68۔ سورۃ القلم کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ


68۔  سورۃ القلم کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
ا۔ سورۃ کا عمود، سابق سورۃ سے تعلق اور مطالب کا تجزیہ
یہ سورۃ سابق سورۃ۔۔ الملک۔۔ کا مثنیٰ ہے اس وجہ سے دونوں کے عمود اور موضوع میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ صرف طرز بیان، نہج استدلال اور لب و لہجہ میں فرق ہے۔ جس طرح سابق سورۃ میں قریش کو عذاب اور قیامت سے ڈرایا گیا ہے اسی طرح اس سورۃ میں بھی ان کو عذاب و قیامت سے ڈرایا گیا ہے لیکن اس سورۃ کا لب و لہجہ سابق سورۃ کے مقابل میں تیز ہے۔ سابق سورۃ کے آخر میں قریش کو مخاطب کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ ( ان اھلکنی اللہ ومن معی اور حمنا فمن یجیر الکفرین من عذاب الیم) کہ اس خبط میں نہ رہو کہ میں کوئی شاعر اور دیوانہ ہوں جس کو گردش روزگار بہت جلد فنا کر دے گی۔ تمہاری یہ توقع بالفرض پوری بھی ہوجائے جب بھی تمہارے لیے اس میں اطمینان کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ تمہیں خدا کے عذاب سے بچانے والا کون بنے گا ؟ اس سورۃ میں اسی مضمون کی تائید میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت آپ کی پیش کردہ کتاب اور آپ کے اعلیٰ کردار کا موازنہ قریش کی فاسقانہ قیادت کے کردار سے کر کے یہ دکھایا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب موافق و مخالف دونوں پر واضح ہوجائے گا کہ کن کی باگ فتنہ میں پڑے ہوئے لیڈروں کے ہاتھ میں ہے جو ان کو تباہی کی راہ پر لے جا رہے ہیں اور کون لوگ ہدایت کی راہ پر ہیں اور وہ فلاح پانے والے بنیں گے ۔
اس کے بعد باغ والوں کی تمثیل کے ذریعہ سے قریش کو متنبہ فرمایا ہے کہ آج جو امن و اطمینا ن تمہیں حاصل ہے اس سے اس دھوکے میں نہ رہو کہ اب تمہارے اس عیش میں کوئی رخنہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔ جس خدا نے تمہیں یہ سب کچھ بخشا ہے اس کے اختیار میں اس کو چھین بھی ہے۔ اگر تم اس سے نچنت ہو بیٹھے ہو تو یادر رکھو کہ وہ چشم زون میں تم کو اس سے محروم بھی کرسکتا ہے۔ پھر تم کف افسوس ملتے ہی رہ جائو گے ۔
آخر میں مکذبین قیامت کی اس فاسد ذہنیت پر صرف لگائی ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کو جو عیش و آرام انہیں یہاں حاصل ہے کہ اگر آخرت ہوئی تو وہاں بھی انہیں یہی کچھ بلکہ اس سے بڑھ کر حاصل ہوگا۔ ان سے سوال کیا ہے کہ آخر انہوں نے خدا کو اتنا نا منصف کس طرح سمجھ رکھا ہے کہ وہ نیکوں اور بدوں میں کوئی امتیاز نہیں کرے گا ؟ ساتھ ہی ان کو چیلنج کیا ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس طرح کا کوئی عہد کر ا لیا ہے یا کوئی ان کے لیے اس کا ضامن بنا ہے تو اس کو پیش کریں۔ اسی ضمن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آج جو سخن سازیاں یہ لوگ کر رہے ہیں اس کا غم نہ کرو، جب قیامت کی ہلچل برپا ہوگی تب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جو خواب وہ دیکھتے رہے تھے وہ حقیقت سے کتنے دور تھے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے استدراج کے پھندے میں پھنس چکے ہیں اور اس کی تدبیر نہایت محکم ہوتی ہے۔ اس سے بچ نکلنے کا ان کے لیے کوئی امکان نہیں ہے تو صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو اور اس طرح کی عجلت سے بچو جس میں یونس (علیہ السلام) مبتلا ہوئے اور جس کے سبب سے ان کو ایک امتحان سے دو چار ہونا پڑا ۔"