67۔ سورۃ الملک کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ


67۔ سورۃ الملک کا تعارف   اور مطالب کا تجزیہ
 ا۔ سورتوں کے ساتویں گروپ پر ایک اجمالی نظر
سورۂ ملک سے سورتوں کا ساتواں یعنی آخری گروپ شروع ہو رہا ہے۔ اس گروپ میں بھی سورتوں کی ترتیب اسی طرح ہے جس طرح پچھلے گروپوں میں آپ نے دیکھی پہلے مکی سورتیں ہیں آخر میں چند سورتیں مدنی ہیں اور یہ مدنی سورتیں مکی سورتوں کے ساتھ اسی طرح مربوط ہیں جس طرح فرع اپنی اصل سے مربوط ہوتی ہے۔ اس گروپ کی چند سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف ہے اس وجہ سے یہاں یہ بتانا مشکل ہے کہ کہاں سے کہاں تک اس کی سورتیں مکی ہیں اور کہاں سے کہاں تک مدنی۔ جب تمام مختلف فیہ سورتوں پر بحث ہو کر بات منفح ہوجائے گی تب ہی یہ قطعی فیصلہ ہو سکے گا کہ کتنی مکی ہیں اور کتنی مدنی تاہم میری اجمالی رائے یہ ہے کہ سورۂ ملک سے سورۂ کافرون تک ٤٣ سورتیں مکی ہیں اور سورۂ نصر سے سورۂ ناس تک پانچ سورتیں مدنی ۔
اس گروپ میں بھی دوسرے گروپوں کی طرح قرآنی دعوت کے تمام اساسات توحید، رسالت اور معاد زیر بحث آئی ہیں اور دعوت کے تمام مراحل کی جھلک بھی اس میں موجود ہے۔ لیکن اس پورے گروپ کا اصل مضمون انذارہے۔ اس کی بیشتر سورتیں مکی زندگی کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں انذار  کا انداز وہی ہے جس انداز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر چڑھ کر انذار  فرمایا تھا۔ اس انذار کے تقاضے سے اس میں قیامت اور احوال قیامت کی بھی پوری تصویر ہے اور اس عذاب کو بھی گویا قریش کی نگاہوں کے سامنے کھڑا کردیا گیا ہے جو رسول کی تکذیب کر دینے والوں پر لازماً آیا کرتا ہے۔ استدلال میں بیشتر آفاق کے مشاہدات، تاریخ کے مسلمات اور انفس کی بینات سے کام لیا گیا ہے اور کلام کے زور کا بالکل وہی حال ہے جس کی تصویر مولانا حالی (رح) نے اپنے اس شعر میں کھینچی ہے۔ ع
                     ۔۔۔وہ بجلی کا کڑکا  تھا یا صوت ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی۔۔۔۔
ان سورتوں نے سارے عرب میں ایسی ہلچل برپا کر دی کہ ایک شخص بھی قرآن کی دعوت کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں رہ گیا بلکہ وہ یا تو اس کا جانی دشمن بن کر اٹھ کھڑا ہوا یا سچا فدائی اور ان دونوں کی کشمکش کا نتیجہ بالآخر اس غلبہ حق کی شکل میں نمودار ہوا جس کا ذکر ہر گروپ کی آخری سورتوں میں ہوا ہے اور اس کے آخر میں بھی آئے گا۔ ساتویں گروپ کی تفسیر کا آغاز کرتے ہوئے میں سورۂ حجر کی آیت ٨٧ (ولقد اتینک سبعا من المثانی والقرآن العظیم) کا پھر حوالہ دیتا ہوں جس کا ذکر میں نے مقدمہ کتاب میں، ساتوں گروپوں کے تعارف کے بعد، اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے کیا ہے کہ یہ تقسیم ازروئے قرآن منصوص ہے۔ پھر سورۂ حجر کی تفسیر میں آیت کی وضاحت کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں میں نے دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن نے کسی خاص سورۃ کو سبع مثانی نہیں کہا ہے بلکہ ( کتابا متشابھا مثانی ) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ پورا قرآن سبع مثانی ہے ۔
