تفسیر اور تذکیر کا فرق

محمد ذکوان ندوی 

ماہنامہ اشراق ، اکتوبر 2018


قرآن مجید سے ذِکر ونصیحت کا فائدہ حاصل کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ مفروضہ ہے کہ — قرآن ایک مشکل کتاب ہے۔ اُس کو سمجھنا عام لوگوں کا کام نہیں۔یہ صرف علما کا مقام ہے کہ وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اُس سے استفادہ کرسکیں۔

اِس قسم کا مفروضہ قرآن کے تذکیری اور تفسیری مطالعے میں فرق نہ کرنے کی بنا پرپیدا ہواہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن سے استفادہ کرنے کی دو سطحیں ہیں: ایک ہے تلاوت براے تذکیر، اور دوسری ہے تلاوت براے تفسیر۔ قرآن میں بار بار ارشادہوا ہے کہ تذکیر کے لیے اُسے پوری طرح موزوں بنا دیا گیا ہے: ’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ‘۔ قرآن کے مطابق، تذکیر کے لیے اصلاً ’تَقْوٰی‘ (الحاقہ ۶۹: ۴۸) اور ’اِنَابَت‘ (غافر۴۰: ۱۳) جیسی داخلی صفات درکار ہیں۔ البتہ تفسیر کے لیے، بلاشبہ یہ ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر مطلوب علمی استعدادپیدا کرے۔

اِس معاملے میں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اِس باب میں خود قرآن مجید کا اپنا بیان کیا ہے؟ قرآن کا مطالعہ واضح طورپر بتاتا ہے کہ یہ مفروضہ بالکل بے اصل ہے۔ قرآن نے متعدد مقام پر باربار اِس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ وہ اپنے اصل مقصد کے بیان واِبلاغ کے اعتبار سے بالکل ایک واضح کتاب ہے۔ وہ بنیادی مقصد یہ ہے کہ خدا ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے اور انسانوں کو ایک دن اپنے ابدی مستقبل (جنت یا جہنم) کا آخری فیصلہ سننے کے لیے اُس کے حضور میں پیش ہونا ہے۔

اِسی کے ساتھ قرآن میں باربار یہ اعلان کیا گیا ہے کہ قرآن نصیحت کے لیے پوری طرح موزوں بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک ہی سورہ میں چار مرتبہ بہ تکرار اِس حقیقت کو دہرا یا گیا ہے: ’وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ، فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ‘ (القمر۵۴: ۱۷، ۲۲، ۳۲، ۴۰)، یعنی ہم نے اِس قرآن کو یاددہانی کے لیے نہایت موزوں بنادیا ہے۔ پھر کیا ہے کوئی یاددہانی حاصل کرنے والا؟ 
اِس کے علاوہ،ایک معمولی فرق کے ساتھ یہی بات قرآن میں مزید دوبار حسب ذیل الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

* ’فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیۡنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا‘ (مریم ۱۹: ۹۷)، یعنی ہم نے اِس قرآن کو تمھاری زبان میں اِسی لیے سہل اور موزوں بنا دیا ہے تاکہ تم اُن لوگوں کو اِس کے ذریعے سے بشارت دو جو خدا سے ڈرنے والے ہیں،اوراِن ہٹ دھرم لوگوں کو اِس کے ذریعے سے خبردار کردو۔ 

* ’فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ‘ (الدخان ۴۴: ۵۸)، یعنی ہم نے اِس قرآن کو تمھاری زبان میں نہایت موزوں بنا دیا ہے تاکہ وہ اِس سے یاددہانی حاصل کریں۔

اِسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ہے: ’وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ. قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ‘ (الزمر ۳۹: ۲۷- ۲۸)، یعنی ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کی تذکیر کے لیے ہر قسم کی تمثیلیں بیان کردی ہیں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔وہ ایک عربی قرآن کی صورت میں ہے جس کے اندر کوئی ٹیڑھ نہیں پائی جاتی۔ 

اِن آیات سے یہ حقیقت پوری طرح مبرہن ہوجاتی ہے کہ تذکیرکے لیے قرآن بالکل واضح اور آسان کتاب ہے ۔اِسی کے ساتھ قرآن میں ہرگزکسی قسم کی کوئی فلسفیانہ پیچیدگی نہیں پائی جاتی۔وہ فصیح و بلیغ زبان، اور ایسے فطری اور دل نشیں اسلوب میں نازل کیا گیا ہے جس سے اُس کا اصل مقصد ہرجگہ کسی ابہام کے بغیر پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے۔ 

قرآن کی زبان وبیان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِ ن آیات میں ’تَیْسِیْر‘ کامطلب معروف معنوں میں صرف کتاب اللہ کا ’’آسان‘‘ ہونا نہیں، بلکہ اِس سے مراد اپنے مقصد کے اِبلاغ کے لیے قرآن کا پوری طرح موزوں ہونا ہے، یعنی قرآن اپنے الفاظ ومعانی اور اپنے اصل پیغام کی ترسیل کے اعتبار سے، پوری طرح انسانی فطرت اور اُس کی نفسیات کے مطابق ہے۔وہ عین اُسی خالق کا کلام ہے جس نے انسان کو پیداکیا ہے۔انسان اور قرآن، دونوں ایک ہی خداے رحمان و رحیم کی رحمتوں کا ظہور ہیں (الرحمن ۵۵:۱-۳)۔ انسان اور قرآن، دونوں ایک دوسرے کا مثنّٰی(العنکبوت ۲۹:۴۹)ہیں۔ دونوں کے درمیان مذکورہ قسم کے کسی فرق کا وجود عقل وفطرت، دونوں اعتبار سے ممکن نہیں۔

عربی مبین اور متعلق علوم پر عالمانہ نظر

قرآن کا مخاطَب چونکہ انسان ہے، اور ظاہر ہے کہ ا نسان ایک مکمل وجود کا نام ہے۔وہ اپنے آپ میں پوری ایک کائنات ہے۔ایسی حالت میںیہ ایک فطری بات ہے کہ قرآن میں اپنے مقصد کی توضیح وتبیین کے ضمن میں دیگرآفاقی اور انفسی حقائق کا تذکرہ بھی موجود ہو۔ ۱؂ اِس لیے ضروری ہوگا کہ تذکیریات کے علاوہ ،جو شخص قرآن کا گہرا علمی مطالعہ کرنا چاہے،وہ انسانی علوم، مثلاً تاریخ،نفسیات اور اجتماعیات جیسے موضوع پر بھی گہری نظر رکھتا ہو۔ اِس طرح اُس کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ قرآن کے’ظاہر‘ کے ساتھ اُس کے ’باطن‘تک پہنچنے کے لیے تدبر قرآن کے علمی تقاضوں کو پورا کرسکے۔

اِس معاملے میں بنیادی چیز قرآن کی زبان وبیان پرعالمانہ نظر ہے۔’’قرآن کا فہم اب اِس زبان (عربی مبین) کے صحیح علم اور اِس کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے، اور اِس میں تدبر اور اِ س کی شرح وتفسیر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اِس زبان کا جید عالم اور اِس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم از کم اُس کی زبان اُس کی راہ میں حائل نہ ہوسکے۔‘ ‘ ۲؂

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اِس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ’أعربوا القرآن‘۳؂ اِسی طرح خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب نے فرمایا: ’تعلّموا العربیۃ، کما تعلّموا حفظَ القرآن‘ (مصنَّف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۹۳۲۹)، یعنی تم عربی مبین کی تعلیم اُسی طرح حاصل کرو، جس طرح تم خود قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہو۔ مذکورہ روایات میں ’إعراب‘ اور ’العربیۃ‘ سے مراد اصلاً اُس عربی مبین کی تعلیم ہے جس میں قرآن نازل ہوا اورجس میں نزول قرآن کے وقت قبیلۂ قریش کے لوگ کلام کرتے تھے۔۴؂

