مطالعۂ قرآن (سورۃ الفاتحۃ )

زمانہ نزول :

یہ رسالت محمدیﷺ کے بالکل ابتدائی زمانہ کی سورت ہے۔ بعض معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی مکمل سورت جو نازل ہوئی وہ یہی ہے۔ اس سے پہلے صرف متفرق آیات نازل ہوئی تھیں جیسے سورۃ علق، سورۃ مزمل، اور سورۃ مدثر کی آیات ہیں ۔ (تفہیم القرآن) 

سورہ کا مضمون : 

اس سورہ کا مرکزی مضمون جذبہ شکر کا اظہار ہے سب سے پہلے اللہ تعالی کے حضور بندۂ مومن کے اس جذبۂ شکر کا اظہار ہے جو رب کائنات ، اس کی بے پایاں رحمت اور اس کائنات کے نظام میں اس کے قانونِ عدل کے مشاہدات سے ایک سلیم الفطرت انسان پر طاری ہوتا ہے یا طاری ہونا چاہئے۔ پھر اس جذبۂ شکر سے خدا ہی کی بندگی اور اسی سے استعانت کا جو جذبہ ابھرتا ہے یا ابھرنا چاہئے اس کو تعبیر کیا گیا ہے، پھر اس جذبہ کی تحریک سے جو مزید طلب و جستجو ہدایت و رہنمائی کے لیے پیدا ہوتی ہے یا پیدا ہونی چاہیے، وہ ظاہر کی گئی ہے۔ 


سورۃ کا اسلوب :

 اس سورۃ کا اسلوب دعائیہ ہے۔ لیکن انداز کلام مخاطب کو سکھانے کا نہیں ہے کہ وہ یوں دعا کرے بلکہ اصل دعا ہماری زبان پر طاری کردی گئی ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہورہا ہے کہ اگر ہماری فطرت سلیم ہے تو ہماری زبان سے ہمارے دل کا ترانۂ حمد یوں نکلنا چاہئے۔ چونکہ یہ تعبیر اسی خدا کی بخشی ہوئی ہے جو ہماری فطرت کا بنانے والا ہے اس وجہ سے اس سے زیادہ سچی تعبیر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہر سلیم الفطرت انسان اس کو اپنے ہی دل کی آواز سمجھتا ہے۔ صرف وہی لوگ اس سے کوئی بیگانگی محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنی فطرت بگاڑ لی ہو ۔  


1- الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت :۔


’’ حمد‘‘ حمد کا ترجمہ عام طور پر قرآن مجید کے مترجموں نے تعریف کیا ہے۔ لیکن میں نے اس کا ترجمہ شکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ اس ترکیب کے ساتھ استعمال ہوا ہے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے جس مفہوم کو ہم شکر کے لفظ سے ادا کرتے ہیں مثلاً ’’ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا‘‘ (اعراف :43): (انہوں نے کہا شکر کا سزا وار ہے اللہ جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی)۔ ’’ وَاٰخِرُ دَعْوٰىھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْن‘‘ (یونس :10): (اور ان کی آخری صدا یہ ہوگی کہ شکر ہے اللہ کے لیے جو عالم کا رب ہے)۔ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَهَبَ لِيْ عَلَي الْكِبَرِ اِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰق‘‘ (ابراہیم :39): (شکر ہے اللہ کے لیے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمعیل اور اسحق عطا فرمائے)۔ 


استعمالات کے لحاظ سے اگرچہ ’’ حمد‘‘ کا لفظ شکر کے مقابلہ میں زیادہ وسیع ہے، شکر کا لفظ کسی کی صرف انہی خوبیوں اور انہی کمالات کے اعتراف کے موقع پر بولا جاتا ہے جن کا فیض آدمی کو خود پہنچ رہا ہو۔ برعکس اس کے حمد ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کے اعتراف کے لیے عام ہے، خواہ ان کا کوئی فیض خود حمد کرنے والے کی ذات کو پہنچ رہا ہو یا نہ پہنچ رہا ہو، تاہم شکر کا مفہوم اس لفظ کا جزو غالب ہے۔ اس وجہ سے اس کے ترجمہ کا پورا پورا حق ادا کرنے کے لیے یا تو تعریف کے لفظ کے ساتھ شکر کا لفظ بھی ملانا ہوگا۔ یا پھر شکر کے لفظ سے اس کو تعبیر کرنا زیادہ مناسب رہے گا تاکہ یہ سورۃ جس احساس شکر اور جس جذبۂ سپاس کی تعبیر ہے اس کا پورا پورا اظہار ہوسکے۔ یہ اظہار صرف تعریف کے لفظ سے اچھی طرح نہیں ہوتا۔ آدمی تعریف کسی بھی اچھی چیز کی کرسکتا ہے اگرچہ اس کی اپنی ذات سے اس کا کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہو، لیکن یہ سورۃ ہماری فطرت کے جس جوش کا مظہر ہے وہ جوش ابھرا ہی ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و رحمانیت کے ان مشاہدات سے جن کا تعلق براہ راست ہماری ذات سے ہے۔ اگر یہ اچھی طرح واضح نہ ہوسکے تو اس سورۃ کی جو اصل روح ہے وہ واضح نہ ہوسکے گی۔ شکر کے لفظ سے سورۃ کا یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے۔


’’ اللہ‘‘:۔ اس کی وضاحت آیت بسم اللہ کے تحت ہوچکی ہے۔ 


’’ رَبّ‘‘:۔ رب کے معنی پرورش کرنے والے اور مالک و آقا کے آتے ہیں۔ یہ دوسرا مفہوم اگرچہ پہلے مفہوم ہی سے اس کے ایک لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوا ہے کیونکہ جو ذات پرورش کرنے والی ہے اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک اور آقا بنے۔ لیکن یہ مفہوم اس لفظ پر ایسا غالب ہوچکا ہے کہ اس سے الگ ہو کر محض پرورش کرنے والے کے لیے اس کا استعمال باقی نہیں رہا۔ قرآن مجید کے مخاطبِ اول کائنات کا خالق تو، جیسا کہ آیت بسم اللہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے، تنہا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن رب انہوں نے اور بھی بنا رکھے تھے جن کی نسبت ان کا گمان تھا کہ خدا نے کائنات کے انتظام میں ان کو اپنا شریک بنا رکھا ہے، اس وجہ سے یہ عبادت و اطاعت کے حقدار ہیں۔ یہاں اللہ کے بعد اس کی پہلی ہی صفت رب العالمین بیان ہوئی جس سے مقصود اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ جو اللہ کائنات کا خالق ہے، وہی اس کا مالک بھی ہے کیونکہ وہی سب کی پرورش کرنے والا ہے ۔


’’ الرحمن الرحیم‘‘:۔ اللہ تعالیٰ کے ان دونوں ناموں کی وضاحت آیت بسم اللہ تفسیر میں گذر چکی ہے ۔


’’ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘: دین کا لفظ قرآن مجید میں کئی معنوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ 1: مذہب و شریعت کے معنی لیے مثلاً ’’ اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللّٰهِ يَبْغُوْنَ‘‘ (آل عمران :83): (کیا خدا کے اتارے ہوئے مذہب کے سوا وہ کسی اور مذہب کے طالب ہیں)۔ 2: قانونِ ملکی کے لیے مثلاً ’’ مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ‘‘ (یوسف :76)۔ (اس کو بادشاہ کے قانون کی رو سے یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ اپنے بھائی کو روک سکے)۔ 3: اطاعت کے معنی کے لیے مثلاً ’’ وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا‘‘ (نحل :52)۔ (اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے)۔ 4۔ جزا کے معنی کے لیے مثلاً ’’ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۔ وَّاِنَّ الدِّيْنَ لَوَاقِــعٌ‘‘ (ذاریات :6) (جس چیز کی تمہیں دھمکی سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے اور جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی)۔ جزا سے مراد اس کے دونوں پہلو میں نیک اعمال کا صلہ بھی اور برے کاموں کی سزا بھی۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمہ میں جزا کے ساتھ سزا کا لفظ بھی بڑھا دیا ہے۔

