80۔ سورہ عبس : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سابق سورۃ۔ ۔۔ ۔۔۔ کے جوڑ کی حیثیت رکھتی، دونوں کے عمود میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، اسلوب بیان اور مواد استدلال میں بھی دونوں کے اندر نہایت واضح یکسانی ہے۔ مطالب کی ترتیب میں البتہ تبدیلی ہوئی ہے جس سے ایک نیا حسن اس میں پیدا ہوگیا ہے اور دراصل یہی واحد چیز ہے جو اس سورۃ کو سابق سورۃ سے ممتاز کرنے والی ہے، آپ دونوں کو سامنے رکھ کرآسانی سے ان مابہ الاشتراک اور مابہ الاختلاف کو معین کرسکتے ہیں۔ سابق سورۃ کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے یہ جو فرمایا ہے کہ۔۔ (ترجمہ : تم تو بس انہی لوگوں کو قیامت سے ڈراسکتے ہوجواس سے ڈرنے والے ہوں) اسی مضمون سے اس سورۃ کی تمہید استوار فرمائی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بانداز عتاب قریش کے ان متمر دین کے پیچھے وقت ضائع کرنے سے روک دیا ہے جو ایمان نہ لانے کے روزروز نئے نئے بہانے تلاش کرتے اور نازک مزاجی میں اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ آپ سے مطالبہ کرتے تھے کہ جب تک آپ اپنے غریب ساتھیوں کو اپنے پاس سے ہٹا نہیں دیں گے اس وقت تک وہ آپ کی مجلس میں بیٹھنے کے روادار نہیں ہوں گے، اس پوری سورۃ میں انہی متمردین پر نہایت شدت سے، عتاب سے، اگرچہ خطاب بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن عتاب کا رخ تمام تر قریش کے فراعنہ ہی کی طرف ہے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے : (١۔ ١٠) ایک واقعہ کے تعلق سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ کو جولوگ اپنے کبر وغرور کے سبب سے تمہاری تعلیم و تذکیر سے مستغنی اور اس بات کے متمنی ہیں کہ تم اپنے غریب ساتھیوں کو اپنے پاس سے ہٹادو تب وہ تمہاری مجلس میں بیٹھنے کی روادار ہوں گے، ان کی نازبرادری کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ ان کے ایمان کی ذمہ دار ی تمہارے اوپر نہیں ہے کہ تم ان کی ناز برداری میں اپنے جاں نثار ساتھیوں کی حق تلفی کرو، تمہارے اوپر اصل ذمہ داری انہی کی تربیت کی ہے جو تمہارے پاس ذوق و شوق سے آتے ہیں، جو نہیں آتے اور اپنی نازبرادری کے طالب ہیں ان کے بارے میں تم مسئول نہیں ہو کہ ان کو پانے کے لئے اپنوں کو ضائع کردو ۔
(١١۔ ١٦) قرآن کی عظمت کا بیان کہ یہ اللہ کی نازل کی ہوئی یاددہانی ہے تو جس کا جی چاہے اس سے فائدہ اٹھائے، جو اس کی ناقدری کریں گے وہ اس کا نتیجہ خود بھگتیں گے، یہ اللہ رب العٰلمین کا فرمان واجب الایمان ہے، کسی سائل کی درخواست نہیں، اس کو لوگوں کے سامنے اس پیش کروجو اس کے شایان شان ہے، اللہ تعالیٰ نے جن کی امانت میں اس کو محفوظ کیا ہے سب عالی مقام اور بلند مرتبہ لوگ ہیں اور تم بھی انہی کے زمرہ سے تعلق رکھنے والے ہو، سرکشوں اور مغروروں کی نازبرادری میں اتنانہ جھکو جو تمہارے منصب اور تمہارے اس پیغام کے وقار کے خلاف ہے ۔
(١٧۔ ٢٣ ) ان سرکشوں کی حالت پر اظہار افسوس جو قیامت کے انکار پر اڑے ہوئے ہیں، ان کو خود ان کی خلقت اور زندگی کے مراحل کی یاددہانی کہ جو انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا ہوتا ہے اور مختلف مراحل طے کرتا ہوا قبر تک پہنچتا ہے حیف ہے اگر وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کو ناممکن سمجھے ! جو اتنے واضح دلائل کے بعد بھی سمجھنے اور ماننے پر تیار نہیں ہوا وہ کسی دلیل سے بھی قائل نہیں ہوسکتا ۔
(٢٤۔ ٣٢) خلقت اور مراحل زندگی کی طرف توجہ دلانے کے بعد ربوبیت کے اس وسیع اہتمام کی اشارہ جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور چوپایوں کے لئے اس دنیا میں کررکھا ہے اور جو اس امر کی نہایت واضح شہادت ہے کہ جس نے یہ سارا اہتمام کیا ہے وہ لوگوں کو غیر مسئول نہیں چھوڑے گا بلکہ ایک دن وہ سب سے ان نعمتوں کا حساب لے گا۔ اس دن فائزالرام وہی ہوں گے جنہوں نے نعمتوں کا حق ادا کیا ہوگا جنہوں نے ان کا حق ادا نہیں کیا ہوگا وہ سب اس دن ذلیل و نامراد ہوں گے ۔
(٣٣۔ ٤٢ ) قیامت کے دن کی تصویر، اس دن ہر شخص نفسی نفسی کی جو حالت طاری ہوگی اس کا نقشہ، جن لوگوں نے قیامت کی پیشی سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاری ان کی شادمانی اور جو اس سے بے فکر رہے اور اسی حال میں مرے ان کی بدبختی دسیہ روئی کا بیان ۔