اس سورۃ کا مرکزی مضمون دعوت ایمان ہے۔اس میں نہایت واضح طور پر قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔سورۃ فاتحہ میں ایمان باللہ کا ذکر ہے اور سورۃ بقرہ میں ایمان بالرسالت کا ۔ سورۃ فاتحہ اگرچہ بظاہر ایک نہایت چھوٹی سی سورۃ ہے، لیکن فی الحقیقت وہ ایک نہایت ہی عظیم الشان سورۃ ہے۔ کیونکہ اس کے تنے سے پہلی جو شاخ جو پھوٹی ہے وہی اتنی بڑی ہے کہ ہماری ساری زندگی پر حاوی ہوگئی ہے ۔ پورا قرآن درحقیقت اسی سورۃ فاتحہ کے تخم سے پیدا ہوا ہے اور یہ اسی شجرہ طیبہ کے برگ و بار ہیں جو قرآن کے پورے تیس پاروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس سورۃ میں اصل خطاب تو یہود سے ہے لیکن ضمناً اس میں جگہ جگہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، مسلمانوں کو، اور بنی اسمعیل کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔
یہود کو مخاطب کر کے ان کے ان تمام مزعومات و توہمات کی تردید کی گئی ہے جن کے سبب سے وہ اپنے آپ کو پیدائشی حقدارِ امامت و سیادت سمجھے بیٹھے تھے اور کسی ایسے نبی پر ایمان لانا اپنی توہین سمجھتے تھے جو ان کے خاندان سے باہر امی عربوں میں پیدا ہوا ہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے جگہ جگہ آپ کو صبر و استقامت کی نصیحت کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جو دعا کی تھی آپ اس دعا کے مظہر ہیں۔ مخالفین کی تمام حاسدانہ سرگرمیوں کے علی الرغم آپ کی دعوت کامیاب ہوکے رہے گی اور اللہ تعالیٰ آپ کے دین کو غالب کرے گا۔ مسلمانوں سے خطاب کر کے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلق پر اپنے دین کی حجت تمام کرنے کے لیے ان کو ایک مستقل امت کی حیثیت سے مامور کیا ہے اور اپنی آخری شریعت کا ان کو امین بنایا ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اس امانت کی قدر کریں اور اس کے حامل بنیں تاکہ وہ خلق کے رہنما اور اپنے بعد والوں کے لیے نمونہ اور مثال بن سکیں۔ اسی ضمن میں ان کو جگہ جگہ یہود کی ان حاسدانہ سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے، ان کو ورغلانے اور ان کو آخری بعثت کی نعمتوں سے محروم کرنے کے لیے ان کی طرف سے ظاہر ہو رہی تھیں۔ بنی اسماعیل کو مخاطب کر کے ان کے سامنے اصل دینِ ابراہیمی ان تمام بدعتوں اور خرابیوں سے پاک کر کے پیش کیا گیا ہے جو مشرکین اور یہود نے اس میں پیدا کردی تھیں اور ساتھ ہی ان پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنا آخری نبی تمہارے اندر سے اٹھایا، اور تمہیں ایک امت مسلمہ بنانا چاہا، تم اس احسان کی قدر کرو اور یہودیوں کی حاسدانہ چالوں کے چکر میں نہ پھنسو۔ ورنہ تم پرائے شگون پر خود اپنی ناک کٹوا بیٹھو گے ۔
(تدبر قرآن ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ )