دارالمصنفین کی قرآنی خدمات

محمد رضی الاسلام ندوی

سکریٹری تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند ،نئی دہلی
و معاون مدیر سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ


دار المصنفین کا تعارف سیرت النبی، خطباتِ مدراس، سیر الصحابہ، سیر الصحابیات،اسوۂ صحابہ، اسوۂ صحابیات،الفاروق،سیرت عائشہ ، تابعین، تبع تابعین، اہل کتاب صحابہ و تابعین سے ہوتا ہے،جو اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ و تابعین کی سیرت و سوانح پر ہیں۔تاریخ اسلام، تاریخ اندلس،تاریخ صقلیہ،تاریخ دولت عثمانیہ،صلیبی جنگ،تاریخ سندھ،عرب و ہند کے تعلقات، عربوں کی جہاز رانی،ہندوستان کی کہانی،مختصر تاریخ ہند، گجرات کی تمدنی تاریخ وغیرہ سے ہوتا ہے، جن کا تعلق تاریخ سے ہے۔ سیرۃ النعمان ،حیات مالک،سیرت عمر بن عبد العزیز،المامون،الغزالی، امام رازی،حکمائے اسلام،سوانح مولانا روم، ابن خلدون،ابن رشد،خیام،حیات شبلی ،حیات سلیمان ، حکیم الامت ،اقبال کامل،مولانا بو الکلام آزاد وغیرہ سے ہوتا ہے، جو تذکرہ و سوانح سے تعلق رکھتی ہیں،۔الکلام، علم الکلام، 

مبادیٔ فلسفہ،مبادیٔ علم انسانی، نٹشے،مکالمات برکلے، بزم صوفیہ، بزم تیموریہ، بزم مملوکیہ، صوفی امیرخسرو وغیرہ سے ہوتا ہے، جن کا موضوع کلام و فلسفہ اور تصوف و سلوک ہے۔شعر العجم ، شعر الہند، اردو غزل، غالب مدح و قدح کی روشنی میںوغیرہ سے ہوتا ہے، جو ادب کے موضوع پر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی نظروں میں دار المصنفین کی خدمات سیر و سوانح، تاریخ و تذکرہ،فلسفہ و تصوف اور ادب کے دائروں میں ہیں۔دار المصنفین کی قرآنی خدمات کا تذکرہ عموماً نہیں کیا گیا ہے اور کیا گیا ہے تو بہت بے دلی کے ساتھ۔اس معاملے میں دار المصنفین کی تاریخ لکھنے والے دیگر افراد کے ساتھ اس سے وابستہ حضرات بھی برابر کے شریک ہیں۔حال میں دار المصنفین سے اس کی تاریخ’دار المصنفین کے سو سال‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔اس میں ایک جگہ رفقائے دار المصنفین کی تصانیف کاموضوعاتی تذکرہ کیا گیا تو سلسلۂ قرآنیات کے تحت تین صرف کتابوں کے نام گنائے گئے: تاریخ ارض القرآن(سید سلیمان ندوی)،تعلیم القرآن( محمد اویس نگرامی ندوی)، جمع و تدوین قرآن ( سید صدیق حسن) ۔‘‘ ۱؎ مختلف علوم و فنون میںدار المصنفین کی خدمات بجا، لیکن میری نظر میں اس کا سب سے مہتم بالشان کا م قرآنیات کے میدان میں ہے۔ اس مقالے میں اسی پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دار المصنفین کی قرآنی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(۱) بانیانِ دار المصنفین کی خدمات

(۲) ما بعد دور کے رفقائے دار المصنفین کی خدمات

(۳) با حیات رفقائے دار المصنفین کی خدمات

ذیل میں ہر دور کی قرآنی خدمات کا تذکرہ الگ الگ کیا جا رہا ہے:

(۱) بانیانِ دار المصنفین کی خدمات

دار المصنفین کا تخیل تو علامہ شبلی ؒ نے ۱۹۱۰ء ہی سے پیش کرنا شروع کر دیا تھا،مختلف مقامات پیش نظر تھے ، مگر آخرکار اعظم گڑھ ہی میں اس کے قیام کا فیصلہ کیا، اس کا پورا خاکہ تیار کیا، اس کے لیے اپنی جائیداد وقف کی اور دوسروں کی زمینیں وقف کرائیں، مگر اس سے پہلے کہ یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچے، وہ۱۸؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات کے تیسرے دن ( ۲۱؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو) ان کے قریب ترین تلامذہ مولانا حمید الدین فراہی کی دعوت پر اکٹھا ہوئے اور مولانا کے نا تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے انھوں نے ایک مجلس’ اخون الصفا‘ کے نام سے قائم کی ، جس کے صدر مولانا حمید الدین فراہیؒ، ناظم مولانا سید سلیمان ندویؒ، مہتمم مولانا مسعود علی ندوی ؒ اور ارکان مولانا عبد السلام ندوی ؒاور مولانا شبلی متکلم ؒ مقرر کیے گئے۔یہ گویا دار المصنفین کی خشت اول تھی۔بعد میں۴؍جولائی ۱۹۱۵ء کو ’دار المصنفین شبلی اکیڈمی ‘ کے نام سے اسے رجسٹرڈ کر وایا گیا تو اس کی مجلس منتظمہ تشکیل دی گئی اور اس کے ارکان میں سے ایک مجلس عاملہ بنائی گئی، جس کی صدارت مولانا حمید الدین فراہیؒ کو تفویض کی گئی، مولانا سید سلیمان ندویؒ ناظم مقرر کیے گئے اور مولانا مسعود علی کے سپرد اہتمام کے فرائض کیے گئے۔ مولانا عبد السلام ندویؒ کی وابستگی رکن دار المصنفین کی حیثیت سے ہوئی۔واقعہ ہے کہ دار المصنفین کی علمی شہرت انہی حضرات کی رہینِ منّت ہے۔ان حضرات نے اسلامیات کے مختلف میدانوں میں دادِ تحقیق دی ہے۔ ان میں سے ایک اہم میدان’ قرآنیات ‘ کا ہے۔ذیل میں ان حضرات کی قرآنی خدمات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے:

علامہ شبلی نعمانی

علامہ شبلی نعمانی ؒ(۱۸۵۷۔۱۹۱۴ئ)کی شہرت اگرچہ مؤرخ، سیرت نگار، تذکرہ نویس اور ادیب کی حیثیت سے ہے، لیکن دیگر میدانوں کے ساتھ قرآنیات میں بھی ان کی متعدد قیمتی تحریریں ہیں۔ یوں تو کسی قرآنی موضوع پر ان کی کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، لیکن ان کی متعدد کتابوں، مثلاً سیرت النبی ، الفاروق وغیرہ میں قرآنی موضوعات زیر بحث آئے ہیں اور مولانا نے ان پر خوب دادِ تحقیق دی ہے۔۲؎ مولانا نے قرآنی موضوعات پر کچھ مقالات بھی تحریر کیے تھے، جو مقالات ِشبلی (جلد اول) میں جمع کر دیے گئے ہیں:

(۱)تاریخ ترتیب قرآن:اس میں جمع و تدوین ِ قرآن کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا رد کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے۔

(۲) علوم القرآن:اس میں علوم القرآن پر قدما کی تصنیفات کا سیر حاصل جائزہ لیا ہے اور دکھایا ہے کہ انھوں نے کس قدر وسیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔ (پہلے الندوہ ،جمادی الاولیٰ ۱۳۲۲ھ میں شائع ہوا تھا۔)

(۳) اعجازِ قرآن:اس میں انھوں نے اعجازِ قرآن سے بحث کرتے ہوئے اس عام نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ہے کہ قرآن کی فصاحت و بلاغت معجزہ ہے۔ ان کے نزدیک قرآن کا اعجاز اس کی ہدایت و حکمت اور تزکیۂ نفس میں پوشیدہ ہے۔(پہلے الندوہ ،مارچ ۱۹۱۰ء میں شائع ہوا تھا۔)

(۴) قرآن مجید میں خدا نے قسمیں کیوں کھائیں؟:یہ مقالہ در اصل مولانا فراہیؒ کے رسالے’ امعان فی اقسام القرآن‘ کا خلاصہ ہے۔

(۵) قضا و قدر اور قرآن مجید:اس میں قرآن کی روشنی میں عقیدۂ تقدیر کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔(پہلے الندوہ ،ستمبر ۱۹۰۶ء میں شائع ہوا تھا۔)

(۶) یورپ اور قرآن کے عدیم الصحۃ ہونے کا دعویٰ: اس میں اہل ِ یورپ کے اس دعویٰ کا ابطال کیا گیا ہے جو وہ اس کے محرف ہو جانے کا کرتے ہیں۔ ان کے اعتراضات کا مدلل جواب دینے کے بعد علامہ شبلی مقالے کا خاتمہ اس با معنی ٰ اور لطیف طنزیہ جملے پر کرتے ہیں:

’’ قرآن مجید ہزاروں دلائل سے بھی انجیل نہیں بن سکتا۔‘‘ ۳؎

مولانا حمید الدین فراہیؒ

قرآنی موضوعات پر مولانا فراہیؒ (۱۸۶۳۔۱۹۳۰ئ)کی تحقیقات ۱۹۰۶ء سے مختلف مطابع سے شائع ہونے لگی تھیں۔۴؎ علامہ شبلی نے ان کے متعدد رسائل کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا، انھیں مبارک باد دی،ان کے خلاصے کرکے الندوہ میں شائع کیے۔ دار المصنفین کی تاسیس اور ’ مطبع معارف‘ کے قیام کے بعد ان کی متعدد کتابیں یہاں سے شائع ہوئیں اور اس کے سلسلۂ مطبوعات کا حصہ بنیں۔بعد میں ۱۹۳۵ء میںمولانا کے علوم و افکار کی اشاعت کے لیے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں الدائرۃ الحمیدیۃ قائم ہوا تو ان کی تمام تصانیف وہیں سے شائع ہونے لگیں۔ ذیل میں مطبع معارف سے شائع ہونے والی کتابوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

(۱) امعان فی اقسام القرآن:یہ رسالہ سب سے پہلے اصح المطابع لکھنؤ سے ۱۹۰۶ء میں’ اقسام القرآن‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ یہ بہت مختصر (۳۸؍صفحات)تھا۔اس کاخلاصہ اردو میں علامہ شبلی نے الندوہ، اپریل ۱۹۰۶ء میں شائع کیا تھا۔ پھر مطبع احمدی علی گڑھ سے۱۳۲۹ھ؍ ۱۹۱۱ء میں اس رسالے کی ا شاعت ہوئی۔ تیسری اشاعت کے لیے دار المصنفین نے ۱۹۳۰ئ؍ ۱۳۴۹ھ میںاسے مطبعہ سلفیہ مصر بھیجا۔ اسی دوران مولانا فراہیؒ کی وفات ہوگئی تومولانا سید سلیمان ندوی ؒنے مصنف کا مختصر سوانحی تذکرہ اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ایک ضمیمہ عربی میں لکھاجو کتاب کے آخر میں ’ترجمۃ صاحب ھذہ الرسالۃ المعلم عبد الحمید الفراھی ؒ‘ کے عنوان سے شامل ہوا۔اس پرتاریخ ۲۷؍ شعبان ۱۳۴۹ھ درج ہے۔عرصہ تک کتاب کا یہی ایڈیشن ایل علم کے درمیان متداول رہا ۔اس کاچوتھا ایڈیشن ۱۹۸۰ئ؍۱۴۰۱ھ میں دار القرآن الکریم کویت سے شائع ہوا تومولانا فراہی ؒ پر سید صاحب کے اس مضمون کو ابتدا میں کر دیا گیا۔ عالمی سمینار’ اسلام اور مستشرقین‘ ( ۱۹۸۲ء ) کے موقع پر ذمہ دارانِ دار المصنفین نے اس کتاب کا Reprint شائع کیا ۔ اس پر سنۂ طباعت ۱۴۰۲ھ؍۱۹۸۲ء درج ہے۔اس کتاب کا ایک دیدہ زیب ایڈیشن مصنف کے پوتے پروفیسر عبید اللہ فراہی اور ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی کی کوششوں سے دار القلم دمشق سے ۱۴۱۵ھ؍ ۱۹۹۴ء میں شائع ہوا ہے۔۵؎

(۲) الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح:علامہ شبلی ؒ نے سیرۃ النبی کی پہلی جلد کی تالیف کے دورن اہل کتاب کے مناظرانہ مسائل اور قرآن کریم کے استدلالات کے سلسلے میںکچھ سوالات کیے تھے۔اسی کے نتیجے میں یہ کتاب وجود میں آئی۔ یہ مؤلف کی زندگی میں۱۳۳۸ھ؍۱۹۱۹ء میں مطبع معارف سے شائع ہوئی تھی۔بعد میں دائرۂ حمیدیہ سے اس کی اشاعت ۱۴۱۴ھ؍۱۹۹۴ء میں ہوئی۔ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی کے ذریعے ۱۴۲۰ھ؍۱۹۹۹ء میں دار القلم دمشق سے بھی شائع ہو گئی ہے۔

(۳) تفسیر سورۃ الفیل:یہ کتاب مطبع معارف سے۱۳۵۴ھ؍۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی تھی۔اس کا مسودہ بہ خط مصنف کتب خانہ دار المصنفین میں محفوظ ہے۔

(۴) تفسیر سورۃ الذاریات :یہ کتاب دار المصنفین سے کب شائع ہوئی تھی؟ معلوم نہ ہو سکا، اس لیے کہ اس کے سر ورق پر سنۂ اشاعت کا اندراج نہیں ہے۔اس کا مسودہ بہ خط مصنف کتب خانہ دار المصنفین میں محفوظ ہے۔

(۵) تفسیر سورۃاللہب:یہ تفسیر بھی پہلے مطبع احمدی علی گڑھ سے ۱۳۲۵ھ؍۱۹۰۸ء میںشائع ہوچکی تھی۔ بعد میں مطبع معارف سے بھی شائع ہوئی، مگر اس پر سنۂ طباعت درج نہیں ہے۔

(۶) تفسیر سورۂ اخلاص( بہ زبان اردو): اسے مولانا نے کراچی کے زمانۂ قیام(۱۸۹۸۔۱۹۰۶ئ) میں لکھا تھا، مگر اس کی اشاعت مطبع معارف سے ۱۹۳۱ء میں ہوئی۔ بعد میں یہ دائرۂ حمیدیہ سرائے میر سے ۱۹۴۱ئ، پھر ۱۹۵۸ء میں بھی شائع ہوئی۔

(۷) تفسیر سورۃ الکوثر (۸) تفسیر سورۃ المرسلات (۹) تفسیر سورۃ عبس (۱۰) تفسیر سورۃ التین

یہ اجزائے تفسیر مطبع معارف سے کب شائع ہوئے؟ اس کا علم نہیں ہو سکا، اس لیے کہ ان کے سرِ ورق پر سنۂ اشاعت درج نہیں ہے۔دار المصنفین کی۱۹۲۲ء کی سالانہ روداد میں مذکور ہے کہ’’ ا س سال دار الاشاعت سے مولانا فراہیؒ کی تفسیر نظام القرآن کے متعدد اجزاء شائع ہوئے۔‘‘۶؎

مولانا سید سلیمان ندویؒ

مولانا سید سلیمان ندویؒ(۱۸۸۴۔۱۹۵۳ئ)دار المصنفین سے اور دار المصنفین سید سلیمان ندوی سے جانے جاتے ہیں۔ دار المصنفین کے سلسلے میں علامہ شبلی ؒ کے تصور میں رنگ بھرنے،ان کے نا تمام علمی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے،مختلف علوم و فنون میںخود لکھنے اور دوسرے لکھنے والوں کی سر پرستی اور رہ نمائی کرنے اور دار المصنفین کو عروج کی بلندیوں تک لے جانے میں ان کا غیر معمولی حصہ ہے۔ان کی خدمات علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں ہیں، لیکن بہ نظرِ تحقیق دیکھا جائے تو قرآنیات کے میدان میں ان کا پایہ سب سے بلند ہے۔ایک موقع پر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒنے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’لوگ سید صاحب کو مؤرخ اور سوانح نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں، متکلم کی حیثیت سے جانتے ہیں،لیکن میرے نزدیک فہمِ قرآن میں ان کا پایہ اتنا بلند تھا کہ مجھے ہندوستان ہی نہیں، بلکہ تحتی بر اعظم میں بھی کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس کا مطالعۂ قرآن اتنا وسیع اور عمیق ہو۔‘‘۷؎

یہاں صرف قرآنیات میں ان کے کاموں کا تعارف کرایا جا رہا ہے:

(۱) تاریخ ارض القرآن

مولانا سید سلیمان ندوی نے دکن کالج،پونہ میں تدریس کے زمانے(۱۹۱۳۔۱۹۱۴ء ) میں علامہ شبلی ؒ کے مشورے اور ہدایات کی روشنی میں یہ کتاب تالیف کی تھی۔سید صباح الدین عبد الرحمٰن (۱۹۱۲ئ۔۱۹۸۷ئ)نے لکھا ہے :’’اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ در اصل مولانا شبلی ؒ کی شہرہ آفاق تصنیف سیرۃ النبی کے دیباچہ کے لیے لکھا گیا تھا، لیکن یہ تحریر اتنی بڑھتی چلی گئی کہ اس کی دو(۲) جلدیں ہو گئیں اور وہ مستقل تصنیف بن گئی ۔‘‘ ۸؎ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جلد اول ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔اس کا تذکرہ دار المصنفین کی پہلی سالانہ روداد(۱۹۱۶ئ) میں مطبوعہ کتابوں کے ضمن میں ملتا ہے۔ جلد دوم کی اشاعت۱۹۱۸ء میںہوئی۔دونوں جلدوںکی دوسری اشاعت بالترتیب ۱۹۲۳ئ،۱۹۲۴ء میں ہوئی۔

سید سلیمان ندویؒ کی تصانیف میں اس کتاب کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ سید صباح الدین عبد الرحمٰن نے اس کا مبسوط مطالعہ کیا ہے اس کا تعارف کراتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’ بنیادی طور پر تو وہ علم القرآن کے ماہر رہے۔ ان کو قرآن مجید سے عشق تھا۔ اسی عشق کی بنیاد پر انھوں نے ارض القرآن کی قوموں کو اپنا محبوب موضوع بنایا اور اپنی تحقیقات کا جوہر دکھایا۔ اسی کے ساتھ اس کتاب کے لکھنے میں ان کا اہم ترین مقصد یہ بھی تھا کہ قدیم و جدید معلومات کی تطبیق کے ساتھ ارض القرآ ن کے حالات کی اس طرح تحقیق ہو کہ قرآن مجید کی صداقت اور معترضین کی لغزش علی الاعلان آشکارا ہو جائے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ شروع سے آخر تک بہت ہی مستند اور بلند پایہ مؤرخ کی حیثیت سے نمایاں ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس میں قرآن مجید کی آیتیں بہ کثرت نقل کی ہیں۔ان کا مطالعہ کرتے وقت یہ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ قرآن مجید کو پند و موعظت اور عبرت و بصیرت کا محض صحیفہ سمجھتے ہیں، لیکن سید صاحب نے اس کو تاریخ و سیر کا ایک بہت ہی اہم ماخذ بنا دیا ہے۔۔۔انھوں نے اس سرزمین کی قوموں کی اور قبیلوں کی تاریخ مرتب کردی ہے جہاں قرآن مجید کا نزول ہوا۔۔۔یہ در اصل تاریخ ارض القرآن ہے جو خالص مؤرخانہ نقطۂ نظر سے لکھی گئی ہے۔ قرآن کی سر زمین کی جن قدیم قوموں اور قبیلوں کو بھلا دیا گیا ان کی یاد اس کتاب میں پھر سے دلا دی گئی ہے۔۔ ان کی تاریخ لکھنے میں ہر قبیلے کے نام کی صراحت کی گئی ہے، اس کا زمانہ متعین کیا گیا ہے، اس کی سیاسی تاریخ لکھی گئی ہے،س کا دائرۂ حکومت بتایا گیا ہے،اس کے فرماں رواؤ ں کے نام اور تعداد کی بھی حتیٰ الوسع وضاحت کی گئی ہے۔۔۔پھر ان کے مذاہب اور عقائد کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔۔۔ان قبیلوں کے زوال اور تباہی کے کیا اسباب ہوئے، اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۹؎

(۲) سیرت النبی

سیرت النبی کا موضوع اگرچہ بہ ظاہر سیرت ہے، لیکن اربابِ تحقیق جانتے ہیں کہ اس کا بڑا حصہ قرآنی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ سیرتِ نبوی اصلاً دو باتوں سے عبارت ہے: ایک یہ کہ نبی کون ہے ؟ اوردوسری یہ کہ وہ کیا پیغام لایا ہے؟علامہ شبلی ؒ کی تصنیف کردہ دو (۲)جلدیں حیات ِطیبہ کی تفصیلات کا احاطہ کرتی ہیں، جب کہ سید سلیمان ندویؒ کی تیار کردہ بقیہ پانچ جلدیں پیغامِ سیرت کی تشریح و توضیح کرتی ہیں۔ اس معاملے میں ان کا اہم مرجع قرآن کریم رہا ہے۔سید صاحب نے ایک جگہ خود لکھا ہے:

’’سیرۃ نبوی کی ہر بحث میں قرآن پاک میری عمارت کی بنیاد ہے اور حدیث نبوی اس کے نقش و نگار ہیں۔‘‘ ۱۰؎

سیرت النبی میں قرآنیات کے سلسلے میں سید صاحب کے کام کے کئی پہلو ہیں:انھوں نے سیرت کے مختلف ادوار اور واقعات کی تحقیق میں قرآنی آیات سے استشہاد و استدلال کیا ہے،قرآن کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی تشریح کی ہے اور قرآنی الفاظ و اصطلاحات کی لغوی تحقیق کی خدمت انجام دی ہے۔ ۱۱؎

(۳)مقالاتِ سلیمان[جلد سوم] سید صاحب نے مختلف موضوعات پر کثرت سے مقالات لکھے ہیں۔ ان کے تین مجموعے شائع کیے گئے ہیں۔پہلامجموعی تاریخِ ہند سے متعلق مقالات اور دوسرا غیر مذہبی علمی و تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے۔ تیسرے حصے کے مقالات کو ’مذہبی‘ کا عنوان دیا گیا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تمام مقالات قرآنیات کے مختلف پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں۔ مرتب مقالات شاہ معین الدین احمد ندوی نے اپنے دیباچہ میں، جس پر تاریخ ۱۴؍ اپریل ۱۹۷۱ء درج ہے، لکھا ہے:

’’اس کے بیش تر مضامین کسی نہ کسی پہلو سے کلام مجید سے متعلق ہیں۔ اس لیے ان کو’ مقالاتِ قرآنی‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘ ۱۲؎

اس مجموعے کی ضخامت ۲۹۵؍صفحات ہے۔ذیل میں ان مقالات کی فہرست درج کی جاتی ہے:

