اردوتفسیر نگاری کا پس منظر اور تفہیم القرآن کی خصوصیات - عبد الحی عابد

 بر صغیر پاک و ہند میں اردو میں ترجمہ و تفاسیر کا آغاز سولھویں صدی عیسوی میں ہوا لیکن یہ متفرق سورتوں اور پاروں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اردو زبان میں سب سے پہلا تشریحی ترجمہ حکیم محمد شریف خان بن محمد اکمل خان(م۱۲۲۲ھ) نے لکھا۔ یہ ترجمہ شائع نہیں ہوا اور ان کے خاندان میں محفوظ ہے۔ [۱]بقول قاضی عبدالصمد صارم، ہندوستان میں پہلی اردو تفسیر، چراغ ابدی ہے جو مولوی عزیز اللہ ہمرنگ  اورنگ آبادی نے ۱۲۲۱ھ میں لکھی۔ یہ صرف تیسویں پارے کی تفسیر ہے۔ اسی طرح شاہ مراد اللہ انصاری سنبھلی کی تصنیف خدائی نعمت بہ معروف تفسیر مرادی بہت مقبول ہوئی۔ یہ بھی تیسویں پارے کی تفسیر ہے اور تین سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ۱۱۸۵ھ میں مکمل ہوئی۔ [۲]
ہندوستان کے معروف محدث شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ رفیع الدین (م۱۲۳۲ھ۱۸۱۷ء )نے ۱۲۰۰ھ میں قرآن مجید کا ترجمہ لکھا جو کہ مختصر اور جامع لفظی ترجمہ ہے۔ شاہ رفیع الدین کے چھوٹے بھائی شاہ عبدالقادر (۱۲۳۰ھ، ۱۸۱۵ء ) نے ۱۲۰۵ھ میں موضح قرآن کے نام سے اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ اور حواشی لکھے۔ شاہ صاحب کا یہ ترجمہ اپنے دور کے لحاظ سے بہترین ترجمہ ہے۔ اس میں عربی الفاظ کے مناسب ترین اردو اور ہندی مترادفات کو استعمال کیا گیا ہے۔ شاہ عبدالقادر کی اس تصنیف کو اردو زبان کی پہلی مکمل تفسیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ سر سید احمد خان (۱۸۱۷ء۔ ۱۸۹۸ء)کی تفسیر’’تفسیر القرآن‘‘ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی پہلی جلد ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی۔ سرسید احمد خان کا دور مسلمانوں کے انحطاط اور انگریزی غلبے کی وجہ سے کش مکش کا دور تھا۔ جدید تہذیب کے زیر اثر عقلیت پسندی اور قدیم روایات  سے انحراف کی کئی مثالیں سامنے آ رہی تھیں۔ اس عہد کی تفاسیر میں اس فکری کش مکش کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ [۳]یہ دور عقلیت اور سائنسی طرز فکرسے مرعوبیت کا دور تھا، جس کی جھلک اس تفسیر میں نظر آتی ہے۔ پہلی جلد کی اشاعت کے ساتھ ہی سرسید کے نظریات پر شدید تنقید ہونے لگی۔ انھوں نے اسلاف کی روش سے ہٹ کر قرآنی آیات کی تاویل اپنے نکتہ نظر سے کی۔ مولانا الطاف حسین حالی کے بقول:’’اگرچہ سرسید نے اس تفسیر میں جا بجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور بعض بعض مقامات پر ان سے نہایت رکیک لغزشیں ہوئی ہیں، بایں ہمہ اس تفسیر کو ہم ان کی مذہبی خدمات میں ایک جلیل القدر خدمت سمجھتے ہیں۔ ‘‘[۴]
سرسید کے بعداسی طرح کی جدیدیت اور سلف کی روش سے انحراف علامہ غلام احمد پرویز(۱۹۰۳ء۔ ۱۹۸۵ء)کی فکر میں بھی نظر آتا ہے۔ [۵]اسی زمانے میں مولانا عبدالحق دہلوی(م۱۹۰۰ء)نے تفسیر فتح المنان المعروف تفسیر حقانی  لکھی۔
__________________________________________
۱۔ عبدالصمد صارم، قاضی، تبیان الراسخ معروف بہ تاریخ تفسیر، کراچی:میر محمد کتب خانہ آرام باغ، ۱۳۵۵ھ، ص۶۸۔
۲۔ ایضاً، ص۶۳۔ ۳۔ جدید مغربی فکر اور سرسیدکی تفسیرالقرآن کے تفصیلی تجزیے کے لیے دیکحیے :محمد شہباز منج، ڈاکٹر، سرسیداحمدخان کی تفسیری تجدد پسندی-ایک مطالعہ، در ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، جون تاستمبر۲۰۱۰ء۔ محمد شہباز منج، سرسید احمد خان:مغربی اثرات اور تفسیری تجدد پسندی، درجہات الاسلام، شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب، لاہور، ۲۰۰۸ء، ج۲، شمارہ  ۱۔
۴۔ حالی، الطاف حسین، حیات جاوید، میرپور:ارسلان بکس، مئی ۲۰۰۰ء، ص۲۶۶۔
۵۔ پرویز صاحب کی تفسیر مطالب الفرقان کے نام سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی۔
__________________________________________
لیکن یہ تفسیر دور نو  کے فکری غلبے کا شکار نظر نہیں آتی، بلکہ اس تفسیر میں تقابل ادیان عربی گرامر اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان کے فکری انحراف پر گرفت کی گئی ہے۔ یہ تفسیر اپنے اسلوب کے اعتبار سے منفرد اور عالمانہ ہے۔ [۱]  سید امیر علی کی تفسیر  مواہب الرحمن کا اسلوب انتہائی دقیق اور زبان پرانی ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تفسیر ثنائی  محدود مباحث کے باوجود عمدہ کوشش ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کا انداز بیان بھی عربی فارسی الفاظ اور بکثرت اصطلاحات کے استعمال سے بوجھل ہو گیا ہے۔ فقہی اور کلامی مباحث، تصوف کے اسرار ور موز کے سبب یہ تفسیر جدید تعلیم یافتہ طبقے کی علمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہی ہے۔ عبد الماجد دریا بادی (۱۸۹۲ء۔ ۱۹۷۷ء)نے اپنی تفسیر تفسیر ماجدی کے ذریعے قرآنی اشکالات کو دور کرتے ہوئے قاری اور قرآن کے درمیان تعلق میں اضافہ کیا ہے۔ اس تفسیر کا اسلوب عمدہ اور حواشی مختصر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تفسیر قبول عام حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد (۱۸۸۸ء۔ ۱۹۵۸ء)کی تفسیر ترجمان القرآن نامکمل اور صرف اٹھارہ پاروں کی تفسیر ہے۔ اس میں دانش ور اور جدید طبقہ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ مولانا ایک طرف ڈارون ازم سے متاثر ہیں تو دوسری طرف اشتراکیت کو بھی بطور نظام زندگی اہمیت دیتے ہوئے آزمانے کا موقع دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ [۲]اس تفسیر کا انداز تحریر عمدہ تاثر قائم نہیں کرسکا۔ مولانا عبید اللہ سندھی (۱۸۷۲ء۔ ۱۹۴۴ء)کی تفسیر المقام المحمود           کا انداز اتنا الجھا ہوا ہے کہ اس سے عام آدمی تو کیا کسی ادیب اور مفکر کے لیے بھی استفادہ مشکل ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیربیان القرآن، علماء کے مطالعے کے لیے تحریر کی گئی۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی (۱۸۵۶ء۔ ۱۹۲۱ء)کی تفسیرکنزالایمان، مولانا مفتی محمد شفیع (۱۸۹۶ء۔ ۱۹۷۶ء)کی تفسیر معارف القرآن اور پیر محمد کرم شاہ الازہری (۱۹۱۸ء۔ ۱۹۹۸ء)کی تفسیر ضیاء القرآن کا شمار اپنے دور کی نہایت عمدہ تفاسیر میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں بھی ایک  مخصوص فکر کی جھلک نظر آتی ہے۔ مولانا حمید الدین فراہی(۱۸۶۳ء۔ ۱۹۳۰ء)نے نظام القرآن کے نام سے تیسویں پارے کی کچھ سورتوں کی تفسیر لکھی۔ بعد ازاں ان کی فکر سے متاثر ان کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی (۱۹۰۴ء۔ ۱۹۹۷ء)نے تدبر قرآن کے نام سے سنجیدہ اور علمی انداز میں تفسیر لکھی ہے جس میں فقہی، جماعتی اور گروہ بندی سے بالاتر ہو کر، عالمانہ انداز میں نظم قرآن، قراآت، الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پیش کی ہے۔ [۳]
__________________________________________
۱۔ عبدالصمد صارم، قاضی، تبیان الراسخ معروف بہ تاریخ تفسیر،، ص۲۷۔
۲۔ امتیاز احمد، ڈاکٹر، مولانا مودودی کی نثرنگاری، ص۱۰۶۔
۳۔ ایضاً، ص۱۰۷۔
__________________________________________
اردو تفاسیر کے سرسری جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر عالم دین، مفسر قرآن نے اپنے اپنے حالات، علمی رجحانات، بدلتے تقاضوں، عصر حاضر کی فکری ضروریات کے تحت پورے اخلاص و جانفشانی کے ساتھ تفاسیر لکھی ہیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اسے کیا کہیے کہ کلامی تفاسیر میں اعتقادی بحثیں چھائی رہیں، فقہی تفاسیر میں اختلاف مذہب توجہ کا مرکز بن گئے۔ عارفانہ تفاسیر میں روحانی پہلو غالب آ گیا اور ادبی تفاسیر الفاظ کے حسن اور قرآن کے ادبی اعجاز کو موضوع بحث بنا سکیں۔ ان تفاسیر میں اگر کہیں قرآن کا پیغام ابھرا بھی تو وہ قرآن کے مرکزی موضوع کے مطابق اسلام کے ایک مکمل دین ہونے کا واضح نقشہ نہ مرتب کر سکا۔ اور  اگر کسی نے ایسی کوشش کی بھی تو ایسی بھاری بھر کم مذہبی اصطلاحات اور عربی تراکیب و الفاظ استعمال کیے کہ عام قاری یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ قرآن پاک کے پیغام کو سمجھنا اس کے بس کی بات نہیں یہ صرف علما کرام کی ذمہ داری ہے۔
چنانچہ اس زمانے میں  ایک ایسی تفسیر کی ضرورت تھی جو ایک طرف علمائے کرام لیے بھی قابل قبول ہو اور دوسری طرف عام پڑھے لکھے طبقے کی ضرورت کو بھی پورا کرسکے۔ جو قرآن کے پیغام کی تفہیم اس رخ پر کرے کہ قرآن کے آفاقی پیغام کی معنویت ہر قاری پر اس انداز میں واضح ہو جائے کہ قرآن پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ بن جائے۔ اس تفسیر میں جہاں عقائد و ایمانیات کا ذکر ہو وہاں عصری افکار و تحریکات کا تجزیہ بھی ہو۔ اس کی زبان دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق، اتنی آسان سہل سادہ اور دل نشین ہو کہ قرآن مجید عام پڑھے لکھے مسلمانوں کے ذہنوں کو متاثر کرسکے اور غلافوں سے نکل کر سینوں سے ہوتا ہوا زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہو جائے۔

