79۔ سورۃ النازعات : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

(ا ) سورۃ کا عمود
 اس سورۃ میں بھی قریش کے ان متمردین کو اندارہے جوعذاب اور قیامت کو بالکل بعید ازامکان محض ایک دھمکی خیال کرتے تھے، ہواؤں اور دریاؤں اور بادلوں کے عجائب تفرقات شہادت میں پیش کرکے ان کو آگاہ فرمایا ہے کہ اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے محفوظ نہ سمجھو اور رسول کو جھٹلانے کے جسارت نہ کرو، تم اسی وقت تک محفوظ ہو جب تک خدا نے تم کو مہلت دے رکھی ہے، جونہی یہ مہلت ختم ہوئی خدا کی پکڑمیں آجاؤ گے اور اس کے لئے خدا کو کوئی اہتمام نہیں کرنا پڑے گا، یہی ہوائیں اور یہی بادل جو ہر جگہ موجود اور تمہاری زندگی کے لئے ناگزیر ہیں قہر الٰہی کی شکل اختیار کرلیں گے اور تمہیں جڑ پیڑر سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔
تمہید اور مطالب کے اعتبار سے یہ سورۃ، سورۃ ذاریات اور سورۃ مرسلات سے ملتی جلتی ہوئی ہے، دنیا میں خدا کی پکڑ اور اس کی قدرت کی و ربوبیت کی شانیں بالکل نمایاں ہیں وہ اس کی امر کی نہایت واضح دلیل ہے کہ ایک ایسا دن لازماً آنے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان سرکشوں کو سزادے گا جنہوں نے اس کو حکموں سے سرتابی کی اور ان لوگوں کو اپنی ابدی رحمت سے نوازے گا جو اپنے رب کی حضور پیشی سے ڈرتے اور اپنی خواہشوں کو لگام لگاتے رہے ۔
(ب) سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے
(١۔ ٥) ہواؤں اور بادلوں کی شہادت اس امر پر کہ اللہ کا رسول دنیا اور آخرت کے جس عذاب سے آگاہ کررہا ہے اس کا واقع ہونا ذرا بھی مستیعد نہیں ہے، جس خدا کے ہاتھ میں ہواؤں اور بادلوں کی باگ ہے وہ ان کو جس کے لئے چاہے رحمت اور جس کے لئے چاہے عذاب بنادے، اس کی قدرت تے کوئی چیز بعید نہیں ہے، دنیا میں رسولوں کے مکذبین کی جو تاریخ موجود ہے وہ شہادت دیتی ہے کہ ایک دن سب کو اپنے رب کے آگے حساب و کتاب کے لئے پیش ہونا ہے ۔
(٦۔ ١٤) قیامت کی ہلچل اور اس دن اس کے جھٹلانے والوں پر جو گزرے گی اس کی تصویر، (١٥۔ ٢٦ ) قریش کے فراعنہ کی تنبیہ کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی سرگزشت کے اتنے حصہ کی یاددہانی جس کے لئے سورۃ عمود متقضی ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت نامی نہ انداز میں فرعون کو راہ حق پر لانے کی کوشش کی لیکن اس نے اکڑ دکھائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خدا کی پکڑ میں آگیا، اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو کوئی بڑا اہتمام نہیں کرنا پڑا، ہواؤں کے معمول تصرف ہی نے اس کا سارا بیڑہ غرق کردیا۔ (٢٧۔ ٣٣) اس بات کی دلیل کہ اللہ تعالیٰ کے لئے لوگوں کو ازسرنو پیدا کردینا ذرابھی مشکل نہیں ہے، جس نے آسمان و زمین پیدا کئے، رات اور دن نمودار کئے، لوگوں کی پرور ش کے لئے طرح طرح کے سامان مہیا کئے، اس کے لئے لوگوں کو دوبارہ پیداکردینا کیا مشکل ہے ؟ اس کی قدرت دلیل ہے کہ وہ ایسا کرسکتا ہے اور اس کی حکمت متقضی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ (٣٤۔ ٤١ ) باغیوں اور نافرمانوں کو اس دن جس کا انجام سے سابقہ پیش آئے گا اس کا بیان، ان کے بالمقابل اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کو جو صلہ ملے گا اس کی بشارت۔ (٤٢۔ ٤٦ ) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی کہ جولوگ تمہیں زچ کرنے کو قیامت کی تاریخ اور اس کے دن کی بابت سوال کرتے اور اس کے لئے جلدی مچائے ہوئے ہیں تم ان کی باتوں کا دھیان نہ کرو، قیامت کے دن اور اس کی تاریخ کا معاملہ تم سے متعلق نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرو، تم اس کے ظہورکادن معین کرنے نہیں آئے ہو، بلکہ اس سے لوگوں کو آگاہ کرنے آئے ہو، آج جن کو قیامت بہت بعید معلوم ہورہی ہے جب وہ اس کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ دنیا میں ایک سہ پہر یا ایک دوپہر سے زیادہ نہیں رہے ۔