3۔ سورہ آل عمران : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(الف)۔ سورۂ آل عمران کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

مندرجہ ذیل پہلوؤں سے یہ سورۃ سابق سورۃ (بقرہ) سے نہایت گہرا ربط رکھتی ہے۔ (1) ان دونوں کا موضوع ایک ہی ہے۔ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات۔ لوگوں پر عموماً اور اہل کتاب پر خصوصاً۔ (2) دونوں میں یکساں شرح و بسط کے ساتھ دین کی اصولی باتوں پر بحث ہوئی ہے۔ (3) دونوں کا قرآنی نام بھی ایک ہے ہے یعنی ’’ الف لام میم‘‘۔ (4) دونوں شکلاً بھی ایک ہی تنے سے پھوٹی ہوئی دو بڑی بڑی شاخوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کو شمس و قمر سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں حشر کے دن دو بدلیوں کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔ اہل بصیرت سمجھ سکتے ہیں کہ وصف اور تمثیل میں یہ اشتراک بغیر کسی گہری مناسبت کے نہیں ہوسکتا۔ (5) دنوں مین زوجین کی سی نسبت ہے۔ ایک میں جو بات مجمل بیان ہوئی ہے، دوسری میں اس کی تفصیل بیان ہوگئی ہے۔ اس طرح ایک میں جو خلا رہ گیا ہے، دوسری نے اس کو پر کردیا ہے۔ گویا دونوں مل کر ایک اعلیٰ مقصد کو اس کی مکمل شکل میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہیں ۔

(ب)۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کے امتیازی پہلو 


 لیکن اس اشتراک اور یکسانی کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی کچھ الگ الگ خصوصیات بھی ہیں جو ان کو ایک دوسری سے ممتاز کرتی ہیں۔ مثلاً۔ بقرہ پر غور کیجیے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اہل کتاب نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ اسلام ایک سچا دین ہے اور یہ آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہا ہے لیکن حسد اور ضد کے باعث وہ اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ اس احساس نے ان کو شدید کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ وہ جذبات سے مغلوب ہو کر اس کی مخالفت کے لیے تو اٹھ کھڑے ہوئے لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ مخالفت کس عنوان سے کریں۔ جس کے منہ میں جو آیا اس نے وہ اگلنا شروع کردیا۔ کسی نے کہا نبوت ورسالت کے لیے تو بنی اسرائیل کا گھرانا مخصوص رہا ہے، اس گھرانے سے باہر کسی کو نبوت کس طرح مل سکتی ہے ؟ کسی نے کہا ہدایت کے لیے تو بس تورات کافی ہے اور جب اس کے حامل ہم موجود ہیں تو اب کسی نئی ہدایت کی ضرورت کہاں ضرورت کہاں باقی رہی ؟ اسی جھنجھلاہٹ میں بعضوں نے حضرت جبریل تک کو، مطعون کرڈالا کہ یہ فرشتہ شروع سے ہمارا بیری ہے۔ کچھ لوگوں نے یہود و نصاریٰ کا ایک متحدہ محاذ بنا کر مخالفت کا یہ پہلو اختیار کیا کہ آسمانی ہدایت یا تو یہودیت کے اندر ہے یا نصرانیت کے اندر، جس کو ہدایت مطلوب ہو وہ ان میں سے کسی کو اختیار کرے، ان کے سوا آسمانی ہدایت حاصل ہونے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ایک گروہ نے دھوکا بازی کی روش اختیار کی۔ اس نے مسلمانوں کو یہ اطمینان دلانا چاہا کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں، مسلمان ایمان کا اجارہ دار تنہا اپنے ہی کو نہ سمجھیں، خدا، آخرت اور اپنے پیغمبرکو تو ہم بھی مانتے ہیں، اس سے کیا فرق پیدا ہوا کہ ہم نئے مدعی نبوت کو نہیں مانتے۔ ان حالات میں یہ سورۃ اتری۔ اس میں ایک طرف تو تفصیل کے ساتھ ان تمام اعتراضات کے جواب دیے گئے جو اہل کتاب کی طرف سے اٹھائے گئے، دوسری طرف نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ورسالت کی جو اعلی سند خود ان کے صحیفوں میں موجود تھی، اس کو واضح کیا گیا اور تیسری طرف نبی امی کی رسالت سے دین حق کی جو تجدید و تکمیل ہوئی تھی اس کی طرف رہنمائی کی گئی۔ اس طرح یہ سورۃ تویا دعوت ایمان و اثبات رسالت بھی ہے اور دعوت وجہاد برائے آزادی قبلہ و غزوہ بدر بھی ۔

