آیا ہے ، جبکہ بنی مدین کو قوم شعیب کہاگیا ۔ یہ دونوں تاجر قوم تھیں ، ان دونوں قوموں اور علاقوں کے بیک وقت شعیب ؑ نبی تھے ۔ حضرت شعیب ؑ کا نام تورات میں جوباب یا ثیرومذکور ہے ، عربی میں بدل کرشعیب مشہور ہوا ۔ مدین اور ایکہ ان دونوں علاقوں کا آپس میں گہرا تعلق تھا ، ان کا زمانہ بھی باہم ایک تھا ، جس کی بنا پر دونوں آبادیوں کے لیے ایک ہی نبی کی بعثت ہوئی ، نیز قرآن مجیدنے دونوں کے اخلاق اور کردار کا نقشہ بھی ایک ہی پیش کیا ۔ 

شق القمر کا واقعہ ۔ سید ابوالاعلی مودودی ؒ

 قرآن مجید کی سورہ قمر میں شق القمر کے واقعہ کا ذکر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا تھا۔

شق القمر کا واقعہ 

اس میں کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی تھی۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دے رہے تھے، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے، اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی دور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا۔ پھر آن کی آن میں وہ دونوں پھر مل گئے تھے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے۔ وہ درہم برہم ہوسکتا ہے۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں۔ بکھر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں۔ اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ اس امر کا پتا بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہوگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حیثیت سے لوگوں کو اس وقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا، دیکھو اور گواہ رہو۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دیا اور اپنے انکار پر جمے رہے۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورۃ میں انہیں ملامت کی گئی ہے۔ 

کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا کی یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں، نہ تاریخ سے عبرت حاصل کرتے ہیں، نہ آنکھوں سے صریح نشانیاں دیکھ کر ایمان لاتے ہیں۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہوجائے گی اور قبروں سے نکل کر یہ داور محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ( سورہ قمر :1)

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔

یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے، قریب آ لگی ہے اور نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہوگیا ہے۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہوگیا، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کیا جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے۔ 

قرآن حکیم : فلسفۂ خیر و شر پر ایک نظر -تلخيص : ابو البشر احمد طيب

قرآن حکیم : خیر اور شر کے فلسفہ پر ایک نظر 
انسان نے جب سے زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش شروع کی ہے اس وقت سے خیر اور شر کا موضوع اس کے غور و فکر کا بنیادی مسئلہ رہا ہے ، ہر زمانے کے فلسفیوں نے اس موضوع پر رائی زنی کی ہے ، اہل مذہب نے بھی اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس موضوع کو چند سوالات نے مزید الجھا دیا وہ یہ ہیں : 

1- کیا خیر اور شر دو الگ الگ چیزیں ہیں یا دونوں کا وجود محض اضافی اور نسبتی  ہے یعنی کیا زمانہ اور حالات کے لحاظ سے خیر اور شر کا معیار بدل جا تا ہے ؟

2- کیا خیر اور شر کا تصور انسان کی فطرت میں لکھا ہوا ہے اگر ایسا ہے تو وہ کون سا معیار اور کسوٹی ہے جن پر پرکھ کر معلوم کیا جاسکے کہ یہ خیر ہے اور یہ شر ہے ؟

3- اگر خیر اور شر کا معیار فطری ہے تو قوموں ، ملتوں اور گروہوں اور افراد کے درمیاں اختلافات کیوں ہیں ؟ 

ان سوالات پر ہرزمانہ کے دانشوروں ، حکیموں اور فلسفیوں نے غور و فکر کے بعد اپنی اپنی رائے ظاہر کی  ہے۔ لیکن قرآن حکیم اس بارے میں  ایک خاص نقطہ نظر پیش کرتا ہے ، یہاں قرآن مجید کا نقطہ نظر اور چند مشہور فلسفیوں کی آراء کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتاہے ۔

کچھ فلسفیوں کا خیال ہے کہ خیر اور شر نغمہ کے زیر و بم اور تصویر کے سرخ اور سیاہ دھبوں کی طرح ہے ۔ ان فلسفیوں کے نمائدے ہیرا قلیطس اور سینٹ آگسٹائن وغیرہ ہیں ، ان کے نزدیک نغمہ کے زیر و بم کی طرح خیر اور شر، نیکی اور بدی دونوں دنیا کے لیے ضروری ہیں ۔ ان سے دنیا کی رنگینی میں اضافہ ہو تا ہے ۔ مادی اشیاء کے متعلق تو یہ کہنا درست ہے کہ کہ گندی سے گندی چیز بھی کام آجا تی ہے گندگی سے بنی کھاد بھی اپنی جگہ بڑی قیمت رکھتی ہے لیکن اخلاقیات کے متعلق یہ معیار درست نہیں ۔ سچ اور جھوٹ ، ایمانداری اور بے ایمانی برابر نہیں ہوسکتی ۔ ارشاد باری تعالی ہے : 

" قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ " (المائدہ : 100)

"اے پیغمبر ؐ ! اِن سے کہہ دو کہ بری چیز اور عمدہ چیز بہرحال یکساں نہیں ہیں خواہ بری چیز کی کثرت تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔ "

قرآن کریم کا اسلوب استدلال - ڈاکٹر اسرار احمد

قرآن مجید کا اسلوب استدلال 
 قرآن کے طالب علم کو جاننا چاہیے کہ قرآن کا اسلوبِ استدلال منطقی نہیں‘ فطری ہے. انسان جس فلسفے سے واقف ہے اس کی بنیاد منطق ہے. چنانچہ ہمارے فلاسفہ اور متکلمین استخراجی منطق(Deductive Logic) سے اعتناء کرتے رہے ہیں‘ جبکہ قرآن مجید نے اسے سرے سے اختیار نہیں کیا. وقتی تقاضے کے تحت ہمارے متکلمین نے اسے اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں پہنچ پایا. ایمانی حقائق کو جب استخراجی منطق کے ذریعے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو یقین کم اور شک زیادہ پیدا ہوا. اس ضمن میں کانٹ کی بات حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے ‘ لہذا علامہ اقبال نے بھی اپنے خطبات کا آغاز اسی حوالے سے کیا ہے. کانٹ نے حتمی طور پر ثابت کر دیا کہ کسی منطقی دلیل سے خدا کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا. منطق میں اللہ کی ہستی کے اثبات کے لیے ایک دلیل لائیں گے تو منطق کی دوسری دلیل اسے کاٹ دے گی. جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اسی طرح منطق‘ منطق کو کاٹ دے گی. قرآن نے اگرچہ کہیں کہیں منطق کو استعمال توکیا ہے لیکن وہ بھی منطقی اصطلاحات میں نہیں. قرآن مجید کا اسلوبِ استدلال فطری ہے اور اس کا انداز خطابی ہے. جیسے ایک خطیب جب خطبہ دیتا ہے تو جہاں وہ عقلی دلائل دیتا ہے وہاں جذبات سے بھی اپیل کرتا ہے. اس سے اس کے خطبے میں گہرائی و گیرائی پیداہوتی ہے.ایک لیکچر میں زیادہ تر دارومدار منطق پر ہوتا ہے. یعنی ایسی دلیل جو عقل کو قائل کر سکے . لیکن شعلہ بیان خطیب انسان کے جذبات کو اپیل کرتاہے. اس کو خطابی دلیل کہا جاتا ہے. یہی خطابی انداز اور استدلال قرآن نے استعمال کیا ہے.

قرآن مجید میں "لھو الحدیث" سے کیا مراد ہے ؟

ارشاد باری تعالی ہے :

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۶﴾ وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا وَلّٰی مُسۡتَکۡبِرًا کَاَنۡ لَّمۡ یَسۡمَعۡہَا کَاَنَّ فِیۡۤ اُذُنَیۡہِ وَقۡرًا ۚ فَبَشِّرۡہُ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ لقمان : ۷﴾
لھو الحدیث سے کیا مراد ہے ؟


ترجمہ : اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں ۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں ۔ اور اس کا مذاق اڑائیں ۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا ۔ اور جب ایسے شخص کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ پورے تکبر کے ساتح منہ موڑ لیتا ہے جیسے انہیں سناہی نہیں، گویا اس کے دونوں کانوں میں بہراپن ہے ۔ لہذا اس کو ایک دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا ددو۔

تفسیر:

مکی دور کی بات ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہورہا تھا تو اس کی تاثیر ایسی تھی کہ جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم سنا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض لوگ اسلام قبول کرلیتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ مکہ کے سردار اس صورت حال کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ لوگ چاہتے تھے کہ قرآن کریم کے مقابلے میں لوگوں کے لیے کوئی ایسا مشغلہ پیدا کریں کہ لوگ قرآن کریم کو سننا بند کردیں ، اسی کوشش میں مکہ کا ایک معروف تاجر نظر بن حارث ایران سے بادشاہوں کے قصوں پر مشتمل کتابیں خرید کر لایا اور بعض روایات میں ہے کہ وہ وہاں سے ایک گانی والی لونڈی خرید کر لایا ، اور لوگوں سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں عاد و ثمود کے قصے سنا تے ہیں ، میں تمہیں ان سے زیادہ دلچسپ قصے اور گانے سناّوںگا ، چنانچہ لوگ اس کے گرد جمع ہونے لگے مفسرین کے مطابق یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