۱۔ علوم القرآن الہلال کلکتہ،۱۱؍فروری،۲۵؍ فروری، ۸؍جولائی ۱۹۱۴ء

۲۔ اسماء القرآن الندوہ، اگست۱۹۱۱ء

۳۔ مکررات القرآن الندوہ، جنوری ۱۹۰۹ء

۴۔ ارض حرم۔ قرآن کی روشنی میں معارف، نومبر،دسمبر ۱۹۲۳ء

۵۔ پیغامِ امن یعنی محبت الٰہی اور مذہبِ اسلام معارف، جولائی ۱۹۲۳ء

۶۔القرآن و الفلسفۃ الجدیدۃ الندوہ، جولائی ۱۹۰۶ء

۷۔ مسئلۂ ارتقا اور قرآن مجید الندوہ، جنوری ۱۹۰۸ء

۸۔ ایمان بالغیب الندوہ،دسمبر ۱۹۰۸ء

۹۔ قرآن مجید پر تاریخی اعتراضات[آزر، مریم بنت عمران] معارف، اگست، ستمبر ۱۹۱۶ء

۱۰۔ اساطیر الاولین الہلال کلکتہ،۱۵؍ اپریل ۱۹۱۴ء

۱۱۔ تذکار نزول القرآن[ حقیقت صوم] الہلال کلکتہ،۶؍ اگست ۱۹۱۴ء

۱۲۔ روزہ معارف،جولائی ۱۹۱۶ء

۱۳۔ ایامِ صیام پر نظر ثانی معارف، جنوری ۱۹۳۲ء

۱۴ ۔لفظ ’صلوٰۃ‘ قرآن شریف میں معارف،اکتوبر۱۹۲۷ء

۱۵۔ خلیل اللہ کی بشیریت معارف،اپریل مئی ۱۹۳۷ء

۱۶۔ ذبح عظیم معارف،مارچ۱۹۳۷ء

۱۷۔ قربانی کا اقتصادی پہلو معارف،مارچ۱۹۳۷ء

۱۸۔ سود اور صحفِ انبیائ الندوہ،جون۱۹۰۹ء

۱۹۔ قیامت الندوہ، ستمبر ۱۹۰۹ء

۲۰۔تحریمِ شراب الندوہ، اکتوبر ۱۹۰۹ء

۲۱۔ حاکم حقیقی صرف اللہ ہے معارف،نومبر۱۹۴۶ء

۲۲۔ آیت ِ استخلاف معارف،اکتوبر ۱۹۲۰ء

۲۳۔ قرآن پاک کا تاریخی اعجاز معارف،فروری۱۹۳۹ء

۲۴۔ اسلام۔دونوں جہاں کی بادشاہی معارف،ستمبر ۱۹۴۱ء

۲۵۔ جبر و قدر معارف،ستمبر ۱۹۴۵ء

اشاریۂ معارف ( مرتبہ ڈاکٹر جمشید احمد ندوی )دیکھنے سے قرآنی موضوعات پر سید صاحب کے درج ذیل تین مقالات اور ملے ، جو ’مقالات سلیمان‘ حصۂ سوم میں شامل نہیں ہیں۔ممکن ہے، چھوٹ گئے ہوں:

۱۔ احکام القرآن معارف، اپریل ۱۹۲۶ء

۲۔ توکل معارف، اپریل،۱۹۳۵ء

۳۔ صبر کا قرآنی مفہوم معارف، مئی جون ۱۹۳۵ء

مولانا عبد السلام ندویؒ

مولانا عبد السلام ندوی(۱۸۸۳۔۱۹۵۶ئ) علامہ شبلی کے تلمیذ رشیداور دار المصنفین کے علمی منصوبوں میں سید سلیمان ندوی ؒ کے دست راست اور رفیق کار تھے۔ان کی تصنیفی زندگی نصف صدی پر محیط ہے۔ اس عرصہ میں انھوں نے اسلامیات کے تمام موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔رفقائے دار المصنفین میں غالباً سب سے زیادہ انہی کے مقالات مجلہ معارف میں شائع ہوئے ہیں ۔ بہ قول جناب سید صباح الدین عبد الرحمٰن:

’’پچاس سال میں قرآن پاک، تفسیر، سیرت، کلام، فلسفہ، منطق، نفسیات، اجتماعیات، تاریخ اور شعر و ادب، شاید ہی کوئی ایسا فن رہ گیا ہوجس کے کسی نہ کسی گوشے پر ان کا قلم نہ چلا ہو۔‘‘ ۱۳؎

دار المصنفین سے ان کی ایک درجن سے زائدکتابیں شائع ہوئی ہیں۔قرآنیات پر ان کے کام کا تعارف ذیل میں کرایا جاتا ہے:

(۱) دلائل الفرقان

مولانا عبد السلام ندوی کو ’دلائل الفرقان ‘ کے نام سے ایک کتاب تیار کرنے کو کہا گیا تھا۔دار المصنفین کی بعض سالانہ رودادوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خاصا حصہ انھوں نے لکھ لیا تھا۔ شاہ معین الدین ندویؒ نے اپنی نظامت [ شعبۂ علمی دار المصنفین ]کی پہلی سالانہ روداد(۱۹۵۲ئ) میں دار التصنیف کی سرگرمیوں کے ضمن میں اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’مولانا عبد السلام ندوی نے ’دلائل القرآن‘[دلائل الفرقان] کے ایک سو چوالیس(۱۴۴) صفحات لکھے۔‘‘ ۱۴؎ لیکن یہ کتاب مکمل ہوئی یا نہیں؟ہوئی تو کہاں گئی؟ مکمل نہیں ہوسکی تو کیوں؟نامکمل کتاب کے اوراق کیا ہوئے؟ان سوالات کا کوئی حتمی جواب ہمیں نہیں ملتا۔اس کتاب کے بارے میں پروفیسر کبیر احمد جائسی مرحوم نے لکھا ہے:

’’ اس کتاب کا مکمل مسودہ میں نے اعظم گڑھ کے قیام کے دوران دار المصنفین میں دیکھا تھا۔ اب یہ کہنا تو ممکن نہیں ہے کہ مولانا عبد السلام ندویؒ نے اس کتاب کو کب لکھنا شروع کیا تھا، لیکن یہ بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ۷؍مارچ ۱۹۵۲ء سے پہلے یہ کتاب مکمل ہو کر عبد الماجد دریابادی کے پاس ان کی رائے جاننے کے لیے بھیجی جا چکی تھی۔‘‘ ۱۵؎

پروفیسر جائسی نے’دلائل الفرقان‘ کی تکمیل کی شہادت کے طورپر مولانا عبد الماجد دریابادیؒ(۱۸۹۲۔۱۹۷۷ئ) کا ایک خط نقل کیا ہے، جو اسی سلسلے میں ناظم دار المصنفین شاہ معین الدین ندوی کو لکھا گیا تھا۔ ۱۶؎

(۲)اعجاز القرآن

دار المصنفین کے دیے گئے منصوبے کے مطابق مولانا عبد السلام ندویؒ نے قرآنیات سے متعلق ایک اور کتاب’ اعجاز القرآن‘ کے نام سے تحریر فرمائی تھی۔اس کتاب سے متعلق بھی سراغ نہیں ملتا کہ یہ مکمل ہوسکی تھی یا نہیں؟بہر صورت اس کے اوراق کہاں گئے؟کچھ پتہ نہیں۔اس کتاب سے متعلق پروفیسر کبیر احمد جائسی لکھتے ہیں:

’’ اس کتاب کا بھی مکمل مسودہ میں نے عبد السلام ندوی کے بعد دار المصنفین میں دیکھا تھا۔ خوش قسمتی سے مولانا عبد السلام کی ایک تحریر بھی محفوظ رہ گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر ۱۹۵۱ء سے پہلے( ہو سکتا ہے، سال بھر پہلے) یہ کتاب مکمل ہو گئی ہو۔مولانا عبد السلام ندوی نے مولانا عبد الماجد دریابادی کو خط لکھتے ہوئے یہ درخواست کی کہ’’ مجھے امید ہے کہ آپ نے میری کتاب ’ اعجاز القرآن‘ دیکھ لی ہوگی۔اسے برائے کرم انشورڈ یا رجسترڈ ڈاک سے واپس فرما دیجیے، تاکہ آپ کی ہدایت کے مطابق اس میں ترمیم و اضافہ کر سکوں۔‘‘ ۱۷؎

(۳) مقالات عبد السلام

مولانا عبد السلام ندویؒ نے دار العلوم ندوۃ العلماء میںطالب علمی کے دور میں’ الندوہ‘ میں اور بعد میںدار المصنفین میں قیام کے دوران’ معارف‘ میں قرآنی موضوعات پرجو مقالات تحریر کیے تھے ان کی فہرست ذیل میں پیش کی جاتی ہے:

۱۔ قصص الانبیاء اور قرآن مجید الندوہ ستمبر ۱۹۱۰ء

۲۔ برکاتِ آسمانی اور قرآن مجید الندوہ، مئی ۱۹۱۲ء

۳۔ زکوٰۃ یا خیرات الندوہ،

۴۔ تعدد ازدواج ثقافت لاہور

۵۔ تحریفاتِ یہود معارف ،ستمبر ۱۹۱۷ء

۶۔ قرآن مجید اور شاعری[کیا قرآن مجید میں شاعری نہیں ہے؟] معارف ،جون ۱۹۲۰ء

۷۔ دین فطرت یا دین حنیف معارف،جولائی ۱۹۲۰ء

۸۔ [تفسیر]سورۂ قیامہ [مولانا فراہی ؒ]کے چند نکات معارف ،جنوری ۱۹۲۱ء

۹۔ تحریم سود اور اس کے علل و اسباب معارف ،جون تا ستمبر ۱۹۲۴ء

۱۰۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی ’ مودت‘ معارف ،مئی ۱۹۲۸ء

۱۱۔ خصائصِ قرآن مجید[بلاغت] معارف،جون ۱۹۳۲ء

۱۲۔ نزول القرآن علی سبعۃ احرف معارف ،مئی۱۹۳۰ء

۱۳۔ کیا قرآن مجید ایک مسجّع کلام ہے؟ معارف،جنوری ۱۹۳۵ء

۱۴۔ امام رازی اور ان کی تصانیف معارف،دسمبر ۱۹۴۰ء

۱۵۔ معجزات اور اسباب خفیہ معارف،مئی ۱۹۲۳ء

۱۶۔ معجزۂ قرآن کی نوعیت معارف،اکتوبر، نومبر ۱۹۵۰ء

(۲) ما بعد دور کے رفقائے دار المصنفین کی خدمات

مولانا محمد سعید انصاری

مولانا محمد سعید انصاری(۱۸۹۴۔۱۹۶۲ئ) فتح پور ہسوہ کے رہنے والے تھے۔ کان پور کے مدارس:جامع العلوم اور مدرسہ الٰہیات میں تعلیم حاصل کی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ ان کے اساتذہ میں سے ہیں۔ علامہ شبلیؒ اور مولانا فراہیؒ سے بھی استفادہ کیا۔فروری ۱۹۱۶ء میں دار المصنفین سے وابستہ ہوئے اور ۱۹۲۱ء تک یہاں رہ کر مولانا سید سلیمان ندویؒ کی سرپرستی میں تصنیف و تالیف میں منہمک رہے۔

مولانا محمدسعید انصاری نے دار المصنفین میں رہ کر اس کے ’سیرتِ صحابہ و صحابیات‘ پروجکٹ کی تکمیل میں تعاون کیا۔سیر الانصار کی ابتدائی دو جلدیں اور سیر الصحابیات ان کے قلم سے نکلیں۔ اس کے علاوہ ان کا عظیم الشان کام ابو مسلم اصفہانیؒ کی نایاب تفسیر ’جامع التاویل لمحکم التنزیل‘ کی تدوین ہے۔اس کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:

ملتقط جامع التاویل لمحکم التنزیل

ابو مسلم اصفہانی( ۲۵۴۔۳۲۱ھ؍۸۶۸۔۹۳۴ء ) کا شمارتیسری چوتھی صدی ہجری کی نمایاں شخصیات میں ہوتا ہے۔ انتظامی اور علمی دونوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ خلیفہ مقتدر کے زمانے میں اصفہان اور فارس کا چارج ان کے پاس تھا۔ بلند پایہ مفسر اور زبان و ادب کے ماہر تھے۔ان کا شمار کبار ِمعتزلہ میں ہوتا ہے۔ان کی تفسیر کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں قرآن کی تفسیر عقل کے موافق کی گئی ہے۔یہ تفسیر کافی ضخیم تھی۔ حاجی خلیفہ نے لکھا ہے کہ یہ چودہ(۱۴) جلدوں میں تھی ۔۱۸؎ بعد کے مفسرین نے (خاص طور پر معتزلہ اور شیعہ) مثلاًقاضی عبد الجبار( طبقات المعتزلۃ )،حاکم الجشمی (التہذیب فی التفسیر )،سید مرتضی ( الامالی )، طبرسی ( مجمع البیان )، ابو الفتوح الرازی ( روح الجنان )وغیرہ نے اس سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ طوسی نے اپنی تفسیر’ التبیان فی تفسیر القرآن ‘کے مقدمے میں ابو مسلم کی تفسیر کے کچھ اقتباسات نقل کیے ہیں۔ اما م رازیؒ (۵۴۳۔۶۰۶ھ؍۱۱۵۰۔۱۲۱۰ئ) نے اس کے خاصے اقتباسات اپنی تفسیر میں نقل کیے تھے۔لیکن افسوس کہ یہ تفسیر حوادث زمانہ کی نذر ہوگئی۔اس کی اہمیت کے پیش نظرمولانا سعید انصاری کو امام رازیؒ کی ’تفسیر کبیر‘ میں سے اس کے اقتباسات جمع کرنے کا کام سونپا گیا۔ اس کی خبر سناتے ہوئے مولانا سید سلیمان ندوی نے معارف نومبر ۱۹۱۶ء کے ’شذرات‘ میں لکھا:

’’ اربابِ علم کو ایک اور خوانِ نعمت کی ہم خوش خبری سناتے ہیں۔ عربی زبان میں عقلی طور پر تفسیر کبیر(امام رازی) کے طرز پرجو تفسیریں لکھی گئیںان میں سب سے بہتر ابو مسلم اصفہانی کی تفسیر ہے، جس کی خود اما رازی نے بے انتہا داد دی ہے اور جا بہ جا ان کی تفسیر کے اقوال بلفظہا انھوں نے نقل کیے ہیں۔تفسیر مذکور اب دنیا سے ناپید ہے۔ اس کا ایک صفحہ بھی کہیں مل جائے تو قدر دانوں کے نزدیک لعل و گہر سے گراں تر ہے۔۔۔ہم یہ چاہتے تھے کہ تفسیر کبیر کے نا پیدا کنار دریا میں ابو مسلم اصفہانی کے جو گہر ہائے آب دار پڑے ہیں ان کو ایک رشتے میں منسلک کر دیا جائے۔ تفحص و تلاش سے پتہ چلا ہے کہ اس مقصد میں بے انتہا کام یابی ہو سکتی ہے۔چنانچہ مولوی محمد سعید انصاری رفیق دار المصنفین اس خدمت میں مصروف ہیں۔ جس رفتار سے وہ کام کر رہے ہیں اس سے امید ہوتی ہے کہ چند مہینوں میں یہ اختتام کو پہنچ جائے گا۔‘‘ ۱۹؎

مولانا سعید انصاری نے یہ کام ۱۹۱۹ء میں مکمل کر لیا تھا۔ اس سال کی دار المصنفین کی سالانہ روداد میں اس کا ذکر آیا ہے۔۲۰؎ مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اس اہم کام کے بارے میں قارئین معارف کو ان الفاظ میں خوش خبری سنائی تھی:

’’ خوشی کی بات ہے کہ رفقائے دار المصنفین میں مولوی محمد سعید انصاری نے اس اہم کام کو اپنے ذمے لیا اور امام رازی کی تفسیر کو، جو تقریباًدس ہزار صفحات کی کتاب ہے ، چار مرتبہ حرفاً حرفاً پڑھ کر ابو مسلم کے تمام اقوال جمع کیے ہیں اور ان کو ایک رسالے کی صورت میں مرتب کیا، جس سے اس قدیم تفسیر کا نہایت ضروری حصہ سامنے آگیا۔ یہ کام اگرچہ ۱۹۱۶ء میں مکمل ہو چکا تھا، تاہم اس کی طباعت کا اب سامان ہوا ہے۔‘‘ ۲۱؎

یہ کتاب دار المصنفین کے لیے۱۹۲۱ئ[۱۳۴۰ھ] میں’ ملتقط جامع التاویل لمحکم التنزیل‘ کے نام سے مطبعۃ البلاغ کلکتہ سے چھپی۔چنانچہ ۱۹۲۲ء کی سالانہ روداد میں بھی اس کا تذکرہ آیا ہے۔۲۲؎

سید سلیمان ندوی نے اس پر مختصر، جامع مقدمہ لکھا ہے، جس پر تاریخ ۱۴؍ربیع الاول ۱۳۳۹ھ[۲۷؍نومبر ۱۹۲۰ئ]درج ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:

’’دار المصنفین کو قائم ہوئے چھ سال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں اس کے رفقا نے فلسفہ، تاریخ، سیرت،ادب اور دینیات وغیرہ میں اٹھارہ کتابیں تصنیف کی ہیں، جنھیں الحمد للہ قبول ِ عام حاصل ہوا ہے۔ یہ اس کے سلسلۂ مطبوعات کی چودھویں کتاب ہے۔‘‘۲۳؎

یہی کام کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں ہوا۔جناب سید نصیر شاہ اور جناب رفیع اللہ نے امام رازیؒ کی تفسیر کبیر سے ابو مسلم کی تحریروں کے نہ صرف اقتباسات جمع کیے، بلکہ ان کا اردو میں ترجمہ بھی کر دیا۔ مزید بر آں جہاں ابو مسلم نے دوسرے مفسرین سے اختلاف کیا تھا وہاں اختصار کے ساتھ دوسرے مفسریں کے اقوال بھی پیش کر دیے اور جہاں ابو مسلم کے کسی قول میں اجمال تھا وہاں اس کی کسی قدر تشریح کر دی۔مرتبین نے لکھا ہے کہ جب وہ یہ کام مکمل کر چکے تو ہندوستان میں انھیں یہ کام ہو چکنے کی اطلاع ملی، لیکن تلاش بسیار کے باوجود اس تک ان کی رسائی نہ ہو سکی:

’’تفسیر کبیر میں سے ابو مسلم کے بکھرے ہوئے اقوال جمع کرنا بڑا مشکل کام تھا۔بہر حال ہم نے امکان بھر کوشش کی ہے۔جب ہم اقوال جمع کرنے کے بعدانھیں اردو کا لباس پہنا چکے تھے تو اس وقت معلوم ہوا کہ کوئی ابو سعید صاحب[صحیح نام سعید] ہیں جنھوں نے پہلے ان اقوال کو جمع کیا تھا۔ اگر چہ انھوں نے انہیں اردو میں منتقل نہیں کیا تھا، لیکن اقوال تو بہر حال یک جا تھے۔ اس لیے ہم نے اس کتاب کو تلاش کرنے کی بھی بڑی کوشش کی، تاکہ زیر نظر کتاب کو اس سے ملا کر دیکھ لیا جائے۔ ممکن ہے کوئی قول ہم سے چھوٹ گیا ہو؟ مگر افسوس ہے کہ وہ کتاب ہمیں نہ مل سکی۔‘‘ ۲۴؎

تفسیر ابو مسلم اصفہانی پر ایک کام ایران میں میں ہوا ہے۔ اس کے تحت رازی کی’ تفسیر کبیر ‘کے ساتھ طبرسی کی’ مجمع البیان‘ سے اس تفسیر کے اقتباسات کی ترتیب و تدوین کرکے’تحقیق فی تفسیر ابی مسلم محمد بن بحر الاصفہانی بروایۃ الطبرسی فی مجمع البیان و الرازی فی مفاتیح الغیب‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ایک دوسرا کام ایک بڑے پروجکٹ ’موسوعۃ تفاسیر المعتزلۃ‘ کے تحت ہوا ہے۔ اس ضمن میں تفسیر ابی بکر الاصم عبد الرحمٰن بن کیسان اور تفسیر ابی مسلم محمد بن بحر الاصفہانی کو ایک ساتھ شائع کیا گیا ہے۔جمع و اعداد و تحقیق کی خدمت ڈاکٹر خضر محمد نبھا نے انجام دی ہے اور اس پر مقدمہ رضوان السید نے لکھا ہے۔ یہ کتاب دار الکتب العلمیۃ بیروت سے ۲۰۰۷ء میں شائع ہوئی ہے۔

قرآنیات پر مولانا سعید انصاری کے دو مقالات معارف میں شائع ہوئے ہیں۔ایک’ ابو مسلم اصفہانی‘ کے عنوان سے جنوری ۱۹۱۸ء میں شائع ہوا اور دوسرا’قرآن مجید میں بائبل کے حوالے‘ کے عنوان سے جنوری ۱۹۱۹ء میں۔ ایک تیسرا مقالہ ’تورات اور شریعت حمورابی‘ کے عنوان سے ہے جو معارف،اگست ۱۹۱۹ء میں شاملِ اشاعت ہے۔

مولانا محمد اویس نگرامی ندوی

مولانا محمد اویس ندوی(۱۹۱۴ئ۔۱۹۷۶ئ) کی ولادت نگرام، ضلع لکھنؤ میں ہوئی۔۱۹۳۲ء میں وہ دار العلوم ندوۃ العلماء سے فارغ ہوئے۔ اس کے بعد مولانا سید سلیمان ندوی نے انھیں دار المصنفین بلا لیا، جہاں وہ سات سال رہے۔اس کے بعد انھوں نے سید صاحب ہی کے مشورے سے ندوۃ العلماء میں شیخ التفسیر کی ذمے داری قبول کرلی۔۱۹۶۱ء میں معارف کی مجلس ادارت اور دار المصنفین کی مجلس انتظامیہ کے رکن بنے۔

دار المصنفین سے مولانا اویس ندوی کی دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ذیل میں ان کا تعارف کرایا جا رہا ہے:

(۱) التفسیر القیم للامام ابن القیم

مولانا کا اہم کارنامہ علامہ ابن قیم (۶۹۱۔۷۵۱ھ )کی تحریروں سے ان کے تفسیری نکات کی ترتیب و تدوین ہے۔یہ کتاب ’التفسیر القیم‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس میںصحیح عقائد کا اثبات کیا گیا ہے، باطل فرقوں کے غلط عقائد کا ابطال کیا گیا ہے اورکلامی، لغوی اور فقہی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔

کتاب کے مقدمہ میں ( جس پر تاریخ ذی قعدہ ۱۳۶۷ھ؍ستمبر ۱۹۴۸ء درج ہے )فاضل مرتب نے صراحت کی ہے کہ یہ خدمت انھوں نے مولانا سید سلیمان ندوی ناظم دار المصنفین اور ڈاکٹر عبد العلی، ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی نگرانی اور رہ نمائی میں انجام دی ہے۔دار المصنفین کے لیے اس کتاب کی طباعت کی ذمے داری شیخ عبد اللہ دہلوی اور شیخ عبید اللہ دہلوی نے لی، جو مکہ مکرمہ کے بڑے تاجروں میں سے تھے۔ وہ اسے اپنے ساتھ مکہ مکرمہ لے گئے اور شیخ محمد حامد الفقی صدر انصار السنۃ المحمدیہ کے حوالے کیا کہ علامہ ابن قیم کی اصل تحریروں کی روشنی میں اس پر نظر ثانی کرلیں اور اگر ابن قیم کے کچھ تفسیری اقوال مولانا اویس سے چھوٹ گئے ہوں تو ان کا اضافہ کر دیں۔ یہ کام شیخ فقی نے انجام دیا اور یہ کتاب ۱۳۶۸ھ؍۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی ۔ کتاب کے سرِ ورق پر یہ صراحت ہے کہ یہ کتاب عبد اللہ و عبید اللہ دہلوی کے خرچ پر طبع ہوئی ۔کتاب پر شیخ فقی کا مقدمہ ہے اور کتاب کے آخر میں بھی ان کا ایک نوٹ ہے، جس میں انھوں نے لکھا ہے:

’’الحمد للہ ابن قیم کی ’ التفسیر القیم ‘کی طباعت پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس کی طباعت میں راقم کو بہت مشقت اٹھانی پڑی اوربہت جد و جہد کرنی پڑی۔ اس لیے کہ برادر شیخ محمد اویس نے جو نسخہ بھیجا تھا وہ انتہائی سقم والا، ناقص، بد خط اور کتابت کی بھونڈی غلطیوں والا تھا۔ خود یہ کام متعدد پہلوؤں سے ناقص تھا۔ بہت سی آیتیں چھوٹ گئی تھیں۔میں نے ان کا اضافہ کیا۔ بہت سی آیتیں غلط مقامات پر درج ہو گئی تھیں۔ میں نے انھیں درست جگہوں پر منتقل کیا۔ ابن قیم کی جن کتابوں سے یہ تفسیر مرتب کی گئی ہے ان پر نمبر ڈالنے میں غلطی موجود تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے اس کام کی تکمیل کی توفیق بخشی۔ مجھے یقین ہے کہ اب بھی اس کام میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی۔ اگر کچھ اور وقت ملتا تو یہ کام زیادہ بہتر اور مکمل صورت میں انجام پاتا۔‘‘ ۲۵؎

ڈاکٹر محمد عارف عمری نے اس کتاب کے بارے میں متعدد باتیں غلط لکھ دی ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

’’التفسیر القیم کا دوسرا ایڈیشن محمد حامد الفقی صدر جماعت انصار السنۃ المحمدیۃ کے تعلیقات و حواشی کے ساتھ ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا۔یہ تفسیری مجموعہ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے اور سورۂ نحل تک سورتوں کی ترتیب کے موافق اس کو مرتب کیا گیا ہے۔۔۔یہ عجیب بات ہے کہ التفسیر القیم کے دوسرے ایڈیشن میں لوح کتاب پر سلفیت کے انتساب نے ایسا تسلط جما لیا ہے کہ دار المصنفین کے ساتھ جو اس کا تعلق ہے وہ دھندلا ہوکر رہ گیا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ اس کتاب کو دار المصنفین سے از سر نو شائع کیا جائے۔‘‘۲۶؎

اس بیان میں کئی غلطیاں ہیں:

اول: یہ دوسرا ایڈیشن نہیں، بلکہ پہلا ایڈیشن ہی تھا، جو شیخ فقی کی نظر ثانی کے بعد ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا تھا۔

دوم: یہ سورۂ نحل تک نہیں، بلکہ سورۂ ناس تک ہے۔

سوم:یہ چار سو صفحات پر نہیں، بلکہ چھ سو اکتیس صفحات پر مشتمل ہے۔

چہارم: اس پرشیخ فقی کے حواشی نہیں ہیں، بلکہ انھوں نے اس کا مراجعہ کیا ہے۔

مولانا عبد الماجد دریا بادی نے مولانا اویس ندوی اور ان کی اس کتاب کا تعارف ایک جگہ ان الفاظ میں کرایا ہے:

’’وہ یہی نہیں کہ دار العلوم ندوہ میں فن تفسیر کے استاد اور سالہا سال کا تجربہ درس قرآن کا رکھتے ہیں، بلکہ اپنے ذوق و وجدان کے لحاظ سے صحیح معنی میں قرآنیات کے عالم و متعلم ہیں۔ ان کا مطالعہ اس باب میں بڑا وسیع اور ان کی نظر اس خصوص میں ما شاء اللہ گہری ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشائ۔ابن قیمؒ کی تفسیر انہی نے بہت سی کتابوں کو کھنگال کر اور بڑی دیدہ ریزی سے التقاط کرکے مرتب و شائع کی ہے۔ اور حیثیتوں سے بھی اپنے کو خدمتِ قرآن کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔‘‘ ۲۷؎

اس کتاب پراز سر نوتحقیقی کام شیخ ابراہیم رمضان کی زیر نگرانی مکتب الدراسات و البحوث العربیۃ و الاسلامیۃ میںہوا ہے اور اس کی اشاعت دار و مکتبۃ الھلال بیروت سے ۱۴۱۰ھ میں ہوئی ہے۔

(۲) تعلیم القرآن ۲۸؎

اس کتاب میں مسلمان بچوں کی بنیادی مذہبی تعلیم کے لیے بہت عام فہم اور دل نشیں انداز میں جملہ دینی و اخلاقی تعلیمات قرآن مجید کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں۔ایک سو پچاس(۱۵۰) صفحات کی کتاب میں ایک سو انیس(۱۱۹) ذیلی عناوین قائم کیے گیے ہیں۔یہ کتاب جناب ثناء اللہ رئیس گورکھ پور کی فرمائش پر لکھی گئی تھی اور ان کے خرچ پر دار المصنفین سے شائع ہوئی تھی۔اس پر ایک صفحہ کا جو دیباچہ شاہ معین الدین احمد نے لکھا تھا، اس پر تاریخ ۲۵؍ اگست ۱۹۵۹ء درج ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے انھوں نے اس وقت تالیف کیا تھا جب دار العلوم ندوۃ العلمء میں استادِ تفسیر تھے۔ شاہ صاحب نے اپنے دیباچے میں لکھا ہے:

’’اردو میں مسلمان بچوں کی بنیادی مذہبی تعلیم کی کتابوں کی کمی نہیں ہے، مگر ایک ایسی جامع و مختصرکتاب کی ضرورت اب بھی باقی تھی جس میں اسلام کی جملہ ضروری تعلیمات قرآن مجید سے اخذ کی گئی ہوں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہی ہے کہ اس میں وقائد، عبادات، معاملات، اور اخلاق وٖیرہ سے متعلق وہ تمام احکام و تعلیمات، جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، قرآنی آیات سے اخذ کی گئی ہیں اور احادیثِ نبوی کی روشنی میں سادہ مگر دل نشین انداز میں ان کی تشریح کی گئی ہے اور ان سے متعلق متفرق فوائد و مسائل بیان کیے گیے ہیں۔‘‘ ۲۹؎

افسوس کہ اس کتاب کو جو مقبولیت ملنی چاہیے تھی وہ نہ مل سکی، چنانچہ غالباً اس کا دوسرا ایڈیشن اب تک شائع ہونے کی نوبت نہیں آسکی ہے۔ ضرورت ہے کہ بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر اس کا ایک دیدہ زیب ایڈیشن شائع کیا جائے۔

مولانا محمد اویس ندوی نے دار المصنفین میں دورانِ قیام قرآنیات پر متعدد مقالات لکھے تھے، جو مجلہ معارف میں شائع ہوئے:

۱ ۔ تراجمِ قرآن فروری ۱۹۴۰ء

۲ ۔ بائبل قرآن اور حدیث میں نومبر، دسمبر ۱۹۴۰ء

۳۔ زندیق کی حقیقت مارچ ۱۹۴۱ء

۴۔ حافظ جلال الدین السیوطی ؒ ستمبر، اکتوبر ۱۹۴۱ء

۵۔ کلمۃ اللہ ۱پریل ۱۹۴۲ئ

۶۔ ابن جریر طبریؒ اگست، ستمبر ۱۹۴۲ء

۷۔ مستشرق نولدیکی اور قرآن دسمبر ۱۹۴۲ئ

۸۔ کچھ تفسیر رازی کے متعلق جون ۱۹۴۴ء

مولانا ابو الجلال ندوی

مولانا ابو الجلال ندوی(۱۸۹۱۔۱۹۸۴ئ) کا وطن اعظم گڑھ تھا۔ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فراغت پائی۔۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک دار المصنفین میں رہے۔ ۱۹۴۶ء میں دوبارہ واپس آئے۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد پاکستان چلے گئے تھے، وہیںان کا انتقال ہوا۔عبرانی، عربی، اردو، انگریزی، ہندی اور سنسکرت میں مہارت رکھتے تھے۔ مخطوطہ شناسی میں مہارت رکھتے تھے۔انھوں نے دار المصنفین میں رہ کر ’اعلام القرآن‘ کے نام سے ایک پروجکٹ پر کام کیا تھا۔ اس کا تعارف ذیل میں کرایا جاتا ہے:

اعلام القرآن

مولانا ابو الجلال ندوی دار المصنفین میں دوبارہ واپس آئے تو ان سے ’اعلام القرآن‘ پر کام کرنے کو کہا گیا۔اس سلسلے میں مولاناسید سلیمان ندوی صاحب نے اس وقت کے ناظم شاہ معین الدین احمد ندوی کو لکھا تھا:

’’مولوی ابو الجلال صاحب اعلام القرآن کے نام سے ایک کتاب لکھنا شروع کریں۔ اللہ اور آدم سے لے کر’یا‘ تک سب اعلامِ قرآن جمع کریں اور ان کی لغوی و تاریخی تحقیق کریں۔ سارے انبیائ، ملائکہ، اصنام،کفار ،صحابہ، مقامات، کتب، غرض سب اعلام آجائیں۔‘‘ ۳۰؎

افسوس کہ یہ اہم علمی منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔اس موضوع پر مولانا نے جو چند مقالات معارف میں لکھے تھے ان کی فہرست ذیل میں درج کی جا رہی ہے۔ ان کا یک مجموعہ شائع کر دینا مناسب ہے:

۱۔ ذو الکفل جولائی ۱۹۴۸ء

۲۔ بکۂ مبارکہ اگست ۱۹۴۸ء

۳۔ الروم جنوری ۱۹۴۹ء

۴۔ السامری جولائی ۱۹۴۹ء

۵۔ ایوب علیہ السلام اگست، ستمبر ۱۹۴۹ء

۶۔ تاریخ بابل اور ہاروت و ماروت جولائی، اگست ۱۹۵۰ء

۷۔ داستانِ خلیل[حضرت ابراہیم ؑ] مارچ ۱۹۵۱ء

۸۔ اصحاب الاخدود جولائی ۱۹۵۱ء

۹۔ اصحاب الفیل کا واقعہ اور اس کی تاریخ اکتوبر، نومبر ۱۹۵۱ء

سید صدیق حسن

جناب سید صدیق حسن(۱۹۰۴۔۱۹۶۳ئ) الٰہ آباد کے رہنے والے تھے۔ لکھنؤ اور پٹنہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آکسفورڈ یونی ورسٹی سے آئی سی ایس(ICS)امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔۱۹۲۷ء میں ہندوستان واپس آئے تو مجسٹریٹ، کلکٹر اور سکریٹری جیسے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے۔وہ ریونیو بورڈ حکومت اترپردیش کے ممبر بھی رہے ہیں۔۱۹۶۱ء میں انھیں دار المصنفین کی مجلس انتظامیہ کا رکن نام زد کیا گیا۔ قرآنیات میں مولانا محمد اویس ندوی سے خصوصی استفادہ کیا۔ انھیں اپنا استاد کہتے تھے۔ان کا ایک مبسوط مقالہ’جمع و تدوین قرآن‘ کے عنوان سے معارف میں چار قسطوں [اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۳ئ، جنوری ۱۹۶۴ئ] میںشائع ہوا۔اسی کو ان کی وفات کے بعد کتابی صورت میں شائع کیا گیا اور وہ دار المصنفین کے سلسلۂ مطبوعات ( نمبر ۱۵۹)میں شامل ہوا۔۳۱؎

کتاب کے ٹائٹل پرہی کتاب کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:’’قرآن مجید کے جمع و تدوین کی تاریخ پر ایک محققانہ بحث،جس میں نقلی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن رسالت مآب ﷺ کے عہد با برکت ہی میں مدوّن اور مکمل ہو گیا تھا۔‘‘اس کتاب میں تفصیل سے عہدِ نبوی میں قرآن کریم کی کتابت اور عہد صدیقی میں جمع و تدوین پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ عہد عثمانی کے حوالے سے کم بحث ہے۔

