سورة طٰهٰ : زمانہ نزول، موضوع و مبحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

زمانۂ نزول : 

اس سورۃ کا زمانہ نزول سورۃ مریم کے زمانے قریب ہی کا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ہجرت حبشہ کے زمانے میں یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔ بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے قبول اسلام سے پہلے یہ نازل ہوچکی تھی۔ 


ان کے قبول اسلام کی سب سے زیادہ مشہور اور معتبر روایت یہ ہے کہ جب وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی نیت سے نکلے تو راستہ میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو، تمہاری اپنی بہن اور بہنوئی اس نئے دین میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور ان کے بہنوئی سعید بن زید بیٹھے ہوئے حضرت خباب (رض) بن ارت سے ایک صحیفے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت عمر کے آتے ہی ان کی بہن نے صحیفہ فوراً چھپا لیا۔ مگر حضرت عمر اس کے پڑھنے کی آواز سن چکے تھے۔ انہوں نے پہلے کچھ پوچھ گچھ کی۔ اس کے بعد بہنوئی پر پل پڑے اور مارنا شروع کردیا۔ بہن نے بچانا چاہا تو انہیں بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا۔ آخر کار بہن اور بہنوئی دونوں نے کہا کہ ہاں، ہم مسلمان ہوچکے ہیں، تم سے جو کچھ ہو سکے کرلو۔ حضرت عمر اپنی بہن کا خون بہتے دیکھ کر کچھ پشیمان سے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اچھا مجھے بھی وہ چیز دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے۔ بہن نے پہلے قسم لی کہ وہ اسے پھاڑ نہ دیں گے۔ پھر کہا کہ تم جب تک غسل نہ کرلو، اس پاک صحیفے کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ حضرت عمر (رض) نے غسل کیا اور پھر وہ صحیفہ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ اس میں یہی سورۃ طٰہ لکھی ہوئی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یک لخت ان کی زبان سے نکلا " کیا خوب کلام ہے "۔ یہ سنتے ہی حضرت خباب بن ارت، جو ان کی آہٹ پاتے ہی چھپ گئے تھے، باہر آ گئے اور کہا کہ " بخدا، مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے نبی کی دعوت پھیلانے میں بڑی خدمت لے گا، کل ہی میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے کہ خدایا، ابوالحکم بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی کو اسلام کا حامی بنا دے۔ پس اے عمر، اللہ کی طرف چلو، اللہ کی طرف چلو "۔ اس فقرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور اسی وقت حضرت خباب کے ساتھ جا کر حضرت عمر (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اسلام قبول کرلیا۔ یہ ہجرت حبشہ سے تھوڑی مدت بعد ہی کا قصہ ہے۔

موضوع و مبحث :



سورہ کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ قرآن تم پر کچھ اس لیے نازل نہیں کیا گیا ہے کہ خواہ مخواہ بیٹھے بٹھائے تم کو ایک مصیبت میں ڈال دیا جائے۔ تم سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ پتھر کی چٹانوں سے دودھ کی نہر نکالو، نہ ماننے والوں کو منوا کر چھوڑو، اور ہٹ دھرم لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر کے دکھاؤ۔ یہ تو بس ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے تاکہ جس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور جو اس کی پکڑ سے بچنا چاہے وہ سن کر سیدھا ہوجائے۔ یہ مالک زمین و آسمان کا کلام ہے۔ اور خدائی اس کے سوا کسی کی نہیں، یہ دونوں حقیقتیں اپنی جگہ اٹل ہیں، خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔ 


اس تمہید کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ چھیڑ دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ محض ایک قصے کی شکل میں بیان ہوا ہے۔ وقت کے حالات کی طرف اس میں کوئی اشارہ تک نہیں ہے۔ مگر جس ماحول میں یہ قصہ سنایا گیا ہے، اس کے حالات سے مل جل کر یہ اہل مکہ سے کچھ اور باتیں کرتا نظر آتا ہے جو اس کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے بین السطور سے ادا ہو رہی ہیں۔ ان باتوں کی تشریح سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیئے کہ عرب میں کثیر التعداد یہودیوں کی موجودگی اور اہل عرب پر یہودیوں کے علمی و ذہنی تفوق کی وجہ سے، نیز روم اور حبش کی عیسائی سلطنتوں کے اثر سے بھی، عربوں میں بالعموم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا نبی تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھنے کے بعد اب دیکھیے کہ وہ باتیں کیا ہیں جو اس قصے کے بین السطور سے اہل مکہ کو جتائی گئی ہیں :۔ 


1)۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت اس طرح عطا نہیں کیا کرتا کہ ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا کر ایک خلق اکٹھی کرلی جائے اور پھر باقاعدہ ایک تقریب کی صورت میں یہ اعلان کیا جائے کہ آج سے فلاں شخص کو ہم نے نبی مقرر کیا ہے۔ نبوت تو جس کو بھی دی گئی ہے، کچھ اسی طرح بصیغۂ راز دی گئی ہے جیسے حضرت موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اب تمہیں کیوں اس بات پر اچنبھا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یکایک نبی بن کر تمہارے سامنے آگئے اور اس کا اعلان نہ آسمان سے ہوا نہ زمین پر فرشتوں نے چل پھر کر اس کا ڈھول پیٹا۔ ایسے اعلانات پہلے نبیوں کے تقرر پر کب ہوئے تھے کہ آج ہوتے ؟


