5۔ سورہ مائدہ- تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(الف)۔ سورۃ کا عمود

 یہ سورۃ، جیسا کہ مقدمۂ کتاب میں واضح ہوچکا ہے، پہلے گروپ کی آخری سورۃ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے، آخری امت کی حیثیت سے، اپنی آخری اور کامل شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ قائم رہنے اور اس کو قائم کرنے کا عہد و پیمان لیا ہے۔ اس سے پہلے یہ عہد و پیمان اہل کتاب سے لیا گیا تھا لیکن وہ، جیسا کہ پچھلی سورتوں سے واضح ہوا، اس کے اہل ثابت نہ ہوئے اس وجہ سے معزول کیے گئے اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دی اور اس کو اپنی آخری اور مکمل شریعت کا حامل اور امین بنایا۔ اب اس سورۃ (مائدہ) میں عہد و پیمان لیا جا رہا ہے کہ تم پچھلی امتوں کی طرح خدا کی شریعت کے معاملے میں خائن اور غدار نہ بن جانا بلکہ پوری وفاداری اور کامل استواری کے ساتھ اس عہد کو نباہنا، اس پر خود بھی قائم رہنا، دوسروں کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرنا اور اس راہ میں پوری عزیمت و پامردی کے ساتھ تمام آزمائشوں اور تمام خطرات کا مقابلہ کرنا۔

(ب)۔ سورۃ کے مطالب کی نوعیت 


 سورۃ کے موضوع کے تقاضے سے اس میں جو مطالب بیان ہوئے ہیں ان پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی چند باتیں بالکل نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں جو احکام و قوانین بیان ہوئے ہیں وہ دعوت اسلامی کے اس دور سے تعلق رکھنے والے ہیں جب تکمیل دین اور اتمامِ نعمتِ الٰہی کا مرحلہ سامنے آچکا تھا۔ ظاہر ہے کہ عہد و پیمان لینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں احکام یہی ہوسکتے تھے۔ ان پر عہدوپیمان لینے کے معنی یہ ہیں۔ گویا پوری شریعت پر عہدوپیمان ہوگیا۔ دوسری یہ کہ ان احکام میں امتحان و ابتلا کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ پچھلی امتوں کو اس طرح کے جو احکام دیے گئے تھے ان میں انہوں نے ٹھوکریں کھائیں جن کے نتیجے میں وہ خدا کی معتوب و مغضوب ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت پر یہ فضل فرمایا کہ عہدوپیمان لیتے وقت ایسے احکام خاص طور پر سامنے کردیے تاکہ یہ امت پاؤں پھسلنے کے ان مقامات سے اچھی طرح ہوشیار رہے۔ ظاہر ہے کہ جو خطرے کی جگہوں پر اپنے کو سنبھال سکے گا اس سے توقع یہی ہے کہ وہ ہموار جگہوں میں ٹھوکر نہیں کھائے گا۔ تیسری یہ کہ اس میں تفصیل کے ساتھ یہودونصاری کے نقضِ عہد کی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے اور اس کے اسباب و محرکات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ یہ تاریخ اس امت کے لیے سبق آموزی اور عبرت پذیری کا ذریعہ بن سکے۔ چوتھی یہ کہ اس میں انفرادی و اجتماعی زندگی کے ان مخفی گوشوں کی خاص طور پر نشان دہی کی گئی ہے جہاں سے شیطان اور اس کے ایجنٹوں کو در آنے کا موقع ملتا ہے اور پھر وہ فتنے سر اٹھاتے ہیں جو روکے نہ جائیں تو پوری شریعت تاراج ہوکے رہ جاتی ہے۔ پانچویں یہ کہ اس میں وہ اصول و ضوابط پوری طرح واضح کردیے گئے ہیں جن کا اہتمام عہد الٰہی پر قائم و استوار رہنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ پانچ باتیں سامنے رکھ کر جو طالبِ حق تدبر کے ساتھ اس سورۃ کی تلاوت کرے گا وہ اس کے موضوع اور اس کے نظام کے سمجھنے میں انشاء اللہ کوئی الجھن نہیں محسوس کرے گا۔ اگرچہ سورۃ کے نظام کو سمجھنے کے لیے یہ اشارات بھی کافی ہیں تاہم پوری سورۃ کے مضامین کا تجزیہ بھی ہم کیے دیتے ہیں تاکہ تمام مطالب بیک نظر سامنے آجائیں۔

(ج)۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ


(1۔5)۔ اللہ سے باندھے ہوئے ہر عہد کو پورا کرنے کی تاکید۔ اشہر حرم اور تمام شعائر الٰہی کی نگہداشت کی ہدایت یہاں تک کہ حالت احرام میں شکار بھی ناجائز ہے اور دوسروں کی انگیخت بھی اس بات کے لیے عذر نہیں ہوسکتی کہ شعائر الٰہی کی حرمت کو کوئی بٹہ لگے۔ تعاون نیکی اور تقوی کے کاموں میں ہونا چاہیے، نہ کہ گناہ اور حدودِ الٰہی سے تجاوز کے کاموں میں۔ اس امت کے لیے کھانے پینے کی چیزوں میں سے جو چیزیں حرام ہیں ان کی تفصیل و تکمیل اور یہ ہدایت کہ اب تمہیں کسی کی پروا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب تمہارے مخالفین نہ یہ توقع رکھتے کہ ان کے دین اور تمہارے دین میں کوئی مفاہمت ہوسکے گی اور نہ یہ امید وہ کرتے کہ وہ اس دین کو شکست دے سکیں گے۔ اب تمہارا دین کامل ہوگیا اور تم پر اللہ نے اپنی شریعت کی نعمت تمام کردی اب تم بس اسی کی پیروی کرو اور دوسروں سے بے پروا ہوجاؤ۔

تربیت کردہ شکاری جانوروں کے شکار، اہل کتاب کے کھانے اور کتابیہ سے نکاح کے بارے میں حکم اور یہ تنبیہ کہ جو ایمان کے ساتھ کفر کو جمع کریں گے ان کے سارے عمل اکارت جائیں گے۔

(6۔7)۔ نماز کے لیے وضو کا حکم اور عذر و مجبوری کی حالت میں تیمم کی اجازت اور تنبیہ کہ اس حکم اور اس رخصت سے اللہ نے تمہیں پاکیزہ بنانا اور تم پر اپنی شریعت کی نعمت کو کامل کرنا چاہا ہے تو اللہ کے شکر گزار رہنا، اس کے اس انعام کو یاد رکھنا، اور 'سمعنا و اطعنا' کا اقرار کرکے اپنے رب سے جو عہد تم نے باندھا ہے اس پر مضبوطی سے جمے رہنا۔

(8۔11)۔ مسلمانوں کو مخالفوں اور دشمنوں کی شر انگیزیوں کے باوجود حق وعدل پر قائم رہنے کی ہدایت۔ اللہ کا وعدۂ مغفرت انہی کے لیے ہے جو ایمان و عمل صالح پر قائم رہیں گے۔ مسلمانوں کو یہ یاد دہانی کہ دشمن کے ایک گروہ نے تم کو زک پہچانی چاہی تو خدائے اس کو بے بس کردیا تو اللہ ہی سے ڈرو اور اسی پر بھروسہ کرو۔

(12۔13)۔ بنی اسرائیل سے میثاق کا حوالہ کہ اللہ نے ان سے عہد لیا کہ اگر وہ اللہ کی شریعت پر قائم رہیں گے تو اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور اگر وہ اس عہد کو توڑ دیں گے تو گمراہ اور خدا کی معیت سے محروم ہوجائیں گے لیکن انہوں نے اس عہد کو توڑ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان پر لعنت کردی ۔

(14)۔ نصاریٰ کے میثاق کا حوالہ کہ خدا نے ان سے بھی میثاق لیا لیکن وہ اس کا ایک حصہ بھلا بیٹھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر قیامت تک کے لیے عناد و اختلاف کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ آخرت میں بھی اس کی سزا بھگتیں گے۔

(15۔16)۔ اہل کتاب کو دعوت کہ اللہ نے اپنے آخری پیغمبر اور قرآن کے ذریعہ سے جو روشنی تمہیں دکھائی ہے اس کی قدر کرو اور اندھیرے میں بھٹکنے کے بجائے سلامتی کی راہ اور صراط مستقیم کی طرف آؤ۔

(17۔19)۔ نصاریٰ کو ملامت کہ انہوں نے مسیح کو خدا بنا لیا اور یہود و نصاری دونوں کے اس زعم کی تردید کہ وہ خدا کے بیٹے اور چہیتے ہیں، نیز یہ تنبیہ کہ خدا نے اپنا رسول بھیج کر ان پر حجت تمام کردی ہے۔ اب ذمہ داری تمام تر ان کی ہے۔

(20۔26)۔ بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے اس واقعہ کی یاد دہانی کہ خدا نے ان کو اپنے عظیم فضل سے نوازا، ان کو فتح و نصرت وعدے کے ساتھ ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا لیکن انہوں نے بزدلی دکھائی اور اپنے اندر کے وہ اولوالعزم ٓدمیوں کی ہمت افزائی کے باوجود اپنے پیغمبر کے حکم کی تعمیل سے انکار کردیا جس کی سزا ان کو یہ ملی کہ چالیس سال تک صحرا ہی میں بھٹکتے رہ گئے اور ان کو ارض مقدس میں داخل ہونے کی سعادت نہ حاصل ہوئی۔

(27۔31)۔ آدم کے دو بیٹوں کا قصہ جس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک خدا ترس انسان کس طرح دشمن کی انگیخت کے باوجود خدا کے عہد پر قائم رہتا ہے اور ایک شریر انسان کس طرح فاسد جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے بھائی کو قتل کردیتا اور پھر اعتراف گناہ کے بجائے اس کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔

(32)۔ اس امر کا بیان کہ نفس انسانی کی مذکورہ بالا خرابی کے سدباب کے لیے اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون بنایا کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کا بچانے والا سب کا بچانے والا ہے یعنی قتل جماعتی جرم اور حفاظت جان جماعتی ذمہ داری ہے لیکن بنی اسرائیل نے اس قانون کا احترام نہیں کیا بلکہ اپنے رسولوں کی کھلی ہوئی ہدایت و تنبیہا کے باوجود خدا کی زمین میں فساد مچاتے رہے ۔

(33۔34)۔ ان لوگوں کی سزا کا بیان جو جسارت اور ڈھٹائی کے ساتھ خدا کا قانون توڑنے اور ملک میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں ۔

(35۔37)۔ مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کہ حدود الٰہی پر قائم رہو، پابندی شریعت کو حصول قربِ الٰہی کا وسیلہ بناؤ اور اس شریعت کے قیام کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہو۔ خدا کے عذاب یہی چیز نجات دینے والی ہے۔ اس کے سوا کوئی چیز بھی نفع پہنچانے والی ثابت نہیں ہوگی۔

(38۔40)۔ چوری کی سزا قطع ید ہے۔ اس کی بے رو رعایت تنفیذ کرنے کی تاکید اور یہ تنبیہ کہ خدا کے قانون سے بھاگنے والوں کو آخرت میں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔

(41۔45)۔ منافقین اور یہود کی ان چالوں اور شرارتوں کا بیان جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت سے گریز کے لیے کر رہے تھے۔ ان محرکات کی پردہ دری جو ان شرارتوں کے پیچھے تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ آپ ان لوگوں کی شرارتوں سے آزردہ نہ ہوں اور یہ خواہ کچھ کریں، آپ جب بھی ان کے معاملے کا فیصلہ کریں ٹھیک قانونِ عدل کے مطابق کریں۔ یہود کو ملامت کہ یہ ان کی کیسی بدبختی ہے کہ جس کتاب کے وہ شاہد اور امین بنائے گئے اس کے واضح احکام کے مطابق اپنے معاملات کے فیصلے کرانے سے گریز اختیار کر رہے ہیں۔

(46۔47)۔ نصاری کو تنبیہ کہ انہیں بھی یہ حکم ہوا تھا کہ وہ تمام معاملات کے فیصلے انجیل کے مطابق کریں اور جو اس کی خلاف ورزیکریں گے وہ نافرمان اور عہد شکن قرار پائیں گے ۔

(48۔50)۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کہ قرآن تمام اختلافات کے درمیان قولِ فیصل بن کر نازل ہوا ہے۔ اب یہی تمام پچھلے صحیفوں کے لیے کسوٹی ہے۔ اہل کتاب کی بدعات کی کوئی پروا نہ کرو۔ ہر معاملے کا فیصلہ اسی کی روشنی میں کرو۔ اگر یہ اہل کتاب اپنی بدعات چھوڑنا نہیں چاہتے تو تم ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ ان کا فیصلہ قیامت میں ہوگا۔ ہوشیار رہو کہ یہ تمہیں اپنی بدعات و خواہشات کی طرف موڑنے نہ پائیں ۔

(51۔56)۔ مسلمانوں کو تنبیہ کہ یہود و نصاری کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ جو ان کو اپنا دوست بنائے گا اس کا شمار انہی میں ہوگا۔ منافقین کے اس راز کا اظہار کہ یہ ڈرتے ہیں یہودونصاری سے کھلم کھلا بگاڑ کرلیا اور کل کو پلہ انہی کا بھاری رہا تو کیا ہوگا حالانکہ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اسلام کی فتح کے بعد اگر ان کا سارا پول کھول دیا گیا تب کیا ہوگا۔ منافقین کو دھمکی کہ یہ مرتد ہونا چاہتے ہیں تو ہوجائیں، خدا کو کوئی پروا نہیں، خدا اسلام کی حمایت کے لیے ایسے لوگوں کو کھڑا کرے گا جن سے خدا محبت کرے گا اور جو خدا سے محبت کریں گے ۔

(57۔66)۔ منافقین کی بے حمیتی پر ملامت کہ ان یہود کو یہ اپنا دوست بناتے ہیں جو اپنی مجلسوں میں اسلام اور اس کے شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہود کو سرزنش کہ انہیں آخرت میں پتہ چلے گا کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ بدانجام کون ہے۔ یہود کی دھوکہ بازی اور ان کے علماء کی بے حسی و بے غیرتی کی طرف اشارہ۔ یہود کا طنز اللہ تعالیٰ پر اور اس کا جواب۔ یہ اشارہ کہ حسد کے جوش میں یہود برابر جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں گے لیکن خدا ان کی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ اہل کتاب کو ملامت کہ ان کی شامت ہی ہے کہ انہوں نے اسلام کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ اگر وہ اس کو قبول کرتے تو درحقیقت تورات و انجیل کو قائم کرتے اور ان کے لیے دنیا اور آخرت دنوں کی کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے لیکن ان میں عدل پسند تھوڑے نکلے، اکثریت بروں ہی کی ہے۔

(67۔71)۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کہ تم بالکل نڈر ہو کر ان اہل کتاب کو حق پہنچا دو کہ جب تک تم تورات و انجیل اور اس قرآن کو قائم نہ کرو تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ خدا سے نسبت صرف ان کو حاصل ہوگی جو ایمان و عمل سے نسبت پیدا کریں گے۔ یہود کی تاریخ کا حوالہ کہ ان سے میثاق لینے کے بعد اللہ نے اس میثاق کی تجدید کے لیے برابر رسول بھیجے لیکن انہوں نے اپنے اپنی خواہشوں کی پیروی کی۔ رسولوں کے ایک گروہ کی انہوں نے تکذیب کردی اور بعض کو قتل کردیا۔ انہوں نے خدا کی ڈھیل سے یہ گمان کرلیا کہ اب کوئی پکڑ نہیں ہوگی اور برابر اندھے بہرے بنے رہے۔

(72۔77)۔ نصاری کے کفر کا بیان کہ انہوں نے مسیح کی تعلیمات کے بالکل خلاف حلول اور تثلیث کے عقیدے ایجاد کرلیے۔ حضرت مسیح اور ان کی والدہ کے اصل مرتبہ کی وضاحت اور نصاری کو یہ تنبیہ کہ ایک گمراہ قوم کی ایجاد کردہ بدعات کی تقلید میں انہوں نے اپنے کو ہلاکت میں مبتلا کیا۔

