82۔ سورۃ الانفطار : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورۃ …… التکویر…… کی توام ہے۔ دونوں کے ظاہر و باطن اور اسلوب و معنی میں نہایت واضح مشابہت ہے۔ جس طرح سابق میں پہلے اس ہلچل کی تصویر کھینچی گئی ہے جو ظہور قیامت کے وقت آسمانوں اور زمین میں برپا ہوگی اسی طرح اس کا آغاز بھی اسی ہول کے ذکر سے ہوا ہے۔ دونوں میں اصل مدعا بھی تقریباً ایک ہی طرح کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ پہلی سورۃ میں ہول قیامت کی تصویر کے بعد فرمایا ہے : ’ علمت نفس ما آحضرت ‘(١٤) (اس دن ہر جان اس چیز کو دیکھ لے گی جو اس نے پیش گی) اسی طرح اس سورۃ میں، ٹھیک اسی محل میں، فرمایا کہ ’ علمت نفس ماقدمت و اخرت ‘(٥) (اس دن ہر جان دیکھ لے گی جو اس نے آگے بڑھایا اور جو پیچھے چھوڑا۔ ) سلف سے بھی یہ بات منقول ہوئی ہے کہ جس کو ہول قیامت کی تصویر دیکھنی ہو ہ ان سورتوں میں دیکھے۔ دونوں میں اصل مخاطب وہ اغنیاء و متکبرین ہیں جو قرآن کے انذارکو اس وجہ سے خاطر میں نہیں لا رہے تھے کہ ان کو اپنے قلعوں اور حصاروں میں دراڑ پڑنے کا کوئی اندیشہ نہیں تھا ۔
البتہ بنائے استدلال دونوں میں الگ الگ ہے۔ پہلی سورۃ میں استدلال کی بنیاد قرآن کی صداقت و حقانیت پر رکھی گئی ہے۔ یعنی یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ اس کا منبع، اس کے نزول کا واسطہ اور اس کا حامل سب طاہر و مطہر اور نور علی نور ہیں۔ جو لوگ اس کا جوڑ کا بہنوں اور منجموں کی اٹکل پچو باتوں سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ شب دیجور اور صبح صادق کے درمیان امتیاز سے قاصر ہیں ۔
اس سورۃ میں استدلال خالق کائنات کی صفات خلق، قدرت، حکمت، عدل اور رحمت سے ہے۔ یعنی انسان کی خلقت کے اندر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کی جو نشانیاں ظاہر ہیں ان کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک روز جزاء و سزا بھی لائے جس میں اپنے نیکو کار و وفادار بندوں کو انعام اور نافرمانوں اور سرکشوں کو سزا دے۔ ایک ایسے دن کا آنا لازمی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے یہ کام ذرا بھی دشوار نہیں۔ جب اس نے پہلی با ر پیدا کیا اور اس میں اس کو کوئی مشکل نہیں پیش آئی تو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لئے کیوں مشکل ہوجائے گا ؟ اگر اس دنیا میں وہ مجرموں کے جرائم سے چشم پوشی کر رہا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ نیکی اور بدی کے معاملے میں کے حس ہے۔ بلکہ یہ محض اس کی کریمی ہے کہ وہ بندوں کو مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنے روپے کی اصلاح کرلیں، اگر چاہیں اور اصلاح نہ کریں تو ان پر اس کی حجت پوری ہوجائے اور قیامت کے دن وہ کوئی عذر نہ کر سکیں۔ اس تاخیر سے کسی کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے کسی کا وئی قول و عمل مخفی ہے۔ اس نے ہر شخص پر اپنے معزز فرشتے مامور کر رکھے ہیں جو اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے :
(١۔ ٥) ظہور قیامت کے وقت آسمان اور اس کے ستاروں، زمین اور اس کی قبروں پر جو گزرے گی۔ اس کی اجمالی تصویر اور لوگوں کو یہ تنبیہ کہ اس دن سب کا کچا چٹھا اس کے سامنے آجائے گا ۔
(٦۔ ٨) انسان کی خلقت کے اندر خدا کی قدرت، حکمت، رحمت اور عدل کی جو شانیں ظاہر ہیں ان کی روشنی میں یہ یاد دہانی کہ نہ قیامت کے وقوع کو بعید از امکان سمجھونہ اس مغالطہ میں رہو کہ تم یوں ہی شتر بے مہار بنا کر چھوڑے رکھے جائو گے۔ تمہاری صنعت گری میں اس نے جو اہتمام فرمایا ہے وہ دلیل ہے کہ تمہارا وجود بے مقصد اور بے غایت نہیں ہے ۔
(٩۔ ١٢) اس مغالطہ میں نہ رہو کہ خدا کو تمہارے تمام اقوال و اعمال کا علم کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک دن وہ تمہارا حساب کرنے بیٹھے۔ اس نے تمہارے ہر قول و فعل کو لکھنے کے لئے تمہارے اوپر اپنے معزز فرشتے مامور کر رکھے ہیں جو ہر چیز نہایت احتیاط اور دیانت داری سے نٹ کر رہے ہیں ۔
(١٣۔ ١٦) جزاء و سزا کے دن نیکوکار اور وفادار بندے نعمت کے باغوں میں داخل ہوں گے اور نابکار و نافرمان دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے۔ دوزخ میں پڑنے کے بعد پھر ان کو اس سے کبھی باہر نکلنا نصیب نہ ہوگا ۔

(١٧۔ ١٩) جزا کے بالکل بے لاگ ہونے کا بیان کہ اس دن سارا زور و اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہوگا۔ کوئی دوسرا کسی کے معاملہ میں دخیل یا اثر انداز نہ ہو سکے گا ۔