سورة الْاَنْفَال : زمانہ نزول، تاریخی پس منظر اور مباحث - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

زمانہ نزول :

یہ سورۃ سن ٢ ہجری میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس میں اسلام و کفر کی اس پہلی جنگ پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے، غالباً یہ ایک ہی تقریر ہے جو بیک وقت نازل فرمائی گئی ہوگی، مگر ممکن ہے کہ اس کی بعض آیات جنگ بدر ہی سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق بعد میں اتری ہوں اور پھر ان کو سلسلہ تقریر میں مناسب جگہوں پر درج کر کے ایک مسلسل تقریر بنا دیا گیا ہو۔ بہر حال کلام میں کہیں کوئی ایسا جوڑ نظر نہیں آتا جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ یہ الگ الگ دو تین خطبوں کا مجموعہ ہے۔

تاریخی پس منظر :


قبل اس کے کہ اس سورۃ پر تبصرہ کیا جائے، جنگ بدر اور اس سے تعلق رکھنے والے حالات پر ایک تاریخی نگاہ ڈال لینی چاہیے۔


نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ابتدائی دس بارہ سال میں، جبکہ آپ مکہ معظمہ میں مقیم تھے، اس حیثیت سے اپنی پختگی و استواری ثابت کرچکی تھی کہ ایک طرف اس کی پشت پر ایک بلند سیرت، عالی ظرف اور دانشمند علمبردار موجود تھا جو اپنی شخصیت کا پورا سرمایہ اس کام میں لگا چکا تھا اور اس کے طرز عمل سے یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہوچکی تھی کہ وہ اس دعوت کو انتہائی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے اٹل ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کی راہ میں ہر خطرے کو انگیز کرنے اور ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسری طرف اس دعوت میں خود ایسی کشش تھی کہ وہ دلوں اور دماغوں میں سرایت کرتی چلی جارہی تھی اور جہالت و جاہلیت اور تعصبات کے حصار اس کی راہ روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے عرب کے پرانے نظام جاہلی کی حمایت کرنے والے عناصر، جو ابتداءً اس کو استخفاف کی نظر سے دیکھتے تھے، مکی دور کے آخری زمانہ میں اسے ایک سنجیدہ خطرہ سمجھنے لگے تھے اور اپنا پورا زور اسے کچل دینے میں صرف کر دینا چاہتے تھے۔ لیکن اس وقت تک چند حیثیات سے اس دعوت میں بہت کچھ کسر باقی تھی :


اوّلاً: یہ بات ابھی پوری طرح ثابت نہیں ہوئی تھی کہ اس کو ایسے پیرووں کی ایک کافی تعداد بہم پہنچ گئی ہے جو صرف اس کے ماننے والے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس کے اصولوں کا سچا عشق بھی رکھتے ہیں، اس کو غالب و نافذ کرنے کی سعی میں اپنی ساری قوتیں اور اپنا تمام سرمایہ زندگی کھپا دینے کے لیے تیار ہیں، اور اس کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دینے کے لیے، دنیا بھر سے لڑ جانے کے لیے، حتیٰ کہ اپنے عزیز ترین رشتوں کو بھی کاٹ پھینکنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اگرچہ مکہ میں پیروان اسلام نے قریش کے ظلم و ستم برداشت کر کے اپنی صداقت ایمانی اور اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کی مضبوطی کا اچھا خاصا ثبوت دے دیا تھا، مگر ابھی یہ ثابت ہونے کے لیے بہت سی آزمائشیں باقی تھیں کہ دعوت اسلامی کو جانفروش پیرووں کا وہ گروہ میسر آگیا ہے جو اپنے نصب العین کے مقابلہ میں کسی چیز کو بھی عزیز تر نہیں رکھتا۔


ثانیاً: اس دعوت کی آواز اگرچہ سارے ملک میں پھیل گئی تھی، لیکن اس کے اثرات منتشر تھے، اس کی فراہم کردہ قوت سارے ملک میں پر اگندہ تھی، اس کو وہ اجتماعی طاقت بہم نہ پہنچی تھی جو پرانے جمے ہوئے نظام جاہلیت سے فیصلہ کن مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھی۔


ثالثاً: اس دعوت نے زمین میں کسی جگہ بھی جڑ نہیں پکڑی تھی بلکہ ابھی تک وہ صرف ہوا میں سرایت کر رہی تھی۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہیں تھا جہاں وہ قدم جما کر اپنے موقف کو مضبوط کرتی اور پھر آگے بڑھنے کی سعی کرتی، اس وقت تک جو مسلمان جہاں بھی تھا اس کی حیثیت نظام کفر شرک میں بالکل ایسی تھی جیسے خالی معدے میں کُنِین، کہ معدہ ہر وقت اسے اگل دینے کے لیے زور لگا رہا ہو اور قرار پکڑنے کے لیے اس کو جگہ ہی نہ ملتی ہو۔