2 )۔ جو بات آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کر رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) ٹھیک وہی بات منصب نبوت پر مقرر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سکھائی تھی۔ 


3)۔ پھر جس طرح آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بغیر کسی سر و سامان اور لاؤ لشکر کے تن تنہا قریش کے مقابلے میں دعوت حق کا علم بردار بنا کر کھڑا کردیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) بھی یکایک اتنے بڑے کام پر مامور کر دیے گئے تھے کہ جا کر فرعون جیسے جبار بادشاہ کو سرکشی سے باز آنے کی تلقین کریں۔ کوئی لشکر ان کے ساتھ بھی نہیں بھیجا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے ایسے ہی عجیب ہیں۔ وہ مدین سے مصر جانے والے ایک مسافر کو راہ چلتے پکڑ کر بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جا اور وقت کے سب سے بڑے جابر حکمراں سے ٹکرا جا۔ بہت کیا تو اس کی درخواست پر اس کے بھائی کو مددگار کے طور پر دے دیا۔ کوئی فوج فرّا اور ہاتھی گھوڑے اس کار عظیم کے لیے اس کو نہیں دیئے گئے۔ 


4)۔ جو اعتراضات اور شبہات اور الزامات اور مکر و ظلم کے ہتھکنڈے اہل مکہ آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں استعمال کر رہے ہیں ان سے بڑھ چڑھ کر وہی سب ہتھیار فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں استعمال کیے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ کس طرح وہ اپنی ساری تدبیروں میں ناکام ہوا اور آخرکار کا کون غالب آ کر رہا ؟ خدا کا بےسرو سامان نبی ؟ یا لاؤ لشکر والا فرعون ؟ اس سلسلہ میں خود مسلمانوں کو بھی ایک غیر ملفوظ تسلی دی گئی ہے کہ اپنی بےسر و سامانی اور کفار قریش کے سرو سامان پر نہ جائیں، جس کام کے پیچھے خدا کا ہاتھ ہوتا ہے وہ آخر کار غالب ہی ہو کر رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے ساحران مصر کا نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ جب حق ان پر منکشف ہوگیا تو وہ بےدھڑک اس پر ایمان لے آئے اور پھر فرعون کے انتقام کا خوف انہیں بال برابر بھی ایمان کی راہ سے نہ ہٹا سکا۔ 


5 )۔ آخر میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے ایک شہادت پیش کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ دیوتاؤں اور معبودوں کے گھڑے جانے کی ابتدا کس مضحکہ انگیز طریقے سے ہوا کرتی ہے اور یہ کہ خدا کے نبی اس گھناؤنی چیز کا نام و نشان تک باقی رہنے کے کبھی روادار نہیں ہوئے ہیں۔ پس آج اس شرک اور بت پرستی کی جو مخالفت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کر رہے ہیں وہ نبوت کی تاریخ میں کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 


اس طرح قصۂ موسیٰ کے پیرائے میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے جو اس وقت ان کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باہمی کشمکش سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے بعد ایک مختصر وعظ کیا گیا ہے کہ بہرحال یہ قرآن ایک نصیحت اور یاد دہانی ہے جو تمہاری اپنی زبان میں تم کو سمجھانے کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس پر کان دھرو گے اور اس سے سبق لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔ نہ مانو گے تو خود برا انجام دیکھو گے۔ 


پھر آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس روش پر تم لوگ جا رہے ہو یہ دراصل شیطان کی پیروی ہے۔ اَحیاناً شیطان کے بہکائے میں آجاتا تو خیر ایک وقتی کمزوری ہے جس سے انسان بمشکل ہی بچ سکتا ہے۔ مگر آدمی کے لیے صحیح طریق کار یہ ہے کہ جب اس پر اس کی غلطی واضح کر دی جائے تو وہ اپنے باپ آدم کی طرح صاف صاف اس کا اعتراف کرلے، توبہ کرے، اور پھر خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے۔ غلطی اور اس پر ہٹ اور نصیحت پر نصیحت کیے جانے پر بھی اس سے باز نہ آنا، اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنا ہے جس کا نقصان آدمی کو خود ہی بھگتنا پڑے گا، کسی دوسرے کا کچھ نہ بگڑے گا۔ 


آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ ان منکرین حق کے معاملے میں جلدی اور بےصبری نہ کرو۔ خدا کا قاعدہ یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو اس کے کفر انکار پر فوراً نہیں پکڑ لیتا بلکہ سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے۔ 


لہٰذا گھبراؤ نہیں۔ صبر کے ساتھ ان لوگوں کی زیادتیاں برداشت کرتے چلے جاؤ۔ اور نصیحت کا حق ادا کرتے رہو۔ 


اسی سلسلے میں نماز کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اہل ایمان میں صبر، تحمل، قناعت، رضا بقضا اور احتساب کی وہ صفات پیدا ہوں جو دعوت حق کی خدمت کے لیے مطلوب ہیں ۔

(تفہیم القرآن جلد سوم ص 83، سید ابوالاعلی مودودیؒ )