 جزا و سزا کے دن کا تنہا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز سارا زور اور سارا اختیار اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے سبب عاجز و سرفگندہ ہوں گے کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کی اجازت کے بغیر زبان کھول سکے۔ سارے معاملات کا فیصلہ تنہا وہی کرے گا جس کو چاہے گا سزا دے گا، جس کو چاہے گا انعام دے گا۔ جیسا کہ فرمایا ہے ’’ اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ۭ يَحْكُمُ بَيْنَهُم‘‘ (حج :56) (اس دن سارا اختیار اللہ ہی کو ہوگا، وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا)۔ ’’ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ‘‘ (غافر :16) (آج کے دن بادشاہی کس کی ہے ؟ صرف خدائے واحد و قہار کی)۔ 

اس آیت کے تین لفظوں مین جو بات پوشیدہ ہے وہ اگر پھیلا دی جائے تو پوری بات یوں ہوگی کہ ایک دن جزا اور سزا کا آنے والا ہے۔ اس دن سارا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہوگا اور اس کے آگے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہوگی، لیکن کلام کے دعائیہ اسلوب میں یہ بات اس طرح لپیٹ دی گئی ہے کہ دعا کرنے والا ایک ثابت شدہ حقیقت کی حیثیت سے ان سب باتوں کا اعتراف کر جاتا ہے۔ گویا خدا کی ربوبیت و رحمت اور اس کے عدل و انصاف کے ان آثار و دلائل کے بعد جو اس کائنات کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوئے ہیں، ایک ہٹ دھرم کے سوا کون ہے، جو اس حقیقت کے کسی جزو کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کرسکے ۔


’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ‘‘: عبادت کے اصلی معنی عربی لغت میں انتہائی خضوع اور انتہائی عاجزی وفروتنی کے اظہار کے ہیں۔ لیکن قرآن میں یہ لفظ اس خضوع و خشوع کی تعبیر کے لیے خاص ہوگیا ہے جو بندہ اپنے خالق و مالک کے لیے ظاہر کرتا ہے۔ پھر اطاعت کا مفہوم بھی اس لفظ کے لوازم میں داخل ہوگیا ہے کیونکہ یہ بات بالبداہت غلط معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس ذات کو اپنے انتہائی خضوع و خشوع کا واحد مستحق سمجھے زندگی کے معاملات میں اس کی اطاعت کو لازم نہ جانے۔ 

چنانچہ عبادت کی اس حقیقت کو قرآن مجید نے بعض جگہ کھول بھی دیا ہے۔ مثلاً ’’ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ‘‘ (زمر :2) ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ تو اللہ ہی کی بندگی کرو اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے۔ عبادت کے ساتھ اطاعت کا یہ تعلق اس قدر گہرا ہے کہ بعض جگہ یہ لفظ صاف صاف اطاعت کے مفہوم ہی کے لیے استعمال ہوگیا ہے مثلاً : ’’ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ‘‘ (یس :60) کہ شیطان کی عبادت نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جو حق بندوں پر ہے اس آیت میں وہ بھی بیان ہوگیا ہے اور بندے کا جو حق خود اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کیا ہے وہ بھی اس میں بیان ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق بندے پر یہ ہے کہ بندہ تنہا اسی کی بندگی کرے اور اسی سے التجا کرے۔ بندے کا حق اس نے اپنے اوپر یہ بتایا ہے کہ وہ اس پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے۔ آیت کے پہلے ٹکڑے میں بندہ اس حق کا اقرار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا اس کے اوپر ہے اور اس کے دوسرے ٹکڑے میں اس حق کے لیے درخواست پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر بندے کا بتایا ہے اپنے اعتماد اور اپنی تمنا کا اظہار کردیتا ہے کیونکہ بندے کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اپنے رب سے التجا اور درخواست کرے نہ کہ اس پر اپنا کوئی حق جتائے۔ 

یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ بغیر کسی استحقاق کے بندے کو سب کچھ بخشتا ہے اور پھر اس فضل و کرم کو بندہ کا حق قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اس سورۃ سے متعلق جو مشہور حدیث قدسی ہے اس میں خاص اس ٹکڑے سے متعلق حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں کہ جب بندہ ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ‘‘ کے الفاظ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑا میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ دیا جو اس نے مانگا۔ ’’ ہم تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ کے الفاظ عام ہیں۔ اس وجہ سے یہ طلبِ مدد خاص عبادت کے معاملہ میں بھی ہو سکتی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی۔ عبادت میں بندہ خدا کی مدد کا محتاج توفیق و رہنمائی اور ثبات و استقامت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ عبادت بالخصوص جب کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی اطاعت پر بھی مشتمل ہو ایک بڑی ہی آزمائش کی چیز ہے۔ اس میں ایسے سخت مقامات بھی آتے ہیں جہاں بڑے بڑوں کے پائے ثبات بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ 

اس جملہ میں مفعول کی تقدیم نے حصر کا مضمون بھی پیدا کردیا ہے۔ یعنی عبادت بھی صرف خدا ہی کی اور استعانت بھی تنہا اسی سے۔ اس حصر نے شرک کے تمام علائق کا یک قلم خاتمہ کردیا کیونکہ اس اعتراف کے بعد بندہ کے پاس کسی غیر اللہ کو نہ کچھ دینے کو رہا اور نہ اس سے کچھ مانگنے کی گنجائش باقی رہی۔ اس کے بعد دوسروں سے بندے کے تعلق کی صرف وہی نوعیت جائز رہ گئی ہے جو خود اللہ تعالی نے ہی قائم کردی ہو ۔




"اِھدِنَا الصراط المستقیم": اِھدِنَا کا مطلب صرف اسی قدر نہیں ہے کہ ہمیں سیدھا رستہ دکھادے بلکہ اس کا مفہوم اس سے بہت زیادہ ہے۔ اس میں یہ مفہوم بھی ہے کہ اس راستہ کی صحت پر ہمارے دل مطمئن کردے، اس پر چلنے کا ہمارے اندر ذوق و شوق پیدا کردے، اس کی مشکلیں ہمارے لیے آسان کردے اور اس پر چلا دینے کے بعد دوسری پگڈنڈیوں سے محفوظ رکھ۔ یہ سارا مضمون یہاں صلہ کو حذف کردینے سے پیدا ہوتا ہے ۔"الصراط المستقیم" پر الف لام عہد کا ہے۔ اس سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جو بندوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے کھولا ہے، جو دین اور دنیا دونوں کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے، جس پر چلنے کی دعوت نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، جس پر ہمیشہ خدا کے نیک بندے چلے ہیں، جو قریب تر اور سہل تر ہے، جس کے ادھرادھر سے گمراہوں اور گمراہ کرنے والوں نے بہت سی کج پیچ کی راہیں نکال لی ہیں، لیکن وہ بجائے خود قائم ہے اور خدا تک پہنچنے والے ہمیشہ اسی پر چل کر خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔

 اسی سیدھے رستے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اس طرح سمجھایا کہ زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا، پھر اس کے داہنے بائیں آڑے ترچھے خطوط کھینچ دیے، پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا رستہ ہے اور یہ آڑے ترچھے خطوط پگڈنڈیاں ہیں اور ان میں سے ہر پگڈنڈی کی طرف کوئی نہ کوئی شیطان بلا رہا ہے ۔


"صراط الذین انعمت علیہم الایۃ"۔ آدمی جس چیز سے جتنا ہی گہرا لگاؤ رکھتا ہے اس کو اسی قدر وضاحت کے ساتھ خود بھی سمجھنا چاہتا ہے اور دوسرے کو بھی سمجھانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اتنے ہی پر بس نہیں کیا کہ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش بلکہ اس کی پوری وضاحت بھی کردی ہے اور یہ وضاحت مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں سے ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ رستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تیرا انعام ہوا ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ جو نہ تو مغضوب ہوئے ہیں اور نہ گمراہ۔ 

