سورۃ البقرۃ کی آیات 1 تا 5 کے مطالب

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ 

الۗمّۗ ، لِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ ۤ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ البقرۃ 1 تا 5) 

یہ الف، لام، میم ہے، یہ کتاب الٰہی ہے۔ اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مذکورہ بالا آیات کے اندر جو باتیں، جس ترتیب کے ساتھ کہی گئی ہیں، پہلے ہم اجمال کے ساتھ ان کو سامنے رکھیں گے اس کے بعد ان کے عمیق اور گہرے پہلوؤں پر غور کریں گے اور جو سوالات یہاں پیدا ہوتے ہیں ان کے جواب دینے کی کوشش کریں گے ۔


یہاں سورۃ کا نام ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے وہ دعوی سامنے رکھ دیا گیا ہے جس کو اس سورۃ کا عمود یا مرکزی مضمون ہونے کی حیثیت حاصل ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ ہم۔۔۔۔۔۔۔ بتا چکے ہیں کہ اس سورۃ کا مرکزی مضمون نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن پر ایمان لانے کی دعوت ہے۔ چناچہ یہاں سب سے پہلے جو بات کہی گئی ہے وہ یہی ہے کہ یہ کتاب الٰہی ہے۔ پھر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جہاں تک اس کتاب کے کتاب الٰہی ہونے کا تعلق ہے یہ چیز کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ہے۔ یہ کتاب خود اپنے کتاب الٰہی ہونے پر ایک حجت قاطع ہے لیکن اس پر ایمان لانا ہر شخص کے لیے آسان نہیں ہے۔ 

پھر یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح کے لوگ اس کتاب پر ایمان لائیں گے اور کس کس طرح کے لوگ اس سے محروم رہیں گے۔ ایمان لانے کے لیے بنیادی چیز قلب کی صلاحیت کو قرار دیا گیا ہے، جس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوگئی ہے کہ جن لوگوں کے دل صلاحیت سے خالی ہیں وہ اس کتاب سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ یہ صلاحیت تقوی، خشیت اور خدا ترسی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس تقوی سے علم و عمل کی جو برکتیں پیدا ہوتی ہیں ان کا ذکر فرمایا ہے۔ اس تقوی کا پہلا ثمرہ ایمان بالغیب بتایا گیا ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس کے دل میں صلاحیت ہو اس کی عقل دور بین اور دور رس ہوجاتی ہے۔ وہ حیوانات کی طرح صرف محسوسات و مادیات ہی میں گرفتار نہیں رہتا بلکہ وہ ان حقیقتوں کو بھی مانتا ہے جو اگرچہ آنکھوں سے دیکھی نہ جا سکتی ہوں، لیکن عقل سلیم ان کی شہادت دے رہی ہو۔ وہ ان حقیقتوں کو اسی طرح مانتا ہے جس طرح آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی حقیقتیں مانی جاتی ہیں، بلکہ جو یقین اس کو ان نادیدہ حقیقتوں پر ہوتا ہے، بسا اوقات وہ یقین اس کو ان چیزوں پر بھی نہیں ہوتا جو اس نے آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سنی ہوتی ہیں۔

 اس کے بعد وہ اعمال و عقائد بیان ہوئے ہیں جو اس ایمان بالغیب سے لازماً پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان محض کسی تصور کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی اصل حقیقت وہ تصدیق ہے جو دل کی گہرائیوں میں اتری ہوئی ہوتی ہے اور جو آدمی کے ارادہ کو حرکت میں لاتی ہے۔ یہ ارادہ آدمی کو بہت سے کاموں کے کرنے اور بہت سی چیزوں کے چھوڑنے کے لیے اٹھا کھڑا کرتا ہے۔ یہاں کرنے کے کاموں میں سے دو ہی کاموں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک نماز قائم کرنے کا، دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں کام دوسری تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام بھلائیوں کی بنیاد ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انفاق کے ذکر کے ساتھ "مما رزقناہم" (اس میں سے جو ہم نے ان کو بخشی ہیں) کے الفاظ فرما کر کئی باتوں کی طرف اشارہ کردیا۔ ایک تو یہ کہ خدا کی راہ میں اسی کا بخشا ہوا مال خرچ کرنا درحقیقت بندہ کی طرف سے اس مال کے عطیہ الٰہی ہونے کا اعتراف ہے۔ دوسرے اس سے خرچ کرنے کی ایک موثر دلیل سامنے آگئی۔ وہ یہ کہ خدا کے بخشے ہوئے مال کا کچھ حصہ اس لیے اس کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے کہ اس کی شکر گزاری کا حق ادا ہوسکے۔ تیسرے اس وضاحت نے انفاق کے مشکل کام کو یک گونہ سہل بھی بنا دیا کیونکہ جو کچھ اس نے دیا ہے اس سارے کے لیے اس کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس میں سے صرف ایک قلیل حصہ ہی ہے جو اس کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ یہاں زکوۃ کے بجائے انفاق کا لفظ ہے جو اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ یہ لفظ صدقات و خیرات کی ساری ہی قسموں پر حاوی ہے۔

 اس کے بعد ان متقین کے ایک خاص وصف کو خاص طور پر نمایاں کر کے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ یہ لوگ ہر قسم کے گروہی تعصبات سے پاک اور جمود و تقلید کی تمام بندشوں سے بالکل آزاد ہیں۔ وہ خدا کی اتاری ہوئی کتابوں اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں کرتے۔ وہ اس سارے پر ایمان لاتے ہیں جو خدا کی طرف سے اترا ہے، خواہ وہ ان کی اپنی قوم کے کسی رسول پر اترا ہے یا کسی دوسری قوم کے رسول پر، ان کو اگر بحث ہوتی ہے تو صرف اس چیز سے ہوتی ہے کہ بات خدا کی اتاری ہوئی ہو، یہ نہ ہو کہ کسی غیر خدا کی بات خدا کی طرف منسوب کردی گئی ہو یا کوئی بات باہر سے لا کر خدا کی بات میں ملا دی گئی ہو۔ 

اس کے بعد فرمایا کہ حقیقت میں آخرت پر ایمان اور یقین رکھنے والے لوگ یہی ہیں۔ جہاں تک آخرت پر ایمان کا تعلق ہے وہ ایمان بالغیب میں شامل تھا، اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں خاص طور پر اس کو الگ ذکر کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایمان بالاخرت کے مدعی تو بہت سے ہو سکتے ہیں لیکن جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں، جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جو خدا کی اتاری ہوئی ہر کتاب پر ایمان لاتے ہیں، در حقیقت وہی لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہی لوگ، جن کے اوصاف بیان ہونے ہیں، اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور انہی کے لیے مزید ہدایتوں کے دروازے کھلیں گے۔ نیز یہی اس دنیا میں ہدایت پر ہیں اور انہی کے لیے آخرت میں فوز و فلاح ہے۔

(تدبر قرآن جلد اول،  سورۃ البقرۃ  آیات 1 تا 5)