تفہیم القرآن

 یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے خیالات، رسم ورواج، معاشرت، معاملات اور اقدار تک میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ زبانوں اور لہجوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے انداز  بدل جاتے ہیں۔ روزمرہ بول چال کے الفاظ، معانی، محاورات، لہجات اور مفاہیم میں بھی کئی نئے رنگ پیدا ہو جاتے ہیں۔ جدید دور کے بعض لازمی تقاضے صدیوں سے قائم نظریات و عقائد تک کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ اردو زبان کی جن تفاسیر کا ذکر ہم نے کیا ہے وہ سب اپنے دور کی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرتی تھیں۔ ان میں سے کوئی تفسیر بھی دور حاضر کے تقاضوں کوپورا نہیں کرسکتی تھی۔ بعض کی زبا ن مشکل تھی تو بعض میں تسلسل اور روانی نہیں تھی۔ ان مذکورہ تفاسیر کے تناظر میں، سیدابوالاعلیٰ مودودی کے ذہن میں بھی یہ خیال موجود تھا کہ یہ تفاسیر اب بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ نہیں دے رہیں۔ وہ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی ہوئی، ایک ایسی مدلل، ہمہ جہت، اور آسان انداز میں لکھی گئی تفسیر کی ضرورت محسوس کر رہے تھے جو مغربی افکار و تصورات اور فلسفیانہ توجیہات کو ردّ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے جامع نظام زندگی ہونے کا تصور بھی پیش کرے۔ ۱۹۲۶ء  میں جب سید مودودی اپنی اوّلین جامع تصنیف الجہاد فی الاسلام کی تخلیق کے لیے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کر رہے تھے۔ تو مطالعہ قرآن کے دوران میں انھیں احساس ہوا کہ قرآن محض تلاوت کی کتاب نہیں بلکہ تحریک کی کتاب ہے۔ اس لیے اسی کو بنیاد بنا کر دنیا میں اسی طرح عالم گیر تحریک قائم کی جا سکتی ہے جیسے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ [۱]
__________________________________________
۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲، ص۱۱۵۔
__________________________________________
اگست ۱۹۴۱ء میں سید مودودی نے اپنے اس احساس کو عملی شکل دیتے ہوئے، جماعت اسلامی کے نام سے اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس موقع پر اس نوزائیدہ تحریک کی فکری رہنمائی فراہم کے لیے قرآن مجید کی ایک جامع اور عام فہم تفسیر کی ضرورت اور زیادہ شدت سے محسوس ہوئی۔ چنانچہ سید مودودی نے فروری ۱۹۴۲ء میں   ترجمان القرآن  کے صفحات پر تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اگرچہ آپ کو مختلف وجوہات کی بنا پر چار مرتبہ (چار سال، سات ماہ، انیس دن کے لیے ) جیل جانا پڑا اور بیرون ملک دوروں کے ساتھ ساتھ  اندرون ملک تنظیمی امور بھی انجام دیتے رہے لیکن تفسیر کا یہ سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔ سید مودودی کہتے ہیں :
’’ اس کتاب کے لکھنے کا سلسلہ میں نے اس وقت شروع کیا تھا جب میری زندگی کا سب سے طوفانی دور شروع ہوا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اگست ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی تھی اور میں نے یہ تفسیر فروری ۱۹۴۲ء میں لکھنی شروع کی۔ [۱]
جس دور میں سید مودودی نے تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا اس وقت مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی تہذیب اور تعلیم نے مسلمانوں کو علمی و فکری اعتبار سے منتشر کر رکھا تھا۔  دین سے بیزاری  اور الحاد نے فیشن کا روپ دھار لیا تھا۔ جدت پسندی، روشن خیالی اور آزادی نسواں کی آڑ میں عریانی، فحاشی، بے حیائی اور بے پردگی کو رواج دیا جا رہا تھا۔ ۔ سرمایہ دارانہ اور استحصالی نظام معیشت کے زیر اثر سود معاشی ترقی کے ایک ذریعے کا روپ دھار چکا تھا۔ مغربی ممالک کی معاشی ترقی سے متاثرمسلمان مفکرین اس خوش حالی کو ان ممالک کی مذہب سے بیزاری اور ا لحاد کا ثمر سمجھ رہے تھے۔ کثیر الملتی کمپنیاں اپنے کاروبار کے فروغ اور مارکیٹ کی توسیع کے لیے تمام پس ماندہ ممالک میں ایک خاص قسم کی تہذیب اور اقدار کے فروغ کے لیے کوشاں تھیں۔ مسلمانوں کی نوجوانوں نسل ان فتنوں سے مرعوب ہو کر اشتراکیت، قومیت، مغربی تہذیب، انکار حدیث جیسے فکری سیلاب میں بہہ رہی تھی۔ سید مودودی نے ان تمام افکار کی تہہ تک پہنچنے اور نوجوان نسل کے شک و شبہات دور کرنے کے لیے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر ان افکار کا خصوصی طور پر مطالعہ کیا۔ آپ نے ہندو مذہب، بدھ مت، مسیحیت، یہودیت، دہریت اور مادہ پرستی کے افکار و نظریات کا مطالعہ کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے ان مذاہب و افکار کی بنیادی کتب اور ان کے زعماء کی سوانح کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کے بعد پھر قرآن و سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ شعوری طور پریکسو ہو کر اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام سے زیادہ معقول اور مدلل مذہب اور پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے زیادہ مکمل رہنما اور کوئی نہیں ہے۔ بقول سید مودودی:’’میں محض دین آباء ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا، بلکہ اپنی تحقیق سے، خوب جانچ پڑتال کر کے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔ ‘‘[۲] اس کے بعد آپ نے جو کچھ اپنی تحقیق و تلاش کے نتیجے میں سمجھا اسے اصلاح امت کی خاطر عوام الناس تک منتقل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آپ کو محسوس ہوا کہ جو طریقہ انھوں نے اختیار کیا ہے وہ زیادہ سود منداور نتائج کے اعتبار سے بہتر نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے قرآن مجید کو اپنی دعوت کا مرکزو محور بنانے کا ارادہ کیا۔ فرماتے ہیں :’’مگر بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ براہ راست قرآن کے ذریعہ سے اسے نہ سمجھایا جائے۔ ‘‘[۳]
__________________________________________
۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، دسمبر۱۹۷۲ء، ص۱۱۵۔
۲۔ ایضاً، ص۱۱۳۔
۳۔ ایضاً، ص۱۱۳۔
__________________________________________
سید مودودی نے جب تفسیر نگاری کا کام شروع کیا تو ان کے پیش نظر قرآن پاک کی مختصر تفسیر لکھنا تھا لیکن جیسے جیسے قرآنی مضامین کی وضاحت شروع کی تو تفصیلات بڑھتی چلی گئیں اور یہ تفسیر چھ جلدوں میں مکمل ہوئی۔ پہلی جلد ۱۹۵۱ء میں مکمل ہوئی اور آخری ۱۹۷۲ء میں شائع ہوئی۔ پہلی جلد قدرے مختصر ہے۔ دوسری اور تیسری جلداس سے  زیادہ مفصل ہے۔ اسی طرح بالترتیب ہر اگلی جلد پہلی جلدسے زیادہ  تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی جلد ساڑھے سات پاروں کی تفسیر ہے جب کہ آخری صرف ایک سورت اور دو پاروں کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ سید مودودی کی تفسیر نگاری کی صلاحیتیں تیسری جلد سے اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ اس جلد اور مابعدساری جلدوں میں قرآنی موضوعات پر وضاحت اور تفصیل سے  بحث کی گئی ہے۔ سید صاحب کے نزدیک اس تفسیر کا بنیادی مقصد عام پڑھے لکھے افراد کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔ آپ نے تفہیم القرآن کے دیباچے میں اس مقصد کا اظہار کرنے ہوئے لکھا ہے :’’اس کام میں میرے پیش نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے۔ میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ ‘‘  [۱]
اس مقصد کے پیش نظر آپ نے تفسیر کا انداز عام فہم اور زبان سلیس رکھی، لیکن اس سب کے باوجود آپ کی نثر زوردار ہے اور ادبی رنگ میں بھی کہیں کمی نظر نہیں آتی۔ قرآن کے لفظی تراجم کے برعکس آپ نے آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا۔ فرماتے ہیں : ’’میں نے اس کتاب میں ترجمے کا طریقہ چھوڑ کر آزاد ترجمانی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ‘‘[۲]
آزاد ترجمانی کے اس اسلوب کو اختیار کرنے کا مقصد آپ کے نزدیک یہ تھا کہ عام قاری قرآن مجید کے مطالعے کے دوران میں طویل لغوی، کلامی اور فقہی بحثوں سے دور رہ کر، اس کا مفہوم و مدعا صاف صاف سمجھتا جائے۔ قرآن مجید کا زور بیان، اعجاز کلام، روانی، بلاغت زبان اور تاثیر کلام بھی متاثر نہ ہو اور قرآن قاری  پر جو اثر ڈالنا چاہتا ہے، وہ  اسے پوری طرح سے قبول کرے۔


تفہیم القرآن کی امتیازی خصوصیات


  جامعیت:

سید مودودی کے نزدیک قرآن مجید کا معاملہ عام کتابوں کی طرح نہیں ہے جن میں مصنف موضوعات کو ایک خاص ترتیب سے رکھ کر ان کے مطابق اپنی گزارشات پیش کرتا ہے۔ یہ دراصل ایک اسلامی اور انقلابی تحریک کے لیے نازل کی گئی ہدایات پر مشتمل ایک ضابطہ ہے جسے بیک وقت نازل نہیں کیا گیا بلکہ اس تحریک دعوت و عزیمت کے تمام مراحل میں وقتاً فوقتاً نازل ہوتا رہا۔ یہ ایک جامع صحیفہ ہدایت ہے جو تحریک دعوت و جہاد کے ابتدائی مراحل سے لے کر اس کے نقطہ عروج تک ہر مرحلے میں راہ نمائی کرتا ہے۔ بقول سید صاحب: ’’قرآن مجید ایک دعوت کے ساتھ اترنا شروع ہوا اور وہ دعوت اپنے آغاز سے لے کر اپنی انتہائی تکمیل تک تیئیس سال کی مدت میں جن جن مرحلوں اور جن جن منزلوں سے گزرتی رہی، ان کی مختلف النوع ضرورتوں کے مطابق قرآن کے مختلف حصے نازل ہوتے رہے۔ ‘‘ [۳]
__________________________________________
۱۔ تفہیم القرآن، ج۱، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، اگست ۱۹۹۳، ص۶۔
۲۔ ایضاً، ج۱، ص۶۔
۳۔ ایضاً، مقدمہ، ص۲۵۔
__________________________________________
چنانچہ اسی چیز کو پیش نظر رکھ کے سید مودودی نے قرآن مجید کا مطالعہ ایک جامع دستورالعمل کی حیثیت سے کیا اور اسی تصور کے زیر اثر اس کی تفسیر بیان کی۔ بقول نعیم صدیقی:’’ماضی قریب کے اردو لٹریچر میں دین کا بیان اس طرح ملتا ہے کہ ہر عقیدے کی وضاحت موجود ہے۔ نماز روزہ کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ حج اور زکوٰۃ کے مصالح کا تذکرہ ہے۔ جہاد کی اہمیت اور ثواب کا بیان ہے۔ حکومت، امارت، قضا اور جرم و سزا کے مسائل ہیں۔ مگر کچھ اس طرح کہ ہر چیز الگ الگ دکھائی دیتی ہے۔ یہ سارا مجموعہ کسی ایک جگہ مربوط ہو کر ایک ’’کل‘‘ نہیں بنتا۔ تفہیم القرآن نے انھیں اس طرح پیش کیا ہے کہ سارے شعبے اور اجزا جمع ہو کر نظم پا لیتے ہیں، بلکہ یہ منظم نظام فکر متحرک ہو جاتا ہے اور تصور دین کے ساتھ دنیائے حقائق میں داخل ہوتے ہیں۔ ‘‘ [۱]

ماخذ تفسیر


تفسیرالقرآن بالقرآن:

سید مودودی نے اپنی تفسیرمیں سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہی کو قرار دیا۔ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے آپ بالترتیب، سب سے پہلے قرآن مجید سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کا دوسرا ماخذ نبی کریم ﷺ سے منسوب تفسیری روایات ہیں۔ پھر اقوال و آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کو سامنے رکھتے ہیں۔ آپ کا تصورِ تفسیرنہایت سادہ و دلکش ہے۔ کسی قسم کی غیر واضح اور متشابہ چیز آپ کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ آپ کا بنیادی ماخذ چونکہ قرآن مجید ہے اس لیے آپ قرآن کی حدود کے اندر رہتے ہوئے تفسیر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ اپنے طرز عمل کی وضاحت اس طرح سے کرتے ہیں :
’’ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہو سکتا ہے یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو۔ یا اس کا کوئی اور قابل اعتبار ماخذ ہو‘‘۔ [۲]
اسی طرح قرآن مجید کی تاویل و تعبیر کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
’’آپ قرآن مجید کی تاویل و تعبیر کا صحیح طریقہ اچھی طرح سمجھ لیں۔ آپ جس آیت کے معنی سمجھنا چاہتے ہوں پہلے عربی زبان کے لحاظ سے اس کے الفاظ و ترکیب پر غور کریں۔ پھر اسے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھیں، پھر اسی مضمون سے تعلق رکھنے والی جودوسری آیات  قرآن میں مختلف مقامات پر موجود ہیں ان کو جمع کر کے دیکھیں کہ زیر بحث آیت کی ممکن تعبیرات میں سے کون سی تعبیر ان سے مطابقت رکھتی ہے۔ ‘‘۔ [۳]سید مودودی قرآن کی تفسیر میں احادیث سے رہنمائی لینے کے باوجود، بنیادی اہمیت قرآن کے معنی کو دیتے ہیں۔ اس اصول کے بارے میں آپ لکھتے ہیں : قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔ [۴]
__________________________________________
۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، مقالہ نعیم صدیقی، ص۲۲۶۔
۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۳۴، حاشیہ:۳۵۔
۳۔ مودودی، رسائل ومسائل، ج۳، ص۱۷۔
۴۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۷۱۳، حاشیہ:۹۱۔
__________________________________________

تفسیرالقرآن بالحدیث:

سید مودودی تفسیر قرآن میں حدیث کو دوسرا بڑا ماخذ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تفسیر میں جا بجا احادیث نبوی سے بھر پور استفادہ کیا ہے۔ پہلی دو جلدوں میں احادیث کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ سید مودودی کہتے ہیں : ’’میں نے جگہ جگہ قرآن مجید کی آیات اور احکام کی تشریح میں معتبر احادیث نقل کی ہیں جن سے حدیث و قرآن کا تعلق بھی اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے اور اس غلط فہمی کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ حدیث کے بغیر بھی قرآن کو سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ پڑھنے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کے بکثرت ارشادات و احکام کو آدمی سمجھ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘[۱]  بد قسمتی سے ہمارے تفسیری ادب میں بہت سی ضعیف روایات اور اسرائیلیات بھی شامل ہو گئیں ہیں۔ اسرائیلیات، موضوعات اور ضعیف روایات کے ضمن میں ہمیں تفہیم القرآن میں جو انفرادیت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ سید مودودی روایات کو جوں کا توں قبول نہیں کرتے، بلکہ ان کا تجزیہ کرتے ہیں اور جو روایات قرآن کے مجموعی نظم اور تاثر سے ٹکراتی ہیں ان کو رد کر دیتے ہیں۔ ان کے ہاں روایات کو قبول کرنے یا ردّ کرنے کا معیار صرف قرآن کا نفس مضمون ہے۔ بہت سی ایسی روایات جو قبول عام کے بعد بڑے بڑے مفسرین کی تفاسیر میں موجود ہیں، سید مودودی نے ان کو قبول نہیں کیا۔ اگر کہیں ان روایات کا حوالہ بھی دیا ہے تو ان پر نقد و جرح کے لیے دیا ہے۔ روایات کے بارے میں سید مودودی کا تحقیقی اور تجزیاتی انداز ان کی تفسیر کو قرآنی موضوعات اور حقائق کے زیادہ قریب کر دیتا ہے۔  تفہیم القرآن میں ایسی کئی روایات موجود ہیں جنھیں سید مودودی نے روایت اور درایت کے اصول پر پرکھنے کے بعد قبول یا رد کیا ہے۔ بطور مثال ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے تین جھوٹ بولنے والی روایات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں اور انھیں امام بخاری اور ان کے علاوہ کئی محدثین نے نقل کیا ہے۔ [۲]  اکثر مفسرین نے ان روایات کو اپنی تفاسیر میں جگہ دی ہے۔ روایات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام تین مقامات پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک موقع پر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اپنی قوم کے استفسار پر فرمایا:قال بل فعلہ کبیرھم ھٰذا  فسئلوھم ان کانوا ینطقون۔ (الانبیاء ۲۱:۶۳) ’’یہ سب کچھ ان کے اس سردارنے کیا ہے، ان ہی سے پوچھ لواگر یہ بولتے ہوں ‘‘۔  دوسرے موقع پر جب ان کی قوم نے ان سے میلے پر جانے کے لیے کہا تو آپ نے جواب دیا: فقال انی سقیم۔ (الصافات ۳۷:۸۹)  ’’پس انھوں نے کہا میں بیمار ہوں ‘‘۔  پہلے دونوں مقامات کا ذکر قرآن میں موجود ہے جبکہ تیسرے جھوٹ کا ذکر بائیبل (پیدائش ۱۲:۱۱۔ ۲۰ اور۲۰:۲۔ ۱۶)میں موجود ہے، جب اہل مصر اور ابی ملک بادشاہ کے پوچھنے پر آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی حضرت سارہؓ کو اپنی بہن بتایا۔
__________________________________________
۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۱۱۴۔
۲۔ بخاری، کتاب حدیث الانبیا، نمبر۳۱۱۸۔ ۳۱۲۲۔
__________________________________________
سورۃ الانبیا ء کی آیت نمبر ۶۴ :’’انھوں نے پوچھا کیوں ابراہیم تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ اس نے جواب دیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے سردار نے کیا ہے ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں ‘‘، کے مختلف تراجم اور تفاسیر کا جائزہ لیتے ہیں کہ مختلف مفسرین نے اس سے کیا مراد لیا اور جھوٹ بولنے کی روایت کوکس طرح سے تفسیرمیں شامل کیا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں :’’اس حدیث میں حضرت ابراہیمؑ کی طرف تین جھوٹ کی نسبت کی گئی ہے جو شان نبوت اور عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی میں جھوٹ نہ تھا یہ تو’’ توریہ‘‘  تھا جو ظلم سے بچنے کے لیے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا‘‘۔ [۱]
دوسرے جھوٹ کے بارے میں مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :  ’’تقریر بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا ’’انی سقیم‘‘ کہنا مطلب واقعی کے اعتبار سے جھوٹ نہ تھا: ہاں مخاطبین نے جو مطلب سمجھا اس کے اعتبار سے خلاف واقعہ تھا۔ اس لیے بعض احادیث صحیحہ میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا حالانکہ فی الحقیقت یہ کذب نہیں بلکہ توریہ ہے ‘‘۔ [۲]
مولانا عبد الماجد دریا بادی کہتے ہیں :’’حدیث صحیح میں ابراہیم خلیل اللہ کے اس قول کو کذب سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس سے منکرین حدیث کو بخاری، مسلم، ترمذی کے خلاف ایک طومار کذب باندھنے کا موقع مل گیا ہے۔ حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ یہ کذب صرف صورۃً تھا‘‘۔ [۳]
ان تفسیروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ علمائے تفسیر کو محض اس لیے الجھن پیش آ رہی ہے کہ حدیث کی سند صحیح ہے اور بخاری میں منقول ہے۔ اس لیے وہ بجائے حدیث پر جرح کرنے کے، کذب کی تاویلیں کرنا زیادہ بہتر سمجھ رہے ہیں۔ سید مودودی کہتے ہیں : ’’یہ حدیث جس میں حضرت ابراہیمؑ کے تین ’’جھوٹ‘‘ بیان کیے گئے ہیں صرف اس وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں ‘‘۔ چنانچہ سید صاحب نے ان تینوں واقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات پر لگائے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ [۴]
سید مودودی روایات کو سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود تجزیہ و تحقیق کے بعد قبول کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ
سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر متن میں کوئی قباحت ہو تو روایت کے صحیح ہونے پر اصرار مناسب نہیں ہے۔ آپ روایت کو عقل پر بھی پرکھتے ہیں اور استدلالی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ سورۃ طہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوئلہ اٹھا کر منہ میں رکھنے اور لکنت آ جانے کی روایت زبان زد عام ہے، لیکن اس روایت کے بارے میں سید مودودی کا موقف بالکل مختلف ہے۔ آپ لکھتے ہیں : ’’یہ قصہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے ہاں تفسیروں میں بھی رواج پا گیا ہے لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اٹھا کر منہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسوس کرتے ہی ہاتھ کھینچ لیتا ہے منہ میں لے جانے کی نوبت کہاں آ سکتی ہے۔ ‘‘[۵]
__________________________________________
ا۔ محمد شفیع، مفتی، معارف القرآن، کراچی:ادارۃ المعارف، ج۶، س ن، ص۱۹۹۔
۲۔ عثمانی، شبیر احمد، فوائد عثمانی، لاہور:نفیس پبلشرز، س ن، ص۵۸۹۔
۳۔ دریابادی، عبدالماجد، تفسیر ماجدی، لاہور:تاج کمپنی، ۱۹۷۵ء، ص۶۶۷۔
۴۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۱۶۷، حاشیہ۶۰۔
۵۔ ایضاً، ص۹۲، حاشیہ ۱۵۔
__________________________________________
چنانچہ اس طرح سے روایات کے تجزیہ و تحقیق کے سبب سید مودودی کی تفسیر عقل عام کے لیے بھی متاثر کن ہے۔

محدود تفسیر بالرائے :

سید مودودی نے اپنی تفسیر میں بعض معاملات میں اپنی فقہی آرا اور تحقیقات بھی بیان کی ہیں۔ اس لیے آپ کی تفسیر کسی حد تک تفسیر بالرائے بھی  ہے، لیکن اسے ’’تفسیر بالرائے المحمود‘‘ کہا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے تفسیر بالرائے کے مسلک کو اختیار کرنے کے باوجود، قرآن مجید کی تفسیر و تفہیم میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے۔ آپ نے قرآنی الفاظ سے صرف وہی مفہوم مراد لیا ہے جو اس کے سیاق و سباق سے اخذ کیا جا سکتا تھا یا جتنی اجازت قرآن کے الفاظ دیتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’قرآن کی تفسیر میں میرا مسلک یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں جس حد تک وسعت ہے میں اس کی حدود میں رہ کر اس کی تفسیر کرتا ہوں۔ ان حدود سے باہر جا کر اپنے تخیل سے کوئی ایسی بات حتی الامکان بیان نہیں کرتا جس کی گنجایش الفاظ قرآن میں نہ ہو‘‘۔ [۱]

معاصر علماء سے مشاورت و مکالمہ:

سیدصاحب نے یہ تفسیرتیس سال کی محنت شاقہ کے بعد مکمل کی۔ اس کی بہت ساری خصوصیات ایسی ہیں جو اسے دیگر تفاسیر سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی اہم خصوصیت معاصر علماء سے مشاورت اور تفسیر ی نکات کے بارے میں ترجمان القرآن میں عام مباحثہ ہے۔ سید مودودی نے جب رسالہ ترجمان القرآن جاری کیا تو آپ کے پیش نظر مسلمانوں اور غیر مسلموں کو قرآن سمجھانے میں معاونت کرنا اور ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا تھا جو قرآن کے مطالعے کے دوران میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آپ نے تفہیم القرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے، تسلسل کے ساتھ، اس رسالے میں شائع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تفسیر مسلسل تیس سال تک عام قارئین، اہل علم، اہلِ دین اور دانش ور حلقوں کے زیر مطالعہ رہی۔ ایسا نہیں ہوا کہ سید صاحب نے کوئی انفرادی رائے قائم کی ہو اور چپکے سے اسے تفسیر کی صورت میں شائع کر دیا ہو۔ اس تفسیرپر کھلے عام تنقید کا سلسلہ تیس سال تک جاری رہا۔  سید مودودی نے فراخ دلی سے اس پر ہونے والی تنقید کا نہ صرف خیر مقدم کیا بلکہ اپنی آراء سے رجوع کر کے، تفسیر پر نظر ثانی بھی کی۔ اس سلسلے میں علما ے کرام اور اہل دانش سے خط کتابت بھی کرتے رہے اور ان کی طرف سے پیش کیے گئے اعتراضات اور نکات کی روشنی میں اس تفسیر کو مزید نکھارا۔ [۲]

 بصیرت افروز مقدمہ:


تفہیم القرآن کی ایک منفرد خصوصیت اس کا طویل اور بصیرت افروز مقدمہ ہے۔ مودودی صاحب کے بقول: ’’میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا، بلکہ اپنی تحقیق سے خوب جانچ پڑتال کر کے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔ ‘‘[۳]
__________________________________________
۱۔ مکاتیب سید ابوالاعلیٰ مودودی، ج۲، ص۲۷۶۔
۲۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۲۳۱۔
۳۔ ایضاً، ص۱۱۳۔
__________________________________________
انھوں نے اسلام کوسمجھنے کی شعوری جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے دوران میں جتنے سوالات اور اشکالات کا سامنا خود انھیں ہوا، اس کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے ایک قاری کے ذہن میں مطالعہ قرآن کے دوران میں پیدا ہونے والے ممکنہ سوالات کا احاطہ کیا۔ ان تمام سوالات کے جوابات آپ نے مقدمہ تفہیم القرآن میں دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ قرآن مجید عام کتابوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ یہ اپنے موضوع، مضمون، اور ترتیب کے لحاظ سے ایک منفرد کتاب ہے۔ لہٰذا اس کے مضامین کی تفہیم کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ اسے عام کتاب نہ سمجھا جائے۔ اس لیے سید مودودی لکھتے ہیں : ’’اسے سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے پہلے سے قائم کیے ہوئے قیاسات کو ذہن سے نکال کر اس کی عجیب خصوصیات سے روشنی حاصل کرو۔ ‘‘[۱]آپ نے قرآن کے طرز بیان، ترتیب، کیفیتِ نزول اور مضامین کی تکرار کے بارے میں اس مقدمے میں بہت حکمت آمیز اور بصیرت افروز باتیں لکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے نزول کے سلسلے میں جس حکمت کو پیش نظر رکھا، سید صاحب نے اس کی نہایت عمدہ وضاحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بیک وقت نازل نہیں کیا، بلکہ تحریک دعوت و عزیمت اسلامی کے مختلف ادوار میں حسب موقع اور حسب ضرورت اس کے مضامین اتارے گئے۔ اس اعتبار سے یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں کہ جسے آرام کرسی پر بیٹھ کر پڑھا جا سکے اور اس کی معنویت آشکار ہو جائے۔ اور نہ یہ عام مذہبی تصورات پر مشتمل ہے، بلکہ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی بلکہ ایک پیغمبر بھی مبعوث فرمایا ہے جس نے قرآن کی روشنی میں وہ نظام برپا کیا جو قرآن کا مطلوب تھا۔ [۲]اس مقدمے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید مودودی جدید فکر سے متاثر اذہان کے اشکالات سے پوری طرح باخبر تھے اور آپ نے ان تمام ممکنہ انسانی الجھنوں کو بھی اپنے پیش نظر رکھا تھا جو قرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے، ایک قاری کو بالعموم پیش آتی ہیں۔ یہ مقدمہ ان الجھنوں کوسلجھاتا ہے اور ’’قرآن فہمی کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘۔ [۳]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۶۔
۲۔ ایضاً، ص۳۳۔
۳۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، سید مودودی کاتفسیری اسلوب:الیف الدین ترابی۔
__________________________________________

سورتوں کا دیباچہ اور تعارف:


سید صاحب کا ایک اور اجتہادی کارنامہ ہر سورۃ کا دیباچہ ہے۔ وہ ہر سورت کے آغازمیں ایک مفصل اور جامع مقدمہ تحریر کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی تعارف قرآن فہمی میں آسانی پیدا کرتا ہے اور قاری کے سامنے وہ سارا ماحول، منظر، پس منظر پیش کر دیتا ہے جس میں وہ سورت نازل ہوئی۔ قاری اس کے مطالعے سے یوں محسوس کرتا ہے گویا وہ خود اس ماحول کا حصہ ہے جس میں قرآن نازل ہو رہا ہے۔ آپ نے ہر سورۃ کے آغاز میں سورۃ کا نام، وجہ تسمیہ، زمانہ نزول، شان نزول، مرکزی موضوع، اجزائے مضامین اور اہم نکات لکھ کر قاری اور قرآن میں ایسا گہرا ربط پیدا کیا ہے کہ قاری دوران مطالعہ کسی آیت کی معنویت سمجھنے میں ذرا بھی تذبذب کا شکار نہیں ہوتا۔ آپ کا خیال ہے کہ ہر سورۃ کا پس منظر اور حالات نزول زمانی اعتبار سے بالکل مختلف تھے اس لیے ان کو سمجھے بغیر قرآن کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے آپ نے دیباچے میں زمانہ نزول موضوع اور مضمون کے ساتھ جہاں ضرورت محسوس کی ہے وہاں تاریخی پس منظر بھی دیا ہے۔ مثلاً، قرآن کی مختصر ترین سورۃ’’ سورۃالکوثر ‘‘کا دیباچہ کافی طویل ہے۔ اس میں سید صاحب نے سورۃ کے نزول کے تاریخی اسباب، نہایت سہل اور سادہ زبان میں پیش کیے ہیں۔ اس سے قاری کے انہماک اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ مکمل تاریخی شعور کے ساتھ سورۃ کے مفاہیم سے آگاہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پراسی سورۃ کے دیباچے میں نام اور احادیث و آثار کی مدد سے زمانہ نزول کے تعین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر اس سورۃ کا نزول انتہائی کٹھن حالات میں ہوا تھا۔ پوری قوم آپ سے دشمنی پر تلی ہوئی تھی۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے زندگی دوبھر کر دی گئی تھی۔ یکے بعد دیگرے آپ کے دو بیٹوں حضرت قاسمؓ اور حضرت عبد اللہؓ کی وفات پر قریش نے بجائے آپ سے تعزیت اور تسلی دینے کے یہ کہنا شروع کر دیا کہ (معاذاللہ)محمدﷺ تو ایک ابتر(جڑ کٹے )آدمی ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نرینہ نہیں۔ جب مر جائیں گے تو کوئی ان کا نام لینے والا نہیں ہو گا۔ عاص بن وائل، عقبہ بن ابی معیط اور ابولہب اس مہم میں پیش پیش تھے۔ یہ سارے حالات تفصیل سے بیان کرنے کے بعد سید صاحب لکھتے ہیں :’’یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں سورۃ کوثر حضورﷺ پر نازل کی گئی۔ ۔ ۔ آپؐ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کی بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایک ایسے شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی تھیں، جس نے اپنے تو اپنے غیروں سے بھی ہمیشہ انتہائی اچھا سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مختصر ترین سورت کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری سنائی جس سے بڑی خوش خبری دنیا کے کسی انسان کو کبھی نہیں دی گئی اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی‘‘۔ [۱]

شان نزول:

سید صاحب نے تمام سورتوں کے زمانہ نزول اوراسباب نزول کا تعین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ قرآن مجید کی کسی سورہ کو سمجھنے کے لیے جس ذہنی، تاریخی، تمدنی اور تحریکی پس منظر کی ضرورت ہوسکتی تھی اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ شان نزول کا تعین کرنے کے لیے آپ نے روایات و آثار کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی داخلی شہادتوں کو بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً، سورۃ الصف کے بارے میں لکھتے ہیں :’’کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہ ہو سکا لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانہ میں نازل ہوئی۔ کیونکہ اس کے بین السطور جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ‘‘۔ [۲]
اسی طرح سورۃ التغابن کے بارے میں لکھتے ہیں :’’مضمون کلام پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی اس وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا اور کچھ مدنی سورتوں کا پایا جاتا ہے ‘‘۔ [۳]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج ۶ص۱۰۸۔
۲۔ ایضاً، ج۵، ص۴۵۲۔
۳۔ ایضاً، ج۵، ص۵۲۴۔
__________________________________________
پروفیسر خورشید احمد کے بقول:’’تفہیم القرآن میں شان نزول کے مواد کو بڑے اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ صاحب تفہیم نے یہ کوشش کی ہے کہ قاری کے سامنے اس صورت حال اور اس کیفیت کو ایک حد تک تازہ کر دیں جس میں ایک سورۃ یا اس کے کچھ
حصے نازل ہوئے۔ ۔ ۔ تفہیم القرآن  صرف قرآن کے تصورِ حیات ہی کی مفسر نہیں، بلکہ اس میں تاریخ انبیا اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داعیانہ سیرت اور آپ کی قیادت و امامت میں کام کرنے والی اسلامی تحریک کی پوری تاریخ بھی آ گئی ہے ‘‘۔ [۱]

تاریخی پس منظر اور نقشہ جات:


سید مودودی نے دیباچے میں زمانہ نزول، موضوع اور مضمون کے تعارف کے ساتھ ساتھ، بعض مقامات پر تاریخی پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ نزول قرآن کے حوالے سے ان تمام اہم مقامات کا ذکر بھی کیا ہے، جو اس وقت موجود تھے یا گردش زمانہ کے ہاتھوں ختم ہو چکے تھے۔ ان تمام مقامات کے نام اور نقشہ جات کے ساتھ واقعات کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ قاری خود کو اسی زمانے اور اسی مقام پر کھڑا محسوس کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سید صاحب نے ۳نومبر۱۹۵۹ء سے ۴ فروری ۱۹۶۰ء تک، اپنی استطاعت کی حد تک، ان تمام مقامات کی سیاحت کی تھی جو نزول قرآن اور نبی کریم ﷺ کی تحریک دعوت و عزیمت کے سلسلے میں ذرا بھی اہمیت رکھتے تھے۔ [۲]اس سفر کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اور نقشہ جات کی شمولیت سے تفہیم القرآن تمام تفاسیر پر سبقت لے گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ قاری کو واقعات کا پس منظر اور مقامات کا محل وقوع سمجھنے میں خاصی آسانی ہو گئی۔

نظم قرآن:


تفہیم القرآن کی ایک اور خوبی نظم قرآن کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام سورتیں اور آیات ایک خاص ترتیب اور تناسب سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ قرآن کے صحیح فہم کے لیے اس چیز کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ آیات و سور کو ایک دوسرے سے الگ کر کے صحیح مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ نظم قرآن کے اس تصور کو متقدمین میں علامہ جار اللہ زمخشری اور متاخرین میں مولانا حمید الدین فراہی نے اپنی تفاسیر میں خصوصی طور پر موضوع بحث بنایا ہے۔ سید مودودی نے نظم قرآنی کے اس تصور کی عملی تائید اپنی تفسیر میں کی ہے۔ آپ نے قرآن کے مرکزی مضمون سے ہر سورۃ اور آیت کا ربط قائم کر کے دکھایا ہے۔ سید مودودی سے پہلے مفسرین کے ہاں نظم قرآن کا تصور تو ضرور ملتا ہے لیکن اس میں ایسی ہمہ گہری جامعیت اور وسعت نہیں ہے۔ مفسرین نے یا تو سورتوں کے باہمی ربط پر توجہ دی ہے یا آیات کے ربط کو متعین کیا ہے۔ مگر سید مودودی نے ہر سورۃ اور اس کے مضامین اور آیات کا ربط قرآن سے قائم کرتے ہوئے، قرآن کے مرکزی موضوع کو نمایاں کیا ہے۔ سید صاحب کے بقول: ’’اوّل سے آخر تک اس [قرآن] کے مختلف النوع موضوعات، اس کے مرکزی مضمون کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک ہار کے چھوٹے بڑے رنگ بر نگ جواہر ہار کے رشتے میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں ‘‘۔ [۳]
__________________________________________
۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، مقالہ:پروفیسر خورشید احمد، ص۲۶۔
۲۔ ایضاً، ص۱۹۱۔
۳۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۹۔
 __________________________________________

زبان و بیان:


زبان و بیان کے لحاظ سے تفہیم القرآن ایک منفرد تفسیر ہے۔ اس کی زبان نہایت سادہ، آسان اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے سید صاحب نے آزاد ترجمانی کا انداز اختیار کیا ہے۔ آپ قرآن کے الفاظ کا ترجمہ اس کے سیاق و سباق میں کرتے ہوئے موزوں ترین الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ نے ایک پوری پوری عربی عبارت کا مفہوم اردو زبان میں بیان کیا ہے۔ اس طریقے سے عربی زبان سے ناواقف قاری کے ذہن میں پوری عبارت کا جامع خاکہ بن جاتا ہے۔
آپ قرآن کی عربی عبارت سے جو مفہوم اخذ کرتے ہیں، اسے اردو زبان میں منتقل کرتے ہوئے اپنے اختیار کیے گئے ترجمہ کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’متن میں لفظ ’’یَتَوَفَّکُمْ‘‘ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’جو تمھیں موت دیتا ہے ‘‘ لیکن اس لفظی ترجمے سے اصلی روح ظاہر نہیں ہوتی اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ وہ جس کے قبضے میں تمھاری جان ہے اور جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اس وقت تک تم جی سکتے ہو‘‘۔ [۱] اس لیے سید مودودی اس لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں ’’جس کے قبضے میں تمھاری موت ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ترجمے میں محض اردو زبان کے حسن کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے ‘‘۔ [۲]  ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ہم نے لفظی ترجمہ چھوڑ کر مرادی ترجمہ کیا ہے ‘‘۔ [۳] ترجمے کا یہ انداز اختیار کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید مودودی محض ترجمہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ قرآن کی حقیقی روح اور ادبیت بھی ان کے پیش نظر تھی۔ اس لیے ان کی مربوط عبارت قاری کو قرآن کی روح سے آگاہ کرتی ہے اور وہ اسی لذت و تاثیر سے آشنا ہوتا ہے جو قرآن قائم کرنا چاہتا ہے۔
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۱۵، حاشیہ۱۰۷۔
۲۔ ایضاً، ج۲، ۲۹۶، حاشیہ۷۹۔
۳۔ ایضاً، ج۴، ص۲۲۶، حاشیہ۳۲۔
__________________________________________

دین کا جامع تصور:


سید صاحب نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں دین کا ایک جامع اور عملی تصور اخذکیا۔ اسی تصور کے زیر اثر آپ نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی۔ اس لیے اس تفسیر میں ہمیں دین کا تصور پوری جامعیت کے ساتھ ملتا ہے۔ آپ نے دین کے کلی تصور کو پیش کرتے ہوئے، اس کے اس مفہوم کے خلاف بغاوت کی ہے جس میں دین اسلام کو انفرادی زندگی اور مسجد و مسکن کی دنیا تک محدود کر دیا گیا تھا۔ آپ کے نزدیک دین کا انفرادی حصہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ایک پورا اجتماعی نظام تشکیل نہ دیا جائے۔ تفہیم القرآن میں اس سوچ کا عکس اول تا آخر موجود ہے۔ سید مودودی آیت:’’ادخلوافی السلم کافۃ‘‘(سورۃ البقرۃ ۲:۲۰۸)کی وضاحت کرتے ہوئے، لکھتے ہیں :’’یعنی کسی استثنا اور تحفظ کے بغیر، اپنی پوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آؤ۔ تمھارے خیالات، تمھارے نظریات، تمہارے علوم تمھارے طور طریقے، تمھارے معاملات اور تمھاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابع اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعض حصوں میں اسلام کی پیروی کرو اور بعض حصوں کو اس کی پیروی سے مسثتنیٰ کر لو‘‘۔ [۱]
اسی طرح آیت:’’فاقم وجہک للدین حنیفا‘‘(سورۃ الروم ۳۰:۳۰) کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے تصور دین کے بارے میں فرماتے ہیں :’’اس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کر رہا ہے۔ جس میں بندگی عبادت اور طاعت کا مستحق اللہ وحدہٗ لا شریک کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ جس میں الوہیت اور اس کی صفات و اختیارات اور اس کے حقوق میں قطعاً کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا جاتا۔ جس میں انسان اپنی رضا و رغبت سے اس بات کی پابندی اختیار کرتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اور اس کے قانون کی پیروی میں بسر کرے گا۔ ‘‘ [۲]
ْْ          سید صاحب نے تمام گوشہ ہائے زندگی پر محیط ایک مکمل دین کا تصور پیش کیا جس کی بنیاد حکومت الٰہیہ کا قیام ہے۔ بقول ڈاکٹر خالد علوی:’’ حاکمیت کا تصور اس کا مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد پورا نظام گھومتا ہے۔ دین کا جامع تصور اس نظام فکر کی روح ہے اور اقامت دین اس کی عملی تعبیر ہے۔ ‘‘‘[۳]
پروفیسر الیف الدین ترابی کے الفاظ میں : ’’سید مودودی نے اپنی تفسیر میں ان پہلوؤں کو زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے جن کا تعلق دعوتِ دین یا فریضۂ اقامت دین سے ہے۔ ‘‘[۴]
سید مودودی کے پیش نظر دین اسلام کو جامع انداز میں پیش کرنا تھا اس لیے انھوں نے اپنی تفسیر میں ان روایتی موضوعات پر زیادہ توجہ نہیں دی، جنھیں عام طور پر مفسرین کرام پیش کرتے رہے ہیں۔ مثلاً آپ کے ہاں اعجاز قرآن، صرف و نحو اور لغوی مسائل کے متعلق  مباحث نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سید مودودی ان موضوعات کو دانستہ طور پر اس لیے زیر بحث نہیں لائے کہ ان کا مقصد نئی نسل کو قرآن کا پیغام پہنچانا تھا۔ لسانی موشگافیوں میں الجھانا نہیں تھا۔ چند مقامات پر لغت سے متعلق مختصر مباحث موجود ہیں جن سے  لغت، صرف اور نحو میں سید صاحب کی مہارت اوردسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۶۰، حاشیہ:۲۲۶۔
۲۔ ایضاً، ج۳، ص۷۵۲، حاشیہ:۴۳۔
۳۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، تجدید دین حق اور سید مودودی: ڈاکٹر خالد علوی، ص۴۶۱۔
۴۔ ایضاً، سید مودودی کاتفسیری اسلوب:پروفیسرالیف الدین ترابی، ص۲۹۵۔
__________________________________________

فقہی معاملات میں مسلکی تعصب سے پرہیز :


اردو کے تفسیری ادب میں، شعوری یا لاشعوری طور پر، مسلکی رنگ موجود ہے۔ اکثر مفسرین نے کسی مسئلے کو اپنے مسلک کے مطابق ثابت کرنے کے لیے دلائل و براہین کے انبار لگا دیے ہیں۔ بہت ساری تفاسیر کی شناخت ہی مسلکی تفسیر کے طور قائم ہے۔ سید مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن میں اس لحاظ سے اعتدال اور توازن کی روش نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نہ تو فقہی معاملات میں تقلید جامد کے قائل ہیں اور نہ فقہا کی آرا کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ آپ عام طور پر قرآن پاک کی تفسیر قرآن ہی سے کرتے ہیں پھر احادیث اور اقوال صحابہ کو معیار بناتے ہیں۔ آپ فقہی احکام سے متعلق آیات کی تفسیر کرتے ہوئے کبھی تو فقہاء کی مختلف آرا  اپنی ذاتی رائے بیان کیے بغیر، پیش کر دیتے ہیں اور فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی عقل سلیم سے کس رائے کو ترجیح دیتا ہے۔ کبھی مختلف آراء کا موازنہ قرآن و سنت سے کر کے، دلیل کی بنیاد پر کسی ایک رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی تفسیر میں یہ جملہ اکثر مقامات پر ملتا ہے۔ ’’اس مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے قرآن پاک کے حسب ذیل مقامات کو نگاہ میں رکھیے ‘‘ گویا وہ قاری کے ذہن میں ہر وقت قرآن ہی کی اہمیت اجاگر رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ مسلکًا حنفی ہونے کے باوجود بعض اوقات حنفی مسلک سے بھی اختلاف کرتے ہیں۔ سید مودودی مقام اختلاف کی نشان دہی کرتے ہوئے اعتدال اور توازن سے کام لیتے ہیں۔ ان کی شعوری طور پر یہ کوشش رہی ہے کہ تفہیم القرآن کسی خاص مسلک کی نمائندہ تفسیر نہ بن جائے۔ تفہیم القرآن میں جا بجا فقہی مکاتب فکر کا تقابل نظر آتا ہے۔ مثلاً، سورۃ البقرۃ کی آیت:’’فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللہ فلاَجُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ‘‘ (۲: ۲۲۹) (اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے )کی تفسیر بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں : ’’جمہور کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے مگر ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ میں متعدد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عدت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمانؓ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا ‘‘۔ [۱]
فقہی  معاملات میں اعتدال اور توازن کی ایک مثال یہ بھی ہے۔ لکھتے ہیں :’’امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ امام کی قرأت خواہ جہری ہو یا سری، مقتدیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ صرف جہری قرأت کی صورت میں مقتدیوں کو خاموش رہنا چاہیے، لیکن امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ جہری اور سری دونوں صورتوں میں مقتدیوں کو قرأت کرنی چاہے کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘۔ [۲]
تفہیم القرآن میں سید مودودی نے اپنی آرا کا بھی اظہار کیا ہے جو ان کی علمیت، معتدل مزاجی، استدلال اور حقیقت پسندی کی عکاس ہیں۔ ایسے معاملات میں سید مودودی ایک مخلص محقق کی طرح جس رائے کو قرآن و سنت کے قریب پاتے ہیں اسے اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت:حرمت علیکم امھٰتکم و بنٰتکم واخواتکم (سورۃ النساء ۴:۲۳)(تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں۔ ۔ ۔ )کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں جو لڑکی ہوئی ہو وہ بھی حرام ہے یا نہیں۔ امام ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک وہ بھی جائز بیٹی کی طرح محرمات میں سے ہے اور امام شافعی کے نزدیک وہ محرمات میں سے نہیں ہے۔ مگر درحقیقت یہ تصور بھی ذوق سلیم پر بار ہے کہ جس لڑکی کے متعلق آدمی یہ جانتا ہو کہ وہ اسی کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لیے جائز ہو۔ ‘‘[۳]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۱۷۶، حاشیہ:۲۵۲۔
۲۔ ایضاً، ج۲، ص۱۱۴، حاشیہ:۱۵۳۔
۳۔ ایضاً، ج۱، ص۳۳۷، حاشیہ۳۵۔
__________________________________________
 تقابل ادیان:
 تفہیم القرآن کی ایک اور خصوصیت تقابل ادیان ہے۔ آپ مختلف مقامات پر یہودیت، عیسائیت، ہندوازم اور قرآنی تعلیمات کا تقابل کرتے ہیں۔ یہ تقابل صرف سابقہ ادیان و مذاہب تک محدود نہیں رہتا بلکہ آپ جدید علمی و فلسفیانہ نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کا ابطال کرتے ہیں۔ مثلاً ہیگل اورمارکس کا نظریہ تاریخ، ڈارون کا نظریہ ارتقاء، میکیاولی کا نظریہ لادینی سیاست اور فرائیڈ کا نظریہ جنسی نفسیات وغیرہ۔ [۱]س طرح کے تقابلی جائزے سید مودودی کی وسعت مطالعہ اور باریک بینی کا ثبوت ہیں۔ آپ کا انداز علمی و تحقیقی ہے۔ آپ نے مناظرانہ انداز سے اجتناب کیا ہے۔ سید صاحب ایک طرف تو مسیحی اہل قلم اور مغربی مستشرقین کے قرآن پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں اور دوسری طرف قرآن مجید کے بیانات کی روشنی میں بائبل میں موجود تضادات کو نمایاں کرتے ہیں۔ آپ زیر بحث مسئلے کے لیے دیگر مذاہب کی کتب سے مندرجات بیان کرتے ہوئے، قرآن کی روشنی میں اصل حقیقت واضح کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ  مغربی فلسفہ و افکار کے زیر اثر قرآن کی تفسیر اور تاویل کرنے والے مسلمان دانش وروں کا محاکمہ بھی کرتے ہیں۔ سید مودودی نے قرآنی تعلیمات سے موازنے کے لیے دیگر الہامی کتب کی تحریروں کے حوالے دینے کے ساتھ ساتھ، ان کی کمزوریوں اور ان کے مندرجات میں کی گئی تحریف کی نشاندہی بھی کی ہے۔ آپ نے نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ ان کتابوں اور ان کے مندرجات کی بنیاد پر قائم افکار و تصورات پر زبردست تنقید کی ہے۔ ان تصورات میں یہودیوں کی نسل پرستی، عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث، کفارہ اور حضرت عیسیٰ کو صلیب دیے جانے کا عقیدہ وغیرہ شامل ہیں۔ مثلاً سورۃ النساء کی آیت :’’انما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ القھا الیٰ مریم وروح منہ ‘‘ (۴: ۱۷۱) (مسیح عیسیٰ بن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ اللہ کا ایک رسول تھا اور ایک فرمان تھا جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے۔ )کی تفسیر میں ’’کلمہ‘‘ کو اللہ کا حکم اور فرمان قرار دیتے ہیں کہ اللہ نے حضرت مریم کے رحم پریہ فرمان نازل کیا کہ وہ کسی مرد کے ملاپ کے بغیر حضرت عیسیٰ کی پیدایش کے مراحل انجام دے۔ ابتدا میں عیسائیوں کا عقیدہ بھی اسی طرح تھا، لیکن بعد میں یونانی فلسفے کی وجہ سے گمراہ ہو گئے۔ سید صاحب لکھتے ہیں :’’انھوں نے یونانی فلسفہ سے گمراہ ہو کر پہلے لفظ کلمہ کو ’’کلام‘‘ یا نطق کا ہم معنی سمجھ لیا۔ پھر اس کلام و نطق سے اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت کلام مراد لے لی۔ پھر یہ قیاس قائم کر لیا کہ اللہ کی اس ذاتی صفت نے مریم علیہا السلام کے بطن میں داخل ہو کر وہ جسمانی صورت اختیار کی جو مسیح کی شکل میں ظاہر ہوئی اس طرح عیسائیوں میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا فاسد عقیدہ پیدا ہوا اوراس غلط تصور نے جڑ پکڑ لی کہ خدا نے خود اپنے آپ کو یا اپنی ازلی صفات میں سے نطق و کلام کی صفت کو مسیح کی شکل میں ظاہر کیا۔ [۲]
__________________________________________
۱۔ ترجمان القرآن، مئی ۲۰۰۴ء، سید مودودی کا تفسیر ی اسلوب:الیف الدین ترابی، ص۳۰۱۔
۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱ص۴۲۸، حاشیہ:۲۱۲۔
__________________________________________
اسی طرح سورۃق کی آیت:’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَافِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوْبٍ۔ ‘‘
(۵۰:۳۸)  (ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا اور ہمیں کوئی تکان لاحق نہ ہوئی۔ )کی تفسیر میں سید مودودی یہود و نصاریٰ کے عقائد اور ان کی کتب کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’اس آیت میں ضمنا ً ایک لطیف طنز یہود و نصاریٰ پر بھی ہے جن کی بائیبل میں یہ افسانہ گھڑا گیا ہے کہ خدا نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا‘‘ (پیدایش ۲:۲)اگرچہ اب مسیحی پادری اس بات سے شرمانے لگے ہیں اور انھوں نے کتاب مقدس کے اردو ترجمے میں آرام کیا کو ’’فارغ ہوا‘‘سے بدل دیا ہے۔ مگر کنگ جیمز کی مستند انگریزی بائبل میں (And He rested on the seventh day) کے الفاظ صاف موجود ہیں۔ اور یہی لفظ اس ترجمے میں بھی پائے جاتے ہیں جو ۱۹۵۴ء میں یہودیوں نے فلیڈلفیا سے شائع کیا ہے۔ عربی ترجمہ میں بھی :فاستراح فی الیوم السابع کے الفاظ ہیں۔ ‘‘[۱]
عیسائیت کی کتب مقدسہ کے بارے میں سید مودودی بیان کرتے ہیں کہ یہ ساری کتب ان لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد عیسائیت میں داخل ہوئے۔ ان کی ساری تحریریں زبانی روایات کی شکل میں تھیں جن کو جمع کیا گیا۔ کوئی انجیل بھی ۷۰ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک صدی بعد غالباً ایشیا کوچک کے شہر افسس میں لکھی گئی ہے۔ اور مزید یہ کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق تغیر و تبدل کر نے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں۔ مطبع کی ایجاد سے پہلے کے جتنے مسودات کو جمع کیا گیا ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی عیسوی سے پہلے کا نہیں۔ [۲] اناجیل میں کی گئی تحریف کے ثبوت میں سید صاحب نے انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا(ایڈیشن ۱۹۴۶ء)کے ایک مقالے ’’بائیبل‘‘ کا یہ اقتباس درج کیا ہے :’’انا جیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پوری پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتا ب میں شامل کر دینا۔ ۔ ۔ یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنھیں اصل کتاب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا اور وہ اپنے آپ کواس کا مجاز سمجھتے رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنانے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کر دیں۔ ۔ ۔ بہت سے اضافے دوسری صدی ہی میں ہو گئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا۔ ‘‘ [۳]
تقابل ادیان کی ان بحثوں میں سید صاحب کا انداز تحقیقی، تجزیاتی، منطقی اور استدلالی ہے۔ آپ نے انبیائے کرام کے تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہوئے، تنقیدی بصیرت کے ساتھ اظہار رائے کیا ہے۔ انبیائے کرام کے بارے میں عیسائیوں اور
لکھتے
وہ ملک کو دارالاسلام
یہودیوں کے من گھڑت قصوں کو  اور احمد بن حنبل رحمھ_________________________رد کرتے ہوئے، اسلام کا نقطہ نظر بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔ آپ نے ایسے تمام واقعات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جو انبیائے کرام کی شان کے خلاف ہیں۔
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۵، ص۱۲۵، حاشیہ:۵۰۔
۲۔ ایضاً، ج۵، ص ۴۶۳، حاشیہ:۸۔
۳۔ ایضاً، ج۵، ص۴۶۳، حاشیہ:۸۔
__________________________________________
 جدید علم الکلام:
 تفہیم القرآن کی ایک اور انفرادیت نیا علم الکلام ہے۔ سید مودودی سے پہلے بھی تفاسیر میں کلامی مسائل پر مباحث ملتے ہیں لیکن ان میں کہیں تو اسلام کے بنیادی عقائد میں اشتباہ پیدا کیا گیا ہے اور کہیں مغربی فکر کے زیر اثر معجزات سے انکار ہے۔ کہیں انداز اتنا فلسفیانہ ہے کہ بات مزید الجھتی دکھائی دیتی ہے۔ سید مودودی اپنی تفسیر میں پہلے تو مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی فکر کی تردید کرتے ہیں اور پھر اس فکر سے توحید، آخرت، معجزات اور نبوت میں پیدا کردہ اشکالات کی قرآن و سنت کی روشنی میں سائنسی استدلال کے ساتھ تردید کرتے ہیں۔ نبوت کے حوالے سے ان کا کہنا ہے : ’’قرآن مجید کی رو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جس کے ماننے اور نہ ماننے پر کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر‘‘۔ [۱]
آپ نے توحید اور آخرت جیسے علمی موضوعات کو فلسفیانہ انداز اور منطق کے اصولوں کی بنیاد پر بیان کرنے کے بجائے نہایت  سادگی اور تمثیلی انداز سے پیش کیا ہے :’’جب دنیا میں ہر چیز کا ایک جوڑا ہے اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی تو دنیا کی یہ زندگی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے۔ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔ ان ہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بارش کا انتظام، زمین کی ساخت، آسمان کی تخلیق، انسان کا اپنا وجود کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کارفرمائی یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں بلکہ ایک خدائے حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے ‘‘۔ [۲]سید مودودی نے علم الکلام میں جدت اور وسعت پیدا کرتے ہوئے عہد حاضر کے نظریات و افکار اور فتنوں کو بھی تنقید و تحقیق کے پیمانے پر پرکھا ہے۔ مغربی فلسفے کے زیر اثر پروان چڑھنے والی مرعوبیت کو ختم کرنے کے لیے ان نظریات کا ابطال کیا ہے جو مسلم نوجوان کو شکوک و شبہات میں ڈالے ہوئے تھے۔ اس طرح کی کوششیں سید مودودی سے پہلے بھی مسلم دانش وروں کے ہاں نظر آتی ہیں، لیکن ان کے ہاں وہ استدلال نہیں تھا جو جدید ذہن کو قائل کر سکے۔ سید مودودی نے بڑے اعتماد کے ساتھ مغربی افکار و نظریات پر تنقید کی ہے اور دورِ جدید کے ہر چیلنج کا بڑے مثبت اور مدلل انداز میں جواب دیا ہے جو نہ صرف عقل سلیم کو متاثر کرتا ہے بلکہ آپ کا انداز بیان قاری کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے۔ دور جدید کے فتنوں ڈارون ازم، قومیت، سود، امپیریلزم اور بے پردگی کے بارے میں آپ  کی الگ تصانیف بھی موجود ہیں، لیکن ان کا بیشتر حصہ تفہیم القرآن میں قرآنی تعلیمات کی تشریح و توضیح کے دوران میں زیادہ متاثر کن نظر آتا ہے۔ مثلاً ابتدائے حیات سے متعلق مباحث کے بارے میں لکھتے ہیں :’’بے جان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہو سکتی۔ حیات کی پیدایش کے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آ جانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ ہے۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہے
جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے ‘‘۔ [۳]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۴، ص۱۵۱، حاشیہ:۷۷، ضمیمہ ختم نبوت۔
۲۔ ایضاً، ج۵، ص۱۵۱، حاشیہ:۴۷۔
۳۔ ایضاً، ج۳، ص۵۹۳، حاشیہ:۸۰۔
__________________________________________
اسی طرح سود اور تجارت کے بارے میں لکھتے ہیں :’’تجارت انسانی تمدن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس  سود اس کی تخریب کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل، خود غرضی، شقاوت، بے رحمی اور زرپرستی کی صفات پیدا کرتا ہے۔ اس بنا پر سود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے ‘‘۔ [۱]

