سورة الْبَقَرَة : زمانہ نزول، تاریخی پس منظر و مضامین - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

اس سورۃ کا نام ” بقرۃ“ اس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے۔ قرآن کی ہر سورۃ میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لیے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کیے جاسکتے۔ عربی زبان اگرچہ اپنی لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے، مگر بہر حال ہے تو انسانی زبان ہی۔ انسان جو زبانیں بھی بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کرسکتیں جو ان وسیع مضامین کے لیے جامع عنوان بن سکتے ہوں۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں۔ اس سورۃ کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ” وہ سورۃ جس میں گائے کا ذکر آیا ہے۔


زمانہ نزول :


اس سورۃ کا بیشتر حصّہ ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ہے، اور کمتر حصّہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کردیا گیا۔ حتیٰ کہ سود کی ممانعت کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندگی کے بالکل آخری زمانہ میں اتری تھیں۔ سُورۃ کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوچکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اسی سورۃ میں ضم کردیا گیا ہے۔


شان نزول :


اس سورۃ کے سمجھنے کے لیے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے : 

(١) ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی، خطاب بیشتر مشرکین عرب سے تھا جن کے لیے اسلام کی آواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا جن کی بستیاں مدینہ سے بالکل متصل ہی واقع تھیں۔ یہ لوگ توحید، رسالت، وحی، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے، اس ضابطہء شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا، اور اصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم دے رہے تھے۔ لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور ہٹا  دیا تھا۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہوگئی تھی جن کے لیے توراۃ میں کوئی سَنَد موجود نہ تھی۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسُوم اور طریقے رواج پاگئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے توراۃ میں کوئی ثبوت نہ تھا۔ خود توراۃ کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کردیا تھا، اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا معنیً محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بےجان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینہ سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے علماء اور مشائخ، ان کے سرداران قوم اور ان کے عوام، سب کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی، اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو ایسی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقہ سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں، موشگافیوں اور فرقہ بندیوں، استخواں گیری و مغز افگنی، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام ”مسلم“ تک بھول گئے تھے، محض ” یہُودی“ بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض نسل اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا۔ 

پس جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں، چنانچہ سورۃ بقرہ کے ابتدائی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں۔ ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے، اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصُوصیّات کے مقابلہ میں حقیقی دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں، اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی اُمّت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے، رسمی دینداری کے مقابلہ میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے، دین حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیّت کِن چیزوں کی ہے۔ 

(٢) مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ مکہ میں تو معاملہ صرف اُصُول دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدود تھا، مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کرچکے تھے، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑگئی تو اللہ تعالیٰ نے تمدّن، معاشرت، معیشت، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اُصُولی ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظام زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے۔ اس سورۃ کے آخری ٢٣ رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں، جن میں سے اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسب ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں۔

 (٣) ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے اور جواب میں مصائب اور مظالم کے تختہء مشق بنتے تھے۔ مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہو کر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کرلی تو صورت حال یہ ہوگئی کہ ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کر دینے پر تلا ہوا تھا۔ اب اس مٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اوّلاً وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے۔ ثانیاً وہ مخالفین کا برسر باطل ہونا اس طرح ثابت و مبرہن کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہہ نہ رہے۔ ثالثًا بےخان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنا پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بےامنی و بےاطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہوگئی تھی اور جن خطرات میں وہ چاروں طرف سے گھر گئے تھے، ان میں وہ ہراساں نہ ہوں، بلکہ پورے صبر وثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں۔ رابعاً وہ پوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلّح مزاحمت کا مسلّح مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے، اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادّی طاقت کتنی زیادہ ہے۔ خامسًا ان میں اتنی ہمّت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو، جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے، فہمائش سے قبول نہ کریں، تو انہیں جاہلیّت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹا دینے میں بھی تامل نہ ہو۔ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں۔ 

(٤) دعوت اسلامی کے اس مرحلہ میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا، اور یہ منافقین کا عنصر تھا۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکہ کے آخری زمانہ میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے، مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس کے لیے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دنیوی تعلقات کا انقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کرلیں جو اس مسلک حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہوجاتے تھے۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسموں کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعت مسلمین میں داخل ہوجاتے تھے۔ دوسری قسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دوسری طرف مخالفین اسلام سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیّت کے درمیان متردّد تھے۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا۔ مگر چونکہ ان کے قبیلے یا خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہوچکے تھے اس لیے یہ بھی مسلمان ہوگئے تھے۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امر حق ہونے کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہوچکے تھے مگر جاہلیّت کے طریقے اور اوہام اور رسمیں چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بار اٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا۔ سُورۃ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہور کی محض ابتدا تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے تھے۔ بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجی گئیں۔ ”


---------------------------------------------------

(تفہیم القرآن جلد اول ، مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ )