شاہ ولی اللہ ؒ کے تفسیری مآخذ ، ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

شاہ ولی اللہ ؒ کے تفسیری مآخذ 
ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(۱۱۱۴ھ۔۱۱۷۶ھ) نے اسلامی علوم کے تمام میدانوں میں خامہ فرسائی کی ہے۔ تفسیر و اصول تفسیر ، حدیث وعلوم حدیث، فقہ واصول فقہ، تصوف و سلوک، اصولِ دین و اسرارِ شریعت، عقائد وکلام، سیرت وتاریخ اور ادب، ہر فن میں ان کی متعدد تصانیف ہیں، جو اہلِ علم کا مرجع بنی ہوئی ہیں۔شاہ صاحب کی علمی خدمات کا ایک اہم میدان تفسیر و علوم قرآن کا ہے۔ ۱؎  اس فن میں انھوں نے بیش قیمت تصانیف چھوڑی ہیںجو درج ذیل ہیں:
۱۔الفوزالکبیر فی اصول التفسیر: یہ شاہ صاحب کی مقبول تصانیف میں سے ہے۔ اس کی تالیف انھوں نے فارسی زبان میں کی تھی۔ اس کے اردو، عربی اور انگریزی تراجم معروف اور متداول ہیں۔ اس میں اصولِ تفسیر کے اہم مباحث کو بہت اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔
۲۔ فتح الخبیر بمالابدّمن حفظہ فی علم التفسیر : یہ رسالہ عربی زبان میں ہے۔ اس میں قرآن کریم کے مشکل الفاظ کی تشریح اور آیات کے اسبابِ نزول کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ اصلاً الفوز الکبیر کا پانچواں اور آخری باب ہے، جسے خود مصنف نے ایک مستقل رسالہ بنادیاہے۔ چنانچہ اس کی اشاعت دونوں انداز سے (الفوز الکبیر کے ساتھ بھی اور الگ سے بھی ) ہوتی رہی ہے۔
۳۔ تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیائ: اس کتاب میں قرآن میں مذکور انبیاء کرام کے واقعات اور معجزات کی توجیہ و تاویل کی گئی ہے، ان کی حکمت و معنویت بیان کی گئی ہے اور ان کے اصول و ضوابط کی تفہیم کرائی گئی ہے۔ یہ کتاب عربی زبان میں ہے، البتہ اردو اور انگریزی میں اس کا ترجمہ ہوگیاہے۔
۴۔ المقدمۃ فی قوانین الترجمۃ: یہ مختصر رسالہ فارسی زبان میں ہے۔ اس میں ترجمۂ قرآن کے پس منظر میں ترجمہ کے فن ، نوعیت ،قواعد اور مشکلات پر گفتگو کی گئی ہے۔
۵۔فتح الرحمن بترجمۃ القرآن: یہ فارسی زبان میں قرآن کریم کا بہت آسان، عام فہم اور سلیس ترجمہ ہے۔شاہ صاحب نے یہ خدمت مبتدین اور عوام میں قرآن فہمی کا رجحان عام کرنے کے لیے انجام دی تھی۔ یہ متعدد مرتبہ شائع ہوا ہے اور اس کے بہت سے قلمی نسخے بھی پائے جاتے ہیں۔
شاہ صاحب کی قرآنی تصانیف میں ایک تصنیف ’زہراوین‘کا نام ملتا ہے، جو سورۂ بقرہ وسورۂ آل عمران کے ترجمے و تفسیر پر مشتمل تھی، لیکن اس کا کوئی نسخہ اب تک دستیاب نہیں ہوا ہے۔ اس بنا پر یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نے اپنے سفر حج (۱۱۴۳ھ) سے واپسی کے بعد فتح الرحمن کے نام سے ترجمۂ قرآن کاکام شروع کیا تو زہراوین کے نام سے سورۂ بقرہ وسورۂ آل عمران کا اپنا کیا ہوا ترجمہ اس میں تحلیل کردیا۔
۶۔ حواشی فتح الرحمن : شاہ صاحب نے قرآن کا ترجمہ کرتے وقت جن امور کی تشریح و توضیح ضروری سمجھی انھیں ان حواشی میں تحریر کردیا ہے۔ انھوں نے بیش ترمقامات پر انتہائی اختصار سے کام لیا ہے اور محض ایک دو الفاظ میں وضاحت کردی ہے، کہیں کہیں قدرے تفصیلی بحث بھی کی ہے۔ ان میں اسبابِ نزول، ربطِ آیات، ناسخ و منسوخ، فقہی احکام، تمثیلات اور دیگر قرآنی موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ ان سے شاہ صاحب کی قرآن فہمی کا ثبوت فراہم ہوتا ہے اور ان کے تفسیری رجحانات کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ فتح الرحمن کے مطبوعہ نسخوں پر جو حواشی ہیں وہ عموماً فارسی زبان میں ہیں، جب کہ بعض قلمی نسخوں پر درج حواشی کی زبان عربی ہے۔ یہ حواشی ترجمۂ قرآن کے نسخوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ انھیں جمع کرکے ایک رسالہ کی شکل بھی دی گئی ہے۔۲؎
مآخذ
تفسیر و علوم قرآنی کی امہات الکتب پر شاہ ولی اللہ کی گہری اور وسیع نظر تھی۔ انھوں نے نصاب ِدرس میں جن کتبِ تفسیر کو پڑھا تھا، ان کے علاوہ بھی بہت سی متداول عربی اور فارسی تفاسیر کا مطالعہ کیا اور اپنی تصانیف میں ان سے استشہاد کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں جا بہ جا اس طرح کے جملے ملتے ہیں: فی التفاسیر، کذا فی التفاسیر، کما قال المفسرون فی مواضع، کماصرح المفسرون فی مواضع کثیرۃ، جمہور مفسرین گویند، جمہور مفسران مراد داشتند وغیرہ ۳؎۔ متعدد مواقع پر وہ دیگر مفسرین سے اختلاف کرتے ہیں اور آیات کی منفرد توجیہ پیش کرتے ہیں۔ ایسے مقامات پر ان کی مجتہدانہ بصیرت اور نکتہ سنجی کا اظہار ہوتا ہے۔ بعض محققین نے ان کے ترجمہ و حواشی فتح الرحمن کا تنقیدی مطالعہ کیا ہے اور دیگر مفسرین اور شاہ ولی اللہ کی آراء کا موازنہ کرکے شاہ صاحب کی توجیہات کے انفرادی و امتیازی پہلو ؤ ں کو نمایاں کیا ہے۔۴  ؎
شاہ صاحب نے بہت سے مقامات پر اپنے مآخذ کی صراحت کی ہے۔ آئندہ سطور میں ان کا تعارف و تذکرہ کیاجارہاہے۔
قرآن مجید
شاہ ولی اللہ ؒ کی تمام تحریروں اور خاص طور پر تفسیر و علوم قرآنی میں ان کی تصانیف کا اولین ماخذ قرآن مجید ہے۔ وہ اپنے مباحث میں قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں اور بہ طور ثبوت و تائید اس کی آیات پیش کرتے ہیں۔ حجۃ اللہ البالغۃ کی قسم اول کے ابواب حکمت و معرفت اور قسم دوم کے ابوابِ دین و شریعت دونوں میں انھوں نے قرآن کریم کو ماخذ بنایا ہے۔ اسی طرح الفوز الکبیر، فتح الخبیر اور قوانین الترجمۃ کے مباحث میں بھی آیاتِ قرآنی سے استدلال کا وصف نمایاں ہے۔اس کی مثالیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۵؎
حدیثِ رسول ﷺ
تفسیر قرآن کادوسرا ماخذ حدیث ِرسول ہے۔ تمام مفسرین نے اس کو اپنے پیش نظر رکھا ہے اور آیاتِ قرآنی کی تشریح و تفسیر میں حسب ضرورت اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ شاہ صاحب نے بھی اسے اپنا نصب العین بنایاہے۔ فتح الرحمن کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’واستمداد این کتاب در آنچہ متعلق بنقل است از اصح تفاسیر محدثین کہ تفسیر بخاری وترمذی و حاکم است کردہ شد۔ و تاامکان ازاخبار ضعیفہ و موضوعہ احتراز نمودہ شد‘‘۶؎
’’تفسیر میں اگر کسی چیز کا تعلق مأثور سے رہاہے تو اس سلسلے میں میں نے محدثین کی صحیح ترین تفاسیر (وہ تفسیری روایات جو بخاری،ترمذی اور حاکم نے اپنی کتابوں میں بیان کی ہیں) سے فائدہ اٹھایاہے اور حتی الامکان ضعیف اور موضوع احادیث سے احتراز کیا ہے۔‘‘
