109۔ سورۃ الکافرون : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

سورہ کا عمود، سابق سورۃ سے تعلق اور مدعا کی ترتب
اس سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قریش کے ائمہ کفر سے برأت کا اعلا ن ہے پچھلی سورتوں میں بھی تمام تر بحث قریش کے لیڈروں ہی سے رہی ہے لیکن خطاب ان سے قومی اور انسانی بنیاد پر ہوا ہے، کہیں بھی ’ یایھا الکفرون‘ کے الفاظ سے ان کو خطاب نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن اس سورۃ میں ان کو صاف صاف ’ اے کافردا‘ کے الفاظ سے مخاطب کر کے ان سے بالکل حتمی طور پر قطع تعلق اور برأت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ اعلان برأت رسولوں کی اس سنت کے مطابق ہوا ہے جس کی وضاحت پچھلی سورتوں میں ہوچکی ہے کہ اللہ کے رسو ل اپنی قوم کو پہلے دین کی بنیادی باتوں…… توحید اور قیامت…… کی دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت میں وہ قوم کو ’ اپنی قوم‘ ہی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں اور اس پر اس وقت تک پوری استقامت سے جمے رہتے ہیں جب تک قوم کے اعیان و اکابر اپنے رویہ سے ان کو مایوس نہیں کر دیتے۔ جب وہ مایوس کر دیتے ہیں اور بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ہٹ دھرم اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کو ہجرت کا حکم ہوتا ہے اور وہ قوم سے اعلان برأت کر کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتا ہے۔ رسو ل کی ہجرت قوم کے لئے گویا آخری تنبیہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر اس کے رویہ میں کوئی اچھی تبدیلی نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ ایک محدود مہلت دینے کے بعد قوم کے تمام مکذبین کو تباہ کر دیتا ہے، خواہ یہ تباہی رسول کی زندگی ہی میں واقع ہو یا اس کے بعد اور خواہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی قہر آسمانی نازل کرے یا رسول کے ساتھیوں کی تلوار اس کے لئے بے نیام ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام رسولوں کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے اس میں یہ مشترک حقیقت موجود ہے اور ہم اس کے تمام پہلوئوں کی وضاحت برابر کرتے آ رہے ہیں ۔

یہاں ’ یایھا الکفرون‘ سے خطاب، ظاہر ہے کہ، انہی ائمۂ کفر سے ہے جو اس دور میں رسول اللہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ ان کی مسلسل مخالفت نے یہ حقیقت واضح کر دی تھی کہ یہ چیز کسی شبہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ موروثی قیادت کا پندار ہے جس نے ان کو بالکل اندھا بہرا دشمن بنا دیا ہے اور اب خدا کے تازیانۂ عذاب کے سوا کوئی اور چیز ان پر کارگر نہیں ہو سکتی۔ مخاطب کی اس ذہنیت کی بنا پر اس سورۃ میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں وہ بالکل دو ٹوک الفاظ میں فرمائی گئی ہیں اور ہر بات بالکل مبنی برحقیقت ہے۔ جن لوگوں نے اس خطاب کو مذمت یا غضب پر محمول کیا ہے ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی جماعت کا کفر اس وقت تک واضح ہوتا ہی نہیں جب تک اہل حق اس پر اتمام حجت نہ کر دیں۔ اتمام حجت کے بعد ہی اس کا کفر واضح ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی یہ بات جائز ہوتی ہے کہ اہل حق اس سے علیحدگی کا اعلان کر دیں بلکہ ضرورت داعی ہو تو اس سے جہاد کریں۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے ہجرت اور جہاد کے لئے اقام اتمام حجت کے بعد ہی کیا ہے اور یہی حق و عدل کا تقاضا ہے ۔

اس سورۃ نے قریش کے لیڈروں کے ساتھ دین کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے تمام امکانات کا قطعی سدباب کردیا ہے اس وجہ سے یہ صرف ہجرت ہی کی سورۃ نہیں بلکہ یہ معنا اعلان جنگ کی سورۃ بھی ہے۔ سورۂ یونس میں وضاحت سے یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قریش کے لیڈروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ اگر ہم سے اپنے دین کو منوانا ہے تو اس کی واحد شکل یہ ہے کہ یا تو اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لائو یا اس میں ایسی مناسب ترمیم کرو کہ یہ ہمارے لئے قابل قبول ہو سکے : ائت بقرآن غیر ھذا او بلدلہ ‘(یونس۔ ١٠ : ١٥) (اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لائو یا اس میں ترمیم کرو)۔ اس آیت کی تفسیر کے تحت ہم واضح کرچکے ہیں کہ قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سب سے زیادہ اصرار قرآن کی دعوت توحید کی ترمیم پر تھا، وہ اس کو اپنے آباء کے عقیدے کے بھی خلاف سمجھتے تھے اور یہ اندیشہ بھی رکھتے تھے کہ اگر اللہ کے سوا انہوں نے تمام معبودوں کو ہی باطل ٹھہرا دیا، جیسا کہ قرآن مطالبہ کر رہا ہے، تو اس سے ان کی سیاسی ہستی ہی سرے سے ختم ہوجائے گی۔ ان کے اس مطالبہ کا جواب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ دیا گیا کہ قل ما یکون لی ان ابدہ من تلقآی نفسی (یونس۔ ١٠ : ١٥) (ان سے کہہ دو کہ مجھے کیا حق ہے کہ میں بطور خود اس میں کوئی ترمیم کروں)۔ اگرچہ یہ جواب قریش کے لئے مایوس کن تھا لیکن فیصلہ کن نہیں تھا۔ لیکن اس سورۃ میں اس کا ایسا حتمی اور فیصلہ کن جواب دیا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے اس بحث کا دروازہ ہی بند کردیا گیا۔ جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ اس معاملے میں اب کسی سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہے، اگر قریش اپنی ضد پر قائم رہے تو بالآخر اس کا فیصلہ تلوار سے ہوگا ۔

ترتیب میں اس سورۃ کا سورۂ کوثر کے بعد جگہ پانا بھی اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ سورۂ کوثر میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ فتح مکہ کی بشارت ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ ہجرت اور اعلان جہاد کی سورۃ سے پہلے ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح و نصرت کی بشارت دے دی گئی تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ اگرچہ آگے ہجرت اور جنگ کے کٹھن مرحلے آنے والے ہیں لیکن انجام ان کا نہایت شاندار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے رسول کو فتح سے نوازے گا اور وہ دنیا و آخرت دونوں کے کوثر سے شاد کام ہوں گے۔ اسی طرح کی بشارت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کی اس دعا میں دی گئی ہے جو سورۃ بنی اسرائیل میں مذکور ہے : وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ (بنی اسرائیل۔ ١٧ : ٨٠) (اور دعا کرو کہ اے میرے رب، مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور نکال عزت کا نکالنا) اس دعا پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے دعا کے پیرائے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بشارت دے دی ہے کہ اگرچہ آپ کے مکہ سے نکلنے کا وقت اب قریب آ رہا ہے لیکن اس نکلنے سے پہلے ہی اللہ نے دارالہجرت میں آپ کے شاندار داخلہ کا انتظام کرلیا ہے ۔

مختصر الفاظ میں اس سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے قریش کے لیڈروں کے سامنے یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان دین کے بنیادی مسئلہ…… معبود…… کے باب میں کوئی قدر مشترک نہ حاضر میں ہے، نہ ماضی میں رہی ہے اور نہ مستقبل میں اب اس کے پائے جانے کا امکان ہے اس وجہ سے ہمارے مابین کسی مفاہمت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اب تم اپنے دین پر چلو، ہم اپنے دین پر چلیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجائے ۔