77۔ سورۃ المرسلٰت : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ اپنے عمود‘ تمہید اور طرز استدلال کے اعتبار سے چھٹے گروپ کی سورۃ ذاریات سے اور اپنے اسلوب بیان اور مزاج میں سورۃ رحمان سے مشابہ ہے۔ سورۃ ذاریات میں‘ بطریق قسم‘ ہوائوں کے عجائب تصرفات سے عذاب اور قیامت پر استدلال کیا گیا ہے اور عمود اس کا انما توعدون لصادق وان الدین لواقع ہے۔ اسی طرح اس سورۃ میں بھی ہوائوں کے عجائب تصرفات کی بطور شہادت قسم کھا کر فرمایا ہے کہ انما توعدون لواقع (بے شک جس چیز کی تمہیں وعید سنائی جارہی ہے وہ ایک امر شدنی ہے۔ )
مزاج اور اسلوب کلام میں سورۃ رحمان سے اس کی مشابہت یوں ہے کہ جس طرح وہ ترجمع والی سورتوں میں سے ہے‘ آیت فبای الاء ربکما تکذبن اس میں بار بار آئی ہے۔ اسی طرح اس سورۃ میں آیت ویل یومئذ للمکذبین دس بار آئی ہے۔ ترجیع والی سورتوں کے باب میں‘ یہ اصوصلی حقیقت سورۃ رحمان کی تفسیر میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ ان میں خطاب بالعموم ان ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں سے ہے جو ایک واضح حقیقت کو محض رکابرت اور انانیت کی بنا پر جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے کان اور آنکھیں کھولنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ متکلم صرف اپنے دلائل بیان کردینے ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ ہر دلیل کے بعد بطور تنبیہ ان کے جرم اور انجام سے ان کو آگاہ بھی کرتا رہے۔ مخاطب کے اس مزاج کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے تو جس طرح مریض کے مزاج سے ناواقف معالج کی دوا بے اثر رہ جاتی ہے اسی طرح مخاطب کے مزاج سے ناآشنا متکلیم کا کلام بھی بے اثر ہو کے رہ جاتا ہے۔ مخاطبوں کے مزاج کا اختلاف ایک امر فطری ہے اس وجہ سے اس کا لحاظ بلاغت کلام کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ جو لوگ اس نکتہ سے ناآشنا ہیں وہ قرآن کی اس نوع کی ترجیحات کو تکرار پر محمول کرتے ہیں حالانکہ کلام کے
١۔ جس عذاب کی تمہیں وعید سنائی جارہی ہے وہ سچی ہے اور جزا و سزا ایک امر شدنی ہے ۔
٢۔ تباہی ہے اس دن جھٹلانے والوں کی ۔
اداشناس جانتے ہیں کہ قرآن میں ہر ترجیع اپنے محل میں انگشتری پر نگینہ کا حسن رکھتی ہے ۔
سابق سورۃ سے اس کے تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ اس میں استدلال کی اصل بنیاد نفس انسانی کی شہادت پر ہے۔ فطرت کے اندر خیروشر کے درمیان امتیاز کی جو صلاحیت و دلیت ہے اس کی اساس پر جزاء و سزا کو ثابت کرکے ایک روز جزا سے ان لوگوں کو ڈرایا گیا ہے جو اس بدیہی حقیقت کو جھٹلائیں اور ان لوگوں کو بشارت دی گئی ہے جو اپنے باطن کی گواہی قبول کریں اور اپنی زندگیاں اس کے تقاضوں کے مطابق سنواریں۔ اس سورۃ میں اصل استدلال آفاق کے آثار و شواہد سے ہے۔ کسی انفسی دلیل کا حوالہ ہے تو محض اشارہ۔ گویا نوعیت استدلال دونوں میں الگ الگ ہے۔ موضوع کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ مزاج میں یہ فرق بالکل واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ سابق میں بشار ت کا پہلو نمایاں ہے اور اس میں انذار کا۔ اس کی سب سے بڑی شہادت اس کی ترجیع سے ملتی ہے ۔
ب۔ سورۃ کے  مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب  کی ترتیت اس طرح ہے ۔
(١۔ ٧) ہوائوں کے عجائب تصرفات کی شہادت اس بات پر کہ لوگوں کو جس عذاب دنیا اور عذاب آخرت سے ڈرایا جارہا ہے وہ کوئی ان ہونی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا اپنی ہوائوں اور بادلوں ہی کے ذریعہ سے پچھلی قوموں کو یہ کرشمہ دکھایا ہے اور جب چاہے گا قریش کو بھی یہ کرشمہ دکھا دے گا۔ اگر وہ سلامتی چاہتے ہیں تو خدا کی رحمت اور نقمت کے جو آثار ان کے آگے پیچھے موجود ہیں ان سے سبق حاصل کریں۔ خود اپنے لئے اس کو دعوت دینے کی جسارت نہ کریں ۔
(٨۔ ١٥) ہول قیاملت کی اجمالی تصویر جس میں یہ دکھایا ہے کہ اس آسمان و زمین کی بڑی سے بڑی چیز بھی غیر فانی اور اٹل نہ سمجھو‘ نہ کوئی شے بذات خود قائم ہے نہ خود مختار ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم اور اسی کے اذن سے حرکت و عمل کرتی ہے۔ ایک دن آئے گا کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے سارے نظام کو درہم برہم کردے گا۔ اسی دن رسولوں اور ان کی قوموں کے مقدمے کی روبکاری ہے۔ یہ دن بڑا ہی اہم دن ہوگا۔ اسی دن فیصلہ ہوگا کہ رسولوں نے لوگوں کو کیا بتایا اور ان کی قوموں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس دن ان لوگوں کی تباہی ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی ۔
(١٦۔ ١٩) قریش کے سامنے تاریخ ماضی کا درس سوالیہ صورت میں کہ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے اگلی قوموں کو ہلاک کیا اور بعد میں آنے والی قوموں میں سے بھی جنہوں نے ان کی روش بد کی تقلید کی۔ ہم نے ان کو بھی انہی کے پیچھے چلتا کیا ؟ اگر یہ واقعہ ہے اور اس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو آخر آج کے مجرموں کے معاملے میں ہماری یہ سنت متواتر کیوں بدل جائے گی ۔
(٢٠۔ ٢٤ ) انسان کے وجود اور اس کی خلقت کے مراحل سے اللہ تعالیٰ کی قدرت‘ ربوبیت اور اس کی حکمت کی طرف اشارہ جس سے مقصود یہ دکھانا ہے کہ انسان کا اپنا وجود شاہد ہے کہ اس کے خالق کے لئے اس کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے۔ ایسا ضرور ہوگا اور اس دن ان لوگوں کی خرابی ہے جو اس کی تکذیب پر اڑے ہوئے ہیں ۔
(٢٥۔ ٢٨ ) جو جیتے ہیں اور جو مرتے ہیں وہ خدا ہی کی پیدا کی ہوئی زمین پر جیتے اور مرتے ہیں۔ اسی کے اندر خدا نے ان کی پرورش کا سامان بھی مہیا کیا ہے۔ نہ خدا کے احاطہ قدرت سے کوئی باہر ہے نہ اس کی پرورش سے کوئی مستغنی۔ یہ صورتحال شہادت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک دن سب کو ضرور جمع کرے گا۔ اس دن ان لوگوں کے لئے خرابی ہے جنہوں نے اس کی قدرت اور ربوبیت کی شان نہیں پہچانی اور دنیا کی سرمستیوں میں کھوئے روز جزاء و سزا کو جھٹلاتے رہے ۔
(٢٩۔ ٣٤) اس عذاب کی تصویر جس سے ان مکذبین کو آخرت میں سابقہ پیش آنا ہے ۔
(٣٥۔ ٤٠ ) مکذبین کی بے بسی و بے کسی کی تصویر ۔
(٤١۔ ٤٥ ) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کی فائز المرامی کی تصویر ۔

(٤٦۔ ٥٠ ) قریش کے استکبار پر ان کو دھمکی اور ان کے ایمان سے مایوسی کا اظہار ۔