اس وضاحت کے بعد مدعا اس طرح آئینہ ہو کر سامنے آگیا ہے کہ کسی اشتباہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اس ساری وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے نہیں تھی کہ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو دعا کا مدعا سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش آنے کا امکان تھا، بلکہ صرف یہ ہے کہ طالب اپنے مطلوب حقیقی کی طلب کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر رہا ہے جنہوں نے اس محبوب و مطلوب سے منہ موڑا یا اس سے بھٹک گئے نیز اپنے لیے استقامت واستواری کا بھی طلب گار ہے کہ اس راستہ کو پاجانے کے بعد اس پر قائم رہنا نصیب ہو، ان لوگوں کا حشر نہ ہو جن کو یہ راستہ ملنے کو تو ملا لیکن وہ اس کو پالینے کے بعد یا تو دیدہ دانستہ اس سے منحرف ہوجانے کے سبب سے خدا کے غضب میں مبتلا ہوئے، یا اپنی بدعت پسندیوں کی وجہ سے اس کو پا کر اس سے محروم ہوگئے۔ 


اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک منعم علیہم۔ دوسرا مغضوب علیہم۔ تیسرا ضالین۔ مختصرا ان تینوں گروہوں کی خصوصیات بھی معلوم کرلینی چاہئیں ۔

"انعمت علیہم" میں نعمت سے مقصود در اصل ہدایت و شریعت کی نعمت ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کا رستہ معلوم کرتا ہے۔ فعل انعام یہاں اپنے کامل اور حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے شریعت کی نعمت عطا فرمائی اور انہوں نے دل و جان سے اس کو قبول کیا، اس نعمت کے دیے جانے پر وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہے، اس کی خود بھی قدر کی اور دوسروں کو بھی اس کی قدر کرنے پر ابھارا، اس کے تحفظ کے لیے انہوں نے اپنی قوتیں اور قابلیتیں بھی صرف کیں، مال بھی قربان کیے اور اگر ضرورت پیش آئی تو اس کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ کہی گئی ہے اس وجہ سے واضح نہیں ہوتا کہ یہ اشارہ کس گروہ کی طرف ہے لیکن ایک دوسری آیت میں اس انعام یافتہ گروہ کی وضاحت ہوگئی ہے۔ "فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین" (نساء :69)۔ پس یہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام فرمایا انبیاء، صدیقین، شہداء، اور صالحین کے ساتھ ۔

"مغضوب علیہم" میں فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح براہ راست نہیں ہے جس طرح انعام کے ذکر میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سوء ادب سے احتراز ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ انعام ہمیشہ اور ہر حال میں بندہ پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، برعکس اس کے خدا کے غضب کا مستحق بندہ اپنے اعمال کے سبب سے خود بنتا ہے ۔"مغضوب علیہم" سے مراد دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی نعمت نازل فرمائی لیکن انہوں نے اپنی سرکشی کے سبب سے نہ صرف یہ کہ اس کو قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور جن لوگوں نے اس کو ان کے سامنے پیش کیا ان کی بیخ کنی اور قتل کے درپے ہوئے جس کی پاداش میں ان پر خدا کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک کردئیے گئے۔ دوسرے وہ لوگ جنہوں نے قبول تو کیا لیکن دل کی آمادگی کے ساتھ نہیں قبول کیا بلکہ مارے باندھے قبول کیا، پھر بہت جلد شہواتِ نفس میں پڑ کر انہوں نے اس کے کچھ حصہ کو ضائع کردیا، کچھ حصہ میں کتر بیونت کر کے اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا اور جن لوگوں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی یا ان کو صحیح راستہ پر لانا چاہا انہوں نے ان میں سے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل کردیا۔ پچھلی امتوں میں اس کی سب سے واضح مثال یہودی ہیں۔ چنانچہ ان کے معتوب و مغضوب ہونے کا ذکر قرآن میں تصریح کے ساتھ ہوا بھی ہے۔ مثلاً من لعنہ اللہ و غضب علیہ وجعل منہم القردۃ والخنازیر" (مائدہ :60)۔ "وضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وباءو بغضب من اللہ" (بقرہ :61) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر اس کا غضب ہوا اور جن کے اندر سے اس نے بندر اور خنزیر بنائے۔ اور ان کے اوپر ذلت و مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ خدا کا غضب لے کر پلٹے ۔

"ضالین" سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دین میں غلو کیا، جنہوں نے اپنے پیغمبر کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ اس کو خدا بنا کر رکھ دیا، جو صرف انہی عبادتوں اور طاعتوں پر قانع نہیں ہوئے جو اللہ اور اللہ کے رسول نے مقرر کی تھیں بلکہ اپنے جی سے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کردیا، جنہوں نے اپنے اگلوں کی ایجاد کی ہوئی بدعتوں اور گمراہیوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کی اور اس طرح صراطِ مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کی پگڈنڈیوں پر نکل گئے۔ پچھلی امتوں میں سے اس کی نہایت واضح مثال نصاریٰ ہیں۔

 چنانچہ قرآن مجید نے انہی وجوہ کی بنا پر جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والے قرار دیا ہے۔ مثلاً "یا اھل الکتاب لاتغلو فی دینکم غیر الحق ولا تتبعوا اھواء قوم قد ضلوا من قبل واضلوا کثیرا وضلوا عن سواء السبیل" (مائدہ : 77)۔ کہہ دو اے اہل کتاب تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشوں (بدعتوں) کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے بہتوں کو خدا کے رستہ سے بھٹکایا اور جو خود بھی اس کے رستہ سے بھٹکے ۔


 2- سورۃ کا استدلالی پہلو :۔ 

یہ سورۃ چونکہ دعا کے اسلوب میں ہے اس وجہ سے اس میں جن باتوں کا بندے کی طرف سے اقرار اور پھر جس بات کی درخواست ہے، ان میں سے ہر چیز نہایت مضبوط عقلی اور فطری دلائل پر قائم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ایک دعا تو ہماری زبان سے کہلا دی گئی ہو، جس کے اندر ہماری طرف سے نہایت اہم اعترافات بھی موجود ہوں لیکن نہ تو ان اعترافات ہی کے لیے کوئی عقلی بنیاد ہو اور نہ اس درخواست ہی کے لیے۔ اس دعا کے اندر استدلال کے جو پہلو ہیں یہاں ہم اختصار کے ساتھ ان کو واضح کرتے ہیں۔

 اس میں سب سے پہلے اس امر کا اقرار ہے کہ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس اقرار کی بنیاد خدا کی پروردگاری، اس کی رحمانیت، اس کی رحیمیت اور اس کے عدل کی ان نشانیوں کے مشاہدہ پر ہے جو ہمارے اندر بھی موجود ہیں اور جو اس کائنات کے بھی ہر گوشہ میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آدمی کا بچہ ہو یا کسی حقیر سے حقیر حیوان کا، ابھی وہ دنیا میں قدم بھی نہیں رکھتا ہے کہ اس کی پرورش کا سامان پہلے سے بالکل تیار موجود ہوتا ہے۔ اس سامان پرورش کی تیاری کا عالم یہ ہے کہ معلوم ہوتا ہے اس کائنات کے تمام چھوٹے بڑے عناصر رات دن اسی کی فراہمی اور اسی کے اہتمام میں سرگرم ہیں۔ سورج بھی اسی کے لیے سرگرم ہے، چاند بھی اسی کے لیے مصروفِ کار ہے، ابر بھی اسی کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے اور ہوا بھی ہر آن اسی کے لیے گردش میں ہے۔ پھر پرورش اور تربیت کا یہ اہتمام ہماری زندگی کے کسی ایک ہی گوشہ میں نہیں پایا جا رہا ہے، بلکہ غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ یہ زندگی کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ ہمارے ظاہر کی بھی پرورش ہو رہی ہے، ہمارا باطن بھی زیر تربیت ہے، ہمارا جسم بھی پل رہا ہے، ہماری عقل کو بھی غذا مل رہی ہے، ہماری جسمانی قوتیں اور قابلیتیں بھی پروان چڑھ رہی ہیں اور ہماری روحانی صلاحیتوں کو بھی بالیدگی حاصل ہو رہی ہے، 