شاہ ولی اللہ کا اشارہ امام المحدثین ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری (م ۲۵۶ھ )کی کتاب الجامع الصحیح ، امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسی الترمذی (م ۲۷۹ھ )کی کتاب جامع الترمذی اور امام ابوعبداللہ الحاکم(م۴۰۵ھ )کی کتاب المستدرک علی الصحیحین کی جانب ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں کتاب التفسیر ہے، جس میں تفسیری روایات اکٹھا کردی گئی ہیں۔
شاہ صاحب کی تصنیف فتح الخیبر کا ایک موضوع اسباب ِنزول کا بیان ہے۔ اس کا ماخذ ان کی صراحت کے مطابق مذکورہ بالا تینوں کتابیں ہیں۔ ان کی دیگر تحریروں میں بھی کہیں کہیں حدیث کے حوالے مل جاتے ہیں۔۷؎
اگرچہ شاہ صاحب کی کوشش رہی ہے کہ وہ صرف صحیح احادیث ہی سے استدلال کریں، لیکن کہیں کہیں اس کا التزام باقی نہیں رہ سکا ہے۔ ایک مثال پیش خدمت ہے۔ سورۂ اعراف میں ہے:
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ إِلَیْْہَا فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہِ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللّہَ رَبَّہُمَا لَئِنْ آتَیْْتَنَا صَالِحاً لَّنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَOفَلَمَّا آتَاہُمَا صَالِحاً جَعَلاَ لَہُ شُرَکَاء  فِیْمَا آتَاہُمَا فَتَعَالٰی اللّہُ عَمَّا یُشْرِکُونَO (آیات:۱۸۹۔۱۹۰)
ان آیات کی تفسیرمیں عام طور سے مفسرین نے یہ حدیث نقل کی ہے:
حسن نے حضرت سمرۃ بن جندبؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ ﷺنے فرمایا:
’’لمّا حملت حواء طاف بہا ابلیس وکان لا یعیش لہا ولد فقال سمّیہ عبدالحارث فسمّتہ عبدالحارث فعاش وکان ذلک من وحی الشیطان و أمرہ‘‘۸؎
’’جب حوا کوحمل ہوا تو ان کے پاس ابلیس آیا۔ حوا کا کوئی بچہ زندہ نہ رہتا تھا۔ ابلیس نے کہا: ا س کا نام عبدالحارث رکھ دو، چنانچہ حوانے اس کا نام عبدالحارث رکھ دیا۔ چنانچہ وہ بچہ زندہ رہا۔ ایسا حوانے شیطا ن کے کہنے پر کیا تھا‘‘
شاہ صاحب نے حواشی فتح الرحمن میں مذکورہ آیت کے ذیل اس حدیث کو نقل تو نہیں کیا ہے، لیکن الحدیث المرفوع کہہ کر اس کی طرف اشارہ کیا اور اس کی توجیہ ان الفاظ میں کی ہے:
ولیس فی الحدیث الاّ ذکر حوائ، فلعلّہا سمّت بغیر اذن آدم، ثم تابت من  ذلک، واللہ أعلم ۹؎
اس حدیث میں صرف حوا کا ذکر ہے۔ شاید انھوں نے آدم علیہ السلام سے پوچھے بغیرایسا کیا ہو، پھر اس سے توبہ کرلی ہو۔ اللہ بہتر جانتاہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں، حالاں کہ مشہور مفسرین مثلاً قرطبیؒ اور ابن کثیرؒ وغیرہ نے اسے ضعیف قراردیاہے اور عصر حاضر کے مشہور محدث علامہ ناصر الدین البانیؒ نے بھی اس پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اس کا شمار ضعیف احادیث میں کیاہے۔ ۱۰؎
آثارِ صحابہ
تفسیر ماثور میں احادیث ِرسول کے بعد آثارِ صحابہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عموماً مفسرین نے اپنی کتابوںمیں اصحاب رسول اور خاص طور پرمفسرصحابہ کے اقوال و ارشادات کا خاصا حصہ جمع کردیا ہے۔ شاہ صاحب نے بھی اپنی تحریروں میں    جا بہ جا آثارِ صحابہ سے استشہاد کیا ہے۔
الفوز الکبیرمیں اسبابِ نزول پر بحث کے ذیل میں حضرت ابوالدردائؓ ، حضرت ابن عمرؓ ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت عمربن الخطابؓ کے آثار نقل کیے ہیں۔ ایک جگہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کا قول نقل کیاہے۔