مفسرین کے نزدیک لَھُوَ الْحَدِیث‘‘ سے مراد ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے دوسری چیز سے غافل کر دے ۔ مثلاً فضول گپ شب، خرافات، ہنسی مذاق ، جھوٹی داستانیں، اور قصے کہانیاں اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔

قرآن کی اس آیت میں " لہو الحدیث" خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ مکہ کے بعض لوگ قرآن کریم کو چھوڑ کر قصے کہانیاں، ناچ گانے اور دیگر فضول خرافات میں مشغول ہورہے تھے اور اس پر اپنی دولت بھی لوٹا رہے تھے ۔

لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا " ھوواللہ الغناء،" خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے ‘‘۔ (ابن جریر ، ابن ابی شیبہ، حاکم بہقی )۔

قرآن کی زبان سیکھیں آسان طریقے سے

آئیے! قرآن سیکھنے کا پلان بنائیں، اگرآپ قر آن کی طر ف چل كر آئيں گے تو الله تعالیٰ دوڑ كرآپ کا خیر مقدم کرے گا  اور آپ کی مد کرے گا۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری ہے – ھُدًي لّلنّاس (یہ قرآن مجید انسانوں كے ليے هدايت) هے ۔ الله تعالٰي نے قرآن کو آسان بنایا ، فرمايا: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ تو ، زبان پر كبھي يه هر گز نه آۓ كه قرآن مشكل هے! كيا قرآنِ مجید كو هم جھٹلانے والے
هوں؟؟؟؟۔

توآئیے! قرآن سیکھنے کا کامیاب پلان بنائیں ۔ سب سے پهلے جانيے! كه قرآن مجید میں سورۃ الفاتحہ سے لیکر سورۃ الناس تک کل كتنے الفاظ هيں ؟ اس کے لیے قرآن کے اوسط الفاظ کا اس طرح شمار کیا گیا۔جیسے :
قرآن کی زبان سیکھیں آسان طریقے سے 

حافظی ،یا مدني مصحف كےکل صفحات ہیں :600

اورہر صفحہ پر کل سطور ہیں:15

اور هر سطر ميں اوسطا الفاظ ہیں : 9

اس طرح ہر صفحہ پرتقریبا کل الفاظ ہوتے ہیں : 130

اس طرح پورے قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ تقریبا كل الفاظ ہیں: 130 × 600= 78,000

لسانیات کے ماہرین کے مطابق قرآن مجید کے کل بنیادی اور اصل الفاظ ہیں : 17,000

ان میں سے بھی مزید فیہ ( زائد الحروف الفاظ) کو نکال کر کل الفاظ رہ جاتے ہیں : 4500

مجرد افعال(جس میں زائد حروف نہ ہو) کے کل مصادر یا بنیادی الفاظ ہیں: 1850

آساني كے ليے الله رب العزت نے عجيب انتظام كيا هے، مثَلاً : سورۃ الفاتحه ( دن ميں 25 بار پڑھي جانے والي سورت) كے کل الفاظ ، پورے قرآنِ کریم ميں 7500 بار تکرار کے ساتھ آئیے ہیں ۔

 تو آئیئے ہم قرآن سیکھنے کی طرف پہلاقدم بڑھائیں،  اس ویڈیو کورس کی مدد سے قرآن سیکھنے کی بھر پور کوشش کریں ۔ یہ کورس اسی پلان کےمطابق۔
یہ سورۃ الفاتحہ اور نماز كے دیگر ضروري اذكار اور 6 چھوٹی سورتوں کی مدد سےترتیب دیا گیا ہے ۔ جن کےکل بنیادی قرآنی الفاظ تقریبا 125 ہیں تقریبا ٪50 فیصد قرآنی الفاظ کا احاطہ کرتے ہیں ۔ قرآن ميں ان کی تكرار: 40,000 بار ہیں يعني قرآن مجید کا هر دوسرا لفظ۔! 

اس کورس میں  کل 24 اسباق ہیں۔ یہ کو رس  بڑوں اور بچوں سب کے لیے یکساں مفید ہے  اس سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور دوسروں کو بھی دعوت دیں۔ جزاکم اللہ خیرا :