غرض ہماری زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو نظر انداز ہو رہا ہو۔ اس تمام اہتمام و انتظام سے پرورش کرنے والے کی کوئی ذاتی غرض ہے ؟ کیا وہ اپنی سلطنت کے قیام و بقا کے لیے ہمارا محتاج ہے کہ وہ اس فیاضی کے ساتھ ہمارے اوپر خرچ کرے ؟ کیا جس طرح بھیڑوں کے کسی گلے کا مالک یہ چاہتا ہے کہ اس کی بھیڑیں فربہ رہیں تاکہ وہ ان سے زیادہ سے نفع کما سکے اسی طرح کی کوئی غرض اس جہان کے رب کے سامنے بھی ہے جس کے لیے وہ ہمیں کھلا پلا اور ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے ؟ 

انسان جب ان سوالوں پر غور کرتا ہے تو اسے صاف نظر آتا ہے کہ اس طرح کی کسی غرض کا کوئی ادنی شائبہ یہاں دور دور تک فرض بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جس ذات کی قدرت و حکمت کا ادنی کرشمہ یہ آسمان و زمین میں وہ بھلا ہم جیسے حقیر بھنگوں کی محتاج کیا ہوسکتی ہے ؟ اچھا، اگر یہ نہیں ہے تو کیا اس کائنات کے خالق و مالک پر ہمارا کوئی حق ہے، جو پہلے سے قائم ہے اور جس کے سبب سے وہ مجبور ہے کہ ہمارے لیے یہ کچھ اہتمام وہ کرے، ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز بھی فرض نہیں کی جاسکتی۔ جن کو وجود کی نعمت ملی ہی محض اس کے لطف و کرم کی بدولت ہو وہ بھلا اس پر اپنا کوئی حق قائم کرنے کے قابل کس طرح ہو سکتے ہیں ؟ اگر ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے اور صاف ظاہر ہے کہ نہیں ہے تو اس کی اس تمام پروردگاری کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے یہ اس کی رحمانیت کا جوش ہے کہ اس نے ہم کو وجود بخشا اور یہ اس کی رحیمیت کا فیض ہے کہ وہ برابر ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے۔ 


انسان جب خدا کی پروردگاری کے اس اہتمام کو دیکھتا ہے تو یہیں سے اس پر علم و معرفت کا ایک اور دروازہ کھلتا ہے۔ یہ دروازہ ایک روز جزا و سزا کی آمد کا دروازہ ہے جس دن تنہا وہی پورے اختیار کے ساتھ انصاف کی کرسی پر بیٹھے گا، اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانیوں کی انصاف کے ساتھ سزا دے گا اور نیکوں کو ان کی نیکیوں کا فضل و رحمت کے ساتھ صلہ دے گا۔ خدا کی پروردگاری اور اس کی رحمانیت اور رحیمیت کی نشانیاں ایک روز جزا و سزا کی آمد کو کس طرح لازم کرتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب تھوڑی سی وضاحت کا طالب ہے۔

 خدا کی پروردگاری سے روز جزا پر استدلال قرآن مجید نے جگہ جگہ اس طرح کیا ہے کہ جس خدا نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا اور آسمان کا شامیانہ تانا، جس نے تمہارے لیے سورج اور چاند جگمگائے، جس نے ابر و ہوا جیسی چیزوں کو تمہاری خدمت میں لگایا، جس نے تمہارے تمام ظاہری اور باطنی، روحانی اور مادی مطالبات کا بہتر سے بہتر جواب مہیا کیا، کیا اس خدا کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ بس اس نے تمہیں یوں ہی پیدا کردیا ہے اور پیدا کرکے بس یوں ہی چھوڑ دے گا، یہ تمام کارخانہ محض کسی کھلنڈرے کا ایک کھیل ہے جس کے پیچھے کوئی غایت و مقصد نہیں ہے ؟ تم ایک شتر بے مہار کی طرح اس سرسبز و شاداب چراگاہ میں بس چرنے کے لیے چھوڑ دئیے گئے ہو، نہ تم پر کوئی ذمہ داری ہے اور نہ تم سے کوئی پرسش ہوگی ؟ اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے تو نہایت غلط سمجھ رکھا ہے۔

 پرورش کا یہ سارا اہتمام پکار پکار کر شہادت دے رہا ہے کہ یہ اہتمام کسی اہم غایت و مقصد کے لیے ہے اور یہ ان لوگوں پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو بغیر کسی استحقاق کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دن ان ذمہ داریوں کی بابت ایک ایسے شخص سے پرسش ہوگی اور وہی دن فیصلہ کا ہوگا۔ جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہوں گی وہ سرخ رو اور فائزالمرام ہوں گے اور جنہوں نے ان کو نظر انداز کیا ہوگا وہ ذلیل اور نامراد ہوں گے۔ 

یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے لیکن اختصار کے خیال سے صرف ایک مثال نقل کرتے ہیں

 "الم نجعل الارض مہدا۔ والجبال اوتادا۔ وخلقناکم ازواجا۔ وجعلنا نومکم سباتا۔ وجعلنا اللیل لباسا۔ وجعلنا النہار معاشا۔ وبنینا فوقکم سبعا شدادا۔ وجعلنا سراجا وھاجا۔ وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا۔ لنخرج بہ حبا ونباتا۔ و جنت الفافا۔ ان یوم الفصل کان میقاتا" (نبا : 6-17)۔ 

کیا ہم نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ نہیں بنایا اور اس میں پہاڑوں کی میخیں نہیں ٹھونکیں ؟ اور ہم نے تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا۔ اور تمہاری نیند کو دفع کلفت بنایا۔ رات کو تمہارے لیے پردہ پوش بنایا اور دن کو حصول معاش کا وقت ٹھہرایا اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بلند کیے اور روشن چراغ بنایا اور ہم نے بدلیوں سے دھڑا دھڑ پانی برسایا تاکہ اس سے ہم غلے اور نباتات اگائیں اور گھنے باغ پیدا کریں بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے ۔"بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہے" 

یعنی اوپر جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جس نے یہ کچھ اہتمام انسان کے لیے کیا ہے وہ انسانوں کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑے نہیں رکھے گا بلکہ اس کی نیکی یا بدی کے فیصلہ کے لیے فیصلہ کا ایک دن بھی لائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ قرار دیا ہے کہ ایک ایسا دن وہ لائے جس میں اچھوں اور بروں کے درمیان انصاف کرے۔ نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں کا صلہ دے، اور بدکاروں کو ان کی برائیوں کی سزا دے۔ ایک رحمان اور رحیم ہستی کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم، نیکو کار اور بد، باغی اور وفادار دونوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا معاملہ کرے۔ ان کے درمیان ان کے اعمال کی بنا پر کوئی فرق نہ کرے۔ نہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے نہ مظلوم کی مظلومیت کا ظالم سے انتقام لے۔