(78۔86)۔ بنی اسرائیل پر حضرت داود اور حضرت مسیح کی لعنت کا حوالہ۔ کفر دوستی اور اسلام دشمنی کے جوش میں مشرکین مکہ تک سے ان کی دوستی کی طرف اشارہ۔ اسلام دشمنی میں یہود، مشرکین، قریش اور نصاریٰ کے مزاج کا فرق۔ حق پرست نصاریٰ کی حق پرستی اور اسلام دوستی کی تحسین۔

(87۔105)۔ سورۃ کے شروع میں بیان کردہ احکام حلت و حرمت کے بعض پہلوؤں کی وضاحت اور ان سے متعلق سوالوں کے جواب۔ خدا کی مباح کردہ چیزوں کو اپنے جی سے حرام ٹھہرانے کی ممانعت۔ احترام عہدوپیمان کے پہلو سے قسم کے معاملے میں احتیاط کی تاکید اور ارادی قسموں کا کفارہ۔ شراب، جوا، اور انصاب و ازلام کی قطعی حرمت کا اعلان، شراب اور جوئے کے شرعی اور معاشرتی مفاسد۔ جو لوگ درجہ بدرجہ تحریم و تحلیل کے معاملے میں خدا کے احکام کا احترام کرتے آئے ہیں ان کی پچھلی غلطیوں پر کوئی گرفت نہیں۔ حالت احرام میں شکار کی ممانعت ایک سخت آزمائش ہے۔ اس وجہ سے اس معاملے میں بیدار رہنے کی ہدایت اور اگر غلطی ہوجائے تو اس کے کفارے کی صورت، نیز اس ممانعت میں جس حد تک رخصت ہے اس کا بیان۔ خانہ کعبہ اور اس سے متعلق تمام شعائر کے برابر احترام کرتے رہنے کی تاکید اور یہ تنبیہ کہ رسول کا کام اللہ کی ہدایات کا پہنچا دینا تھا، اس نے پہنچا دیں اب ذمہ داری لوگوں کی اپنی ہے، برائی کی کثرت برائی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی اس وجہ سے دانشمندی اور فلاح کی راہ یہی ہے کہ برائی سے بچا جائے۔ غیر ضروری سوالات کرنے کی ممانعت، اس سے یہود کو جو نقصانات پہنچے ان کی طرف اشارہ۔ تحریم و تحلیل سے متعلق قریش کی بعض بدعات کا حوالہ اور ان کی اندھی تقلید آباء پر سرزنش، مسلمانوں کو ہدایت کہ جو نہیں سنتے ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔

(106۔108)۔ شہادت حق اور عہد و قسم کے تحفظ کے پہلو سے حالتِ سفر کی وصیت اور اس سے متعلق گواہی کا ضابطہ اور اگر اس کے بارے میں کوئی اشتباہ پیش آجائے تو اس کے تدارک کا طریقہ ۔

(109۔120)۔ خاتمہ سورۃ۔ قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں کے باب میں شہادت دیں گے کہ انہوں نے اللہ کی طرف سے لوگوں کو کیا بتایا اور سکھایا اور لوگوں سے کن باتوں کے کرنے اور کن باتوں کے نہ کرنے کا عہد و اقرار لیا تاکہ ہر امت پر حجت قائم ہوسکے کہ جس نے بھی کوئی بدعہدی کی ہے اس کی ذمہ داری تمام تر اسی پر ہے، اللہ کے رسول اس سے بری ہیں۔ اس شہادت کی نوعیت واضح کرنے کے لیے بطور مثال حضرت عیسیٰ کی شہادت کا تفصیلی تذکرہ تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں پر جس شہادتِ حق کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ اس کے بارے میں عنداللہ مسئول ہوں گے اور ان کے واسطہ سے امتوں نے جس قیام بالقسط اور شہادتِ حق کا عہدوپیمان خدا سے باندھا ہے وہ اس کے لیے مسئول ہوں گی اور آخرت کی فلاح اور خدا کی خوشنودی ان کو حاصل ہوگی جو اس عہد کا حق ادا کرنے والے ثابت ہوں گے۔

اس فہرستِ مطالب پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی سورۃ کے تمام اجزاء کا ربط اس کے موضوع سے بالکل واضح نظر آتا ہے۔ "
------------------------------------------------
(حوالہ: تدبر قرآن از امین احسن اصلاحی )