قرآن کی زبان وبیان میں عالمانہ درک حاصل کیے بغیر جو شخص قرآن پر راے زنی کرے، اُس کے بارے میں سخت اندیشہ ہے کہ وہ اِس پیغمبرانہ تہدید کا مصداق قرار پائے: ’من قال في القرآن بغیر علم، فلیتبوأ مقعدہ من النار‘ (ترمذی، رقم ۲۹۵۰)، یعنی علم کے بغیر جو شخص قرآن کے باب میں راے دے، اُسے چاہیے کہ وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے۔ 

قرآن کی زبان وبیان پر، بلاشبہ بہت قابل قدر کام ہوچکا ہے۔ تاہم بعد کے زمانے میں مولانا حمیدالدین فراہی (وفات: ۱۹۳۰) اور اُن کے تلامذہ نے اِس موضوع پر انتہائی اہم اور انقلابی کام کیا ہے۔قرآن کے طلبہ اِس سے بہت کچھ اخذ و استفادہ کرسکتے ہیں۔

قرآن کی عربی معلّٰی کے ذوق کی آب یاری کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کے طلبہ دو بنیادی کام ضرور کریں: ایک ہے تلاوت قرآن کے خصوصی اہتمام اور اُس کے دعوتی اور تذکیری مطالعے کے ساتھ، زبان وبیان کے اعتبار سے قرآن پر مسلسل غوروفکر اور مختلف زاویوں سے اُس کے اسالیب کا گہرا مطالعہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی زبان وبیان کا خود اُس سے بڑااور دوسرا کوئی ماخذ نہیں۔یہ گویا مطالعۂ قرآن کا وہی طریقہ ہوگا جس کو ادبی ریفرینس میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے:
براے پاکی شعرے، شب بہ روز آرد۵؂


یہ اِسی دوسری نوعیت کا گہرا مطالعۂ قرآن تھا جس میں بعض سلف صالحین کے کئی کئی برس صرف ہو جاتے تھے۔ مثلاًچوتھی صدی ہجری کے مشہور عالم اورمحدث ابو العباس بن عطا ء البغدادی کواِسی قسم کے ایک ختم قرآن میں کئی سال گزر گئے: ’وبقي في ختمۃ مفردۃ بضع عشرۃ سنۃ، یتفہم ویتدبر‘۶؂ ۔

مختلف زاویوں سے قرآن مجید پر یہی وہ گہرا تدبر تھاجس میں خلیفۂ ثانی عمر بن الخطاب اور اُن کے بیٹے عبداللہ بن عمر کو محض سورۂ بقرہ کی تکمیل میں کئی برس کا طویل عرصہ گزر گیا تھا۔۷؂ یہی وجہ تھی کہ ’’ختم قرآن‘‘ کے مروجہ طریقوں کے برعکس، اصحاب رسول کے درمیان اِس عمل کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ ایک شخص قرآن کی صرف دو سورتیں (البقرہ، آل عمران) سیکھ لے: ’یقول أنس رضي اللّٰہ عنہ: کان الرجل إذا قرأ البقرۃ و آل عمران، جلّ في أعیننا‘۔۸؂ اصحاب رسول اور سلف صالحین کے حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن کے علم وعمل کے بغیرمجرد تلاوت کا تصور اُن کے درمیان اجنبی تھا۔۹؂

عربی قرآن کے ذوق کی آب یاری کے لیے قرآن کے بعداِس مقصد کے لیے احادیث و آثار کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ خاص طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں، تمثیلات اور اپنے اصحاب کے ساتھ آپ کی گفتگو میں عموماً روایت باللفظ کی بنا پراِس عربی مبین کا بہت بڑا خزانہ جمع ہو گیا ہے۔ قرآن کا ایک طالب علم اگراپنی زندگی میں اِن ماثور دعاؤں کو شعوروذوق کے ساتھ حرزِ جاں بناسکے تو زبان وبیان کے حسن بے پایاں کے ساتھ وہ اُس کے لیے فکر و عمل کی تاریکی سے نکل کر ہدایت ومعرفت کی روشنی حا صل کرنے کا ایک بے مثل ذریعہ ثابت ہوگا۔۱۰؂

عربی قرآن کے ذوق کی آب یاری کے لیے قرآن کے طلبہ کو دوسرا جو کام کرنا چاہیے، وہ مولانا حمید الدین فراہی کی کتابوں، خاص طورپر ’’مفردات القرآن‘‘ اور’’اسالیب القرآن‘‘ (رسائل في علوم القرآن) کا سبقاً سبقاً گہرا مطالعہ ہے۔ اِسی طرح اہل علم کا تجربہ ہے کہ اِس معاملے میں سرسید،شبلی،حالی اورخود فراہی کے استاذ ’’اصمعیِ زمانہ‘‘ مولانا فیض الحسن سہارن پوری (وفات: ۱۸۸۷ء) کی کتب ، خاص طورپر ’ریاض الفیض علی المعلقات السبع‘، وغیرہ کا مطالعہ اُس ادبی ذوق کے لیے صیقل کے ہم معنی ہے جو عربی قرآن کا ذوق آشنا بنانے کے لیے بے حد ضروری ہے۔۱۱؂
آخری بات

آخر میں دوبارہ عرض ہے کہ قرآن کے تذکیری اور تفسیری مطالعے میں فرق انتہائی ضروری ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس معاملے کو اِطلاق کی زبان میں بیان کرکے فہم قرآن کے لیے ’’علوم‘‘ کی تعداد میں غیرضروری اضافہ کرنا عملاً قرآن سے دور کرنے کے ہم معنی ثابت ہوا ہے ۔

یہاں یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اِس قسم کے جن ’’علوم‘‘ کو تذکیر بالقرآن کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے، وہ خود اِ س بات کے محتاج ہیں کہ قرآن کی بارگاہ سے وہ اپنے لیے سند تصدیق حاصل کریں۔ قرآن کی تصدیق کی شرط پر ہی وہ اِس قابل ٹھیریں گے کہ وہ فہم قرآن کے لیے معاون ثابت ہو سکیں۔ 

’’قرآن نصیحت کے لیے ایک آسان ترین کتاب ہے‘‘ — خدا کے اِس مسلسل فرمان کے باوجود مذکورہ قسم کے بے اصل مفروضات کی بنا پر قرآن آج امت کے درمیان ایک مشکل ترین کتاب بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اب عملاً صرف’’ تلاوت براے ثواب‘‘کے مروجہ تصور کا موضوع بن کر رہ گیا ہے، نہ کہ تلاوت براے تدبر کے اصل تصور کا موضوع ۔جلیل القدر تابعی حسن البصری (وفات: ۷۲۸ء) کے الفاظ میں، آج عملاً صورت حال یہ ہے کہ جو قرآن تدبر و عمل کے لیے نازل کیاگیا تھا، لوگوں نے صرف اُس کی تلاوت ہی کو عمل کا درجہ دے دیا ہے۔۱۲؂ تلاوت کا مطلوب — ذِکر ونصیحت، اور اُس کا طریقہ — تدبر و تفکر اب امت کے درمیان تقریباًاجنبی بن چکا ہے، حتیٰ کہ ’حق تلاوت ‘اورتدبر کا یہ مطلوب طریقہ خود قرآن کی دھوم مچانے والے بہت سے لوگوں کے درمیان بھی اتنا ہی اجنبی ہے، جتنا کہ وہ اُس سے بے خبر لوگوں کے درمیان اجنبی بنا ہوا ہے۔

امت مسلمہ کے بگاڑ کا اصل سبب کتاب اللہ سے اِسی فکری اور عملی تعلق کا فقدان ہے۔اب آخری وقت آگیا ہے کہ فہم قرآن کے دوسرے موانع کو دور کرنے کے علاوہ،اُس کے تذکیری اور تفسیری فرق کوواضح کرکے خدا اور اُ س کے بندوں کے درمیان حائل ہونے والی فکری بنیاد وں کو مکمل طورپرڈھا دیا جائے، تاکہ لوگ اللہ کی کتاب سے رہنمائی حاصل کریں اور خدا کا کلام براہ راست اپنے ماننے والوں کی قیادت کرے ۔قرآن دنیا میں صراط مستقیم پر چلنے کے لیے مشعل راہ ہو ، اور آخرت میں وہ اُن کے لیے ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کی ابدی بادشاہی میں داخلے کی بشارت بن سکے۔ 

[۱۰؍ جنوری ۲۰۱۸ء]
________

۱؂ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مناھل العرفان للزرقانيکا باب إعجاز القرآن وما یتعلق بہ، ۲/۲۱۲ ۔
۲؂ میزان، جاوید احمد غامدی ۱۶۔
۳؂ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۴۳۶۶۔
۴؂ الإتقان للسیوطي۳/۴۵۳۔
۵؂ ’’ایک شعر کی تہذیب میں بسا اوقات رات گزر جاتی اور دن نکل آتا ہے۔‘‘
۶؂ سیر أعلام النبلاء۱۴/ ۲۵۶۔ صفۃ الصفوۃ لابن الجوزي۱/ ۵۳۳۔ تاریخ بغداد للبغدادي ۵/ ۲۶۔ 
۷؂ الجامع لأحکام القرآن للقرطبي ۱/ ۴۰۔ الإتقان للسیوطي ۴/ ۱۷۶۔ الطبقات الکبرٰی لابن سعد ۴/ ۱۶۴۔ 
۸؂ مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ ۱۳/ ۳۳۱۔ 
۹؂ مجموع الفتاوٰی لابن تیمیۃ ۱۵/۱۰۸۔ سیر أعلام النبلاء للذھبي۱/ ۴۹۰۔
۱۰؂ اِن دعاؤں کے بہت سے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔اِس کے علاوہ، کتب احادیث کا باب ’’کتاب الدعوات‘‘، خاص طورپر سنن الترمذی کا مذکورہ باب نسبتاً زیادہ وسیع ہے۔ اِس معاملے میں الأذکار (النووی)، جامع صحیح الأذکار(الالبانی) اور الجامع الصحیح للأدعیۃ والأذکار (صہیب عبد الجبار) بہت جامع ہے۔ ۴۶۳ صفحات پر مشتمل یہ آخر الذکر مجموعۂ دعا اور دعا سے متعلق الجامع الصحیح للسنن والمسانید (کتاب العبادات) کی تقریباً تمام صحیح روایات کا بہترین خزانہ ہے۔
۱۱؂ آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم ابن قیم الجوزیہ(وفات:۱۳۱۰ء)کے یہاں بھی اِس اعتبار سے انتہائی بیش قیمت مواد پایا جاتا ہے۔دوسری چیزوں کے علاوہ،فہم قرآن میں معاون اعلیٰ ادبی ذوق کی آب یاری کے لیے اُن کی کتابوں کا مطالعہ بلاشبہ مفید ہوگا۔ خاص طورپر ملاحظہ ہوں اُن کی کتابیں — الأمثال في القرآن، التبیان في أقسام القرآن، التبیان في أیمان القرآن، بدائع الفوائد، البدائع في علوم القرآن اور بدائع التفسیر، وغیرہ۔ آخرالذکر دو کتابیں حسن ترتیب اور عمدہ گیٹ اَپ کے ساتھ یسری السید محمداور صالح احمد الشامی کی تحقیق و تخریج سے چھپ چکی ہیں۔ بدائع التفسیر (مطبوعہ دارابن الجوزی)۳ ضخیم مجلدات (صفحات: ۱۴۳۰) پر مشتمل ایک وسیع موسوعہ (انسائکلو پیڈیا)کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
۱۲؂ نزل القرآن لیُتدبر ویُعمل بہ، فاتخذوا تلاوتہ عملاً (تلبیس إبلیس لابن الجوزي: ۱۰۹؛ اقتضاء العلم والعمل للبغدادي:۷۶)۔