21۔ سورہ الانبیاء : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

       ا- سورہ کا عمود اور سابق سورہ سے تعلق :  یہ سورۃ۔ سورۃ طہ۔۔ کی مثنی ہے جس مضمون پر سورۃ طلہ ختم ہوئی ہے اس مضمون سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ سابق سورۃ کی آخری آیت میں کفارِ قریش کو یہ تنبیہ ہے کہ کوئی نشانی عذاب ہی دیکھنے پوڑا ہوئے ہوتو انتظار کرو، اب اس عذاب کے آنے میں زیادہ دیر نہیں ہے۔ اس سورۃ کا آغاز، بغیر کسی نئی تمہید کے، بعینہ اسی مضمون سے فرمایا کی ان لوگوں (کفار قریش) کے حساب کی گھڑی بالکل سر پر آچکی ہے لیکن یہ اپنی سر مستیوں میں کھوئے ہوے ہیں۔ یہ پیغمبر کی تنبیہات کا مذاق اڑاتے اور اللہ آیات کا استہزا کرتے ہیں۔ انھوں نے اس دنیا کو ایک بازیچہ اطفال سمجھ رکھا ہے جس کو اس کے پیدا کرنے والے نے محض اپنا جی بہلانے کے لئے ایک کھیل تماشا بنایا ہے۔ ان کا سارا اعتماد ان کے خود شیدہ معبودوں پر ہے۔ حالانکہ یہ ساری چیزیں محض ان کے وہم کی ایجاد ہیں۔ انبیاء علہم السلام کی تعلیم سے اس کو کئی تعلق نہیں۔ سابق سورۃ میں صرف حضرت موسیٰ کی سرگزشت کا حوالہ تھا اس میں دوسرے انبیاء عظام کا بھی حوالہ ہے اور نہایت واضح الفاظ میں غائبہ حق اور فتح مکہ کے قریب کی پیشین گوئی کی گئی ہے جو کفارِ قریش کے لئے ایک آخری تنبیہ اور مسلمانوں کے لئے کشمکش حق و باطل کے اس شدید ترین دور میں اایک عظیم بشارت ہے ۔

سورہ کے مطالب پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سابق سورۃ کی طرح یہ سورۃ بھی تین بڑے حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے قریش کو ان کی ان بوالفضولیوں پر نہایت واضح الفاظ میں تنبیہ دو عید ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف نہایت لا ابا لیا نہ انداز میں وہ کررہے تھے، پھر حضرت انبیاء کی سر گز شتوں سے ان تمام حقائق کو مبر ہن کیا گیا ہے جس کی قرآن کے ذریعے سے ان کو دعوت دی جارہی تھی، آخر میں اسی مضمون کو جو شروع میں بیان ہوا ہے بعینہ اسی تمہید کے ساتھ سرِ نو لے لیا ہے اور نہایت فیصلہ کن انداز میں مخالفین کو اس انجام سے آگاہ کیا ہے جس سے دوچار ہونے والے ہیں
اگر چہ سورۃ کا عمود اور نظام واضح کردینے کے لئے یہ تمہید کافی ہے لیکن ہم مزید وضاحت کے لئے سورۃ کے مطالب کا تجزیہ بھی کیے دیتے ہیں ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(15-1) قریش کو انذار کہ رسول کی بعثت کے بعد، سنت الٰہی کے مطابق، اب ان کی قسمت میزان میں اور ان کے محاسبہ کا دن ان کے سر پر ہے لیکن یہ اپنی بدمستیوں میں کھوئے ہوئے خطرہ سے آگاہ کرنے والے رسول کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کوئی ان کو ساحر بناتا ہے کوئی کاہن، کوئی اس کی وحی کو خواب پریشان سے تعبیر کرتا ہے، کوئی اس کو مفتری اور شاعر قرار دیتا ہے اور اس سے اگلے انبیاء کے سے خوارق و عجائب کا مطالبہ کرتا ہے حالانکہ تاریخ اور اہل علم گواہ ہیں کہ انبیاء ہمیشہ اسی طرح کی وحی کیساتھ آئے جس طرح کی وحی کے ساتھ ان کا رسول آیا ان پر اتمام حجت کے لئے جس یاد دہانی کی ضرورت تھی وہ ان کے پاس آگئی۔ اب اگر یہ اس کو ٹھکراتے ہیں تو ان قوموں کے انجام کو یاد کرلیں جن کے پاس ان کے رسول آئے اور انہوں نے ان کی تکذیب کی۔ انہوں نے بھی اس تبخیر کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے رسولوں کا مذاق اڑایا، پھر جب وہ اس کے نتیجہ میں خدا کی پکڑ میں آگئیں تو کوئی ان کا پناہ دینے الا نہ بنا اور ہم نے ان کو خس و خاشاک کی طرح اڑا دیا ۔