سید اطہر حسین

جناب سید اطہر حسین(۱۹۲۰۔۱۹۸۸ئ) بڑے مترجم تھے۔ انھوں نے’ اسلام میں رواداری‘( سید صباح الدین عبد الرحمٰن) کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔۱۹۷۴ء میں دار المصنفین کی مجلسِ انتظامیہ کے رکن نام زد کیے گئے۔

ان کی انگریزی کتابQuran and Orientalistsدار المصنفین کے سلسلۂ مطبوعات میں شامل ہے۔

مولانا ضیاء الدین اصلاحی

مولانا ضیاء الدین اصلاحی(۱۹۳۷۔۲۰۰۸ئ)مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے بعد۱۹۵۷ء میں دار المصنفین سے وابستہ ہوئے اور پوری زندگی وہیں گزار دی۔ان کی علمی زندگی کا اصل آئینہ معارف میں شائع ہونے والے ان کے سیکڑوں تحقیقی مقالات ہیں۔سید صباح الدین عبد الرحمٰن کی وفات (۱۹۸۷ئ) کے بعددار المصنفین کے شعبۂ علمی کے ناظم بنائے گئے۔تذکرۃ المحدثین(۳؍جلدیں)،ہندوستان عربوں کی نظر میں(۲؍جلدیں)، مسلمانوں کی تعلیم، مولانا ابو الکلام آزاد۔ مذہبی افکار، صحافت اور جد و جہد، چند اربابِ کمال ان کی چند اہم تصانیف ہیں۔قرآنیات پر مولانا نے کوئی مستقل کتاب تو نہیں لکھی، لیکن مقالات کثرت سے لکھے ہیں، جو ماہ نامہ معارف اور ملک و بیرون ملک کے دیگر علمی و تحقیقی مجلات میں شائع ہوئے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ رفقائے دار المصنفین میں قرآنیات پر سب سے زیادہ کام مولانا ضیاء الدین اصلاحی ہی نے کیا ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے:

ایضاح القرآن

یہ کتاب مولانا کے ایک پاکستانی عقیدت مند جناب گلزار احمد، جو جہلم(پنجاب) کے متوطن اور اُس وقت مسقط میں مقیم اور حکومتِ عمان میں وزارتِ دفاع و مالیات میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے، کی کوششوں سے، یونائٹڈ بک کارپوریشن، اردو بازار کراچی سے شائع ہوئی تھی۔ دیباچہ پر تاریخ یکم نومبر ۱۹۸۴ء درج ہے۔یہ اصلاً مولاناکے تیرہ(۱۳) قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے،جو ماہ نامہ برہان دہلی،ماہ نامہ معارف اعظم گڑھ، سہ ماہی اسلام اسلام اور عصر جدید نئی دہلی وغیرہ میں شائع ہوئے تھے۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ قرآن مجید کے بعض اسالیب سہ ماہی اسلام اور عصر جدید، اپریل۔جون۱۹۸۲ء

۲۔ قرآن مجید کا طرز ِتخاطب اور طریقۂ التفات

۳۔ قرآن مجید میں قصۂ ابراہیم ؑ اور مستشرقین کے اعتراضات معارف، مارچ ۱۹۸۳ء

۴۔ سورۂ فاتحہ کے بعض اہم مباحث ماہ نامہ برہان دہلی، فروری، مارچ ۱۹۵۹ء

۵۔ فبدّل الذین ظلموا کی صحیح توجیہ ماہ نامہ برہان دہلی، فروری، اپریل۱۹۵۷ء

۶۔ واتبعوا ما تتلو الشیاطین کی تاویل ماہ نامہ برہان دہلی، فروری۱۹۵۷ء

۷۔ ان الصفا و المروۃ کے متعلق چند قابل غور باتیں معارف،اپریل۱۹۵۶ء

۸۔ آیاتِ صیام کی توجیہ و تاویل معارف،اگست۱۹۵۶ء

۹۔ اصحاب الاعراف معارف، دسمبر ۱۹۵۵ء

۱۰۔ و ان منکم الا واردھا کی صحیح تاویل معارف،جولائی۱۹۵۵ء

۱۱۔ تفسیر کبیر اور اس کا تکملہ معارف،اگست ستمبر۱۹۵۷ء

۱۲۔ تفسیر ابن کثیر

۱۳۔ التکمیل فی اصول التاویل

یہود اور قرآن مجید

مولانا نے معارف میں ’یہود اور قرآن مجید‘ کے عنوان سے ایک سلسلۂ مقالات لکھا تھا، جو آٹھ قسطوں میں شائع ہوا۔۳۲؎ اس کے مجموعی صفحات ایک سو پینتالیس (۱۴۵) ہیں۔ معلوم نہیں کیوں ،اس کی اشاعت کتابی صورت میں دار المصنفین سے نہیں ہوئی، حتّٰی کہ خود مولانا نے اپنے دورِنظامت میں بھی اس کی اشاعت میں دل چسپی نہیں لی۔قرآن کریم میں یہود کا تذکرہ کس کس پہلو سے ہوا ہے ؟اس پر یہ ایک بھر پور مطالعہ ہے۔ اسے کتابی صورت میں شائع کردینا چاہیے۔

سیرت النبی[سید سلیمان ندوی]کا مطالعہ قرآنی نقطۂ نظر سے

پیچھے گزرا کہ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے تصنیف کردہ’سیرت النبی‘ کے حصوں کو قرآنیات میں شمار کرنا چاہیے۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے اس پہلو کو اپنے مقالات میں نمایاں کیا ہے اور تفصیل سے اس کا جائزہ لیا ہے۔ ان مقالات کو کتابی صورت میں شائع کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ مولانا سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی جلد سوم پر ایک نظر معارف، مئی تا جولائی ۱۹۸۶ء

۲۔ مولانا سید سلیمان ندوی کی سیرت النبی جلد سوم پر کچھ اعتراضات اور ان کے جوابات

معارف، اگست تا اکتوبر ۱۹۸۶ء

۳۔ قرآن مجید اور معجزات( سیرت النبی جلد سوم کی روشنی میں) شش ماہی علوم القرآن، علی گڑھ،جنوری۔جون۱۹۸۶ئ

۴۔ بعض قرآنی مباحث بہ حوالہ سیرت النبی جلد چہارم مطالعہ سلیمانی، تاج المساجد بھوپال

۵۔ سیرت البنی جلد پنجم کے بعض قرآنی مباحث معارف، نومبر، دسمبر ۱۹۹۷ء

[ یہ مقالہ ’افکار سلیمانی،مطبوعہ جامعۃ الرشاد میں بھی شامل ہے۔] مطالعہ فراہیؒ

مولانا اصلاحی مولانا حمید الدین فراہیؒ کی قرآنی فکر کے ترجمان تھے۔ انھوں نے اپنے متعدد مقالات میں ان کے منہجِ تفسیر کا تعارف کرایا اور اس کی امتیازی خصوصیات کو نمایاں کیا ہے ،ان کی تفسیر ’نظام القرآن‘ کے متعدد اجزاء کا مبسوط مطالعہ کیا ہے اور ان کی کتابوں پر تبصرے لکھے ہیں۔ ان تمام تحریروں کو یکجا کر دیا جائے تو ایک کتاب بن سکتی ہے۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ مولانا فراہیؒ کی تفسیر سورۂ بقرہ کا مقدمہ سہ ماہی اسلام اور عصر جدید نئی دہلی، جنوری ۲۰۰۲ء

۲۔ مولانا فراہیؒ کی تفسیر الشمس کا جائزہ شش ماہی علوم القرآن، علی گڑھ،جولائی۔دسمبر۱۹۸۹ء ۲۶۔۳۹

۳۔ مولانا فراہیؒ کی تفسیر سورۂ لہب کا جائزہ شش ماہی علوم القرآن، علی گڑھ،جنوری۔جون۱۹۸۷ء ۷۔۲۸

[یہی مقالہ ’ تفسیر و علوم قرآنی میں مولانا حمید الدین فراہیؒ کے امتیازی کارنامے کا ایک نمونہ‘ کے عنوان سے

مجلہ علوم اسلامیہ علی گڑھ، جلد:۱۷، شمارہ:۱۔۲ میں شائع ہوا۔] ۴۔ اسلامی عقائد کے بارے میں چند اصولی باتیں

(ترجمان القرآن مولانا حمید الدین فراہیؒ کے افادات ) معارف، اکتوبر۲۰۰۲ء

۵۔ رسالت ۔القائد الیٰ عیون العقائد کی روشنی میں معارف، دسمبر۲۰۰۳ئ

۶۔ رسائل ابن تیمیہؒ پر مولانا فراہیؒ کے حواشی مشمولہ مجموعہ مقالات سمینار’ علامہ حمید الدین فراہی۔حیات و خدمات‘

۷۔ حکمتِ قرآن کا شارح تدبر، لاہور،اپریل ۱۹۹۸ئ

مولانا فراہی کی کتابوں پر تبصرے

۱۔ امعان فی اقسام القرآن معارف،مئی ۱۹۸۰ء

۲۔ التکمیل فی اصول التاویل معارف، مارچ۱۹۶۹ئ،جنوری ۱۹۹۱ء

۳۔ فی ملکوت اللہ معارف، نومبر۱۹۷۱ء

۴۔ تفسیر بسم اللہ و سورۂ فاتحہ معارف، فروری۱۹۶۰ء

۵۔ تفسیر سورۂ ذاریات معارف،مارچ ۱۹۵۸ء

۶۔ تفسیر سورۂ قیامہ معارف، اگست ۱۹۸۳ء

۷۔ تفسیر سورۂ اخلاص و کوثر معارف، اپریل ۱۹۵۹ء

۸۔ تفسیر نظام القرآن معارف، جنوری۱۹۹۱ء

قرآن کریم: تفسیر و تاویل

مولانا اصلاحی کے متعدد مقالات میںقرآن و حدیث کے باہم تعلق کی وضاحت، قرآنی موضوعات کی تشریح، آیات قرآنی کی تفسیر و تاویل اوراسالیب ِقرآنی کی توضیح کی گئی ہے۔ ان کا ایک مجموعہ شائع کیا جا سکتا ہے:

۱۔ قرآن و حدیث کی باہمی نوعیت میثاق، لاہور،اپریل مئی ۱۹۶۵ء

۲۔ قرآن کی اثر انگیزی میثاق، لاہور،جولائی ۱۹۶۵ئ ؟؟؟۱۹۷۲ء

۳۔ قرآن مجید میں قصۂ آدم اور مستشرقین کے اعتراضات معارف،مارچ،۱۹۸۳ء

۴۔ قرآن مجید اور معجزات علوم القرآن علی گڑھ، جنوری۔جون ۱۹۸۶ء

۵۔ اسلام کا عقیدۂ توحید اور اس کے قرآنی دلائل سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ،جولائی۔ستمبر ۱۹۸۶ء

۶۔ اصول التاویل سہ ماہی اسلام اور عصر جدید نئی دہلی،۱۹۸۸ء

۷۔ سورۂ انعام کی چند آیتوں میں خطاب اور ضمیروں کی تعیین معارف، مئی ۱۹۸۹ء

۸۔ قرآن مجید کا اسلوب: اجمال کے بعد تفصیل علوم القرآن، علی گڑھ،جولائی۔دسمبر۱۹۹۳ء

۹۔ قرآن مجید کی تاویل و تفسیر میں آزادی کے حدود سہ ماہی فکر و نظر علی گڑھ،اکتوبر۔دسمبر ۱۹۹۹ء

۱۰۔ قرآن مجید کا ایک اسلوب: استفہام مجلہ علوم اسلامیہ

تفاسیر و مفسرین

مولانا نے اپنے متعددمقالات میں مختلف مفسرین کے مناہجِ تفسیر کا تعارف کرایا ہے اور ان کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے۔ انھیں بھی الگ سے کتابی صورت میں شائع کیا جا سلتا ہے:

۱۔ امام رازیؒ کی تفسیر کبیر میں ربط آیات معارف، جنوری، فروری ۱۹۵۵ء

۲۔ امام رازی ؒکی تفسیر میں عقلی دلائل سہ ماہی اسلام اور عصر جدید نئی دہلی، جولائی ۲۰۰۲ء ؟؟۲۰۰۳ء

۳۔ تفسیر کبیر کی خصوصیات علوم القرآن، علی گڑھ،جولائی۔دسمبر۲۰۰۲ئ ۳۲۔۵۹

۴۔ ا بن کثیرؒ معارف، نومبر، دسمبر ۱۹۶۴ئ، جنوری ۱۹۶۵ء

۵۔ علمائے ہند کی چند عربی تفسیریں سہ ماہی نظام القرآن اعظم گڑھ،جولائی ستمبر ۲۰۰۷ء

۶۔ چند اردو تفاسیر علی گڑھ سمینار

۷۔ مقدمہ فتح الرحمٰن بترجمۃ القرآن کا تجزیاتی مطالعہ علوم القرآن، علی گڑھ،جنوری۔ جون۱۹۹۲ء ۳۶۔۴۸

۸۔ نصرانیت، عیسائیت اور مسیحیت۔ تفسیر ماجدی کی روشنی میں دو ماہی اکاڈمی لکھنؤ،عبد الماجد دریابادی نمبر،

نومبردسمبر ۱۹۹۰ئ،جنوری فروری ۱۹۹۱ء

۹۔ مولانا سیدابو الحسن علی ندوی کے مطالعہ و خدمتِ قرآن کی سرگذشت معارف، اپریل ۲۰۰۰ء

درج ذیل مقالات مولانا اصلاحی کی کتاب’ مولانا ابو الکلام آزاد: مذہبی افکار، صحافت اور قومی جدوجہد‘ مطبوعہ دار المصنفین اعظم گڑھ میںشامل ہیں:

۱۔ رحمتِ الٰہی کا قرآنی تصور اور مولانا ابو الکلام آزاد معارف، اپریل،۱۹۹۲ء

۲۔ صفات الٰہی کا قرآنی تصور اور مولانا ابو الکلام آزاد معارف، فروری،۱۹۹۰ء

۳۔ قرآن مجید کا تصور ربوبیت الٰہی اور مولانا ابو الکلام آزاد معارف، ستمبر ۱۹۸۹ء

ایک اور مقالہ بہ عنوان’ اللہ کی صفتِ عدالت اور مولانا آزاد‘ماہ نامہ الفرقان، ڈومریا گنج، سدھارتھ نگر( ) میں شائع ہوا تھا۔ اسے بھی مذکورہ کتاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

قرآنی موضوعات پر دیگر رفقائے دار المصنفین کی تحریریں

دیگر رفقائے دار المصنفین نے بھی قرآنی موضوعات پر کچھ نہ کچھ لکھا ہے۔ ان کی تحریریں ماہ نامہ معارف میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اشاریۂ معارف کی مدد سے ایسے چند مقالات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

شاہ معین الدین احمد ندویؒ(۱۹۰۱۔۱۹۷۴ئ)

۔ فہم قرآن کے اصول و شرائط اگست، ستمبر ۱۹۴۰ء

۔ تدوین ِ قرآن مئی، جون ۱۹۴۹ء

۔ مظاہرۂ قرآن[تبصرہ] ستمبر ۱۹۵۳ء

سید صدیق حسن صاحب نے اپنی کتاب’ جمع و تدوینِ قرآن‘ میں شاہ معین الدین ندوی کے ایک مقالے کا حوالہ دیا ہے ،جو صبح صادق ، قرآن نمبر ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا تھا۔

سید ریاست علی ندویؒ(۱۹۰۴۔۱۹۷۶ئ)

الناسخ و المنسوخ فی القرآن معارف،مارچ، اپریل ۱۹۳۱ء

مولانا عبد الرحمٰن پرواز اصلاحیؒ(۱۹۲۰۔۱۹۸۴ئ)

تفسیر بالرائے اور اس کی حیثیت معارف، جنوری ۱۹۸۳ء

مولانا مجیب اللہ ندویؒ(۱۹۱۸۔۲۰۰۶ئ)

۔ قرآن کے جمع و ترتیب کے سلسلے میں ایک سوال اور اس کا جواب معارف،جنوری ۱۹۵۵ء

۔ قرآن پاک میں آیت ِ رجم معارف، مارچ، اپریل ۱۹۵۵ء

۔ قرآن کی ایک آیت[و لما جاء موسیٰ لمیقاتنا(الاعراف:۱۴۳) کا صحیح مفہوم معارف، دسمبر،۱۹۵۶ء

(۳) با حیات رفقائے دار المصنفین کی خدمات

مولانا محمد عارف عمری

مولانا محمد عارف عمری(ولادت۱۹۶۱ئ) کا وطن اعظم گڑھ ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسۃ الاصلاح اور اعلیٰ تعلیم جامعہ دار السلام عمر آباد سے حاصل کی، پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل ہوئے۔دار المصنفین سے ۱۹۸۵ء میں بہ حیثیت رفیق وابستہ ہوئے، جہاں ۲۰۰۳ء تک رہے۔ اس کے بعد ممبئی چلے گئے ، جہاں ایک مدرسے میں استاذِ تفسیر و حدیث کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔دار المصنفین میں دورانِ قیام انھوں نے قرآنیات کے موضوع پر ایک کتاب تیار کی تھی۔ ذیل میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے:( ان میں سے جن شخصیات پر مصنف کی تحریریں مقالات کی شکل میں معارف میں شائع ہو چکی تھیں ان کی بھی صراحت کر دی گئی ہے)

تذکرہ مفسرین ہند

یہ پروجکٹ دار المصنفین کے ذمے داروں نے پہلے مولانا عبد الرحمٰن پرواز اصلاحی کے حوالے کیا تھا۔ انھوں نے شیخ علی مہائمی اور ملا مبارک ناگوری پر مقالات مکمل کر لیے تھے اور شیخ ابو الفیض فیضی پر لکھنے کے لیے مواد بھی جمع کر لیا تھا۔لیکن ان کی وفات سے یہ کام نا مکمل رہ گیا۔ بعد میں اسے مولانا محمد عارف عمری کے سپرد کیا گیا۔ انھوں نے پرواز اصلاحیؒ کی تحریروں کو اپنی کتاب میں شامل کر لیا اور دیگر مفسرینِ ہندپر کام کرکے یہ کتاب تیا ر کی۔

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن فروری ۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آیا تھا۔اسے مصنف نے مجوزہ منصوبے کے مطابق جلد اول قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ آئندہ اس سلسلے کی مزید دو جلدیں شائع ہوں گی۔جلد اول کے بارے میں انھوں نے لکھا تھا :

’’ اس میں ہندوستان میں مسلم عہد حکومت کے آغاز (آٹھویں نویں صدی ہجری) سے لے کر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب سے پہلے ( بارہویں صدی ہجری کے آخر) تک کے سولہ(۱۶) اصحابِ تصنیف مفسرین کا تذکرہ اور ان کی تفسیروں کا تعارف کرایا گیا ہے۔‘‘ ۳۳؎

اس جلد کی ضخامت ایک سو ترپن(۱۵۳) صفحات ہے اور اس میں درج ذیل شخصیات کے تذکرے شامل ہیں:

۱۔ شیخ کمال الدین محمد بن احمد شریحی تھانیسری معارف،ستمبر ۱۹۹۱ء

۲۔ شیخ نظام الدین الحسن بن محمدالنیشاپوری معارف،اگست ۱۹۸۹ء

۳۔ شیخ ابو بکر اسحاق بن تاج ملتانی

۴۔ شیخ محمد بن یوسف حسینی گیسو دراز

۵۔ شیخ علی بن احمد مہائمی

۶۔ قاضی شہاب الدین دولت آبادی

۷۔ حاجی عبد الوہاب بخاری

۸۔ شیخ حسن محمد احمدآبادی گجراتی

۹۔ شیخ مبارک ناگوری

۱۰۔ شیخ یعقوب صرفی کشمیری

۱۱۔ شیخ ابو الفیض فیضی

۱۲۔شیخ منور بن عبد الحمید لاہوری

۱۳ ۔ شیخ غلام نقشبند ی گھوسوی معارف، اگست ۱۹۹۲ء

۱۴۔ ملاجیون امیٹھوی معارف، نومبر، دسمبر۱۹۸۹ء

۱۵۔ علی اصغر قنوجی معارف، اگست ۱۹۹۲ء

۱۶۔ شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی معارف، فروری، ۱۹۹۲ء

۲۰۰۶ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر آیا۔ اس میں خانوادۂ ولی اللٰہی سے وابستہ اور دیگر آٹھ مفسرین کے تذکرے کا اضافہ کر دیا گیا اور کتاب کے پہلے ایڈیشن کے مشتملات کو’ حصۂ اول‘ اور اس اضافہ شدہ حصہ کو ’حصۂ دوم‘ قرار دیا گیا۔یہ حصہ ۸۵؍ صفحات (۱۵۳۔۲۳۷)پر مشتمل ہے اور اس میں درج ذیل شخصیات کے تذکرے شامل ہیں:

۱۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

۲۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی معارف،اپریل ۱۹۹۶ء

۳۔ شاہ رفیع الدین دہلوی

۴۔ شاہ عبد القادر دہلوی

۵۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی معارف، جون ۲۰۰۰ء

۶۔ شاہ مراد اللہ انصاری

۷۔ شاہ رؤف احمد مجددی

۸۔ مولانا قطب الدین دہلوی

مولانا محمد عارف عمری نے دار المصنفین میں قیام کے دوران قرآنی موضوعات پر چند دیگر مقالات بھی تحریر کیے ہیں، جومعارف کے درج ذیل شماروں میں شائع ہوئے ہیں:

۱۔ جمع و تدوین ِقرآن اور مستشرقین اگست ۱۹۹۰ء

۲۔ سر سید احمد خان اور ان کی تفسیر القرآن ستمبر ۱۹۹۴ء

۳۔ ابو مسلم اصفہانی کے تفسیری اقوال اپریل ،مئی ۱۹۹۸ء

مولانا عبید اللہ کوٹی(ولادت۱۹۴۲ئ)

قرآن کریم اور مستشرقین[التہامی کے مقالے کا اردو ترجمہ] معارف،جولائی تا اکتوبر ۱۹۸۶ء

مولانامحمد عمیرالصدیق ندوی(ولادت ۱۹۵۳ئ)

۱۔ تاریخ ارض القرآن اور مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات معارف، دسمبر ۱۹۸۴ء

۲۔ تفسیر ماجدی کے مراسلاتی مآخذ معارف، مارچ ۲۰۰۷ء

۳۔ تفسیر ماجدی اور سائنسی مباحث معارف، دسمبر ۲۰۰۷ء

مولانا کلیم صفات اصلاحی

مولانا کلیم صفات اصلاحی(ولادت۱۹۷۴ئ)دار المصنفین کی محققین کی موجودہ ٹیم میں شامل ہیں۔ ان کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے۔۱۹۹۲ء میں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے سندِ فضیلت حاصل کی۔اس کے بعد دار المصنفین میں ناظرِ کتب خانہ کی حیثیت میں وابستہ ہوئے۔ڈیڑھ برس علی گڑھ میں گزار کر پھر دوبارہ ۱۹۹۷ء میں دار المصنفین سے وابستہ ہوئے۔، جہاں۲۰۰۷ء میں رفیق کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ قرآنی موضوعات پر ان کے درج ذیل مقالات مختلف مجلات میں شائع ہوئے ہیں:

۱ ۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کے قرآنی افکار ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ، مارچ ۱۹۹۹ء

۲ ۔ علامہ شبلی کے بعض قرآنی افکار ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی،اگست ۲۰۰۰ء

