55 ۔ سورۃ الرحمن : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

 ا۔ سورۃ کا مزاج، عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

اس سورۃ کو بعض لوگوں نے مدنی قرار دیا ہے لیکن پوری سورۃ کا مدنی ہونا تو الگ رہا اس کی ایک آیت بھی مدنی نہیں معلوم ہوتی۔ پوری سورۃ بالکل ہم آہنگ و ہم رنگ ہے اور پڑھنے والا صاف محسوس کرتا ہے کہ یہ بیک دفعہ نازل ہوئی ہے۔ اپنے مزاج اور مطالب کے اعتبار سے یہ سورتوں کے اس زمرے سے تعلق رکھتی ہے جو مکی زندگی کے اس دور میں نازل ہوئی میں جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کے جوش میں مخالفین اس مطالبہ پر اڑ گئے ہیں کہ جب تک ان کو کوئی نشانی عذاب نہ دکھا دی جائے گی اس وقت تک نہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اس نئی دعوت کی تکذیب کے نتیجہ میں ان پر کوئی عذاب آجائے گا اور نہ یہ تسلیم کرنے والے ہیں کہ فی الواقع آگے کوئی دن آنے والا ہے جس میں ان کو دائمی عذاب اور ابدی رسوائی سے دوچار ہونا پڑے۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی اس ذہنیت کے سبب سے سابق سورۃ میں بھی آپ نے دیکھا ہے کہ ( فکیف کان عذابی و نذرہ ولقد یسرنا القران للکذکر فھل من مدکر) کی تذکیر بار بار دہرائی گئی ہے اور اس سورۃ میں ( فبای الاء ربکما تکذبین) کی تنبیہ بار بار آئی ہے۔ کسی ایک ہی بات کی طرف بار بار توجہ دلانے کا یہ اسلوب ظاہر ہے کہ اسی صورت میں اختیار کیا جاتا ہے جب مخاطب یا تو اتنا ضدی ہو کہ اپنی خواہش کے خلاف کوئی بات ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہویا اتنا غبی ہو کہ جب تک اس کو کان پکڑ پکڑ کر ایک ایک چیز کی طرف توجہ نہ دلائی جائے اس سے کسی مفعول بات کے سمجھنے کی توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو۔ کلام میں مخاطب کی ذہنیت اور اس کے مزاج کی رعایت ایک نا گزیر شے ہے۔ اگر متکلم یہ چیزملحوظ نہ رکھ سکے تو اس کا کلام نہ مطابق حال ہوگا، نہ بلیغ۔ جو لوگ کلام کے ان تقاضوں سے نا بلد ہوتے ہیں وہ اس نوعیت کے کلام کی خوبیوں اور نزاکتوں کے پرکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ وہ ایک ہی آیت کے بار بار اعادے کو تکرار پر محمول کرتے اور اس تکرار کو ایک عیب قرار دیتے ہیں، چنانچہ اس سورۃ پر بھی بعض کم سو ادوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس میں ایک ہی آیت کا بار بار اعادہ ہے۔ حالانکہ اگر وہ یہ سمجھ جائیں کہ اس میں مخاطب کس ذہنیت کے لوگ ہیں تو وہ پکار اٹھیں کہ اس سورۃ کی ایک ایک ترجیع اپنے محل میں اس طرح جڑی ہوئی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ ہوتا ہے ۔
سورۂ قمر میں قریش کے ہٹ دھرموں کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ رسولوں اور ان کی قوموں کی تاریخ سے آخر کیوں سبق نہیں لیتے ؟ کیوں اڑے ہوئے ہو کہ جب عذاب کا تاز یا نہ دیکھ لو گے تب ہی مانو گے ؟ یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے تمہاری تعلیم و تذکیر کے لیے ایک ایسی کتاب اتاری جو ہر پہلو سے اس مقصد کے لیے نہایت موزوں ہے ! اس سورۃ میں اس مضمون کو ایک نئے اسلوب اور نہایت اچھوتے انداز سے لیا ہے اور انہیں یہ سمجھایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے کہ اس نے تمہاری تعلیم کے لیے قرآن اتارا۔ تمہاری فطرت کا تقاضا یہی تھا کہ اس مقصد کے لیے قرآن ہی اتارا جائے۔ جب اللہ نے تم کو نطق و بیان کی صلاحیت سے نوازا ہے تو تم بات سمجھ بھی سکتے ہو اور سمجھا بھی سکتے ہو۔ اس اعلیٰ صلاحیت کا حق یہی ہے کہ اس کو تمہاری تعلیم کا ذریعہ بنایا جائے نہ کہ عذاب کے ڈنڈے کو، لیکن تمہاری یہ بد بختی ہے کہ تم اس نعمت و رحمت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے کوئی نئی نشانی دیکھنے کے لیے مچلے ہوئے ہو۔ اگر کوئی نشانی ہی مطلوب ہے تو آسمان و زمین اور آفاق و انفس کی نشانیوں پر کیوں نہیں غور کرتے جوہر روز تمہارے مشاہدے میں آتی ہیں اور تمہیں انہی حقائق کے درس دیتی ہیں جن کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔ ان نشانیوں کے ہوتے کسی نئی نشانی کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کے بعد زمین و آسمان کی ایک ایک نشانی پر انگلی رکھ کر اور گویا ان ضدیوں کے کان پکڑ پکڑ کر توجہ دلائی ہے کہ یہ نشانیاں نہیں ہیں تو کیا ہیں ! آخر اپنے رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلاتے رہو گے !

ب۔ اس سورۃ کی بعض اہم مشکلات

اس سورۃ میں زبان و اسلوب اور تاویل کی جو مشکلات ہیں ان سے تو ہم ان شاء اللہ متعلق آیات کے تحت ہی تعرض کریں گے لیکن دو باتیں ایسی ہیں جن کی وضاحت ہم تمہیدہی میں کر دینی چاہتے ہیں تاکہ ان سے بار بار تعرض کی نوبت نہ آئے۔ ان میں سے پہلیے چیز لفظ الا کی تحقیق ہے اور دوسری ( فبای الا ربکما تکذبن) میں خطاب کی نوعیت۔ لفظ الا جمع ہے انی۔ الی اور الی کی۔ اس کے معنی تمام ائمہ لغت اور ارباب تاویل کے نزدیک نعمت کے ہیں، لیکن استاد امام مولانا فراہی (رح) نے اپنی کتاب، مفردات القرآن میں اہل لغت کی اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ مولانا کے نزدیک یہ لفظ صرف نعمت کے معنی میں نہیں آتا بلکہ اس کے معنی اس سے وسیع ہیں۔ وہ اس بحث کی تمہید اس طرح اٹھاتے ہیں ۔
’’ ہر چند لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ’ الا‘ کے معنی نعمتوں کے ہیں لیکن قرآن اور کلام عرب سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ کلام عرب کے متبع اور لفظ کے مواقع استعمال سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ تو یہ ہے کہ اس کے اصل معنی کا رناموں، کرشموں اور عجائب قدرت و حکمت کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے کرشموں اور اس کی نشانیوں کا غالب حصہ آیات رحمت پر مشتمل ہے اس وجہ سے لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ ’ الا‘ کے معنی نعمت ہی کے ہیں‘‘۔
اسی سلسلہ میں مولانا (رح) نے اس روایت کی بھی توجیہ کی ہے جو حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے اس کے معنی نعمت کر بتائے ہیں۔ مولانا (رح) نے فرماتے ہیں کہ سلف کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب ان سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ سوال کے موقع و محل کو سامنے رکھ کر جواب دیتے کہ اس خاص مقام میں لفظ کا کیا مفہوم ہے۔ اس تمہید کے بعد مولانا (رح) نے شعرائے جاہلیت میں سے طرفہ، میہ نبت ضرار، مہلہل، ربیعہ بن مقروم، اجدع الہمدانی، فضالہ بن زید، خنساء اور بعض حماسی شعراء کے کلام سے اپنی تائید میں شواہد پیش کئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مشہور جاہلی شاعروں نے، جن کا کلام لغت اور نخو کا مآخذ ہے، اس لفظ کو صرف نعمت ہی کے معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وسیع معنوں میں لیا ہے جس کے اندر نعمت، قدرت، شان، نشانی، کرشمہ، کارنامہ، اعجوبہ اور اس نوع کے تمام مفہوم شامل ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات باعث مسرت ہے کہ قرآن مجید کے اس دور کی مترجمین و مفسرین مولانا (رح) کی تحقیقات اپنی کتابوں میں ( بلا حوالہ سہی) اب نقل کرنے لگے ہیں، لیکن مولانا (رح) کی تصنیفات عربی میں ہیں اس وجہ سے جن کی عربی خام ہے بعض اوقات وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اوپر کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس لفظ کو نعمت کے معنی میں لینے سے مولانا (رح) کو انکار نہیں ہے بلکہ صرف نعت کے معنی میں اس کو محدود کردینے سے انکارہے۔ ( فبای الا ربکما تکذبین) میں خطاب سے متعلق یہ امر تمام ارباب تاویل کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ کہ یہ جن و انس دونوں سے ہے۔ اس کو وضاحت خود قرآن نے اسی سورۃ میں مختلف اسلوبوں سے کر دی ہے۔ البتہ دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کی دعوت جس طرح انسانوں کے لیے ہے کیا اسی طرح جنوں کے لیے بھی ہے ؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح اللہ تعالیٰ کی حجت اپنی قوم پر تمام کی اسی طرح جنوں پر بھی کی۔ اس کا جواب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ رسولوں بعثت اور ان کی دعوت سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو ضابطے قرآن میں بیان فرمائے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت جنوں کی طرف بھی تھی اور جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسانوں پر حجت تمام کی اس طرح جنوں پر بھی کی۔ قرآن میں یہ بات گونا گوں اسلوبوں سے واضح فرمائی گئی ہے کہ رسول جس قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے وہ انہی کے اندر سے ہوتا ہے، انہی کی زبان میں کلام کرتا ہے، انہی کی فطرت کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے اور وہ اپنی عملی مثال سے ان کی خیر کو اجاگر کرتا اور ان کے شر کو مٹاتا ہے اس وجہ سے اس کی زندگی ہر شخص کے لیے اسوہ اور نمونہ بن جاتی ہے۔ ظاہرہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو جنوں کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے ظہور میں آئی ہو۔ یہ بات بھی اپنی جگہ پر واضح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کو دعوت دینے اور اس کی اصلاح و تربیت کے لیے جو جدوجہد فرمائی اس طرح کی کوئی جدوجہد جنوں کے اندر آپ کی طرف سے ہمارے علم میں نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی دعویٰ کیا جا سکتا ہے تو بس یہ کہ ایک دو بار آپ جنوں کی کسی پارٹی سے ملے ہوں یا ان کی کسی پارٹی نے آپ کی زبان مبارک سے قرآن پاک کا کوئی حصہ سنا اور اس کو پسند کیا ہو۔ سورۂ احقاف آیات ٢٩۔ ٣٢ کے تحت گزر چکا ہے اور آگے سورۂ جن میں ذکر آئے گا کہ جنوں کی ایک پارٹی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن پاک کی کچھ آیتیں سنیں اور ان کو نہایت پسند کیا، لیکن وہاں بھی اس امر کی تصریح ہے کہ جنوں کی اس پسندیدگی کی اطلاع حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعہ سے ہوئی۔ اس طرح کی اتفاقی ملاقاتیں ظاہرہے کہ اس دعوت اور اتمام حجت کے لیے کافی نہیں ہیں جو ہر نبی و رسول نے اپنی قوم کے لیے انجام دی ہیں اور جس کے لیے ہی در حقیقت کسی قوم کے اندر رسول کی بعثت ہوتی ہے۔ قرآن میں جنوں سے اس طرح کے خطاب کہیں کہیں جو پائے جاتے ہیں اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ براہ راست اس کے مخالف ہیں بلکہ جب ابر رحمت برستا ہے تو جس طرح خشک و ترسب کی سیراب کر دیتا ہے اسی طرح کبھی کبھی قرآن کی رحمت کا فیض جنوں تک بھی متعدی ہوجاتا ہے۔ بالخصوص ان کلیاتی امور میں جو ہمارے اور ان کے درمیان مشترک ہیں۔ توحید، معاد، جزاء و سزا، حق اور عدل اور اس نوع کے امور ہمارے اور ان کے مابین بالکل یکساں ہیں۔ اختلاف ہوسکتا ہے تو ان امور میں ہوسکتا ہے جن کا تعلق ہماری اور ان کی نوعی خصوصیات سے ہے۔ اس سورۃ کا اصل مقصد، جیسا کہ اوپر واضح ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت کی نشانیوں کی یاددہانی اور غافلوں کو جھنجھوڑنا اور جگانا ہے اس وجہ سے غافل انسانوں کے ساتھ ساتھ اس میں غافل جنوں کو بھی مخاطب کرلیا ہے جس سے اس کلام کی ہیبت تمام آفاق پر چھا گئی ہے۔
ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیداہو کہ اس تقریرکا نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ جس طرح انسانوں کے اندر انسانوں میں سے نبی اور رسول آئے اسی طرح جنوں کے اندر انہی کے اندر سے نبی و رسول آئے ہوں جنہوں نے ان کی زبان اور ان کی نوعی خصوصیات و ضروریات کے مطابق ان کی اصلاح و تربیت کی ہو۔ ہم اس نتیجہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ یہ بات عقل و فطرت کے ٹھیک مطابق اور اللہ تعالیٰ اس سنت کے بالکل موافق ہے جو اس نبیوں اور رسولوں کی بعثت سے متعلق قرآن میں بار بار واضح فرمائی ہے۔ جنات جب ہماری ہی طرح ملکف اور ہماری طرح عند اللہ مسول اور ہمارے ہی طرح اپنے اعمال کی جزاء یا سزا کے سزا وار ہیں تو سنت الٰہی کے مطابق ضروری ہے کہ ان کی ہدایت کے لیے نبی اور رسول بھی مبعوث ہوئے ہوں اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ انہی کے اندر سے اٹھائے گئے ہوں اور انہی کی زبان میں انہوں نے ان کو دعوت دی ہو۔ ہمارے نزدیک قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو اس کے خلاف جاتی ہو بلکہ مختلف آیات سے نہایت واضح طور پر اس کی تائید ہوتی ہے۔ سورۂ بقرہ میں آدم و ابلیس کا جو ماجرا بیان ہوا ہے اس کے آخر میں آدم ( علیہ السلام) ابلیس دونوں سے بحیثیت جماعت خطاب کر کے فرمایا ہے کہ
۔۔ ۔۔۔ (البقرۃ: ٣٨)۔ ۔۔ ( ہم نے حکم دیا کہ یہاں سے اترو سب، پس اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور زدہ غمگین ہوں گے ) ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت بھیجنے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ جس طرح آدم ( علیہ السلام) و اولاد آدم سے متعلق ہے اسی طرح ابلیس اور اس کی ذریت سے متعلق بھی ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام میں تصریح ہے کہ جنوں کے اندر انہی کے اندر سے رسول مبعوث ہوئے ۔
(الانعام۔۔ ١٣١)۔ ۔۔۔ (اے جنوں اور انسانوں کے گروہ، کیا تمہارے پاس تمہی میں سے رسول میری آیتیں بیان کرتے اور تمہیں اس دن کی پیشی سے ڈراتے نہیں آئے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں ہم خود اپنے خلاف گواہ ہیں اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں رکھا اور انہوں نے خود اپنے خلاف گواہی دی کہ وہ کافر رہے۔ )

ج۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

اس سورۃ کا نظم بالکل واضح ہے۔ ابتد ا میں یہ تمہید ہے کہ قرآن خدائے رحمان کی رحمت کا مظہرہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اپنے فضل خاص سے اس کو نطق و ادراک اور گویائی کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا۔ ان اعلیٰ صلاحیتوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت اعلیٰ ترین آسمانی کلام۔ قرآن کے ذریعہ سے کی جائے نہ کہ عذاب کے تاریانے کے ذریعے سے۔ بد قسمت ہیں۔ وہ لوگ جو اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے کسی نشانی عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد آفاق و انفس کی نمایاں نشانیوں پر گویا انگلی رکھ رکھ کے انسانوں اور جنوں، دونوں کو بار بار جھنجھوڑا ہے کہ یہ ساری نشانیاں ہی تو ہیں، تو تم اپنے رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلائو گے ! ان نشانیوں کے بیان کی تربیت یہ ہے۔ ان نشانیوں کی طرف اشارہ جو شہادت دیتی ہے کہ خالق کائنات عدل پسند ہے۔ اپنی اس دنیا کے کسی گوشے میں وہ تعدی، طفیان اور حدود سے تجاوز کو پسند نہیں فرماتا۔ ان نشانیوں کی طرف اشارہ جو شہادت دیتی ہیں کہ خالق نے اس دنیا میں ربوبیت کا جو وسیع انتظام فرمایام ہے وہ مقتضی ہے کہ انسان اس میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑا گیا بلکہ لازماً ایک ایسا دن بھی آنے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب کرے گا، جوانعام کے مستحق ٹھہریں گے ان کو انعام دے گا اور جو سزا کے سزا اور نکلیں گے ان کو سزا دے گا ۔
خدا ہی نے جنوں اور انسانوں کو آگ اور مٹی سے پیدا کیا اور وہ ان کودو بارہ بھی پیدا کرسکتا ہے اس کام میں اس کو کوئی زحمت نہیں پیش آئیگی ۔
یہ ساری کائنات خدا ہی کے تصرف میں ہے۔ مشرق اور مغرب، دونوں کا رب وہی ہے۔ جو طلوع ہوتے ہی اس کے حکم سے طلوع ہوتے ہیں اور جو ڈوبتے ہیں اسی کے حکم سے ڈوبتے ہیں ۔
اس کائنات کے اضداد میں ان کے اپنے وجود سے بالا تر مقصد کے لیے ساز گاری پائی جاتی ہے جو اس بات کی شہادت ہے کہ ایک بالا تر ارادہ سب پر حاوی ہے جو ان تمام اضداد کے اندر توافق پیدا کرتا اور ان کو اس کائنات کے مجموعی مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ کائنات اپنے اضداد کے تصادم سے فنا ہوجاتی۔ اس کا باقی رہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس پوری کائنات پر صرف ایک ہی قاہر و حکیم ارادہ کار فرما ہے ۔
اس بات کی نشانی کہ صرف وہی ایک ذات باقی رہنے والی ہے۔ اس کے سوا سب فانی ہیں ۔
اس حقیقت کا اظہار کہ اس کے سوا سب محتاج ہیں۔ وہی اکیلا محتاج الیہ ہے۔ سب کی ضرورتیں وہی پوری کرتا ہے، جو نادان دوسروں سے مانگتے ہیں وہ بھی پاتے اسی سے ہیں ۔
اس امر کا اعلان کہ حساب کتاب اور جزائے اعمال کا ایک دن ضرور آئے گا اور اس دن نہ کوئی انسان خدا کے قابو سے باہر نکل سکے گا نہ کوئی جن، اس دن کسی مجرم کا جرم ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت اور گواہی کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ مجرموں کی پیشانیاں خود ان کے مجرم ہونے کی گواہی دیں گی پھر وہ چوٹی اور پائوں سے پکڑ کر جہنم میں جھونک دیے جائیں گے ۔
اس دن متقربین کی جو جنتیں ملیں گی ان کا بیا ن ۔
اصحاب الیمین کو ملنے والی جنتوں کی تصویر ۔