57۔سورۃ الحدید : تعارف، مضامین و مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

یہ سورۃ سابق سورۃ الواقعۃ کی مثنیٰ ہے۔ اگرچہ دونوں میں مکی اور مدنی ہونے کے اعتبار سے فی الجملہ زمانی اور مکانی بعد ہے لیکن معنوی اعتبار سے دونوں میں غایت درجہ ربط و اتصال ہے۔ سابق سورۃ میں یہ اصولی حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ جزاء و سزا کا دن لازماً آ کے رہے گا اور اس دن لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک گروہ سابقوں اولون کا ہوگا، دوسرا اصحاب یمین کا، تیسرا اصحاب شمال کا ۔

اس سورۃ میں خاص طور پر مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کو سابقین اولین کی صفت میں اپنی جگہ پیدا کرنے پر ابھارا ہے اور اس کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے پہلے جو لوگ جہاد و انفاق کریں گے وہ سابقین کے زمرے میں شامل ہوں گے اور ان کا مرتبہ ان لوگوں سے اونچا ہوگا جو فتح مکہ کے بعد جہاد و انفاق کی سعادت حاصل کریں گے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ دونوں ہی سے اچھا ہے تاہم تقرب الٰہی کے اعتبار سے دونوں میں جو فرق ہے وہ واضح ہے۔ اسی ضمن میں ان مسلمانوں کو جہاد و انفاق پر ابھارا ہے جو اسلام میں داخل تو ہوگئے تھے لیکن ایمان کے متقضیات سے اچھی طرح آشنا نہ ہونے کے سبب سے، اس کے مطالبات پورے کرنے کے معاملے میں کمزور تھے۔ ان کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر دنیا کی محبت میں پھنس کر تم نے آخرتکی ابدی بادشاہی حاصل کرنے کاحوصلہ کھو دیا تو یاد رکھو کہ بالآخر یہود کی طرح تمہارے دل بھی سخت ہوجائیں گے اور تمہارا انجام وہی ہوگا جو ان کا ہوا۔

اس معنویرابطہ کے ساتھ ساتھ دونوں صورتوں میں ظاہری ربط بھی نہایت واضح ہے۔ سابق سورۃ کا خاتمہ (فسبح باسم ربک العظیم) کے الفاظ پر ہوا ہے اور اس کا آغامز ( سبح للہ ما فی السموات والارض) الایۃ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ گویا اس کی آخری اور اس کی پہلی آیت نے ایک حلقہ اتصال کی شکل اختیار کر کے دونوں کو نہایت خوبصورتی سے باہم وگر مربوط کردیا ہے اس قسم کے ربط کی نہایت خوبصورت مثالیں پیچھے بھی گزر چکی ہیں اور یہ قرآن کے ایک منظم و مربوط کتاب ہونے کا ایک واضح قرینہ ہے ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

(١۔ ٦)۔ سورۃ کی تمہید جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات عزت، حکمت، قدرت، علم، خلق اور تدبیر کی طرف ایک جامع اشارہ ہے جس سے مقصود اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جو ان صفات سے متصف ہے وہی آخرت میں سب کا مرجع ومولیٰ بھی ہوگا اس وجہ سے وہی حمد و تسبیح کا سزا وار ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے اور اپنے عمل سے انسانوں کو بھی دعوت دیتی ہے کہ وہ بھی اسی کی بندگی اور اس بندگی میں کسی اور کو اس کا شریک نہ بنائیں ۔

(٧۔ ١٠) مسلمانوں کو عموماً اور ضعیف الایمان مسلمانوں کو خصوصاً یہ تنبیہ کہ رسول سے ( سمعنا واطعنا) کا جو عہد انہوں نے کیا ہے اس کے تقاضے عزم و ہمت سے پورے کریں۔ آج اللہ کا رسول جہاد و انفاق کی جو دعوت دے رہا ہے اس پر لبیک کہنا ایمان کا بدیہی تقاضا ہے۔ یہی چیز لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے گی۔ جو لوگ آج انفاق و جہاد کریں گے ان کا مرتبہ ان لوگوں سے اونچا ہوگا جو اس وقت جہاد و انفاق کریں گے جب مکہ فتح ہوجائے گا۔ اگرچہ ان سے بھی اللہ تعالیٰ کا معاملہ اچھا ہی ہوگا۔