شاہ صاحب کا مشہور نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہود نے لفظی تحریف اصل توراۃ میں نہیں، بلکہ اس کے ترجمہ میں کی تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یہی حضرت ابن عباسؓ کا بھی قول ہے۔۱۱؎
شاہ صاحب کی تصنیف فتح الخبیر کا ایک موضوع قرآن کریم کے مشکل الفاظ کی تشریح ہے۔ اس کا غالب حصہ حضرت ابن عباسؓ کے آثار پر مشتمل ہے ،جو تین سندوں سے مروی ہے:
۱۔ ابوصالح عبداللہ صالح-معاویہ بن صالح- علی بن ابی طلحہ- ابن عباس
۲۔ منجاب بن حارث- بشربن عمارۃ- ابی روق-ضحاک بن مزاحم- ابن عباس
۳۔مختلف سندوں سے نافع بن الازرق خارجی کے سوالات اور حضرت ابن عباسؓ کے جوابات ، جن میں انھوں نے قرآن کے مشکل الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے اشعار سے استشہاد کیا ہے۔
کتبِ تفسیر
شاہ صاحب کی کتابوں میں متعدداہم کتبِ تفسیر کے حوالے ملتے ہیں۔ ذیل میں ان کا اوران کے مؤلفین کا مختصر تذکرہ کیا جارہاہے:
۱۔الوجیز
یہ امام ابوالحسن علی بن احمد بن محمد بن علی الواحدی النیساپوری(م۴۶۸ھ)کی تفسیر ہے۔ واحدی تفسیر اور ادب دونوں میدانوں میں شہرت رکھتے تھے۔ ان کی کتاب اسباب النزول بہت معروف ہے۔ الوجیز کے علاوہ ان کی دو مزید تفسیر یں البسیط اور الوسیط کے نام سے ہیں ،جو قلمی ہیں۔ ۱۲؎
شاہ صاحب نے حواشی فتح الرحمن میں متعدد مقامات پر اس تفسیر کا حوالہ دیاہے۔۱۳؎
۲۔تفسیر زاہدی
یہ تفسیر فارسی زبان میں ہے۔ اس کے مؤلف ابونصر احمد بن الحسن بن احمد سلیمان زاہدی ہیں۔ یہ کتاب ۵۱۹ھ/۱۱۲۵ء میں بخارا میں لکھی گئی تھی۔ اس میں سورتوں کے مابین ربط و نظم واضح کرنے کا اہتمام کیاگیا ہے۔ یہ تفسیرعہد سلطنت میں معروف و متداول رہی ہے، اس لیے بہ کثرت اس کے نسخے ملتے ہیں۔ اس کا ایک قلمی نسخہ خدابخش لائبریری پٹنہ میں موجودہے۔۱۵؎
حواشی فتح الرحمن میں شاہ صاحب نے بعض مقامات پر اس کا حوالہ دیاہے۔ ۱۶؎ انھوں نے فتح الرحمن کے مقدمہ میں لکھا ہے:
’’تفسیر وجیز و تفسیر جلالین کہ بمنزلہ اصل این ترجمہ اند‘‘۱۷؎
’’تفسیر وجیز و تفسیر جلالین اس ترجمہ کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘
اسی مقدمہ میں ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’وآنچہ ضروری است از اسباب نزول و توجیہ مشکل بقدرضرور بکار آمد بوجہی کہ دریں چیز ہا مثل کتاب و جیز و جلالین باشد‘‘ ۱۷؎
’’اسباب نزول اور مشکل الفاظ کی تشریح کے سلسلے میں ضروری  چیزیں حسب ضرورت بیان کردی گئیں ہیں۔ ان چیزوں میں یہ ترجمہ تفسیر وجیز اور تفسیر جلالین کے مثل ہے‘‘
۳۔الکشاف
الکشاف عن حقائق التنزیل ابوالقاسم جاراللہ  محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی (۴۶۷ھ۔۵۳۸ھ)کی مشہور تفسیر ہے۔ زمخشری نے یوں تو نحو، لغت ، حدیث اور فقہ کے موضوعات پر بھی کتابیں لکھی ہیں، لیکن سب سے زیادہ شہرت کشاف کو حاصل ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں قرآن کے وجوہِ اعجاز اور اس کے بلاغی پہلو کو نمایاں کیاگیاہے۔ اگرچہ زمخشری معتزلی ہیں، لیکن مذکورہ خوبیوں کی وجہ سے اہلِ سنت کے درمیان بھی اس تفسیر کو قبول عام حاصل رہاہے اور ہردور کے علماء نے اسے اپنی توجہات کا مرکز بنایاہے۔۱۹؎
شاہ ولی اللہ نے بعض مقامات پر اس کے حوالے دیے ہیں۔ مثلاً آیت:وَمَااَہْلَکْنَا مِنْ قَرْْیَۃٍ اِلاّ وَلَہَاکِتٰبٌ مَعْلُوْمٌ(الحجر:۴)کے ذیل میں زمخشری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’یہ جملہ(وَلَہَاکِتٰبٌ مَعْلُوْم) لفظ قریۃ کی صفت  ہے  اور قاعدہ یہ ہے  کہ صفت اور موصوف کے درمیان حرف عطف (و) نہ آئے مثلاً آیت :وَ مَا اَہْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلّا لَہَا مُنْذِرُوْنَ (الشعرائ:۲۰۸)، لیکن یہاں پر’و‘ صفت و موصوف کے اتصال کی کے لیے آیا ہے۔ ‘‘۱۹؎
حواشی فتح الرحمن میں آیت : فَلَمَّا آتٰہُمَا صٰلِحاً جَعَلَالَہٗ شُرَکَآئَ فِیماَآتٰہُمَا (الاعراف:۱۹۰)کی تشریح میں مفسرین کی متعدد توجیہات نقل کی ہیں۔ ایک توجیہ کے بارے میں لکھا ہے:
’’ زمخشری نے اس کے بارے میں لکھا ہے:’’ ہذا تفسیر حسن لا اشکال فیہ‘‘۔(یہ اچھی تفسیر ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔)لیکن اس پر زبردست اشکا ل وارد ہوتا ہے۔‘‘۲۰؎
۴۔تفسیر البیضاوی
اس کا اصل نام انوارالتنزیل و اسرارالتاویل ہے۔ اس کے مؤلف ابوالخیر ناصرالدین عبداللہ بن عمربن محمد بن علی البیضاوی  (م ۶۸۵ھ) عرصہ تک منصبِ قضا پر فائز رہے۔ شافعی المسلک تھے۔ اصولِ فقہ اور اصولِ دین وغیرہ میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ ان کی اس تفسیر کو اہلِ علم کے نزدیک غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس پر بہت سے لوگوں نے حواشی لکھے۔ امام بیضاوی نے اپنی اس تفسیر میں حکمت وکلام سے متعلق معلومات امام فخرالدین رازی(۶۰۶ھ)کی تفسیر کبیر سے ، اشتقاق سے متعلق مسائل امام راغب اصفہانی(۵۰۲ھ) کی تفسیر سے اور اعراب و معانی و بیان کے مباحث کشاف سے اخذ کیے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی طرف سے بھی بہت سے نکات ود قائق کااضافہ کیاہے۔ اس تفسیر کا شمار امہات کتب میں ہوتا ہے اور یہ بہت معروف و متداول ہے۔۲۱؎
تفسیر بیضاوی سے استفادہ ہندوستان میں بھی عام رہاہے۔ شاہ صاحب نے جونصاب درس پڑھا تھا ، اس میں بیضاوی کے بھی کچھ اجزاء شامل تھے۔ حواشی فتح الرحمن میں انھوں نے جا بہ جا اس کا حوالہ دیا ہے۔۲۲؎
۵۔مدارک التنزیل
مدارک التنزیل وحقائق التاویل ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمودالنسفی(م۷۰۱ھ) کی تفسیر ہے۔ مصنف کی نسبت سے یہ ’تفسیر نسفی‘ بھی کہلاتی ہے۔ علامہ نسفی حنفی فقیہ تھے۔ فقہ و اصولِ فقہ، اصولِ دین میں بھی ان کی متعدد تصانیف ہیں۔ ان کی تفسیر کو اصحابِ علم کے درمیان شہرت حاصل رہی ہے۔ اس میں خاص طور پر اعراب اور قراء ت کے وجوہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مصنف نے تفسیر کشاف اور تفسیر بیضاوی سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ آیاتِ احکام بیان کرتے ہوئے وہ فقہی مسالک بیان کرتے ہیں اور بڑی سرگرمی سے حنفی مسلک کی حمایت اور دیگر مسالک کی تردید کرتے ہیں۔۲۳؎
شاہ ولی اللہ نے حواشی فتح الرحمن میں متعدد مقامات پر اس کا حوالہ دیاہے۔۲۴؎
۶۔تفسیر الجلالین
یہ کتاب تفسیر کی مختصر اور متداول کتابوں میں سے ہے۔ یہ دومفسرین کی مشترکہ تالیف ہے۔ چوں کہ دونوں کانام جلال الدین تھا، اس نسبت سے اس کا نام تفسیر الجلالین پڑ گیا۔ دونوں مفسرین میں فرق کرنے کے لیے ایک کو جلال الدین محلّی اوردوسرے کو جلال الدین سیوطی کہاجاتا ہے۔
علامہ جلال الدین محلّی کا پورا نام محمد بن احمد بن محمد بن ابراہیم المحلّی الشافعی ہے۔ ان کی ولادت ۷۹۱ھ میں قاہرہ میں اوروفات  وہیں ۸۶۴ھ میں ہوئی۔ انھیں عہدۂ قضا کی پیش کش کی گئی، مگر انھوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ فقہ ، کلام، اصول، نحو، منطق اور تفسیر میں مہارت حاصل تھی۔علامہ جلال الدین سیوطی کا پورا نام عبدالرحمن بن ابی بکربن محمد بن سابق الدین الخضیری السیوطی ہے۔ ۸۴۹ھ میں ان کی ولادت اور ۹۱۱ھ میں وفات ہوئی ۔ قاہرہ میں یتیمی کی حالت میں پرورش پائی۔ آٹھ سال کی عمر میںقرآن حفظ کرلیا تھا۔ غیر معمولی حافظہ تھا۔ کئی لاکھ احادیث یاد تھیں۔ چالیس سال کی عمر میں گوشہ نشین ہوگئے اور خود کو تصنیف و تالیف کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کی تصانیف کی تعداد پانچ سو سے زائد بتائی جاتی ہے، جوتمام اسلامی علوم سے متعلق ہیں۔ تفسیر و علوم القرآن میں ان کی کتابیں: الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور، لباب النقول فی اسباب النزول، متشابہ القرآن، مفحمات الاقران فی مبہمات القرآن، الاتقان فی علوم القرآن اور طبقات المفسرین شہرت رکھتی ہیں۔
تفسیر جلالین کا آغاز علامہ جلال الدین محلّی نے کیا۔ انھوں نے سورۂ کہف سے تفسیر لکھنی شروع کی۔ سورۂ الناس تک لکھنے کے بعد پھر سورۂ فاتحہ سے آغاز کیا۔ ابھی یہ سورت ختم ہی کرپائے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی۔ ان کے بعد علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کی تکمیل کی۔ انھوں نے سورۂ بقرہ سے شروع کرکے سورۂ بنی اسرائیل پر ختم کیا۔ علامہ سیوطی نے علامہ محلّی کے اسلوبِ تفسیر کی پوری پیروی کی ہے۔ دونوں کی تحریروں میں کوئی نمایاں فرق محسوس نہیں ہوتا۔۲۵؎
تفسیر الجلالین حد درجہ مختصر تفسیر ہے۔حاجی خلیفہ نے ایک یمنی عالم سے نقل کیا ہے کہ میں نے شروع سے سورہ ٔ مزمل تک قرآن کریم اور تفسیر جلالین کے حروف گنے تو دونوں کو برابر پایا۔ اس سے آگے تفسیر کے حروف قرآن کے حروف سے زیادہ ہیں۔۲۷؎
ایجاز واختصار کے باوجود یہ تفسیر اہل علم کے درمیان بہت زیادہ مقبول اور متداول رہی ہے۔ علماء نے اس پر بہ کثرت تعلیقات اور حواشی تحریر کیے ہیں اور اس سے غیر معمولی استفادہ کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒنے ، جیسا کہ اوپر صراحت گزری ، اس تفسیر کو اپنے ترجمۂ قرآن کی بنیاد بنایاہے۔ حواشی میں بھی کثرت سے اس کے حوالے دیے ہیں۔۲۸؎
۷۔الاتقان فی علوم القرآن
یہ علامہ جلال الدین سیوطی کی مشہورِ زمانہ تصنیف ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی بعض تصانیف میں اس کو بھی اپنا ماخذ بنایاہے۔
فتح الخیبر میں شاہ صاحب نے قرآن کے مشکل الفاظ کی تشریح میں حضرت  ابن عباس ؓ کے جوآثار بیان کیے ہیں وہ سب انھوں نے الاتقان کی چھبیسویں نوع(فی معرفۃ غریبہ) سے نقل کر لیے ہیں ۔۲۹؎ علامہ سیوطی نے انھیں تین الگ الگ سندوں سے روایت کیا تھا اور ان میں سے ایک سند (من طریق ابن ابی طلحہ) کو’ من اصح الطرق عن ابن عباس‘ قرار دیا  تھا۔ شاہ صاحب نے تینوں کو خلط ملط کردیاہے۔ اس سے یہ فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ تمام الفاظ مصحف کی ترتیب سے اکٹھا ہوگئے ، لیکن ان کی استناد ی حیثیت مجروح ہوگئی ہے، اس لیے کہ یہ تمیز کرنا ناممکن ہوگیاہے کہ کون سی تشریح کس سند سے مروی ہے؟
شاہ صاحب نے الفوز الکبیر کی ایک فصل(باب دوم کی فصل دوم) میں ’ناسخ و منسوخ‘ کے موضوع پر بحث کی ہے۔ اس بحث کا ماخذ بھی علامہ سیوطی کی الاتقان ہے۔ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ متقدمین نسخ کو لغوی معنی میں استعمال کرتے تھے، یعنی ایک آیت کے بعض اوصاف کو دوسری آیت سے زائل کردینا۔ اسی بنا پر انھوں نے منسوخ آیات کی تعداد پانچ سوتک پہنچادی ہے، لیکن متاخر اصولیین نے اس کے اصطلاحی معنیٰ  مراد لیے ہیں، اس لیے ان کے نزدیک منسوخ صرف گنتی کی چند آیات ہیں ۔پھر فرماتے ہیں:
’’علامہ جلال الدین سیوطی نے بیان مذکورہ بالا کو بعض علما ء سے لے کر اپنی کتاب میں مناسب بسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور جو اایات متاخرین کی رائے پر منسوخ نہیں ان کو شیخ محی الدین ابن عربی کے موافق تحریر کرکے قریباً بیس منسوخ آیتیں گنوائی ہیں۔‘‘۲۹؎
اس کے بعد شاہ صاحب نے وہ تمام آیات درج کی ہیں جنھیں سیوطیؒ اور ابن العربیؒ نے منسوخ قرار دیاہے، ساتھ ہی ان پر محاکمہ کیا ہے، جس سے منسوخ آیات کی تعداد گھٹ کر پانچ رہ جاتی ہے۔۳۰؎
حواشی و مراجع
۱۔    تفسیر وعلوم قرآن کے موضوع پر شاہ ولی اللہ کی تصانیف کے تفصیلی مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجئے: محمد سعود عالم قاسمی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒکی قرآنی فکر کا مطالعہ ، اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی، ۱۹۹۴ء ص:۸۴۔۱۰۰، محمد ایوب قادری ، مقالہ ’شاہ ولی اللہ دہلوی سے منسوب تصانیف‘ ماہ نامہ الرحیم حیدرآباد پاکستان، جون ۱۹۶۴ء
۲۔     المقدمۃ فی قوانین الترجمۃ ، دیباچہ و مقدمہ فتح الرحمن اور حواشی فتح الرحمن کو پاکستان کے مشہور محقق ڈاکٹر احمد خاں نے ایڈٹ کرکے شائع کردیا  ہے۔ ملاحظہ کیجئے ان کا مقالہ بہ عنوان : ترجمۂ قرآن کریم میں شاہ ولی اللہ کے مناہج ، خدابخش لائبریری جرنل، پٹنہ ، شمارہ ۱۱۵،مارچ ۱۹۹۹ء ص:۱۔۷۲
۳۔     مثال  کے طور پر ملاحظہ کیجئے حواشی فتح الرحمن (مقالہ احمد خاں: ۳۳، ۳۸،۴۰،۴۴،۵۲ وغیرہ)
۴۔     حضرت شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ ، ص:۱۰۱۔۱۵۸، مصباح اللہ عبدالباقی، مقالہ: الامام ولی اللہ دہلوی و ترجمتہ للقرآن: فتح الرحمن بترجمۃ القرآن ، سہ ماہی الدراسات الاسلامیۃ ، مجمع البحوث الاسلامیۃ، الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ، اسلام آباد پاکستان، جلد ۴۴، شمارہ ۱،جنوری ۔مارچ، ۲۰۰۹ء ص:۵۔۶۱
۵۔     پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی ،شاہ ولی اللہ کے مآخذ: کتب و شخصیات ، شاہ ولی اللہ اکیڈمی پھلت،۲۰۱۰ئ، ص۱۔۳، ۸۔۱۲، ۶۵۔۸۱ وغیرہ
۶۔     قرآن کریم میں شاہ ولی اللہ کے مناہج ، ص:۲۵
۷۔     مثلاً ملاحظہ کیجئے حواشی فتح الرحمن (قرآن کریم میں شاہ ولی اللہ کے مناہج ، ص۶۵،۵۹ ) شاہ ولی اللہ کے مآخذ،    حوالہ سابق
۸۔    اس کی روایت  احمد، ترمذی، ابن جریر،ابن ابی حاتم، ابوشیخ، ابن مردویہ اور حاکم وغیرہ نے کی ہے۔
۹۔    حواشی فتح الرحمن،ص:۴۵
۱۰۔     ملاحظہ کیجئے ابوعبداللہ القرطبی، الجامع الاحکام القرآن،ص …. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ص…..