 معجزات کا اثبات:

 مغرب سے مرعوب اور عقلیت کے فریب میں مبتلا اذہان کو سب سے زیادہ دقت معجزات کے سلسلے میں پیش آئی ہے۔ قرآن کے معجزات کو تسلیم کرنا انھیں عقل کے خلاف لگا۔ اس لیے معجزات کی حقیقت سے یا تو انکار کیا گیا یا اہل عقل کو مطمئن کرنے کے لیے ان کی ایسی تاویلیں کی گئیں جو قرآن کے مفہوم سے یکسر مختلف تھیں۔ سید مودودی نے اپنی تفسیر میں سائنسی طریق پر معجزات کے بارے میں بحث کی ہے۔ آپ کا انداز اور رویہ کہیں بھی معذرت خواہانہ نہیں ہے۔ آپ نے کسی سے مرعوب ہوئے بغیر قرآن کے معجزات کو قرآن کے سیاق و سباق میں پیش کیا ہے۔ جب بھی اللہ کے انبیا ء نے اپنی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی تو انھوں نے جواب میں ان سے کوئی ایسی نشانی مانگی جو ان کی صداقت کو ثابت کرسکے۔ سید صاحب لکھتے ہیں :
’’اس مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جن کو قرآن کی اصطلاح میں ’’آیات‘‘ اور متکلمین کی اصطلاح میں ’’معجزات‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واقعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا۔ ۔ ۔ معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے بعد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیے معجزات کو تسلیم کرنا غیر ممکن ہے کیونکہ معجزہ نہ تو ان کے تصور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصورِ کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کی بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں ‘‘۔ [۲]

عقلی اورسائنسی دلائل کا استعمال:

مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں جہاں اسلامی عقائد، عبادات اور نظام زندگی کو پیش کیا ہے وہاں عقلی دلائل کے ساتھ مغربی نظریات، تحریکات اور فلسفے کا رد کیا ہے۔  پروفیسر حفیظ الرحمن احسن نے لکھا ہے :’’تفہیم القرآن نے ہر فتنے اور گمراہی کا پوری استدلالی قوت کے ساتھ توڑ کیا ہے اور بے مثال ناقدانہ تجزیہ و تحلیل کے ذریعے اس کا تار و پود بکھیرا ہے اس طرح خود تفہیم القرآن عصر جدید کی نظریاتی اور فکری بنیادوں کے لیے ایک ایسا چیلنج بن گئی ہے جس کا کوئی مثبت جواب مغربی اور الحادی فلسفہ و فکر اور نام نہاد سائنسی تعقل کے پاس نہیں ہے۔ ‘‘[۳]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۱، ص۲۱۳، حاشیہ:۳۱۸۔
۲۔ ایضاً، ج۲، ص۶۵۔ ۶۶، حاشیہ:۸۷۔
۳۔ آئین تفہیم القرآن نمبر، عصری فتنے اور تفہیم القرآن:حفیظ الرحمٰن احسن، ص۵۷۔
__________________________________________
سید صاحب کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ جدید سائنسی نظریات سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اور آپ کی یہ واقفیت     اور معلومات ہمیشہ تازہ رہتی تھیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :’’زمانہ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں ان کی تعداد کا اوسط ۱۰کھرب روزانہ ہے۔ جن میں دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں ۲۶میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں سے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ‘‘۔ [۱]
ا سی طرح عالم بالا اور خلا کے بارے میں رقم طراز ہیں :’’عالم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے۔ بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے کہ اس کے مختلف خطے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان سرحدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے۔ کائنات کے ہر تارے اور سیارے کا اپنا ایک دائرہ اور کرہ ہے۔ جس کے اندر سے کسی کا نکلنا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں۔ ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلا محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘‘۔ [۲]
حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے معجزے کو بیان کرتے ہوئے، دور حاضر سے اس کی خوب صورت مثال پیش کی ہے :’’اس مقام پر بہت سے عقلیت کے مدعی حضرات یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے لیکن پچھلی ہی صدی کے آخر میں عقلیت کے گڑھ انگلستان کے سواحل سے کچھ مچھیرے وہیل مچھلی کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے وہاں انھوں نے ۲۰ فٹ لمبی ۵ فٹ چوڑی اور سو ٹن وزنی مچھلی کو زخمی کر دیا۔ مگر اس جنگ کے دوران میں جیمز بار ٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کی آنکھوں کے سامنے اس مچھلی نے نگل لیا دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انھوں نے بمشکل اسے جہاز پر چڑھایا اور پھر طویل جدوجہد کے بعد اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر سے زندہ برآمد ہو گیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے ۶۰ گھنٹے رہا‘‘۔ [۳]
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ سید مودودی نے جدیدسائنسی علوم سے استفادہ بھی کیا ہے اوراس بات کو ثابت کیا ہے کہ سائنس دین میں مزاحم نہیں بلکہ دین کی تصدیق کرتی ہے۔ بقول جسٹس محمد افضل چیمہ:’’( تفہیم القرآن) میں نہ صرف طرزِ استدلال میں نہایت معقول اورسائنٹیفک انداز اختیار کیا گیا ہے، بلکہ مناسب مقام پر فلسفہ، طبیعات، علم الکیمیا، فلکیات و دیگر جدید سائنسی علوم کا براہ راست تجزیہ کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ ‘‘[۴]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۲، ص۵۰ا، حاشیہ:۱۲۔
۲۔ ایضاً، ج۴، ص۲۸۰، حاشیہ:۶۔
۳۔ ایضاً، ج۴، ص۳۰۸، حاشیہ:۸۲۔
۴۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، ص۲۶۳۔
__________________________________________

 جامع اشاریہ:

 تفہیم القرآن کی ایک اور منفرد خوبی اس کا اشاریہ ہے۔ سید صاحب نے قرآنی موضوعات اور مباحث کے متعلق، حروف ابجد کی ترتیب کے ساتھ، ہر جلد کے آخر میں موضوعات کا اشاریہ شامل کیا ہے۔ اس سے قاری کے لیے قرآن کے تمام موضوعات، مباحث، اور عنوانات تک رسائی نہایت آسان ہو گئی ہے اور اشاریے کی مدد سے کسی بھی موضوع پر نقطۂ نظر کو جاننا بھی سہل ہو گیا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد نے لکھا ہے : تفہیم القرآن میں جو اشاریہ تیار کیا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ قرآن اور تفہیم القرآن کے تمام اہم مباحث کا آئینہ ہے ‘‘۔ [۱]
  منفرد طرز استدلال:
 سید مودودی کے ہاں استدلال کا ایک خاص رنگ پایا جاتا ہے جو اس سے پہلے ہمارے دینی اور تفسیری ادب میں کم ہی نظر آتا ہے۔ اکثر مفسرین اور علما نے یا تو جدید مسائل سے بالکل تعرض نہیں کیا یا ان کو بیان کرنے کے لیے روایتی انداز اختیار کیا۔ آپ نے قرآن کی تفسیر میں استدلالی انداز اس لیے اختیار کیا کہ نئی نسل ہر چیز کو دلائل کی بنیاد پر پرکھنے کی عادی ہو چکی تھی۔ آپ کے طرز استدلال کی بنیاد زورِ بیان یا جوش جذبات پر نہیں تھی، بلکہ دلائل کو اس انداز میں ترتیب دیا ہے کہ قاری کی ذہنی عقلی اور فکری تشفی ہو۔ آپ اپنی تحریر میں نکات کو ایسے ترتیب دیتے ہیں کہ قاری ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا  اور ان کے دلائل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔  مثال کے طور پر آپ لکھتے ہیں : ’’کسی کو معبود بنانے کے لیے لا محالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہین منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق یعنی متاع زیست بہم پہنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی بت پرستی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ ‘‘  [۲]
سید مودودی کے دلائل بالکل واضح ہوتے ہیں۔ آپ پہلے ایک مقدمہ قائم کرتے ہیں اور پھر بتدریج اس کے نتیجے کی طرف بڑھتے ہیں۔  پھر آخر میں نہایت محکم اور متاثر کن دلائل سے بات قاری کے ذہن میں اتار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :’’سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں کوئی انسان کبھی اس بات پر قادر ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ سال ہا سال تک دو قطعی مختلف اسٹائلوں میں کلام کرنے کا تکلف نباہتا چلا جائے اور کبھی یہ راز فاش نہ ہو سکے کہ یہ دو الگ اسٹائل دراصل ایک ہی شخص کے ہیں۔ عارضی اور وقتی طور پر تو اس قسم کے تصنع میں کامیاب ہو جانا ممکن ہے لیکن مسلسل ۲۳ سال تک ایسا ہونا کسی طرح ممکن نہیں ہے ‘‘۔  [۳]
__________________________________________
۱۔ آئین، تفہیم القرآن نمبر، کتاب انقلاب، تفہیم القرآن:پروفیسر خورشید احمد، ص۳۱۔
۲۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۳، ص۶۸۸، حاشیہ:۲۹۔
۳۔ ایضاً، ج۵، ص۱۷۸، حاشیہ:۲۷۔
__________________________________________
سید مودودی اپنے طرز استدلال کو موثر بنانے کے لیے بعض اوقات نہایت دل چسپ مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ مثلاً ایمان اور عمل صالح کی بحث میں لکھتے ہیں :’’ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعویٰ ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کر دیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے جب تک بیج زمین میں نہ ہو کوئی درخت پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیچ زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہو تو اس کے معنی ہیں بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا‘‘۔ [۱]
آپ جو مثالیں بیان کرتے ہیں وہ نہ صرف عام فہم سہل سادہ اور دلچسپ ہوتی ہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ آخرت کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے۔ حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اس سےسابقہ پیش آنا ہے۔ ‘‘[۲]
__________________________________________
۱۔ مودودی، تفہیم القرآن، ج۶، ص۴۵۳، حاشیہ:۱۔
۲۔ ایضاً، ج۶، ص۱۷۴، حاشیہ:۱۷۔