سورۂ آل عمران پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ بقرہ کے کچھ عرصہ بعد اس دور میں نازل ہوئی ہے۔ جب افق پر اسلام کے غلبہ اور اس کی صداقت کے آثار اتنے نمایاں ہوچکے ہیں کہ اہل کتاب کے لیے اس کی علانیہ مخالفت کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس صورت حال نے اہل کتاب کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ایک گروہ نے تو اسلام قبول کرلیا۔ لیکن یہ اسلام صرف اس کی زبانوں ہی تک رہا، اس کے دلوں میں نہیں گھسا۔ دوسرے گروہ نے اسلام تو نہیں قبول کیا لیکن اس نے مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے معاملے میں ایک سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی۔ اس سمجھوتے کے لیے اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر مذہب کے پیروؤں کے لیے ان کا اپنا دین حق ہے اس وجہ سے مسلمان ہم کو ہماری یہودیت و نصرانیت پر چھوڑ دیں اور ہم مسلمانوں کو ان کے اسلام پر۔ اس طرح دونوں اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے ایک ہی ملک میں ایک ساتھ امن کی زندگی بسر کرسکیں گے۔ ( سورۃ بقرہ کے شروع میں اس گروہ کی طرف اشارہ ہے لیکن اس وقت تک یہ گروہ پوری طرح سامنے نہیں آیا تھا۔ اس سورت میں یہ بے نقاب ہو کر سامنے آگیا ہے۔ اس گروہ کا نظریہ بعینہ وہی ہے جو آج وحدتِ ادیان کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ )


اس طرح ان دونوں گروہوں کا رویہ اسلام کے ساتھ بدل تو گیا لیکن یہ تبدیلی دل کی تبدیلی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ سراسر مصلحت پرستی پر مبنی تھی۔ پہلے گروہ نے اسلام کا جو اظہار کیا تو محض مسلمانوں کی متوقع کامیابیوں میں حصہ بٹانے کے لیے۔ دوسرے نے صلح جویانہ پالیسی اختیار کی تو صرف متوقع خطرات سے اپنے کو محفوظ کرنے کے لیے۔