دوسری یہ کہ مثانی کسی بار بار دہرائی ہوئی چیز کو نہیں بلکہ اس چیز کو کہتے ہیں جو جوڑا جوڑا ہو۔ تیسری یہ کہ قرآن کی سورتوں کی ترتیب سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ یہ سات گروپوں میں تقسیم ہیں اور ہر سورۃ اپنے ساتھ اپنا ایک جوڑا بھی رکھتی ہے جس کی طرف میں برابر اشارہ کرتا آ رہا ہوں۔ یہاں اس بات کی یاددہانی سے مقصود یہ ہے کہ قرآن کے آخری گروپ میں پہنچنے کے بعد آپ بہتر طریقہ سے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہ رائے کچھ وزن رکھتی ہے یا نہیں اور قرآن کی اس ترتیب کے سامنے آنے سے فکر و نظر کے نئے دروازے کھلتے ہیں یا نہیں ؟
میرے نزدیک قرآن کی اسی حقیقت کی طرف وہ حدیث بھی اشارہ کر رہی ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ (انزل القرآن علی سبعۃ احرف) (قرآن سات حرنوں پر اتارا گیا ہے) سات حرفوں کے معنی اگر یہ لیے جائیں کہ قرآن کے تمام الفاظ سات طریقوں پر پڑھے جا سکتے ہیں تو یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ اس صورت میں قرآن ایک معمہ بن کے رہ جائے گا درآنحالیکہ قرآن خود اپنے بیان کے مطابق کتاب مبین ہے اور قریش کی ٹکسالی زبان میں نازل ہوا ہے۔ جو لوگ قرأتوں کے اختلاف کو بڑی اہمیت دیتے ہیں وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ قرآن کے کسی لفظ کی قرأت سات طریقے پر کی گئی ہو۔ ابن جریر (رح) قرأتوں کے اختلاف نقل کرنے میں بڑے فیاض ہیں لیکن مجھے یاد نہیں کہ کسی لفظ کی انہوں نے دو تین سے زیادہ قرأتیں نقل کی ہیں ۔
غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ قرأتوں کا اختلاف دراصل قرأتوں کا اختلاف نہیں بلکہ بیشتر تاویل کا اختلاف ہے۔ کسی صاحب تاویل نے ایک لفظ کی تاویل کسی دوسرے لفظ سے کی اور اس کو قرأت کا اختلاف سمجھ لیا گیا حالانکہ وہ قرأت کا اختلاف نہیں بلکہ تاویل کا اختلاف ہے ابھی سورۂ تحریم کی تفسیر میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ بعض لوگوں نے ( فقد صغت ) کو ( فقد زاغت) بھی پڑھا ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی یہ پڑھا ہے اس نے یہ قرأت نہیں بتائی ہے بلکہ اپنے نزدیک اس نے ( فقد صغت ) کے معنی بتائے ہیں جس کی غلطی، کلام عرب کے دلائل کی روشنی میں، اچھی طرح ہم واضح کرچکے ہیں ۔
        پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ اگر قرأتوں کا اختلاف ہے بھی تو متواتر قرأت کا درجہ تو صرف اس قرأت کو حاصل ہے جس پر مصحف، جو تمام امت کے ہاتھوں  میں ہے، ضبط ہوا ہے۔ اس قرأت کے سوا دوسری قرائتیں ظاہرہے کہ غور متواتر اور شاذ کے درجہ میں ہوں گے جن کو متواتر قرأت کی موجودگی میں کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ چنانچہ میں نے اس تفسیر میں اختلاف قرأت سے مطلق تعرض نہیں کیا بلکہ صرف مصحف کی قرأت کو اختیار کیا ہے اور مجھے تاویل میں کہیں تکلف نہیں کرنا پڑا بلکہ ہر جگہ نہایت صاف دل نشین، سیاق و سباق اور نظائر قرآن سے قرین تاویل سامنے آگئی ہے جو اصل مطلوب و مقصود ہے۔ قرائتوں کے اختلاف میں پڑنے کے معنی تو یہ ہیں کہ آپ ان الجھنوں میں پڑنے کے خود خواہاں ہیں جن سے سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان (رض) نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امت کو محفوظ کرنے کی کوشش فرمائی ۔
بہر حال اس حدیث میں سبعۃ احرف سے سات قرأتیں مراد لینے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے البتہ اگر حرف کو عبارت، بیان اور اسلوب کے معنی میں لیں، جس کی زبان اور لغت کے اعتبار سے پوری گنجائش ہے، تو اس کی تاویل یہ ہوگی کہ قرآن سات اسلوبوں یا عبارتوں میں نازل ہوا ہے اور اس سے اشارہ انہی سات گروپوں کی طرف ہوگا جو قرآن میں ہر تلاوت کرنے والے کو نظر آتے ہیں ۔
