1. قرآن کی سورتوں کا پہلا گروپ
بقرہ ، آل عمران ، نساء، مائدہ
اس گروپ کی پہلی سورۃ بقرہ کا بیشتر حصّہ ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ہے، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کردیا گیا۔ اس کا مرکزی مضمون دعوت ایمان ہے۔اس میں قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس میں اصل خطاب تو یہود سے ہے۔ لیکن ضمناً اس میں جگہ جگہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، مسلمانوں کو، اور بنی اسمعیل کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ یہود کو مخاطب کر کے ان کے ان تمام مزعومات کی تردید کی گئی ہے جن کے سبب سے وہ اپنے آپ کو پیدائشی حقدارِ امامت و سیادت سمجھے بیٹھے تھے اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانا اپنی توہین سمجھتے تھے جو ان کے خاندان سے باہر امی عربوں میں پیدا ہوا ۔
آل عمران اس گروپ کی دوسری سورت ہے ، مفسرین کے نزدیک یہ سن ٩ ہجری میں وفد نجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی ۔ اس کا اس گروپ کے سابق سورۃ بقرہ سے نہایت گہرا ربط ہے۔ ان دونوں کا موضوع ایک ہی ہے۔ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات۔ لوگوں پر عموماً اور اہل کتاب پر خصوصاً۔ دونوں میں یکساں شرح و بسط کے ساتھ دین کی اصولی باتوں پر بحث ہوئی ہے۔ دونوں کا قرآنی نام بھی ایک ہے ہے یعنی ’’ الف لام میم‘‘۔دونوں شکلاً بھی ایک ہی تنے سے پھوٹی ہوئی دو بڑی بڑی شاخوں کی طرح نظر آتی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ان کو شمس و قمر سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں حشر کے دن دو بدلیوں کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔ اہل بصیرت سمجھ سکتے ہیں کہ وصف اور تمثیل میں یہ اشتراک بغیر کسی گہری مناسبت کے نہیں ہوسکتا۔ دونوں مین زوجین کی سی نسبت ہے۔ ایک میں جو بات مجمل بیان ہوئی ہے، دوسری میں اس کی تفصیل بیان ہوگئی ہے۔ اس طرح ایک میں جو خلا رہ گیا ہے، دوسری نے اس کو پر کردیا ہے۔ گویا دونوں مل کر ایک اعلیٰ مقصد کو اس کی مکمل شکل میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہیں ۔ مزید پڑھیں۔۔۔۔
اس گروپ کی تیسری سورہ نساء ہے ۔ یہ متعدد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالباً سن ٣ ہجری کے اواخر سے لے کر سن ٤ ہجری کے اواخر یا سن ٥ ہجری کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔(تفہیم القرآن ،سید ابوالاعلی مودودی ) یہ آل عمران کے بعد اس طرح شروع ہوتی ہے کہ اس کے ابتدائی الفاظ ہی سے نمایاں ہوجاتا ہے کہ یہ آل عمران کا تکملہ و تتمہ ہے۔ آل عمران کی آخری اور نساء کی پہلی آیت پڑھیے تو معلوم ہوگا کہ جس اہم مضمون پر آل عمران ختم ہوئی ہے اسی مضمون سے سورۂ نساء کی تمہید استوار ہوئی ہے۔ گویا آل عمران کی آخری آیت يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ہے، جس میں مسلمانوں کو فوز و فلاح کی راہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ انفردی و اجتماعی حیثیت سے ثابت قدمی دکھائیں، آپس میں جڑے، دشمن کے مقابل میں ڈٹے اور خدا سے ڈرتے رہیں۔ اب اس سورۃ کو دیکھئے تو اسی اتَّقُوا اللّٰهَ کے مضمون سے شروع ہوگئی ہے۔ (یا ایہا الناس اتقوا ربکم) اور آگے آپس میں جڑے رہنے اور مخالفین کے بالمقابل ثابت قدمی کے لیے جو باتیں ضروری ہیں وہ نہایت وضاحت و تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ سابق اور لاحق سورۃ میں ربط کی یہ صورت صرف انہی دو سورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد نہایت لطیف مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ مزید پڑھیں۔۔۔۔۔
اس گروپ کی آخری سورہ مائدہ ہے۔ یہ صلح حدیبیہ کے بعد سن ٦ ہجری کے اواخر یا سن ٧ ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے، آخری امت کی حیثیت سے، اپنی آخری اور کامل شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ قائم رہنے اور اس کو قائم کرنے کا عہد و پیمان لیا ہے۔ اس سے پہلے یہ عہد و پیمان اہل کتاب سے لیا گیا تھا لیکن وہ، جیسا کہ پچھلی سورتوں سے واضح ہوا، اس کے اہل ثابت نہ ہوئے اس وجہ سے معزول کیے گئے اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دی اور اس کو اپنی آخری اور مکمل شریعت کا حامل اور امین بنایا۔ اب اس سورۃ مائدہ میں عہد و پیمان لیا جا رہا ہے کہ تم پچھلی امتوں کی طرح خدا کی شریعت کے معاملے میں خائن اور غدار نہ بن جانا بلکہ پوری وفاداری اور کامل استواری کے ساتھ اس عہد کو نباہنا، اس پر خود بھی قائم رہنا، دوسروں کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرنا اور اس راہ میں پوری عزیمت و پامردی کے ساتھ تمام آزمائشوں اور تمام خطرات کا مقابلہ کرنا۔ مزید پڑھیں۔۔۔۔
2. قرآن کی سورتوں کا دوسرا گروپ
3. قرآن کی سورتوں کا تیسرا گروپ