اسی اثنا میں احد کا معرکہ پیش آیا جس میں مسلمانوں ہی کی ایک جماعت کی بے تدبیری سے ان کو ایک عارضی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس واقعے کا اثر اہل کتاب کے مذکورہ دونوں گروہوں پر یہ ہوا کہ انہوں نے اسلام کے بارے میں اپنی پالیسی پھر تبدیل کردی۔ جو گروہ محض دنیوی کامیابیوں کے لالچ میں اسلام کی صفوں میں آ گھسا تھا، جب اس نے دیکھا کہ اس راہ میں خطرات بھی پیش آ سکتے ہیں تو اس نے اس خطرے کے سودے سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور اسلام کی اطاعت کا قلادہ اتار کر پھر اپنے کفر کی طرف پلٹ گیا۔ دوسرے گروہ نے جب دیکھا کہ اسلام کو زک بھی پہنچائی جاس کتی ہے تو اس نے سوچا کہ ہم نے جو اس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر اس کے ساتھ صلح جویانہ روش اختیار کرلی ہے، یہ غلط ہے، کیوں نہ ہم مخالف طاقتوں کو قوت پہنچا کر یہ کوشش کریں کہ ایک مرتبہ اسلام کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی کھلم کھلا اپنی دشمنی کا اعلان کردیا۔ اس طرح یہ دونوں ہی گروہ کھلم کھلا اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کی راہ پر چل پڑے اور انہوں نے طرح طرح کی چالوں سے مسلمانوں کے ذہنوں میں شبہات و شکوک بھرنے شروع کیے تاکہ جس طرح وہ خود فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکے ہیں اسی طرح مسلمان بھی اپنی وحدت و یکجہتی کھو کر پراگندہ ہوجائیں اور ان کی طاقت ختم ہوجائے۔ ان حالات نے تقاضا کیا کہ اہل کتاب اور مسلمانوں دونوں کے سامنے دین کی یہ حقیقت واضح کی جائے کہ اللہ کی طرف سے لوگوں کو کئی دین نہیں ملے ہیں بلکہ ایک ہی دین ملا ہے جس کا نام اسلام ہے۔ اس دین میں تقسیم اور تجزیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس کے کچھ حصے کو تو مانا جائے اور کچھ کو نہ مانا جائے بلکہ بیک وقت اس کے کل کو ماننا یا کل کو چھوڑنا ہے۔ اس دین کا مطالبہ ہر حالت میں اللہ کی اطاعت اور اس کے احکام کی فرمانبرداری ہے، خواہ حالات نرم ہوں، یا سخت اور خوہ راہ ہموار نظر آ رہی ہو یا آزمائشوں اور فتنوں نے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہوں، حق بہرحال حق ہے، وہ بعض حالات میں مخفی تو ہوجاتا ہے جس طرح چھلکے کے اندر مغز معدوم نہیں ہوتا۔ اس طرح کے حالات میں وہی لوگ ثابت قدم رہتے ہیں جن کے ایمان اور علم میں پختگی ہوتی ہے۔ جو حق سے بے خبر ہوتے ہیں ان کے قدم اکھڑ جاتے ہیں۔ غزوہ احد بھی اسی طرح کا ایک امتحان بن کر لوگوں کے سامنے آیا۔ جس طرح غزوہ بدر کی نوعیت ایک فرقان کی تھی جس نے حق اور باطل کو الگ الگ کردیا اسی طرح غزوہ احد کی حیثیت ایک آیت متشابہ کی تھی جس کے باطن میں حکمت تھی لیکن اس کا ظاہر کمزور لوگوں کے آزمائش بن گیا۔ چنانچہ اس نے پختہ فکر و پختہ ایمان مسلمانوں کو چھانٹ کر ان لوگوں سے بالکل الگ کردیا جن کے دلوں میں کجی اور دماغوں میں فتنہ جوئی تھی۔ یہ حالات تھے جن میں یہ سورۃ اتری چنانچہ اس میں ان تمام خامیوں اور گمراہیوں پر تبصرہ ہے جو اس وقت نمایاں ہوئیں، عام اس سے کہ وہ مسلمانوں سے ظاہر ہوئیں یا اہل کتاب سے۔ اس میں اس شک اور تذبذب کی ضلالت بھی واضح کی گئی ہے جس میں اہل کتاب مبتلا تھے اور اس اختلاف اور عدم اطاعت کے انجام بد پر بھی تبصرہ ہے جس کا اظہار منافقوں اور کمزور قسم کے مسلمانوں کی طرف سے ہوا تھا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو ان تمام چالوں سے آگاہ کیا گیا ہے جو ان کو زک پہنچانے کے لیے ان کے دشمن چل رہے تھے اور احد کی شکست سے ان کو جو بد دلی ہوئی تھی اس کو نہایت مؤثر انداز میں دور کیا گیا۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو آپ محسوس کریں گے کہ جس طرح سورۃ بقرہ سورۃ بدر ہے ہے اسی طرح یہ سورۃ آل عمران سورۃ احد ہے۔ مزید غور کیجیے تو یہ بات بھی واضح ہوگی کہ بقرہ میں ایمان کی حقیقت واضح کی گئی ہے اور اس سورۃ میں اسلام کی۔ دوسرے الفاظ میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بقرہ میں اللہ کے آخری رسول پر ایمان لانے کی دعوت ہے اور اس سورۃ میں اسلامی نظام اور اللہ کی حکومت میں داخل ہونے کی دعوت ہے۔