 (١١۔ ١٥) اللہ کی راہ میں انفاق قیامت کے دن ان لوگوں کے لیے روشنی بنے گا جو اخلاص کے ساتھ انفاق کریں گے۔ اس روشنی سے وہ لوگ محروم رہیں گے جو نفاق کے سبب سے انفاق سے جی چراتے رہے۔ اس طرح کے لوگ ایمان والوں سے درخواست کریں گے کہ ذرا ہمیں بھی اپنی روشنی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیجئے لیکن ان کو جواب ملے گا کہ اس روشنی کو حاصل کرنے کا وقت پیچھے تھا جو تم نے کھودیا۔ اب یہ چیز تمہیں نصیب ہونے والی نہیں ہے۔ اسکے بعد ان کے اور اہل ایمان کے درمیان ایک دیوارکھڑی کر دی جائے گی جس کے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی اور دوسری جانب اس کا عذاب بھڑک رہا ہوگا ۔

(١٦۔ ١٧) منافقین کو تہدید کہا گر غلبہ حق کی اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی تمہاری آنکھیں نہ کھیلیں تم اسی طرح تردد و تذبذب میں مبتلا اور خدا کی راہ میں انفاق سے جی چراتے رہے تو یاد رکھو کہ تمہارے دل بھی اسی طرح سخت ہوجائیں گے جس طرح بہبود کے دل سخت ہوگئے اور پھر تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جوان کاہوا۔ یاد رکھو کہ آخرت لازمی ہے نہ اس کی جزاء سے مایوس ہونا جائز ہے نہ اس کی سزا سے بے خوف ہونا ۔

(١٨، ١٩) جو لوگ اللہ کی راہ میں انفاق اور جہاد کرتے ہیں وہ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے والا نہیں ہے بلکہ انکی ہر قربانی کا صلہ ان کو مضاعف ہو کر ملے گا۔ یہی انفاق و جہاد زینہ سے اس مرتبہ تک پہنچنے کا صدیقین و شہدا کے لیے خاص ہے اور اسی کے صلہ میں وہ روشنی ملے گی جس سے منافقین محروم رکھے جائیں گے۔

 (٢٠، ٢١ ) ان لوگوں کی پست حوصلگی اور تنگ دامنی پر اظہار افسوس جو اس دنیا کی چند روزہ لذتوں پر فریفتہ ہو کر اپنے رب کی مغفرت اور اس وسیع جنت کو بھول بیٹھے جس کی وسعت، زمین و آسمان کی وسعت کے مانند ہوگی ۔

(٢٢، ٢٤ ) اس حقیقت کی یاددہانی کہ فقر وغنا کا تعلق انسان کی اپنی سعی و تدبیر سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی تقدیر سے ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ ہ سختی و نرمی دونوں حالتوں میں اپنے رب سے راضی و مطمئن رہے۔ اگر اس کو اللہ نے مال دے رکھا ہے تو وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہ کے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے کہ اللہ کے اختیار میں جس طرح بخشنا ہے اسی طرح چھین لینا بھی ہے۔

 (٢٥۔ ٢٧ ) ان لوگوں کے زعم کی تردید جو مذہب کے رہنمائی تصور کے تحت جہاد بالسیف اور اس راہ میں انفاق دنیا داری سمجھتے اور مسلمانوں کے شوق جہاد پر طعن کر رہے تھے۔ نبیوں اور رسولوں کی تاریخ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ جہاد انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور رہبانیت نصاریٰ کی ایجاد کردہ بدعت ہے جو انہوں نے اپنے دین میں غلو کی راہ سے پیدا کی ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اصل تعلیم سے اس کو رئی تعلق نہیں ہے۔

 ( ٢٨، ٢٩ ) مسلمانوں کو یہ تلقین کہ تم اللہ کے رسول کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے سرفروشانہ جہاد کے لیے اٹھو اور اس راہ میں پوری فیاضی سے اپنے مال خرچ کرو۔ اہل کتاب میں سے جو مفسدین تمہارے دلوں میں یہ وسوسہ اندازی کر رہے ہیں کہ جہاد ایک دنیا دارانہ کام ہے انکی وسوسہ اندازیوں کو نظر اندازکرو۔ قیام دل کے لیے جہاد ابتداء سے ابنیاء علیہم السلام کی سنت ہے اور تم کو انہی کی سنت کی پیروی دعوت دی گئی ہے۔ نصاریٰ نے جو رہبانیت ایجاد کی ہے اس کو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حسد کا بخارہے جو تمہارے خلاف نکال رہے ہیں لیکن ان کے حسد کے علی الرغم اللہ تعالیٰ تمہیں وہ مقام دے کر رہے گا جو اس نے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے ۔