۳۔ مولانا عبد السلام ندوی اور قرآنیات معارف، جون ۲۰۰۴ء

۴۔ تعلیم القرآن[مولانا محمد اویس ندوی] معارف ،فروری ۲۰۱۰ء

۵۔ تدریس قرآن کا فراہی منہاج نظام القرآن اعظم گڑھ،اپریل ۔جون ۲۰۱۰ء

۶۔ تاریخ القرآن و غرائب رسمہ۔۔کا مطالعہ معارف ،جون۲۰۱۴ء

۷ ۔ شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر مجموعۂ مقالاتIOS

۸۔ مقصدِ نکاح۔ قرآن کی روشنی میں [غیر مطبوعہ] خلاصۂ بحث اور تجاویز و سفارشات

۱۔ قرآنی موضوعات پر رفقائے دار المصنفین کی طرف سے بعض انتہائی اہم کام سامنے آئے ہیں، لیکن دار المصنفین کی طرف سے انھیں نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ان کا جو کچھ تعارف کرایا گیا ہے اس میں بھی بہت سی غلطیاں موجود ہیں۔ اس کوتاہی کی تلافی کی جائے اور ان غلطیوں کو درست کیا جائے،

۲۔ قرآنی موضوعات پر رفقاء کی جو کتابیں مکمل ہو جانے کے باوجود شائع نہ ہو سکیں اور مسودات غائب ہو گئے، ان کی بازیابی کی کوشش کی جائے۔

۳۔ قرآنی موضوعات پر جو پروجکٹس ناتمام رہ گئے ان کی تکمیل کی جانب توجہ دی جائے۔

۴۔ رفقائے دار المصنفین کے قرآنی مقالات کے مجموعے شائع کیے جائیں۔

۵۔ دار المصنفین کے آئندہ کے منصوبے میں بھی قرآنیات کو شامل کیا جائے اور عصری اہمیت کے حامل قرآنی موضوعات پر کام کروایا جائے۔

حواشی و مراجع

۱۔ دار المصنفین کے سو سال،کلیم صفات اصلاحی، دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۱۴ئ، ص۳۶۵

۲۔ ملاحظہ کیجیے :علامہ شبلی کی قرآن فہمی، پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی، فاران اکیڈمی علی گڑھ، مقالہ: علامہ شبلی کے بعض قرآنی افکار، مولانا کلیم صفات اصلاحی،زندگی نو نئی دہلی، اگست ۲۰۰۰ئ،مقالہ: حضرت عمر فاروق کا فہم قرآن(علامہ شبلی کی الفاروق کی روشنی میں)، محمد رضی الاسلام ندوی، مجموعہ مقالات بہ حوالہ الفاروق ،طبع علی گڑھ

۳۔ مقالات شبلی،دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۱۰ئ:۱؍۷۸

۴۔ اقسام القرآن ۱۹۰۶ء میں اصح المطابع لکھنؤ سے اور تفسیر سورۂ حشر، تفسیر سورۂ تحریم، تفسیر سورۂ قیامہ، تفسیر سورۂ عصر اور تفسیر سورۂ کافرون ۱۹۰۸ء میں مطبع فیض عام علی گڑھ سے اور تفسیر سورۂ لہب ۱۹۰۸ء میں مطبع احمدی سے شائع ہو چکی تھیں۔

۵۔ مولانا کلیم صفات اصلاحی نے لکھا ہے کہ’ اقسام القرآن‘ پہلے پہل دار المصنفین سے شائع ہوئی تھی۔‘‘(دار المصنفین کے سو سال،ص۶۲) یہ بات صحیح نہیں۔امعان فی اقسام القرآن کی دار المصنفین سے تیسری اشاعت تھی۔

۶۔ مولانا کلیم صفات اصلاحی نے اپنی کتاب کے آخر میںجو فہرست درج کی ہے اس میں’ تفسیر سورۂ عبس‘ کا نام نہیں ہے۔ اس کے بجائے ’فاتحہ تفسیر نظام القرآن‘(۱۹۳۸ئ) کا اضافہ ہے۔(دار المصنفین کے سو سال، ۴۶۵ )، جب کہ یہ کتاب مؤلف کی وفات کے بعدسرائے میر سے شائع ہوئی تھی۔اس پر مولانا سید سلیمان ندوی کا مقدمہ ہے۔راقم سطور کی ذاتی لائبریری میں اس کا جو نسخہ ہے اس پر’طبع فی مطبعۃ اصلاح سرائے میر اعظم گڈھ الہند،۱۳۵۷ھ‘ درج ہے۔کلیم صفات صاحب نے ایک جگہ ’اسالیب القرآن ‘ کا شماربھی دار المصنفین سے شائع ہونے والی کتابوں میں کیا ہے۔(دار المصنفین کے سو سال، ص۶۲ )۔ یہ بات بھی صحیح نہیں۔یہ کتاب دار المصنفین سے نہیں، بلکہ دائرۂ حمیدیہ، سرائے میر ،اعظم گڑھ سے۱۳۸۹ھ میں شائع ہوئی تھی۔اسے مولانا بدر الدین اصلاحی نے مرتب کیا تھا۔مولاناکلیم صفات اصلاحی نے ان کتابوں کا شمار’’ممتاز و مشہور مصنفین کی ان قابل ذکر تصنیفات میں کیا ہے جو دار المصنفین کے زیر اہتمام تو شائع ہوئیں، مگر یہاں کے سلسلے میں شامل نہیں۔‘‘ ( دار المصنفین کے سو سال،ص۴۶۴)یہ بات بھی صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ راقم سطور کی ذاتی لائبریری میں ’ امعان فی اقسام القرآن‘ کا ۱۹۸۲ء کا جو ایڈیشن ہے اس کے ٹائٹل پر’سلسلۂ دار المصنفین نمبر۳۵‘ درج ہے۔

۷۔ قرآنی افادات،محمد الحسنی ٹرسٹ، رائے بریلی،۱۹۹۹ئ،ص۳۰۔۳۱۔اسی قسم کے تاثرات مولانا نے ’پرانے چراغ‘ حصہ اول، اور بزمِ سلیمان(بھوپال، ستمبر ۱۹۵۸ئ) میں اپنے خطبۂ صدارت میں بھی ظاہر کیے تھے۔قرآنیات کے میدان میں سید سلیمان ندوی کی خدمات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے :علامہ سید سلیمان ندوی کے تفسیری نکات،مولانا محمدفرمان نیپالی ندوی ، مجلس تحقیقات و نشریاتِ اسلام لکھنؤ، ۲۰۱۴ء

۸۔ مولانا سید سلیمان ندوی کی تصانیف۔ ایک مطالعہ، دار المصنفین اعظم گڑھ، ۱۹۸۸ئ،ص۶۳

۹۔ حوالہ سابق،ص۱۰۰۔۱۰۲

۱۰۔ مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں، مرتبہ مولانا محمد عمران خان ندوی، مطبع معارف اعظم گڑھ،۱۹۴۶ئ،ص۱۲

۱۱۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی ؒ نے اپنے متعدد مقالات میں سیرت النبی کے قرآنی پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ ان مقالات کا تذکرہ آگے آتا ہے۔ مولانا محمد فرمان نیپالی ندوی نے سید صاحب کے ذریعے مفرداتِ قرآنی کی لغوی تحقیقات سے مفصل بحث کی ہے۔ملاحظہ کیجیے ان کی مذکورہ بالا کتاب کے علاوہ عربی ماہ نامہ البعث الاسلامی میں ’ مفردات القرآن‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی پچاس قسطیں۔ اس موضوع پر راقم سطور کا بھی ایک مختصر مقالہ ہے، جسے اس نے جامعہ الرشاد میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی سمینار( ۱۹۹۶ء ) میں پیش کیا تھا اور اس کے مجموعۂ مقالات’ افکارِ سلیمانی‘ میں شائع ہوا تھا۔اب یہ اس کی کتاب’ بر صغیر میں مطالعۂ قرآن‘، شائع شدہ از اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی ۲۰۱۰ء میں شامل ہے۔

۱۲۔ مقالات سلیمان،حصہ سوم،دار المصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،۲۰۰۶ء

۱۳۔ عبد السلام ندوی کی یاد میں،مضمون بہ عنوان’میرے مولوی صاحب،ص۵۴

۱۴۔ دار المصنفین کے سو سال،ص۳۵۵۔۳۵۶

۱۵۔ مولانا عبد السلام ندوی،پروفیسر کبیر احمد جائسی،ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی،۲۰۰۱ئ،ص۸۱۔۹۳

۱۶۔ حوالہ سابق

۱۷۔ حوالہ سابق

۱۸۔ حاجی خلیفہ،کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون، طبع استنبول،۱۳۶۲ھ،۱؍۵۳۸

۱۹۔ شذرات سلیمانی،مطبع معارف اعظم گڑھ،،۱۹۹۰ئ،حصہ اول،ص۲۰۱۱

۲۰۔ روداد مجلس انتظامی دار المصنفین،ص۴،۵،دار المصنفین کے سو سال،ص۳۹۴

۲۱۔ ماہ نامہ معارف،اعظم گڑھ ،جولائی ۱۹۲۰ء

۲۲۔ روداد مجلس انتظامی دار المصنفین،ص۲،۳،دار المصنفین کے سو سال،ص۳۹۴

۲۳۔ ملتقط جامع التاویل،مطبعۃ البلاغ کلکتہ ،ص۸(ترجمہ)

۲۴۔ مجموعہ تفاسیر ابو مسلم اصفہانی۔ترجمہ و تہذیب:سید نصیر شاہ، رفیع اللہ، دار التذکیر لاہور،۲۰۰۶ئ،ص۱۰۔مولانا محمد عارف عمری نے لکھا ہے کہ ’’ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے ۱۹۶۴ء میں اس کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا۔‘‘(دار المصنفین کی عربی خدمات ،ادبی دائرہ اعظم گڑھ،۲۰۱۳ئ،ص۵۷)یہ بات صحیح نہیں ہے۔

۲۵۔ التفسیر القیم،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،ص۶۳۱

۲۶۔ دار المصنفین کی عربی خدمات،ص۹۲۔۹۳

۲۷۔ قرآن کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟ مولانا محمد اویس ندوی،مجلس نشریات اسلام کراچی،۱۹۹۸ئ،پیش لفظ از مولانا عبد الماجد دریابادی۔ یہ پیش لفظ ۱۴؍ ستمبر ۱۹۶۵ء کا لکھا ہوا ہے۔

۲۸۔ ڈاکٹر محمد عارف عمری کے اس کا نام ’تعلیماتِ قرآن‘ لکھا ہے،جو صحیح نہیں ہے۔دار المصنفین کی عربی خدمات،ص۹۲

۲۹۔ تعلیم القرآن، مولانا محمد اویس ندوی، دار المصنفین اعظم گڑھ

۳۰۔ ماہ نامہ معارف، مئی ۱۹۵۷ئ، مکاتیب مولانا سید سلیمان ندوی بہ نام شاہ معین الدین ندوی،دار المصنفین کے سو سال،ص۱۲۵

۳۱۔ ڈاکٹر جمشید احمد ندوی نے اشاریۂ معارف میں(ص ۱۶۸ ) اور مولانا کلیم صفات اصلاحی نے’دار المصنفین کے سو سال‘ میں(ص۳۹۴) ان کے نام کے ساتھ’ خان‘ لکھا ہے، جو صحیح نہیں۔’صدیق حسن خان‘ دوسری شخصیت ہیں۔

۳۲۔ ملاحظہ کیجییمعارف(۱) نومبر ۱۹۷۵ئ(۲) نومبر ۱۹۷۶ئ(۳) دسمبر ۱۹۷۶ئ(۴) جنوری ۱۹۷۷ئ(۵) فروری ۱۹۷۷ء (۶) جون ۱۹۸۷ئ(۷) جولائی ۱۹۸۷ئ(۸) اگست ۱۹۸۷ء

۳۳۔ تذکرہ مفسرین ہند،ص۱۔۲