53۔سورۃ النجم : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سے تعلق
یہ سورۃ اس گروپ کی تیسری سورۃ ہے، پچھلی دونوں سورتوں۔ ق اور الذایت میں زندگی بعد موت، حشر و نشر اور جزاء و سزا کے عقلی و انفسی اور آفاتی اور تاریخی دلائل بیان ہوئے ہیں اور انداز بیان عمومیت یعنی جزا اور سزا دونوں کے پہلو لیے ہوئے ہے چنانچہ الذریت میں عمود کی حیثیت، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے (انما توعدون لصادق وان الدین لواقع) (بے شک جس چیز کی تم کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ سچی ہے اور جزاء و سزا واقع ہو کے رہے گی) کو حاصل ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ جزاء و سزا کے دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے، خواہ اس کا تعلق رحمت سے ہو یا عذاب سے، اس سورۃ میں عذاب کے پہلو کو زیادہ نمایاں فرمایا ہے چنانچہ چند تاریخی اور آفاقی شواہد کا حوالہ دینے کے بعد قریش کو نہایت واضح الفاظ میں دھمکی دی ہے کہ (٧۔ ٨) ( بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہو کے رہے گا اور کوئی بھی اس کو دفع کرنے والا نہ بن سکے گا ) یہی دھمکی اس سورۃ میں مقیم علیہ کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور یہی اس سورۃ کا عمود بھی ہے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ اپنے مطالب کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم ہے ۔
(١۔ ١٦) یہ حصہ تمہیدی ہے، پہلے بعض اہم تاریخی و آفاقی حقائق کو شہادت میں پیش کر کے قریش کے متمردین کو دھمکی دی گئی ہے کہ جس عذاب سے تم کو ڈرایا جا رہا ہے اس کے لئے جلدی نہ مچائو، اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو وہ پیش آ کے ر ہے گا اور کوئی بھی اس کو ٹالنے والا نہ بن سکے گا، اس کے بعد چند آیتوں میں اس عذاب کے دن کی تصویر کھینچی گئی ہے اور تکذیب کرنے والوں کا اس دن جو حشر ہوگا بالاجمال اس کا بیان ہے ۔
(١٧۔ ٢٨ ) مکذبین کے بالمقابل متقین پر اللہ تعالیٰ اس دن جو فضل و انعام فرمائے گا اس کا بیان، اس انعام کا خاص پہلو جو یہاں نمایاں فرمایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے آل و اولاد کی دنیا بنانے سے زیادہ ان کی عاقبت سنوارنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی با ایما ن اولاد کو جنت میں ان کے ساتھ جمع کر دے گا، اگرچہ اولاد اپنے اعمال کے اعتبار سے ان کی درجہ کی مستحق نہ ہو۔ اس کی یکجائی کے لیے اونچائی درجے کے مستحقین کے درجہ کی نیچا نہیں کیا جائے گا بلکہ نیچے درجے والوں کا مرتبہ اونچا کردیا جائیگا، اصل نتائج کا انحصار تو آدمی کے اعمال ہی پر ہوگا، اس وجہ سے نہ کسی کے عمل میں کوئی کمی ہوگی اور نہ کوئی ایمان سے محروم شخص جنت میں جا سکے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل کا دروازہ اس کے باایمان بندوں کے لئے کھلا رہے گا ۔
(٢٩۔ ٤٩ ) خاتمہ سورۃ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ تمہاری تکذیب کے لئے کفار جو بہانے بنا رہے ہیں ان کی پروا کیے بغیر اپنا فرض تذکیر ادا کیے جائو تاکہ جن کو راہ راست پر آنا ہو وہ راہ راست پر آجائیں اور جو اپنی گمراہی پر اڑے رہنا چاہیں ان پر حجت تمام ہوجائے۔ اوپر آیت ١٢ میں مخالفین کی جن سخن سازیوں اور تہمت تراشیوں کی طرف اشارہ ہے ان کی تفصیل اور ان کی مسکت جواب۔ متمردین کو تنبیہ کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب ان کی ساری چالیں بے کار ہوجائیں گی اور آخرت کے عذاب سے پہلے وہ اس دنیا میں بھی عذاب سے دو چار ہوں گے۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و استقامت کی تلقین کہ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو اور اطمینان رکھو کہ تم ہر وقت ہماری حفاظت میں ہو۔ صبر و استقامت کے حصول کے لیے نماز بالخصوص شب اور سحرکی نمازوں کے اہتمام کی تاکید ۔