 اگر زندگی کا یہ کارخانہ اسی طرح ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد جزا وسزا اور انعام و انتقام کا کوئی دن آتا نہیں ہے تو اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ العیاذ باللہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی نگاہوں میں متقی اور مجرم دونوں برابر ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو جرم کرنے اور فساد برپا کرنے کے لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ یہ چیز بداہۃً غلط اور اس کے رحمان و رحیم ہونے کے بالکل منافی ہے چنانچہ اس نے نہایت واضح الفاظ میں اس کی تردید فرمائی۔ مثلاً "افنجعل المسلمین کالمجرمین۔ مالکم کیف تحکمون" (قلم : 36) کیا ہم اطاعت کرنے والوں کو مجرموں کی طرح کر دیں گے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟۔ اور اپنے رحمان اور رحیم ہونے کا یہ لازمی نتیجہ بتایا ہے کہ ایک دن وہ سب کو جمع کر کے انصاف کرے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔

 چنانچہ فرمایا ہے "کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ لیجمعنکم الی یوم القیمۃ لا ریب فیہ" (انعام : 12) اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے وہ قیامت تک، جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، تم کو ضرور جمع کر کے رہے گا۔ اس آیت سے صاف واضح ہے کہ قیامت در اصل خدا کی رحمت کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے اس وجہ سے وہ فیصلہ کا ایک دن ضرور لائے گا جس میں وہ سب کو اکٹھا کر کے ان کے درمیان انصاف فرمائے گا۔ اور یہ بھی عین اس کی اس رحمت ہی کا تقاضا ہے کہ اس دن کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اس کے فیصلوں میں کوئی مداخلت کرسکے اور اپنی سفارشوں سے حق کو باطل یا باطل کو حق بنا سکے بلکہ ہر ایک کے لیے بالکل بے لاگ اور پورا پورا انصاف ہوگا۔ اس سے یہ نکتہ بھی واضح ہوا کہ عدل اور رحمت میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ عدل عین رحمت ہی کا تقاضا ہے۔ 


جذبہ شکر دین کی بنیاد ہے :۔

 ربوبیت، رحمت اور عدل کی ان نشانیوں کے مشاہدہ سے اللہ تعالیٰ کے لیے شکر کا جو بے پایاں جذبہ پیدا ہوتا ہے، یہی جذبہ ہے جو بندہ کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کرے اور اپنی ہر مشکل میں اسی سے مدد مانگے۔ غور کیجیے تو صاف واضح ہوگا کہ جس طرح یہ جذبہ رحمت و ربوبیت کی نشانیوں کے مشاہدہ کا ایک فطری نتیجہ ہے اسی طرح اس جذبہ سے سرشار ہو کر بندہ کا خدا کی طرف اس کی عبادت کے لیے بڑھنا بھی اس جذبہ کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ انسان کا ہر جذبہ اپنا ایک قدرتی رد عمل رکھتا ہے۔ اس جذبہ کا، جو اپنے منعم حقیقی کی شکر گزاری کے لیے انسان کے اندر ابھرتا ہے، قدرتی رد عمل یہ ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے اور اور اسی سے مدد مانگے، جو ذات اس فیاضی اور اس اہتمام کے ساتھ پرورش کر رہی ہے، جس کی یہ پروردگاری نہ اس کی طرف سے کسی غرض پر مبنی ہے اور نہ ہماری طرف سے کسی استحقاق پر بلکہ تمام تر اس کی رحمانیت اور رحیمیت کا فیضان عام ہے، پھر جس کی ربوبیت اور رحمانیت صرف اسی حیاتِ چند روزہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زندگی کے بعد بھی اپنے نیک بندوں کے لیے اس نے ابدی زندگی کی مسرتیں محفوظ کر رکھی ہیں، اس کے سوا کون ہے جو انسان کی حقیقی شکرگزاری کا مستحق ہوسکے۔ اور اگر وہی ہمارے حقیقی شکر کا سزاوار ہے تو پھر اس کے سوا کون ہے جو اس بات کا حق دار ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس سے مدد مانگیں ؟ 

اس طرح شکر کا جذبہ گویا دھکیل کر بندے کو اس کے منعم حقیقی کے دروازے پر ڈال دیتا ہے کہ وہ اسی کی بندگی کرے اور اسی سے طالب مدد ہو۔ اس حقیقت کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی تعبیر کرسکتے ہیں کہ درحقیقت شکر کے جذبہ سے بندہ کے اندر خدا کی عبادت کا داعیہ ابھرتا ہے اور پھر اسی جذبہ اور اسی کے قدرتی رد عمل سے دین کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اس کائنات میں اور خود اپنے وجود کے اندر خدا کی ربوبیت اور اس کی رحمت کے بے شمار آثار دیکھ کر انسان کے اندر اپنے منعم حقیقی کے لیے شکر کا جذبہ اور اس جذبہ کی تحریک سے انسان کے اندر اس کی عبادت کرنے کا ولولہ پیدا ہونا ایک ایسی بات ہے جو ہر پہلو سے بالکل ایک فطری اور بدیہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ کسی سلیم الفطرت انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس حقیقت کا انکار کرسکے۔ 

لیکن مذہب دشمنی کے اندھے جوش میں فلسفہ جدید کے مدعیوں نے دین کے آغاز سے متعلق اس سے بالکل مختلف نظریہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ ان ہولناک اور خوفناک حوادث کے مشاہدہ سے پیدا ہوا جو اس دنیا میں طوفانوں، زلزلوں اور وباؤں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان ان دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا جن کو اس نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا۔ اور اس طرح انسان نے شرک سے دین کا آغاز کیا۔ ہم اس غلط نظریہ کی تردید اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری تفصیل کے ساتھ کرچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ہماری کتاب "حقیقت شرک و توحید" حصہ دوم) 

یہاں ہم صرف اس بات پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ مذہب کے آغاز سے متعلق قرآن کی یہ تقریر زیادہ دل نشین اور عقل و فطرت کے مطابق ہے یا فلسفہ جدید کا یہ نظریہ زیادہ قرینِ عقل و فطرت ہے ؟ اس دنیا کے عام واقعات زلزلے، طوفان اور سیلاب ہی ہیں یا اس میں بہاریں بھی آتی ہیں، چاندنی بھی پھیلتی ہے، بارشیں بھی ہوتی ہیں، تارے بھی چھٹکتے ہیں، پھول بھی کھلتے ہیں اور فصلیں بھی پکتی ہیں۔ ہمارے عام مشاہدے میں زیادہ تر ربوبیت کی یہ برکتیں اور رحمت کی یہ شانیں آتی رہتی ہیں یا صرف زلزلوں اور طوفانوں کی ہولناکیاں ہی آتی ہیں ؟ اس کائنات اور خود اپنی فطرت کے عجائب پر نگہ ڈالنے کے بعد انسان پر ان دیکھی طاقتوں کا ہول طاری ہوتا ہے یا ایک رحمان و رحیم اور منع و دیان خدا کے احسانات کے احساس سے دل کا ریشہ ریشہ لبریز ہوجاتا ہے ؟ 

جو شخص بھی ان سوالوں پر ضد اور ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر غور کرے گا اور بے کم و کا ست اپنے سچے تاثر کا اظہار کرے گا وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ انسانی عقل اور انسانی فطرت کے بہاؤ کا اصلی رخ وہی ہے جس کا پتہ قران مجید دے رہا ہے، نہ کہ وہ جس کی طرف فلسفہ جدید لے جا رہا ہے۔ 

یہ نظریہ بھی بدیہی طور پر غلط معلوم ہوتا ہے کہ خوف کا جذبہ تمام دوسرے جذبات سے مقدم ہے۔ خوف کا تجزیہ کیجیے تو صاف نظر آئے گا کہ خوف نام ہے اس چیز کا کہ آپ کو کسی ایسی چیز کے چھن جانے یا اس سے محروم ہوجانے کا اندیشہ یا خطرہ پیدا ہوگیا ہے جو آپ کو حاصل بھی ہے اور جو عزیز بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم کا شعور بھی لازمی ہوا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ 

انسان کے مشاہدہ کائنات اور مشاہدہ انفس کی فطری راہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں اور رحمتوں کے مشاہدہ سے اس پر ایک منعم حقیقی کی شکر گزاری کا جذبہ اور احساس طاری ہوا اور پھر اس جذبہ کی تحریک سے وہ اس کی بندگی کی طرف مائل ہوا۔ رہا یہ سوال کہ اس صحیح شاہراہ پر ایک مرتبہ پڑجانے کے بعد وہ دوسری غلط راہوں کی طرف کس طرح مڑ گیا تو اس کا سبب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کی فطرت میں کوئی خرابی موجود تھی جو اس گمراہی کا سبب بنی، بلکہ اس میں یا تو اختیار و ارادہ کے سوء استعمال کو دخل ہے یا عقل کی کج روی اور ہوا پرستی کو۔ اس مسئلہ پر بھی مفصل بحث ہم دوسری جگہ کرچکے ہیں۔ اقرارِ بندگی اور اظہارِ اعتماد و توکل کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد "اھدنا الصراط المستقیم" کی دعا ہمارے سامنے آتی ہے اور اسی دعا پر جواس تمام تمہید کے بعد اصلی حرفِ مدعا کی حیثیت رکھتی ہے، یہ سورۃ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد مغضوبوں اور گمراہوں کی روش سے اظہار بیزاری کا جو مضمون ہے وہ منفی پہلو سے اس دعا کی توضیح مزید ہے ۔


(3)۔ رسالت کی ضرورت پر ایک دلیل :۔ 

اوپر کی ساری تمہید کا اقرار و اعتراف کی شکل میں نمایاں ہونا اور "اھدنا الصراط المستقیم" کا دعا کی شکل میں سامنے آنا ایک خاص حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے۔ وہ یہ کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت کی نشانیوں کا تعلق ہے، جہاں تک ان نشانیوں کے مشاہدہ سے شکر کے جذبہ کے ابھرنے کا تعلق ہے اور پھر اس جذبہ شکر کی تحریک سے جہاں تک اسی منعم حقیقی کی بندگی اور اسی سے طلبِ اعانت کے ارادہ کا تعلق ہے، یہ باتیں ایسی کھلی ہوئی ہیں کہ ان کو ہر انسان محسوس کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کے دل پر پردہ نہ پڑا ہوا ہو۔ اگر انسان اپنی عقل اور اپنی فطرت کو ان کی اپنی روش پر کام کرنے دے، غیر فطری اڑنگے ان کی راہ میں نہ ڈالے تو وہ ان باتوں میں سے کسی بات کے اقرار و اعتراف میں بھی بخل نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک روز جزا کی آمد میں بھی اس کو شبہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر وہ رکے گا تو اس مقام پر آ کر رکے گا کہ جس خدا کی وہ بندگی کرنا چاہتا ہے اور اپنی ہر مشکل میں جس کی مدد پر اس نے بھروسہ کیا ہے اس تک پہنچنے کا، اس کی عبادت کرنے کا، اس کی پسند اور ناپسند معلوم کرنے کا اور زندگی کی ہر مشکل میں اس سے مدد مانگنے کا صحیح طریقہ اور سیدھا راستہ کیا ہے ؟ اسی صحیح راستہ کو معلوم کرنے کے لیے بندہ اللہ تعالیٰ سے "اھدنا الصراط المستقیم" کی دعا کرتا ہے۔ 

اس بات کو صریح دعا کے اسلوب میں کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں انسان کی اپنی عقل اور سمجھ بالکل عاجز ہے۔ صرف خدا ہی ہے جو بتا سکتا ہے کہ صراطِ مستقیم کیا ہے اور وہی ہے جو اس صراط مستقیم کو اختیار کرلینے کے بعد اس پر جمے رہنے کی توفیق بخش سکتا ہے۔ یہیں سے انسانی فطرت کے اندر وہ خلا نمایاں ہوتا ہے جس کے سبب سے وہ نبوت اور رسالت کا محتاج ہوا ہے۔ انسان اگر کج فہمی سے کام نہ لے تو آفاق اور انفس کی نشانیوں سے وہ یہ تو معلوم کرسکتا ہے کہ ایک خدا ہے، وہ پرورش کرنے والا اور مہربان ہے اور وہ جزا اور سزا دینے والا بھی ہے، لیکن یہ معلوم کرنا اس کے بس میں نہیں ہے کہ اس خدا کی بندگی اور اطاعت کا طریقہ کیا ہے۔ یہی طریقہ بتانے کے لیے اللہ تعالی نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا ہے۔ 


(4)۔ سورۃ پر دعا کے پہلو سے ایک نظر :۔

 دعا کے پہلو سے اس سورۃ کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لیے تنہا یہی بات کافی ہے کہ یہ سورۃ ہماری سب سے بڑی عبادت۔ نماز کی خاص سورۃ ہے۔ صحیحین کی مشہور روایت ہے کہ "لاصلوۃ لمن لم یقرء بفاتحۃ الکتاب" اس شٰخص کی نماز نہیں ہے جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔

 پھر اپنی تاثیر کے لحاظ سے اس کا جو درجہ ہے اس کا اندازہ اس حدیث قدسی سے ہوتا ہے جو مسلم میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ جب پورے شعور اور اخلاص کے ساتھ نماز میں اس سورۃ کی تلاوت کرتا ہے تو اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے کے ساتھ ہی خدا کے ہاں شرف قبولیت پاتا ہے۔ حدیث ملاحظہ ہو :۔ 

"عن ابی ھریرۃ عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول اللہ تعالیٰ قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی نصفین فنصفہا لی و نصفہا لعبدی ولعبدی ما سال اذا قال العبد الحمد للہ رب العالمین قال اللہ حمدنی عبدی واذا قال الرحمن الرحیم قال اللہ اثنی علی عبدی و اذا قال مالک یوم الدین قال مجدنی عبدی واذا قال ایاک نعبد ویاک نستعین قال ھذا بینی وبین عبدی ولعبدی ما سال فاذا قال اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال ھذا لعبدی ولعبدی ما سال" 

(ترجمہ):" ابوہریرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس کا نصف حصہ میرے لیے ہے اور نصف میرے بندہ کے لیے ہے اور میرے بندہ کو وہ بخشا گیا جو اس نے مانگا۔ جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میرا شکریہ ادا کیا اور جب وہ الرحمن الرحیم کہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے میری تعریف بیان کی ہے اور جب وہ مالک یوم الدین کہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی اور جب بندہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ بخشا جو اس نے مانگا۔ پھر جب بندہ اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ بخشا جو اس نے مانگا"۔

 اس حدیث میں اس سورۃ کا جو حقیقت افروز اور معنی خیز تجزیہ ہے وہ بجائے خود اس قدر واضح ہے کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اس کے اس پہلو پر ہم غور کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے اس کے لفظ لفظ کے اندر یہ تاثیر بھر دی ہے کہ بندے کی زبان سے لفظ ابھی نکلا نہیں کہ بارگاہ رب العزت سے اس کی سند قبولیت اس کو عطا ہوگئی۔ دعائیں اور بھی ایک سے ایک بڑ کر ہیں لیکن شاید ہی کسی دعا کے متعلق اس تفصیل سے بتایا گیا ہو کہ اس کے ایک ایک لفظ کا خود اس ذات پر کیا اثر پڑتا ہے جس سے یہ دعا کی جاتی ہے اور کن لفظوں میں وہ اس کو قبول فرماتا ہے۔ 

اس دعا کی اس غیر معمولی اہمیت اور عظمت کے سبب سے ہم چاہتے ہیں کہ اس کی بعض خوبیاں ہم یہاں واضح کریں، اگرچہ توقع نہیں کہ اس کی خوبیوں اور بلاغتوں کا عشر عشیر بھی ہم بیان کرنے پر قادر ہو سکیں۔

 اس دعا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں جس چیز کے لیے دعا کی گئی ہے اس سے اعلی اور اس سے برتر کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ اس میں بندہ خدا سے خود اسی تک پہنچنے اور اسی کو پانے کے سیدھے رستہ کی ہدایت مانگتا ہے۔ یہ دعا اول تو ہر شائبہ نفس سے پاک ہے۔ ثانیاً یہ عین اس مقصد کے لیے دعا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ ثالثاً یہ ایک ایسے معاملہ میں خدا سے رہنمائی کی دعا ہے جس میں انسان کی اپنی عقل، جیسا کہ اوپر ہم نے اشارہ کیا ہے، بالکل عاجز و درماندہ ہے۔ صرف خدا ہی کی رہنمائی سے وہ اسے پا بھی سکتا ہے اور اسی کی توفیق سے اسے پا کر اس پر قائم بھی رہ سکتا ہے۔ ان وجوہ سے جب بندہ یہ چیز اپنے رب سے مانگتا ہے تو ایک ایسی چیز مانگتا ہے جو فی الحقیقت مانگنے کی بھی ہے اور تنہا اسی سے مانگنے کی ہے۔

 دوسری چیز اس دعا کی تمہید ہے جو ہر پہلو سے ایک ایسی تمہید ہے جس سے بہتر تمہید کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کریم کے دروازے سے سائل کو سب کچھ مل سکتا ہے بشرطیکہ مانگنے کا طریقہ صحیح ہو۔ اس تمہید کے بعض پہلوؤں پر نگاہ ڈالیے۔

 پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا آغاز اعتراف شکر سے ہوا ہے۔ شکر کا حقیقی سزا وار صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ٹھہرایا گیا ہے اور یہ شکر ہی وہ چیز ہے جس سے بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا مستحق قرار پاتا ہے اور جتنا ہی اس میں ترقی کرتا جاتا ہے اسی حساب سے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ 

"نعمۃ من عندنا۔ کذلک نجزی من شکر" (قمر : 35) یہ ہماری طرف سے فضل ہوا اور ایسا ہی ہم بدلہ دیتے ہیں ان لوگوں کو جو ہمارے شکر گزار رہتے ہیں۔

 دوسری جگہ ارشاد ہے "لئن شکرتم لازیدنکم" (ابراہیم :7) اگر تم میرے شکر گزار رہو گے تو میں تمہارے لیے اپنی نعمتوں میں اضافہ کرتا رہوں گا۔

 دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جن صفتوں کے توسل سے یہ دعا کی گئی ہے وہ دوسری تمام صفات کے لیے بمنزلہ بنیاد کے ہیں۔ اس وجہ سے اس دعا میں گویا اللہ تعالیٰ کے سارے ہی اسمائے حسنی کا سہارا حاصل کرلیا گیا ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین میں کامل سپردگی اور کامل حوالگی کا اظہار ہے۔ بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے دروازے پر دال دیتا ہے۔ اس دروازے کے سوا اس کے لیے اور کوئی دروازہ نہیں۔ بس ایک ہی ہے جس کی وہ بندگی کرتا ہے اور ایک ہی ہے جس سے وہ مدد کی درخواست کرتا ہے۔ جب اس طرح ساری دنیا سے کٹ کر بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دے گا تو آخر اس کی دعا کا ایک ایک حرف کیوں نہ شرف قبولیت پائے گا۔

 اس دعا کے خاتمہ پر بھی غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی اس کی قبولیت کے لیے ایک بہترین سفارش فراہم کرتا ہے۔ یہاں جس صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کی گئی ہے، اول تو اس کے لیے جو اسلوب بیان اختیار کیا گیا ہے وہی اس مطلوب کے لیے بندے کے ذوق و شوق کا پورا پورا اظہار کر رہا ہے کیونکہ "اھدنا" کا مفہوم، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، ہماری آنکھیں کھول دے، اس پر چلنے کا ہمیں شوق اور ولولہ عطا فرمایا ہمارے دلوں میں اس کی محبت جاگزیں کردے اور اسی پر ہمیں جینے کی توفیق دے اور اسی پر مرنے کی سعادت نصیب کر۔ ثانیاً اس کی مزید وضاحت ایسے الفاظ سے کی گئی ہے جن سے ان لوگوں کے ساتھ بندے کی محبت کا اظہار ہوتا ہے جو اسی رستے پر جیے اور مرے ہیں اور ان لوگوں سے انتہائی بیزاری کا اظہار ہے جنہوں نے شرارت یا حماقت کے سبب سے اس سے انحراف اختیار کیا ہے۔ 

اس دعا کی بے شمار بلاغتوں میں سے یہ چند ہیں جن کی طرف اجمالی طور پر ہم نے اشارہ کیا ہے۔ اس سے کچھ اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ دعا نماز کی مخصوص دعا کیوں قرار دی گئی۔ اور کیوں یہ بات ہے کہ زبان سے نکلتے ہی اس کا لفظ لفظ شرف قبولیت حاصل کرتا ہے۔ ایک طرف دعا کے ان الفاظ کو سامنے رکھیے اور دوسری طرف نماز کی مخصوص ہیئت اور اس کے مخصوص آداب کو ملحوظ رکھیے پھر تصور کیجیے کہ کتنی بہترین دعا ہے اور اس کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے کتنا بہترین طریقہ ہمیں سکھایا ہے۔ 


(5)۔ سورۃ پر دیباچہ قرآن ہونے کی حیثیت سے ایک نظر :۔ 

اس سورۃ کو قرآن مجید کی ترتیب میں بھی دیباچہ قرآن کی جگہ دی گئی ہے اور حدیثوں میں بھی اس کے جو مختلف نام آئے ہیں ان سے بھی اس کی یہی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ مثلاً اس کو فاتحۃ الکتاب کہا گیا ہے جس کے صاف معنی دیباچہ قرآن کے ہیں۔ اسی طرح اس کے لیے ام الکتاب یعنی مغزِ قرآن کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، جو پہلے لفظ سے بھی زیادہ اس کی اہمیت کو واضح کرنے والا ہے۔ کافیہ اور موفیہ بھی اس کے نام ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورۃ اپنے اندر تمام قرآنی مطالب کو سمیٹے ہوئے ہے۔ مختصراً ہم سورۃ کے اس پہلو پر بھی کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تین وجوہ سے اس سورۃ کو دیباچہ قرآن ہونے کا مرتبہ حاصل ہوا ہے۔ 

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس سورۃ میں دین اور شریعت کے نقطہ آغاز کا پتہ دیا گیا ہے۔ یہ سورۃ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا پرستی کا اولین محرک کیا ہے۔ یہ محرک کن عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس تحریک سے انسان خدا پرستی کی راہ میں پہلا قدم کیا اٹھاتا ہے اور اس قدم کے بعد اس کے اندر اصل طلب و جستجو کس چیز کے لیے پیدا ہوتی ہے۔ ہر شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جس سورۃ میں مذکورہ سوالوں کا جواب دیا گیا ہو وہی سورۃ اپنے مضمون کے لحاظ سے دیباچہ قرآن کی جگہ پانے کے لیے موزوں ترین سورۃ ہے۔ 

اب آئیے ان اشارات کی روشنی میں، جو اوپر گزر چکے ہیں، یہ دیکھیے کہ یہ سورۃ ان سوالوں کا کیا جواب دیتی ہے۔ یہ سورۃ بتاتی ہے کہ آفاق اور انفس کے اندر خدا کی ربوبیت، اس کی رحمانیت اور رحیمیت اور اس کے عدل کی جو نشانیاں موجود ہیں وہ انسان کے اندر خدا کے شکر کا جذبہ ابھارتی ہیں۔ یہ جذبہ ایک زور دار محرک بن کر انسان کو خدا کی عبادت اور اسی سے استعانت کے لیے اکساتا ہے۔ اس کے بعد انسان میں اس سیدھے رستہ کی طلب و جستجو پیدا ہوتی ہے جو اس کو خدا تک پہنچائے۔ انسان کی اس طلب و جستجو کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کا نظام قائم فرمایا اور اپنی ہدایت و شریعت نازل فرمائی۔ مذہب کی راہ میں انسان کا فطرہ ارتقا اسی طرح ہوا ہے اور اس سورۃ میں یہ حقیقت چونکہ نہایت اجمال اور نہایت خوبی کے ساتھ واضح ہوئی اس وجہ سے اس کو دیباچہ قرآن کی جگہ ملی۔

 دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں اگر ان کو سمیٹا جائے تو وہ تین عنوانوں کے تحت جمع کیے جا سکتے ہیں۔ توحید، قیامت، رسالت۔ یہ سورۃ ان تینوں عنوانوں پر بنیادی رہنمائی دیتی ہے۔ اس وجہ سے اس نے گویا قرآن کے سارے علوم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔ اس کی ابتدائی دو آیتوں میں خدا ہی کا تمام عالم کا مالک اور آقا ہونا اور تمام حمد و شکر کا سزا وار ہونا بیان ہوا ہے۔ اس کی تیسری آیت میں ایک روز جزا وسزا کی آمد کی طرف بھی اشارہ ہے اور ساتھ ہی اس میں توحید کا مضمون بھی شامل ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا بھی کوئی زور اور اختیار نہیں چلے گا۔ اس کی چوتھی آیت میں بندہ اپنے آپ کو بالکل اپنے رب کے حوالے کردیتا ہے اور یہی توحید کی اصلی حقیقت ہے۔ پانچویں آیت میں اصل دعا ہے اور اس دعا ہی سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ انسان اللہ کی سیدھی راہ معلوم کرنے کے لیے نبوت و رسالت کے سلسلہ اور اس کی نازل کردہ ہدایت و شریعت کا محتاج ہے۔ نیز اسی لپیٹ میں یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی ہے کہ خدائی شریعت پانے کے بعد کسی قوم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس کی قدر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا معاملہ کرتا ہے۔ غرض اس سورۃ کے اندر دین کے تمام بنیادی عناصر جمع ہیں۔ اگر ان کی تفصیل کردی جائے تو دین کا پورا نظام کھڑا ہوجائے۔ گویا ان چند آیتوں کے اندر پورا قرآن عظیم بند ہے اور اس چھوٹے سے نگینہ کے اندر معانی و حقائق کو وہ پورا شہرستان دکھا دیا گیا ہے جو قرآن کے تیس پاروں کے اندر پھیلا ہوا ہے۔

 تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے باطن کی یہی پیاس، جو اس سورۃ سے ظاہر ہو رہی ہے، درحقیقت نزول قرآن کا سبب بنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت سے پہلے یہود اور نصاری کو صراطِ مستقیم دکھائی تاکہ وہ خود بھی اس پر چلیں اور دوسروں کو بھی اس پر چلنے کی دعوت دیں لیکن وہ اس راہ پر نہ خود قائم رہے اور نہ دوسروں کے لیے انہوں نے اس کے نشانات باقی رہنے دیے۔ اس راہ حق کو گم کر کے انہوں نے دنیا کو جاہلیت کے اندھیرے میں ڈال دیا تھا۔ یہ سورۃ اسی اندھیرے سنکلنے کی دعا ہے اور ایک ایسی دعا ہے جو فطرتِ انسانی کی گہرائیوں سے نکل رہی ہے۔ یہی دعا ہے جس کی برکت سے دنیا کو قرآن کی روشنی ملی اور جاہلیت کی تاریکی سے نکلنا نصیب ہوا۔ اور یہی دعا ہے جو قرآن کے فہم و تدبر اور اس سے زندگی کے مسائل میں رہنمائی حاصل کرنے کے معاملہ میں بھی ہمارے قدم کو جادہ مستقیم پر استوار رکھ سکتی ہے۔ اس پہلو سے بھی یہ سورۃ دیباچہ قرآن بننے کے لیے نہایت موزوں تھی ۔ 


سورۃ کا تعلق بعد کی سورۃ سے :۔ 

پورے قرآن سے اس سورۃ کا جو تعلق ہے وہ اوپر کی بحث سے اچھی طرح واضح ہوچکا ہے۔ اب ہم اس کا تعلق بعد کی سورۃ (سورہ بقرہ) سے واضح کرنا چاہتے ہیں۔ سورۃ فاتحہ کے آخری حصہ اور سورۃ بقرہ کی پہلی آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں سورتوں میں وہی تعلق ہے جو تعلق ایک دعا اور اس کے جواب یا ایک دعا اور اس کے اثر اور اس کی قبولیت میں ہوتا ہے۔ سورۃ فاتحہ کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا ہے "اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین" (ہمیں سیدھے رستہ کی ہدایت دے، ان لوگوں کے رستہ کی جن پر تونے انعام کیا، جو نہ مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ) اس کے معاً بعد سورۃ بقرہ اس طرح شروع ہوتی ہے۔ "الم۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین" (الم۔ یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ خدا ترسوں کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوئی ہے)۔ گویا سورۃ فاتحہ میں جس آسمانی ہدایت و رہنمائی کے لیے دعا کی گئی تھی، سورۃ بقرہ میں وہ ہدایت سامنے آگئی۔ ایک صاحب ذوق جب دعا کے فوراً بعد اس کے اس اثر اور نتیجہ کو سامنے موجود دیکھتا ہے تو اس کی روح خدا کے شکر کے جذبہ سے سرشار ہوجاتی ہے۔ 

علاوہ ازیں ایک اور پہلو بھی سامنے رکھنا چاہیے، وہ یہ کہ سورۃ فاتحہ میں منعم علیہم گروہ کے رستہ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مغضوب اور گمراہ گروہوں کے طریقوں سے بچائے جانے کی بھی دعا ہے۔ دعا کے اس پہلو کو سامنے رکھ کر جب آدمی سورۃ بقرہ کی تلاوت کرتا ہے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس سورۃ میں ملتِ ابراہیمی کی تجدید کے ساتھ ساتھ یہود کے ان تمام جرائم کی فہرست بھی بیان ہوئی ہے جو انہوں نے خدا، اس کے نبیوں اور رسولوں اور اس کی شریعت کے خلاف کیے ہیں اور جن کے سبب سے وہ اس بات کے مستحق ٹھہرے کہ ان پر خدا کا غضب نازل ہوا اور وہ قوموں کی امامت کے منصب سے معزول کیے جائیں۔ گویا سورۃ فاتحہ میں جس انعام یافتہ اور اس کے بالمقابل جس مغضوب گروہ کی طرف ایک اجمالی اشارہ تھا سورۃ بقرہ میں ان دونوں گروہوں سے متعلق پوری تفصیل سامنے آگئی اور واضح ہوگیا کہ کن کی پیروی کرنی ہے اور کن کے طریقوں سے بچنا ہے۔

 بالکل یہی صورت سورۃ آل عمران کی ہے جو سورۃ بقرہ کے بعد ہے۔ بقرہ میں جس طرح یہود کی شرارتوں کی تفصیل ہے اسی طرح آل عمران میں نصاری کی بدعتوں اور ان کی گمراہیوں کی تردید کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس میں اس اسلام کی صحیح تصویر بھی پیش کی گئی ہے جس کی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور دوسرے انبیائے کرام بالخصوص حضرت مسیح (علیہ السلام) نے دی ہے۔ سورۃ فاتحہ کے بعد ترتیب قرآن میں انہی دو بڑی سورتوں کا جگہ پانا اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہ بعد کی دونوں سورتیں سورۃ فاتحہ کی دعا کی مقبولیت اور اس کے آخری حصہ کے اجمالات کی شرح ہیں۔ 
سورہ فاتحہ ختم ہوئی


(تدبر قرآن  جلد اول ، مولانا امین احسن  اصلاحی ؒ  )