ان دونوں سورتوں کے موضوع اور عمود سے متعلق یہ ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے اس سے یہ بات واضح کرنی مقصود ہے کہ بقرہ میں ایمان کا پہلو نمایاں ہے اور اس سورۃ میں اسلام کا۔ اس حقیقت کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے بھی ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نمازوں میں کبھی کبھی ایک رکعت میں بقرہ میں سے آیت ایمان پڑھتے اور دوسری رکعت میں آل عمران میں سے آیت اسلام۔ یہ گویا ایک لطیف اشارہ ہوتا اس بات کی طرف کہ ان دونوں سورتوں میں موضوع اور مقصود کی حیثیت کن مضامین کو حاصل ہے۔ علاوہ ازیں بقرہ کا خاتمہ ایک ایسی آیت پر ہوا ہے جو ایمان کے باب میں ایک نہایت جامع آیت ہے۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ الایۃ اور پھر اس کا خاتمہ کامل اطاعت الٰہی کے مضمون پر ہوا ہے تاکہ ہم پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ ایمان کا لازمی ثمرہ اسلام ہے، جہاں صحیح ایمان موجود ہوگا اس سے لازماً اسلام ظہور میں آئے گا۔ اس طرح بقرہ کے خاتمے کی آیت نے آل عمران کے ساتھ اس کے ربط کو خود واضح کردیا۔ دوسرا پہلو ان دونوں دونوں کے درمیان امتیاز کا یہ ہے کہ سورۃ بقرہ میں زیادہ تر خطاب یہود سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب کی حیثیت سے اصلی مقام انہی کو حاصل تھا۔ نصاری کی حیثیت محض ایک ضمنی فرقے کی تھی۔ چنانچہ قرآن نے بقرہ میں ان سے خطاب کیا بھی ہے تو وہ سرسری نوعیت کا ہے۔ البتہ آل عمران میں ان سے براہ راست خطاب کیا ہے اور بحث کا زیادہ حصہ انہی سے متعلق ہے۔ سورۃ کی تمہید بھی ایک جامع نوعیت کی ہے جو یہود و نصاری دونوں کے لیے موزوں ہے۔ پھر اس سے آگے جو مضمون شروع ہوا ہے وہ تدریجی طور پر نصاری کی تردید میں نمایاں ہوتا گیا ہے۔ چوتھا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ ان دونوں ہی سورتوں میں اہل کتاب کو سخت توبیخ فرمائی ہے لیکن انداز توبیخ دونوں میں الگ الگ ہے۔ بقرہ میں توبیخ براہ راست ہے برعکس اس کے آل عمران میں ان کو براہ راست خطاب کرنے کے بجائے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ان کو یہ یہ تہدیدات پہنچا دو۔ یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت تمام ہوجانے کے بعد یہ لوگ لائق خطاب نہیں رہے۔ اب خطاب کے اہل صرف پیغمبر اور اہل ایمان ہی ہیں ۔

(ج)۔ دونوں سورتوں کی تقدیم و تاخیر کے وجوہ :


