54۔ سورۃ القمر: تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 ١۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

اس سورۃ کا آغاز اسی مضمون سے ہوا ہے جس پر سابق سورۃ ختم ہوئی ہے۔ سابق سورۃ (ازنت الازنۃ) (٥٧ ) ( قریب آ پہنچی قریب آنے والی) کی تنبیہ پر تمام ہوئی۔ اس سورۃ کا آغاز (اقتربت الساعۃ وانسق القمر) (١) عذاب کی گھڑی قریب آن پہنچی اور چاند شق ہوگیا) سے ہوا ہے۔ گویا ازقت الازقۃ کے اجمال کی اس میں تفصیل فرما دی گئی ہے اس مناسبت کے علاوہ ایک اور ظاہری مناسبت بھی دونوں میں واضح ہے۔ پہلی سورۃ میں ستاروں کے ہبوط و سقوط سے دعوے پر شہادت پیش کی گئی ہے اور اس میں چاند کے پھٹنے سے اس میں آیت (ولقد یسرنا القران للذکر فھل من مد کر ) بار بار دہرائی گئی ہے۔ جس سورۃ میں کسی آیت کی ترجیح ہو اس کو سورۃ میں خاص اہمیت ہوتی ہے۔ گویا متکلم تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اپنے دعوے پر دلائل بیان کرتے ہوئے ضدی مخاطب کو بار بار توجہ دلاتا ہے کہ اپنی ضد ہی پر کیوں اڑے ہوئے ہو، اس واضح حقیقت پر کیوں نہیں غور کرتے جو تمہارے سامنے دلائل کی روشنی میں پیش کی جا رہی ہے۔ مخاطب اس میں وہ مکذبین ہیں جو قرآن کے انداز کی تصدیق کے لیے کسی ایسی نشانی عذاب کا مطالبہ کر رہے تھے جو انہیں قائل کر دے کہ فی الواقع قرآن کی یہ دھمکی سچی ہو کے رہے گی اگر وہ اس کو جھٹلاتے رہے۔ ان کو پچھلی قوموں کی تاریخ، جس کی طرف پچھلی سورۃ میں بھی اشارہ ہے، نسبتاً تفصیل کے ساتھ سنا کر تنبیہ فرمایا ہے کہ آخر ان قوموں کے انجام سے کیوں عبرت نہیں حاصل کرتے ؟ کیوں مچلے ہوئے ہو کہ جب یہی کچھ تمہارے سروں پر بھی گزر جائے گا تب مانو گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے تمہیں عذاب کی نشانی دکھانے کی جگہ ایک ایسی کتاب تم پر اتاری ہے جو تمہاری تعلیم و تذکیر اور تمہارے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے ہر پہلو سے جامع و کامل اور تمام ضروری اوصاف و محاسن سے آراستہ ہے، لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جگہ تم اس کے عذاب کے طالب بنے ہوئے ہو ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ


(١۔ ٨) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ ان صدیوں کے مطالبہ عذاب کی کوئی پرواہ نہ کرو، ان کو بڑی سے بڑی نشانی بھی دکھا دی جائے گی تب بھی یہ ماننے والے نہیں ہیں۔ یہ عقل کے پیرو نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے غلام ہیں۔ ان کے لیے قوموں کی تاریخ میں بڑا درس عبرت موجود ہے لیکن ان میں عبرت پذیری کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ تمہاری پکار سننے والے نہیں ہیں۔ ان کا معاملہ اب اس پکارنے والے پر چھوڑو جو قرآن کے بجائے ان کو جہنم کے لیے پکارے گا اور یہ اس کی پکار پر اس طرح قبروں سے نکلیں گے جس طرح پراگندہ ٹڈیاں برآ ہوتی ہیں۔ (٩۔ ٤٢ ) قریش کو قوم نو ح، عاد، ثمود، قومو لوط اور قوم فرعون کے انجام سے سبق لینے کی ہدایت کہ انہوں نے بھی تمہاری ہی طرح اپنے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تو دیکھ لو کہ ان کا انجام کیا ہوا ؟ وہی انجام تمہارا بھی ہوگا اگر تم نے بھی انہی کی روش اختیار کی۔ تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے خطرے کے ظہور سے پہلے پہلے تم کو ہوشیار کر دینے کے لیے قرآن اتارا جو عبرت و نصیحت اور یاددہانی حاصل کرنے کے لیے ہر پہلو سے آراستہ ہے، لیکن افسوس کہ تم اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے عذاب کے طالب ہو ! (٤٣۔ ٥٥ ) قریش کو آگاہی کہ جب ماضی کے کفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ رہا ہے کہ تو آخر تمہارے ہی کفار کو ایسے کیا ؟ سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ وہ یوں ہی چھوڑے رکھے جائیں گے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں ان کے لیے معافی کا کوئی پرواہ نہ لکھ دیا ہے ! کیا ان کو گمان ہے کہ وہ ہمارے مقابل میں اپنی مدافعت کرلیں گے ! اگر وہ اس حماقت میں مبتلا ہیں تو یاد رکھیں کہ اللہ کافروں اور متقیوں کے ساتھ ایک معاملہ نہیں کرے گا، بلکہ کافروں کو وہ جہنم کی سزا دے گا اور مومنوں کو جنت کے صلہ سے نوازے گا ۔