(29-16) اس حقیقت کی یاد دہانی کہ اس دنیا کے خالق نے اس کو محض اپنا جی بہلانے کے لئے کوئی تھیٹر نہیں بنایا ہے کہ حق و باطل اور نیکی و بدی دونوں کی حیثیت اس میں یکساں ہو بلکہ اس کا خالق ایک عادل و حکیم ہے اس وجہ سے لازم ہے کہ وہ ایک دن لائے جس میں حق کا بول بالا ہو اور باطل کا وہ کچومر نکال دے۔ اگر کسی نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اس کے مزعومہ شرکاء و شفعاء اس کو خدا کے عدل کی گرفت سے بچا لیں گے تو یہ اس کا محض ایک وہم باطل ہے۔ خدا کی خدائی میں کوئی شریک نہیں جو بھی ہیں سب اس کے آگے سرفگندہ ہیں۔ اگر اس کائنات میں کئی ارادوں اور مشیتوں کی کارفرمائی ہوتی تو یہ ورہم برہم ہو کے رہ جاتی۔ خدا کے نبیوں اور رسولوں کی تعلیم میں اس شرک کا کوئی شائبہ نہیں۔ ہر نبی نے توحید ہی کی تعلیم دی ہے۔ اگر کسی نے خدا کے لئے بیٹیاں فرض کر کے ان کو خدا کے ہاں اپنا سفارشی سمجھ رکھا ہے تو یہ محض خود فریبی ہے۔ فرشتے خدا کی بیٹیاں نہیں بلکہ اس کے باعزت بندے ہیں۔ وہ خدا کے سامنے اس کے اذن کے بدوں زبان نہیں کھول سکتے، وہ صرف اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور اگر کوئی بھی خدائی کا مدعی نکلا تو خدا اس کو جہنم میں جھوک دے گا ۔
(33-30) نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کے جواب میں کائنات کی چند نہایت واضح نشانیوں کی طرف اشارہ کہ اگر ان کو نشانیوں کی طلب ہے تو آخر وہ ان نشانیوں پر کیوں نہیں غور کرتے جو ہر وقت ان کے سامنے موجود اور خدا کی ربوبیت و رحمت، اس کے عدل و حکمت اور توحید و معاد کی گواہی دے رہی ہیں۔ انہی چیزوں کی دعوت ان کو پیغمبر دے رہا ہے تو جب اس کی تائید میں یہ سارے شواہد موجود ہیں تو کسی نئی نشانی کی کیا ضرورت باقی رہی ۔
(43-34) ان لوگوں کو جواب جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اس بنا پر مذاق اڑا رہے تھے کہ آپ نہ تو بشریت سے کوئی مافوق ہستی تھے اور نہ کوئی مال دار آدمی۔ ان کے باب میں فرمایا کہ اگر یہ پیغمبر کا مذاق اڑاتے ہیں تو اڑا لیں لیکن یاد رکھیں جب خدا کی پکڑ میں آجائیں گے تو ان کی یہ دیوی دیوتا ان کی کوئی مدد نہ کر سکیں گے جن کی حمیت و حمایت میں یہ خدا کے رسول کی توہین کر رہے ہیں ۔
(47-44) متکبرین کے اصل سبب غرور کی طرف اشارہ اور یہ پیشین گوئی کہ یہ مکہ میں جس دعوت حق کو دبانے کے لئے زور آزمائی کر رہے ہیں وہ دعوت اطراف مکہ سے مکہ کی طرف بڑھ رہی ہے اور بہت جلد یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ یہ دعوت غالب رہتی ہے یا اس کے یہ اعداد ساتھ ہی پبرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ اعلان کہ میں تو تمہیں وحی کے ذریعہ سے آگاہ کر رہا ہوں لیکن تمہارے بہرے کان اس کو نہیں سن رہے ہیں، اگر خدا کے تازیانہ عذاب کی زد میں آگئے تو پھر اپنے سرپیٹو گے ۔
(77-48) ایک صعودی ترتیب کے ساتھ جلیل القدر ابنیائمیں سے حضرت موسیٰ حضرت ابراہیم (بشمول حضرت لوط، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب) اور حضرت نوح علیہم السلام کی تعلیم و دعوت اور ان کے جھٹلانے والوں کے انجام کی طرف اشارہ تاکہ یہ واضح ہوجائے ہ ان تمام انبیائے عظام کی دعوت رہی رہی ہے جو قرآن پیش کر رہا ہے اور لازماً اس کی مخالفت کرنے والوں کا انجام بھی وہی ہوگا جو ان انبیاء کی مخالفت کرنے والوں کا ہوا ۔
(86-78) ایک صفاتی ترتیب کے ساتھ ان انبیاء کا ذکر جو شکر اور صبر کے نہایت کڑے امتحانوں میں ڈالے گئے اور وہ ان میں صوفی صد کامیاب رہے۔ پہلے زمرہ میں سے حضرت دائو داور حضرت سلیمان علیہما السلام کا حالہ دے کر قریش کو انہی کی طرح خدا کا شکر گزار بندہ بننے کی دعوت دی ہے۔ دوسرے زمرے کے انبیاء میں سے خاص طور پر حضرت ایوب، حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہم السلام کا حوالہ دیا ہے اور مقصود ان کے حوالہ دینے سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مظلوم صحابہ کی حوصلہ افزائی ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے ان صابر بندوں کو ان کے صبر کے سلسلہ میں اپنی رحمت سے نوازا اسی طرح اگر تم بھی مصائب کے مقابل میں حق پر ثابت قدم رہے تو اللہ تم کو بھی اپنی رحمت سے نوازے گا ۔
(90-87) ان انبیاء کی طرف ایک اجمالی اشارہ جن کے لئے نہایت تاریک اور بظاہر مایوس کن حالات کے اندر خدا کی قدرت و حکمت کی نہایت حیرت انگیز شانیں ظاہر ہوئیں۔ اس زمرہ کے انبیاء میں سے حضرت یونس، حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت مریم و حضرت مسیح علیہم السلام کا حوالہ دیا ہے اور مقصود اس سے اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ خدا جب اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے نوازنا چاہے گا تو کوئی چیز اس کے ارادے میں مزاحم نہ ہو سکے گی۔ حالات و اسباب سب اس کے اختیار میں ہیں ۔
(112-92) خاتمہ سورۃ جس میں تمہید کے مضمون کو مزید مئوکد کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو اطمینان دلادیا گیا ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت و تعلیم یہی رہی ہے جو تم دے رہے ہو تو تم اپنے کام میں لگے رہو اور جن لوگوں نے اس میں اختلافات پیدا کئے اور پیدا کر رہے ہیں ان کے معاملہ کو ہمارے اوپر چھوڑو۔ یہ لوگ خدا کے عذاب کو دیکھ کر ہی ایمان لائیں گے لیکن اس وقت کا ایمان لانا بالکل بے سود ہوگا۔ آخرت کی کامرانی صرف اللہ کے نیک بندوں ہی کے لئے ہے۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے فیصلہ کن اعلان کہ اب فیصلہ کی گھڑی سر پر ہے، جس کو فائدہ اٹھانا ہو وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا لے پھر یہ فرص نصیب ہونے والی نہیں ہے۔ آخرت آیت میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ دعا کہ اب رب ! میرے اور ان اعدائے حق کے درمیان تو فیصلہ فرما دے ! یہ سورۃ کے مطالب کا سرسری تجزیہ ہے۔ "