ان گروپوں کی نوعیت، جیسا کہ ہم وضاحت کرچکے ہیں، یہ ہے کہ ہر گروپ میں ایک جامع عمود کے تحت قرآنی دعوت کے تمام بنیادی مطالب مختلف اسلوبوں سے اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ ہر بات بار بار سامنے آنے کے باوجود پڑھنے والا ان سے کبھی تکان محسوس نہیں کرتا بلکہ طرز بیان اور نہج استدلال کے تنوع، پیش و عقب کی تبدیلی، اطراف و جوانب کے فرق اور لواحق و تضمنات کی گوناگونی کے سبب سے ہر بار وہ ایک نیا لطف و حظ حاصل کرتا ہے۔ قرآن کی اسی خصوصیت کا ذکر بعض حدیثوں میں یوں آیا ہے کہ اہل علم اس سے کبھی آسودہ نہیں ہوتے اور اس کی تازگی پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ یہی ساتوں گروپ مل کر قرآن عظیم کی شکل اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ حجر کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں ہم نے واضح کیا ہے کہ (والقرآن العظیم) میں تفسیر کی ہے ۔

ب۔ سورۃ کا عمود
اس سورۃ کا عمود انذار  ہے اور اس انذار میں  دونوں ہی عذاب شامل ہیں۔ وہ عذاب بھی جس سے رسولوں کے مکذبین کو لازماً اس دنیا میں سابقہ پیش آیا ہے اور وہ عذاب بھی جس سے آخرت میں دو چار ہونا پڑے گا۔ استدلال اس میں آفاق کی نشانیوں سے ہے۔ یعنی اس میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کے مشاہدہ سے اس کے خالق کی جو صفات سامنے آتی ہیں وہ اس بات کو مستلزم ہیں کہ یہ دنیا ایک دن اپنی انتہاء کو پہنچے گی۔ جن لوگوں نے اس کے اندر بالکل اندھے بہرے بن کر زندگی گزاری وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے اور جنہوں نے اپنی عقل و فہم سے کام لیا اور غیب میں ہوتے خدا سے ڈرتے رہے اور اجر عظیم کے مستحق ٹھہریں گے ۔
ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
(١۔ ٥)۔ اس کائنات کے مشاہدے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس کے ہاتھ میں اس کی باگ ہے وہ بڑی ہی بابرکت اور بے نہایت قدرت والی ہستی ہے۔ اس نے موت اور زندگی کا یہ کارخانہ عبث نہیں بنالیا ہے۔ جو اسی طرح چلتا رہے یا یوں ہی ختم ہوجائے بلکہ لوگوں کے امتحان کے لیے بنایا ہے کہ کون اس میں نیکی کی زندگی اختیار کرتا ہے، کون بدی کی ؟ اس امتحان کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک جزاء و سزا کا دن آئے جس میں نیکو کار اپنی نیکیوں کا صلہ پائیں اور بد کار اپنی بدیوں کی سزا بھگتیں۔ اس کائنات کے خالق کی عظیم برکت و قدرت کے مشاہدے کے لیے ان آسمانوں پر ایک نظر ڈالو اور غور سے مشاہدہ کرو، کیا اس عظیم و نا پیدا کنار چھت میں تم کہیں کسی معمولی خلل کی بھی نشان دہی کرسکتے ہو ؟ بار بار نگاہ دوڑانے کے بعد بھی تم اس میں کوئی نقص نہ پا سکو گے۔ پھر تم اپنے آسمان زیریں کو دیکھو اس کو خالق نے ستاروں کے قمقوں سے کیسا سجایا ہے جن سے تمہیں رہنمائی بھی ملتی ہے اور شیاطین پر ان سے سنگ باری بھی ہوتی ہے ۔