گروپ کی پندرھویں سورہ، سورہ نور، بظاہر الگ نظر آتی ہے لیکن اس کی حیثیت، سورۃ مومنون کے تکملہ اور تممہ کی ہے۔ سورۃ مومنون میں اہل ایمان کو دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح کی جو بشارت دی گئی ہے وہ اس خاص اخلاق و کردار کے ساتھ مشروط ہے جو ایمان کا لازمی مقتضی ہے۔ سورۃ نور میں اخلاقی کردار کو مزید واضح فرمایا گیا ہے جس سے "خبیثون" اور "خبیثات" کے کافرانہ معاشرے کے مقابل میں "طیبون" اور "طیبات" کا مومنانہ معاشرہ پوری آب و تاب کے ساتھ نگاہوں کے سامنے آگیا ہے اور اس معاشرہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ بھی اس میں نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
اس گروپ کی سورتوں میں سے سورۃ حج کو بعض لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ گروپ کی آخری سورتیں چونکہ ہجرت کے بالکل قریب زمانے کی ہیں اس وجہ سے ان میں کہیں کہیں مدنی دور کی جھلک آگئی ہے۔ لیکن یہ سورتیں اپنے مزاج اور مطالب کے اعتبار سے سب مکی ہیں۔ سورہ حج کی بعض آیتیں مدنی دور سے تعلق رکھنے والی ضرور ہیں لیکن سورۃ بحیثیت مجموعی مکی ہے۔ کسی مکی سورۃ میں مدنی دور کی بعض آیتیں بطور توضیح یا تکمیل آجانے سے پوری سورۃ پر مدنی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسی سورتیں قرآن میں بہت ہیں جن میں مدنی دور کی آیات شامل ہیں لیکن یہ سورتیں اپنے بنیادی مطالب اور اپنے مزاج کے اعتبار سے مکی ہی قرار دی گئی ہیں ۔
اس پورے گروپ پر تدبر سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ گروپ کی تمام سورتوں میں مشترک حقیقت، جو مختلف اسلوبوں اور پہلوؤں سے واضح فرمائی گئی ہے، یہ ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے حق و باطل کے درمیان جو کشمکش برپا ہوچکی ہے وہ بالآخر پیغمبر اور اہل ایمان کی کامیابی و فتح مندی اور قریش کی ذلت و ہزیمت پر منتہی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اس میں قریش کے لیے انذار اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے لیے بشارت ہے۔ قریش پر عقل و فطرت اور آفاق و انفس کے دلائل اور تاریخ و نظام کائنات کے شواہد سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو حق تمہارے پاس آچکا ہے۔ اگر اس کی مخالفت میں تمہاری یہی روش قائم رہی تو بہت جلد وہ وقت آ رہا ہے جب تم اس کا انجام بد اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ دنیا میں تم سے پہلے جن قوموں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ہے جو حشر ان کا ہوا ہے اور جن کے عبرت انگیز آثار تمہارے اپنے ملک میں موجود ہیں، وہی حشر تمہارا بھی ہونا ہے۔
اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو صبر و استقامت اور تقوی کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ جس حق کو لے کر تم اٹھے ہو انجام کار کی کامیابی اور فیروزمندی اسی کا حصہ ہے۔ آفاق و انفس اور تاریخ اقوام و ملل کے دلائل و شواہد سب تمہارے ہی حق میں ہیں۔ البتہ سنت الٰہی یہ ہے کہ حق کو غلبہ اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے آزمائش کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مرحلوں سے لازماً تمہیں بھی گزرنا ہے۔ اگر یہ مرحلے تم نے عزیمت و استقامت کے ساتھ طے کرلیے تو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی تمہارا ہی حصہ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
4۔ قرآن کی سورتوں کا چوتھا گروپ
یہ گروپ سورہ فرقان سے شروع ہو تا ہےسورہ احزاب اس کی آخری سورہ ہے ان میں سےفرقان سے سورہ سجدہ تک آٹھ سورتیں مکی ہیں، آخر میں صرف ایک سورہ ۔۔ احزاب … مدنی ہے۔ سورتوں کے جوڑے جوڑے ہونے کا اصول دیگر گروپوں کی طرح اس میں بھی ہے۔ البتہ سورۃ احزاب کی حیثیت خلاصہ بحث یا سورۃ نور کی طرح تکملہ و تتمہ کی ہے۔ اسلامی دعوت کے تمام ادوار دعوت، ہجرت، جہاد … اور تمام بنیادی مطالب توحید، رسالت، معاد اس میں بھی زیر بحث آئے ہیں البتہ اسلوب بیان اور مواد استدلال دوسرے گروپوں سے اس میں مختلف ہے ۔
اس گروپ کا جامع عمود اثبات رسالت ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی ہونے کے خلاف قریش اور ان کے حلیفوں نے جتنے اعتراضات و شبہات اٹھائے اس گروپ کی مختلف سورتوں میں، مختلف اسلوبوں سے، ان کے جواب دیئے گئے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا اصل مرتبہ و مقام بھی واضح فرمایا گیا ہے۔ اسی کے ضمن میں قرآن پر ایمان لانے والوں کو، مرحلہ امتحان سے گزرنے کے بعد، دنیا اور آخرت دونوں میں، فوز و فلاح کی بشارت دی گی ہے اور جو لوگ اس کی تکذیب پر اڑے رہیں گے۔ اتمام حجت کے بعد، ان کو ان کے انجام سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ مزید پڑھیں۔۔۔۔۔۔
5۔ قرآن کی سورتوں کا پانچواں گروپ
6 ۔ قرآن کی سورتوں کا چھٹا گروپ
7 ۔ قرآن کی سورتوں کا ساتواں گروپ
وہ بچلی کا کڑکا تھا یا صورت ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی