81۔سورہ التکویر: تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سے تعلق
پچھلی دونوں توام سورتوں ………النزٰعات اور عبس ……… میں جس ہول قیامت سے ’ طآمۃ‘ اور ’ صآخۃ‘ کے ناموں سے ڈرایا گیا ہے اس سورۃ میں اسی ہول کی پوری تصویر ہے۔ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں پھر انسان کے قریب و بعید اور اس کے ظاہر و باطن کے ہر گوشہ میں اس ہلچل کے جو اثرات مرتب ہوں گے وہ اس طرح نگاہوں کے سامنے کر دیئے گئے ہیں کہ انسان اگر سوچنے سمجھنے والا ہو تو ان آیات کے آئینے میں وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے جو ابھی پس پردہ ہے لیکن ایک دن وہ سب اس کے سامنے آنے والا ہے ۔
اس کے بعد قریش کے مکذبین کو مخاطب کر کے آگاہ کیا گیا ہے کہ قرآن اس دن سے جو تمہیں ڈرا رہا ہے تو اس کو ایک حقیقت سمجھو اور اس کے لئے تیاری کرو۔ یہ خدا کا نازل کردہ کلام ہے جو اس نے اپنے سب سے مقرب و معتمد فرشتے کے ذریعہ سے اپنے رسول پر اتارا ہے۔ اگر تم نے ان کو کاہنوں کی کہانت اور شاعروں کی شاعری سمجھ کر رد کردیا تو یاد رکھو کہ نہ خدا کا کچھ بگاڑو گے نہ رسول کا بلکہ اپنی ہی تباہی کا سامان کرو گے۔ رسول کا کام لوگوں تک اس یاد دہانی کو پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد ذمہ داری لوگوں کی اپنی ہے اور یہ بھی یاد رکھو کہ اس پر ایمان لانے کی توفیق انہی کو حاصل ہوگی جو حق کے قدر دان اور اس کے طالب ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سنت ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے :
پہلے چھ آیتوں میں وہ احوال بیان ہوئے ہیں جو مردوں کو زندہ کئے جانے سے پہلے پیش آئیں گے ۔
(١۔ ٣) اس کائنات کی بلند و بالا اور عظیم و پرشوکت چیزوں مثلاً سورج، چاند اور پہاڑوں کا اس دن جو حال ہوگا اس کی تصویر ۔
(٤۔ ٦) زمین کی ہر چیز پر اس دن نفسی نفسی کی جو حالت طاری ہوگی اس کا اجمالی بیان۔ محبوب ترین چیزیں چھوٹی پھریں گی لیکن ان کا کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔ جنگلوں اور غاروں کے وحوش و بہائم سمندروں کی طغیانی سے فرار کے لئے اکٹھے ہوجائیں گے، شیر اور ہرن دونوں پاس پاس ہوں گے لیکن مشترک مصیبت کے سوا ان کو اور کسی چیز کا بھی کچھ ہوش نہ ہوگا ۔
اس کے بعد آٹھ آیتوں میں وہ احوال بیان ہوئے ہیں جو اٹھائے جانے کے بعد مشاہدہ میں آئیں گے ۔
(٧۔ ١٤) انسانوں کی ان کے عقائد و اعمال کے اعتبار سے درجہ بندی اور معصوم مظلوموں کی دادرسی ہوگی۔ لوگوں کے اعمال نامے کھلیں گے۔ آسمان سرخ ہوجائے گا، جہنم دھکائی جائے گی۔ جنت اپنے حق داروں کے قریب لائی جائے گی اور ہر ایک اس دن دیکھ لے گا کہ وہ اپنے رب کے حضور کیا نذرانہ لے کر آیا ہے ۔
(١٥۔ ٢١ ) ستاروں کے ٹوٹنے اور شب کی تاریکی کے بعد صبح کے نمودار ہونے سے اس بات پر شہادت کہ یہ قرآن کاہنوں کی خرافات کی قسم کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ خدا کے ایک جلیل القدر فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو عرش والے کے نزدیک بڑا ہی باعزت و بااقتدار ہے۔ تمام ملائکہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ وہ نہایت معتمد اور امانت دار ہے ۔
(٢٢۔ ٢٦ ) قرآن کے مکذبین کو تنبیہ کہ جو رسول تم کو یہ کلام سنا رہا ہے وہ کوئی خبطی و دیوانہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا رسول اور نہایت فرزانہ ہے۔ وہ جس فرشتہ سے اپنی ملاقات کا دعویٰ کر رہا ہے یہ کوئی وہم نہیں بلکہ بیان حقیقت ہے۔ اس نے اس فرشتہ کو بالکل کھلے افق میں دیکھا ہے۔ وہ غیب دانی کا حریص نہیں ہے بلکہ اس پر جو وحی آتی ہے وہ بالکل غیر ارادی طور پر مبدأ فیض سے نازل ہوتی ہے۔ نادان ہیں جو اس کے کلام کو کسی شیطان رجیم کا القاء سمجھتے ہیں اور اس کے انذار کو جھٹلا رہے ہیں ۔

(٢٧۔ ٢٩ ) مکذبین کو مزید تنبیہ کہ اگر اسی طرح اپنی ضد پر اڑے رہ گئے تو یاد رکھو کہ نہ اللہ کا کچھ بگاڑو گے نہ اس کے رسول کا بلکہ اپنی ہی تباہی کا سامان کرو گے۔ جو کلام تم کو سنایا جا رہا ہے یہ تمہارے لئے یاد دہانی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارا اپنا کام ہے۔ نہ رسول کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو تمہارے دلوں میں زبردستی اتار دے اور نہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اس کو قبول کرنے پر مجبور کر دے۔ اس کے لئے انہی کے سینے کھلیں گے جو سیدھی راہ اختیار کرنے کا حوصلہ رکھنے والے ہوں گے اور یہ حوصلہ انہی کے اندر پیدا ہوگا جو سنت الٰہی کے مطابق اس کے سزاوار ہوں گے ۔