(٦۔ ١١) اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت و ربوبیت اس بات کی دلیل ہے کہ جو جزا و سزا کو جھٹلائیں گے ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ ان کو دیکھ کر جہنم بھوکے شیر کی طرح دھاڑے گی۔ جب جب ان کی کوئی بھیڑ جہنم میں جھونکی جائے گی اس کے داروغے ان کو ملامت کریں گے کہ بدبختو ! کیا اس روز بد سے تمہیں کوئی خبردار کرنے نہیں آیا ؟ وہ اعتراض کریں گے کہ ایک نذیر آیا تو سہی لیکن ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ خدا نے کوئی چیز نہیں اتاری ہے ؟ جو لوگ اس کے مدعی ہیں وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ وہ اعتراف بھی کریں گے کہ ہم نے سننے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ اس انجام سے دو چار نہ ہوتے۔
(١٣۔ ١٤) ان لوگوں کے صلہ کا بیان جو اس دنیا میں اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے۔ ان کو یہ اطمینان دہانی کہ ان کی ہر نیکی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور وہ ہر نیکی کا صلہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ خالق بھی ہے اور لطیف و خیبر بھی، اس سے کوئی چیز بھی محض نہیں رہے گی ۔
(١٥۔ ١٦) اس زمین کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے نہایت مطیع و فرمانبردار بنایا ہے۔ یہ اپنے وجود سے انسان کو یہ رہنمائی دے رہی ہے کہ وہ اس میں چلے پھرے۔ اس کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو لیکن اس بات کو یاد رکھے کہ یہ سامان پرورش مقتضی ہے کہ ایک دن اس کو اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ ہر نعمت کے متعلق مسئول ہوگا۔ انسان کو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے رب کی پکڑ سے نچنت نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہروقت یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اس کے اوپر سے یا نیچے سے کوئی آفت ارضی و سماوی بھیج کر اس کو تباہ کر دے۔ تاریخ میں اس کی کتنی عبرت انگیز مثالیں موجود ہیں ۔
(١٩۔ ٢١ )۔ یہ تنبیہ کہ جو چیز بھی اس فضائے لا متناہی میں ٹکی ہوئی ہے خدا کے تھامے ٹکی ہوئی ہے۔ وہ ہی ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔ اگر اس کے سہارے سے محروم ہو جائو تو کوئی بھی نہیں ہے جو تمہاری مدد کرسکے اگر وہ اپنے رزق سے محروم کردے تو کوئی بھی نہیں ہے جو رزق دینے والا بن سکے ۔
(٢٢۔ ٢٣ )۔ جو لوگ اپنی خواہشوں کے غلام بن کر زندگی گزاریں گے وہ منزل پر پہنچنے والے نہیں بنیں گے، منزل پر وہی پہنچیں گے جو سیدھی راہ اختیار کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سمع و بصر اور عقل و دل کی صلاحیتیں اسی لیے دی ہیں کہ لوگ سیدھی راہ اختیار کریں، لیکن ان نعمتوں کی قدر کرنے والے بہت تھوڑے ہیں ۔
(٢٤۔ ٢٧ )۔ اللہ ہی نے اس زمین میں انسان کو پھیلایا اور وہ اس کو ایک دن ضرور اکٹھا کرے گا۔ رہا یہ سوال کہ یہ دن کب آئے گا تو اس کا جواب ان کو یہ دے دو کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ میں اس سے آگاہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔اس کا وقت بتانے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہوں۔ البتہ جب وہ دن ظاہر ہوگا تو ان سب کے چہرے اس دن بگڑ جائیں گے جو آج اکڑ رہے ہیں ۔

(٢٩۔ ٣٠) اگر یہ لوگ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے گردش روزگار کے منتظر ہیں تو ان سے کہو کہ بالفرض ہمارے ساتھ وہی معاملہ ہوا جو تم سمجھ رہے ہو تو اس میں تمہارے لیے کیا اطمینان کا پہلو ہے ؟ کافروں کو تو بہر حال اس عذاب سے دو چار ہونا ہے جس کی انہیں خبر دی جا رہی ہے ۔"