78۔ سورۃ النباء : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔سورہ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق

یہ سورۃ سابق سورۃ۔ ۔۔۔ المرسلت۔ ۔۔ کی توام سورۃ ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے جس طرح اس میں آفاقی، تاریخی اور انفسی دلائل سے یہ حقیقت ثابت کی گئی ہے کہ اس دنیا کے بامقصدوباغایت ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ یہ ایک دن ختم ہو اور اس کے بعد ایک ایسا فیصلہ کا دن آئے جس میں نیکوکاروں کو ان کی نیکیوں کا صلہ ملے اور جومجرم ہوں وہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں اسی طراسی سورۃ میں بھی ایک یوم الفصل کا اثبات فرمایا ہے جس میں خدا کے باغی اپنی سرکشی کی سزا بھگتیں گے اور خدا ترس اپنی ترسی کا انعام پائیں گے۔ استدلال اس میں خدا کی ربوبیت کے آثار و شواہدسے ہے جس سے آسمان و زمین کا چپہ چپہ معمورہے ۔

لب رو لہجہ دونوں سورتوں کا بالکل ایک ہی ہے۔ کلام استفہام اقراری کے انداز میں شروع ہواہے جو ان متکبرین و مکذبین کو خطاب کرنے کے لئے مخصوص ہے جو بالکل بدیہی حقائق کو جھٹلانے کے درپے ہوں۔ دلائل کے پہلو بہ پہلو زجرو ملامت اور تہدیدو توبیخ ہر آیت میں نمایاں ہے۔ اہل ایمان کے لئے جو بشارت ہے بھی گویا ان کی مکذبین کی تہدید ہی کے پہلو سے آئی ہے کہ وہ اس کو سامنے رکھ کر اپنے انجام کا موازنہ کرلیں ۔

ب۔ سورۃ کے مطلب کا تجزیہ


سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے ۔
(١۔ ٥) منکرین قیامت کی ان چہ میگوئیوں پر زجروتوبیخ جو قیامت کا ذکر سن کرنہایت سفیہانہ انداز میں وہ آپس میں کرتے۔ ان کو آگاہی کہ یہ خبروہ خبر ہے کہ ان کے اندرعقل کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو ات کی فکر ان کوراتوں کی نیند سے محروم کردیتی چہ جائیکہ وہ اس کا مذاق اڑائیں ۔
(٦۔ ١٧) اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، رحمت، حکمت اور قدرت کی ان نشانیوں پر غورکرنے کی دعوت جو زمین سے لے کر آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں اور جوشہادت دے رہی ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں مطلق العنان اور غیر مسئول بناکر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اس کی عدالت کے لئے ایک دن مقررہے جو لازماََ آکے رہے گا ۔

(١٨۔ ٣٠) ہول قیامت اور سرکشوں کے انجام کی تصویر، جس میں دکھایا ہے کہ اس دنیا کی کوئی چیز بھی اٹل یا خدا کے کنٹرول سے باہر نہیں ہے بلکہ ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔ جب وہ چاہے گا ایسا صورپھونکے گا سب قبروں سے نکل فوج درفوج اس کی طرف چل پڑیں گے۔ آسمان، زمین دریا اور پہاڑ سب متزلزل، پراگندہ اور منتشر ہوجائیں گے۔ جہنم اس گھات میں ہوگی۔ وہی تمام سرکشوں کا ٹھکانا بنے گی۔ اس میں دکھ کی ساری چیزیں جمع ہوں گی لیکن لذت و راحت کا کوئی نشان بھی نہ ہوگا۔ ہرایک کو اس کے اعمال سے سابقہ پیش آئے گا اور ہر شخص کا ہر عمل رجسٹر میں لکھا ہواموجود ہوگا۔ اس سے کہا جائے گا کہ جو انجام تمہارے سامنے آیا ہے وہ تمہارے اعمال کی قدرتی نتیجہ ہے اب اس کا مزہ چکھو ۔

(٣١۔ ٣٦) اس دن خدا ترسوں کو جو صلہ ملے گا اس کی طرف اشارہ کہ وہ اپنے کسی چھوٹے سے چھوٹے عمل کے صلہ سے بھی محروم نہیں رہیں گے بلکہ اپنی ہر نیکی کا اجرپائیں گے۔ حق کی خاطر انہوں ے مخالفین کے جو چرکے اور طعنے سہے ان سب کا ان کو اجرملے گا اور ان کو ایسی پاکیزہ سوسائٹی نصیب ہوگی جس میں ان لغویات کا کوئی مذکور نہیں جن سے ان کو دنیا میں سابقہ رہا ۔

(٣٧۔ ٤٠ ) ان لوگوں کو تنبیہ جو باطل شفاعت بل پر اس دن کی ہولناکیوں سے سخت ہے۔ ان کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ یہ دن آکررہے گا تو جواپنے رب کی پناہ کا طالب ہے وہ اس کی راہ اختیار کرے۔ اللہ کے ہاں کوئی اس کی اجازت کے بغیر کسی کے لئے سفارش کا مجاز نہیں ہوگا اور اجازت کے بعد جو زبان کھولے گا وہ بالکل سچی بات کہے گا، کسی غلط بیانی کی جراََت کوئی نہیں کرسکے گا۔ اس دن ہرایک کو اس کے اعمال سے سابقہ پیش آئے گا اور کافروں کے پلے حسرت کے سواکچھ پڑنے والا نہیں ہے ۔