محمد ناصرالدین البانی ، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ، المکتب الاسلامی بیروت، ۱/۵۱۶، حدیث نمبر:۳۴۲
۱۱۔    شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، اردو ترجمہ :رشید احمد انصاری، مکتبہ برہان دہلی،۱۹۵۵ء ص۱۲
۱۲۔     خیرالدین الزرکلی، الاعلام ، دارالعلم للملایین بیروت، ۱۹۹۷ئ: ۴/۲۵۵
۱۳۔    حواشی فتح الرحمن، ص:۳۶،۴۲،۵۵
۱۴۔     حضرت شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر، ص: ۱۶، بہ حوالہ سی ۔ اے ۔اسٹوری(C.A. Story)پر شین لٹریچر، لندن، ۱۹۵۳ء : ۱/۴
۱۵۔     حواشی فتح الرحمن، ص:۳۶
۱۶۔    مقدمہ فتح الرحمن (قرآن کریم میں شاہ ولی اللہ کے مناہج، ص:۲۶)
۱۷۔    حوالہ سابق،ص:۲۳
۱۸۔    تفسیر الکشاف کے مفصل مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجئے ڈاکٹر فضل الرحمن گنوری، زمخشری کی تفسیر الکشاف ۔ ایک تحلیلی جائزہ، شعبہ دینیات سنی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
۱۹۔    الفوز الکبیر،حوالہ سابق ،ص۵۵
۲۰۔    حواشی فتح الرحمن ، ص ۴۵
۲۱۔    محمد حسین الذھبی،التفسیر و المفسرون، مکتبۃ وھبۃ القاھرۃ،ج۱،ص۲۱۱۔۲۱۶
۲۲۔     حواشی فتح الرحمن، ص ۳۶،۵۶،۵۷،۵۸،۵۹،۶۰،۶۱
۲۳۔    التفسیر و المفسرون،حوالہ سابق،ج۱،ص۲۱۶۔۲۲۰
۲۴۔     حواشی فتح الرحمن، ص ۳۲،۳۳،۳۷،۴۳،۴۷،۴۸،۵۱،۵۲،۵۶
۲۵۔    التفسیر و المفسرون،حوالہ سابق،ج۱،ص۱۸۰،۲۳۷۔۲۴۰
۲۶۔      حاجی خلیفہ ،کشف الظنون
۲۷۔    حواشی فتح الرحمن میں شاہ صاحب نے نوّے سے زائد مقامات پر جلالین کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں سے ۶۸مقامات پر کذا فی الجلالین لکھا ہے، بائیس مقامات پر قال المحلّی تحریر کیا ہے اور صرف دوتین جگہوں پر علامہ سیوطی کے نام کی صراحت کی ہے۔
۲۸۔     جلال الدین السیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ادارۃ الرشید دیوبند۱/۲۴۴۔۲۸۲
۲۹۔    الفوز الکبیر، حوالہ سابق، ص۳۲
۳۰۔    حوالہ سابق،ص۴۸۔۵۰

تحقیقات اسلامی (جولائی۔ ستمبر ۲۰۱۵ئ) کو اس ترتیب سے کمپوز کریں
حرف آغاز
انسانی حقوق اور اسلام    سید جلال الدین عمری
تحقیق وتنقید
حضرات عمرو بن العاصؓ،خالدبن ولیدؓ اور عثمان بن طلحہؓ کا قبول اسلام    پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی
شاہ ولی اللہؒ کے تفسیری مآخذ    ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
فتویٰ نویسی کا تاریخی ارتقائ    پروفیسر محمد انس حسان
بحث و نظر
مولانا ابو الکلام آزادؒ اور نظم قرآن    محترمہ نشا حلیم
سیر و سوانح
عروہ بن الزبیرؒ۔ اولین سوانح نگار    حافظ عبد الغفار
تعارف و تبصرہ

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی
mrnadvi@yahoo.com