ان دونوں سورتوں کے موضوع، ان کے زمانہ نزول کی خصوصیات، ان کے اسلوب بیان کے امتیازات پر ہم نے یہ جو کچھ عرض کیا ہے اس سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مضامین کے اشتراک کے باوجود ان دونوں میں نسبت اس نوعیت کی ہے کہ مصحف میں تقدیم و تاخیر کے لحاظ سے ان کی یہی ترتیب ہونی چاہیے تھی جو ہے۔ یہاں بقرہ کے آل عمران پر مقدم رکھنے کے مندرجہ ذیل وجوہ بالکل واضح ہیں۔ 1۔ ایمان اسلام کی بنیاد ہے۔ جس طرح علم عمل کی بنیاد ہے۔ 2۔ یہود، نصاری سے اقدم ہیں اس وجہ سے ضروری ہوا کہ پہلے یہود پر حجت تمام کی جائے۔ 3 دلائل فطرت سے استدلال، صفات الٰہی سے استدلال کے مقابل میں زیادہ واضح، زیادہ قدیم، زیادہ وسیع ہے اس وجہ سے قرآن نے پہلے اس کو استعمال کیا۔ علی ہذا القیاس حضرت آدم اور حضرت ابراہیم علیہما السلام چونکہ انبیاء متقدمین میں سے ہیں اس وجہ سے یہ مناسب ہوا کہ پہلے ان کے عہد و میثاق کا حوالہ دیا جائے اور اس سے استدلال کیا جائے۔ چنانچہ بقرہ میں ان کے عہد کا حوالہ دیا۔ بعد کی سورۃ میں دوسرے انبیاء کے عہد کا ذکر ہوا۔۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ان لوگوں کا خیال صحیح نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ ترتیب میں سورتوں کی تقدیم و تاخیر صرف ان کی ظہری بڑائی چھوٹائی پر مبنی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا تعلق معافی ومطالب سے ہے۔ معانی کی ترتیب کے لحاظ سے حکمت جس ترتیب کی مقتضی ہوئی ہے وہ ترتیب قرآن میں اختیار فرمائی گئی ہے۔ البتہ اگر کہیں معانی کے اعتبار سے دو سورتیں ایک ہی درجے اور ایک ہی مزاج کی ہوئی ہوں تو ممکن ہے، وہاں مجرد طول وحجم کی بنا پر ایک کو دوسرے پر مقدم کردیا گیا ہو۔ لیکن یہ بات محض قیاس کے حد تک صحیح قرار دی جا سکتی ہے، ورنہ ایسے مواقع میں بھی گمان یہی ہوتا ہے کہ کوئی گہری معنوی حکمت ایک کو دوسرے پر مقدم کرنے کا باعث ہوئی ہوگی اگرچہ وہ حکمت ہماری سمجھ میں نہ آرہی ہو۔

(د)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ


یہ جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے اس کا تعلق سورۃ کے موضوع، اس کے ظاہری نظام اور سابق سورۃ کے ساتھ اس کے تعلق سے ہے۔ اب ہمیں چند باتیں اس کے اندرونی نظام اور اس کے مختلف اجزا کے باہمی ربط و تعلق کے بابت بھی کہنی ہیں۔ اس سورۃ پر جو شخص بھی تامل کی نظر ڈالے گا اس پر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ یہ دو بڑے حصوں میں منقسم ہے اس کے نصف اول میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اثبات اور اہل کتاب خصوصا نصاری کی گمراہیوں کا بیان ہے اور اس کے دوسرے نصف میں مسلمانوں کو اہل کتاب کی ان گمراہ کن چالوں سے خبردار کیا گیا ہے جو وہ ان کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے اختیار کر رہے ہیں یا اختیار کرنے والے ہیں۔ ساتھ ہی ان کو اللہ کی رسی مضبوطی سے تھامے رہنے، اطاعت پر جمے رہنے، جہاد کرنے اور امتحان کے مواقع پر انتشار و اختلاف سے بچنے کی تاکید فرمائی کہ اسی طرح وہ اسلام کی پیروی کا صحیح حق ادا کرسکیں گے اور نرمی و سختی دونوں صورتوں میں اللہ کی اطاعت پر قائم رہ سکیں گے۔ اگر وہ ان باتوں کی خلاف ورزی کریں گے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کا ہوا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی تو چالیس سال تک صحرا ہی میں بھٹکتے رہ گئے۔ اس پہلو سے دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اس کے نصف اول کی حیثیت تمہید کی ہے اور نصف ثانی کی حیثیت مقصود کی۔ اس روشنی میں پوری سورۃ کی تلاوت کیجیے تو آیات کا باہمی نظم سمجھنے میں بڑی آسانی ہوگی اور اس تمہید سے اصلی مقصود یہی ہے۔ رہا آیات کا باہمی نظم اور اس کے معانی کی وضاحت تو یہ چیز اس وقت سامنے آئے گی جب ہم سورۃ بقرہ کی طرح اس کے اجزا کو بھی الگ الگ مجموعوں کی شکل میں کر ان کی تفسیر کریں گے۔ "
(یہ تمہیدی بحث بیشتر استاذ رحمۃ اللہ علیہ {مولانا حمید الدین فراہی } کے افادات سے ماخوذ ہے)

یہ بھی پڑھیں :