رابعاً: اس وقت تک اس دعوت کو عملی زندگی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر چلانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ نہ یہ اپنا تمدن قائم کر سکی تھی، نہ اس نے اپنا نظام معیشت و معاشرت اور نظام سیاست مرتب کیا تھا اور نہ دوسری طاقتوں سے اس کے معاملات صلح و جنگ پیش آئے تھے۔ اس لیے نہ تو ان اخلاقی اصولوں کا مظاہرہ ہو سکا تھا جن پر یہ دعوت زندگی کے پورے نظام کو قائم کرنا اور چلانا چاہتی تھی، اور نہ یہی بات آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح نمایاں ہوئی تھی کہ اس دعوت کا پیغمبر اور اس کے پیرووں کا گروہ جس چیز کی طرف دنیا کو دعوت دے رہا ہے اس پر عمل کرنے میں وہ خود کس حد تک راستباز ہے۔


بعد کے واقعات نے وہ مواقع پیدا کر دیے جن سے یہ چاروں کمیاں پوری ہوگئیں ۔


مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے یثرب میں آفتاب اسلام کی شعاعیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرنے جا رہے تھے۔ آخر کار نبوت کے بارھویں سال حج کے موقع پر ٧٥ نفوس کا ایک وفد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کیا بلکہ آپ کو اور آپ کے پیروؤں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا جسے خدا نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔ اہل یثرب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محض ایک پناہ گزیں کی حیثیت سے نہیں بلکہ خدا کے نائب اور اپنے امام و فرمانروا کی حیثیت سے بلا رہے تھے۔ اور اسلام کے پیروؤں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا کہ وہ ایک اجنبی سر زمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پا لیں، بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں وہ یثرب میں جمع ہو کر اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنا لیں۔ اس طرح یثرب نے در اصل اپنے آپ کو ”مدینةالاسلام“ کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قبول کر کے عرب میں پہلا دار الاسلام بنا لیا۔


اس پیش کش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل مدینہ ناواقف نہ تھے۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلہ میں پیش کر رہا تھا۔ چنانچہ بیعتِ عَقَبہ کے موقع پر رات کی اس مجلس میں اسلام کے ان اولین مددگاروں (انصار) نے اس نتیجہ کو خوب اچھی طرح جان بوجھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔ عین اس وقت جبکہ بیعت ہو رہی تھی، یثربی وفد کے ایک نوجوان رکن اسعد بن زرارہ (رض) نے، جو پورے وفد میں سب سے کم سن شخص تھے اٹھ کر کہا :۔


رویدًایا اھل یثرب! اِنا لم نضرب الیہ اکباد الا بل الا و نحن نعلم انہ رسول اللہ، و ان اخراجہ الیوم مناوأة للعرب کافة، وقتل خیارکم، وتضکم السیوف۔ فاما انتم قوم تصبرون علیٰ ذٰلک فخذوہ و اجرہ علی اللہ، واما انتم قوم تخافون من انفسکم خیفة فذروہ فبینو ا ذٰلک فھوا عذرلکم عند اللہ۔


”ٹھہرو اے اہل یثرب ہم لوگ جو ان کے پاس آئے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور آج انہیں یہاں سے نکال کرلے جانا تمام عرب سے دشمنی مول لینا ہے۔ اس کے نتیجہ میں تمہارے نونہال قتل ہوں گے اور تلواریں تم پر برسیں گی۔ لہٰذا اگر تمہیں اپنی جانیں عزیز ہیں تو پھر چھوڑ دو اور صاف صاف عذر کر دو کیونکہ اس وقت عذر کر دینا خدا کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔“


اسی بات کو وفد کے ایک دوسرے شخص عباس بن عبادہ بن نضلہ نے دوہرایا :


اتعلمون علام تبایعون ھٰذا الرجل؟ (قالو انعم، قال) انکم تبایعونہ علی حزب الاحمر و الاسود من الناس۔ فان کنتم ترون انکم اذا نھکت اموالکم مصیبة واشرافکم قتلا المتموہ فمن الاٰن فدعوہ، فھو واللہ ان فعلتم خزی الدنیا والاٰخرة و ان کنتم ترون انکم وافون لہ بنا دعو تموہ الیہ علی نھکة الاموال وقتل الاشراف فخذوہ، فھو و اللہ خیر الدنیا و الاٰخرة۔


”جانتے ہو اس شخص سے کس چیز پر بیعت کر رہے ہو؟ (آوازیں، ہاں جانتے ہیں) تم اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے دنیا بھر سے لڑائی مول لے رہے ہو۔ پس اگر تمہارا خیال یہ ہو کہ جب تمہارے مال تباہی کے اور تمہارے اشراف ہلاکت کے خطرے میں پڑجائیں تو تم اسے دشمنوں کے حوالے کر دو گے تو بہتر ہے کہ آج ہی سے اسے چھوڑ دو کیونکہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہے۔ اور اگر تمہارا ارادہ یہ ہے کہ جو بلاوا تم اس شخص کو دے رہے ہو اس کو اپنے اموال کی تباہی اور اپنے اشراف کی ہلاکت کے باوجود تباہ ہوگے تو بےشک اس کا ہاتھ تھام لو کہ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔“


اس پر تمام وفد نے بالا تفاق کہا فانا ناخذہ علیٰ مصیبة الاموال وقتل الاشراف۔


”ہم اسے لے کر اپنے اموال کو تباہی اور اپنے اشراف کو ہلاکت کے خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہیں“۔ تب وہ مشہور بیعت واقع ہوئی جسے تاریخ میں بیعت عَقَبہ ثانیہ کہتے ہیں ۔


دوسری طرف اہل مکہ کے لیے یہ معاملہ جو معنی رکھتا تھا۔ وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ دراصل اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو، جن کی زبردست شخصیت اور غیر معمولی قابلیتوں سے قریش کے لوگ واقف ہوچکے تھے، ایک ٹھکانا میسر آرہا تھا۔ اور ان کی قیادت و رہنمائی میں پیروان اسلام، جن کی عزیمت و استقامت اور فدائیت کو بھی قریش ایک حد تک آزما چکے تھے، ایک منظم جتھے کی صورت میں مجتمع ہوئے جاتے تھے۔ یہ پرانے نظام کے لیے موت کا پیغام تھا۔ نیز مدینہ جیسے مقام پر مسلمانوں کی اس طاقت کے مجتمع ہونے سے قریش کو مزید خطرہ یہ تھا کہ یمن سے شام کی طرف جو تجارتی شاہراہ ساحل بحر احمر کے کنارے کنارے جاتی تھی، جس کے محفوظ رہنے پر قریش اور دوسرے بڑے بڑے مشرک قبائل کی معاشی زندگی کا انحصار تھا، وہ مسلمانوں کی زد میں آجاتی تھی اور اس شہ رگ پر ہاتھ ڈال کر مسلمان نظام جاہلی کی زندگی دشوار کرسکتے تھے۔ صرف اہل مکہ کی وہ تجارت جو اس شاہراہ کے بل پر چل رہی تھی ڈھائی لاکھ اشرفی سالانہ تک پہنچتی تھی۔ طائف اور دوسرے مقامات کی تجارت اس کے ماسوا تھی۔


قریش ان نتائج کو خوب سمجھتے تھے۔ جس رات بیعت عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معالہ کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو انھوں نے اہل مدینہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہوگیا کہ اب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وہاں منتقل ہوجائیں گے تو وہ اس خطرے کو روکنے کے لیے آخری چارہ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ ہجرت نبوی سے چند ہی روز پہلے قریش کی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں بڑی ردّ وکد کے بعد آخر کار یہ طے پا گیا کہ بنی ہاشم کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب لوگ مل کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہوجائے اور وہ انتقام کے بجائے خون بہا قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ لیکن خدا کے فضل اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتماد علی اللہ اور حسن تدبیر سے ان کی یہ چال ناکام ہوگئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔ اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو انھوں نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن ابی کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کرچکے تھے اور جس کی تمناؤں پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ پہنچ جانے اور اوس و خزرَج کی اکثریت کے مسلمان ہوجانے سے پانی پھر چکا تھا) خط لکھا کہ ”تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود اس سے لڑو یا اسے نکال دو، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے“۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادہ شر ہوا، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بر وقت اس کے شر کی روک تھام کر دی۔ پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرے کے لیے مکہ گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر ابوجہل نے ان کو ٹوک کر کہا الا اراک تطوف بمکة اٰمنًا وقداویتم الصُباة وزعمتم انکم تنصرونھم وتعینونھم؟ لو لا انک مع ابی صفوان ما رجعت الیٰ اھلک سالمًا (تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمینان سے مکہ میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم اُمَیّہ بن خَلَف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جا سکتے تھے)۔ سعد نے جواب میں کہا واللہ لئن منعتنی ھٰذا الا منعک ما ھوا شد علیک منہ، طریقک علی المدینة (بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے شدید تر ہے، یعنی مدینہ پر سے تمہاری رہ گذر)۔ یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بند ہے، اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین اسلام کے لیے پر خطر ہے۔


اور فی الواقع اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی تدبیر بھی نہ تھی کہ اس تجارتی شاہرہ پر اپنی گرفت مضبوط کریں تاکہ قریش اور وہ دوسرے قبائل جن کا مفاد اس راستہ سے وابستہ تھا اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی معاندانہ و مزاحمانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ چنانچہ مدینہ پہنچتے ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو خیز اسلامی سوسائٹی کے ابتدائی نظم و نسق اور اطراف مدینہ کی یہودی آبادیوں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے بعد سب سے پہلے جس چیز پر توجہ منعطف فرمائی وہ اسی شاہراہ کا مسئلہ تھا۔ اس مسئلے میں حضور نے دو اہم تدبیریں اختیار کیں ۔


ایک یہ کہ مدینہ اور ساحل بحر احمر کے درمیان اس شاہراہ سے متصل جو قبائل آباد تھے ان کے ساتھ گفت و شنید شروع کی تاکہ وہ حلیفانہ اتحاد یا کم از کم ناطرفداری کے معاہدے کرلیں۔ چنانچہ اس میں آپ کو پوری کامیابی ہوئی۔ سب سے پہلے جُہَینَہ سے، جو ساحل کے قریب پہاڑی علاقہ یننُع اور ذوالُعشَیرہ سے متصل تھا وفاعی معاونت (Defensivealliance) کی قرار داد ہوئی۔ پھر سن ٢ ہجری کے وسط میں بنی مدلِج بھی اس قرارداد میں شریک ہوگئے کیونکہ وہ بنی ضمرہ کے ہمسائے اور حلیف تھے۔ مزید برآں تبلیغ اسلام نے ان قبائل میں اسلام کے حامیوں اور پیرووں کا بھی ایک اچھا خاصا عنصر پیدا کردیا۔


دوسری تدبیر آپ نے یہ اختیار کی کہ قریش کے قافلوں کو دھمکی دینے کے یے اس شاہراہ پر پیہم چھوٹے چھوٹے دستے بھیجنے شروع کیے اور بعض دستوں کے ساتھ آپ خود بھی تشریف لے گئے۔ پہلے سال اس طرح کے چار دستے گئے جو مغازی کی کتابوں میں سَرِیّہَ حمزہ، سریہ عبیدہ بن حارث، سریہ سعد بن ابی وقاص اور غزوہ البواء کے نام سے موسوم ہیں ۔*1* اور دوسرے سال کے ابتدائی مہینوں میں دو میزید تاختیں اسی جانب کی گئیں جن کو اہل مغازی غزوہ بواط اور غزوہ ذوالعشیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان تمام مہموں کی دوخصوصیتیں قابل لحاظ ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے کسی میں نہ تو کشت و خون ہوا اور نہ کوئی قافلہ لوٹا گیا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تاختوں کا اصل مقصود قریش کو ہوا کا رخ بتانا تھا۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے کسی تاخت میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مدینہ کا کوئی آدمی نہیں لیا بلکہ تمام دستے خالص مکی مہاجریں سے ہی مرتب فرماتے رہے کہ تاکہ حتٰی الامکان یہ کشمکش قریش کے اپنے ہی گھر والوں تک محدود رہے اور دوسرے قبیلوں کے اس میں الجھنے سے آگ پھیل نہ جائے۔ ادھر سے اہل مکہ بھی مدینہ کی طرف غارت گرد سے بھیجتے رہے، چنانچہ انہی میں سے ایک دستے نے کرز بن جابر الفہری کی قیادت میں عین مدینہ کے قیرب ڈاکہ مارا اور اہل مدینہ کے مویشی لوٹ لیے۔ قریش کی کوشش اس سلسلہ میں یہ رہی کہ دوسرے قبیلوں کو بھی اس کشمکش میں الجھا دیں، نیز یہ کہ انہوں نے بات کو محض دھمکی تک محدود نہ رکھا بلکہ لوٹ مار تک نوبت پہنچا دی۔


حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ شعبان سن ٢ ہجری (فروری یا مارچ ٦٢٣ ء) میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلہ، جس کے ساتھ تقریباً ٥٠ ہزاراشرفی کا مال تھا اور تیس چالیس سے زیادہ محافظ نہ تھے، شام سے مکہ کی طرف پلٹتے ہوئے اس علاقہ میں پہنچا جو مدینہ کی زد میں تھا۔ چونکہ مال زیادہ تھا، محافظ کم تھے، اور سابق حالات کی بنا پو خطرہ قوی تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی طاقتور دستہ اس پر چھاپہ نہ مار دے، اس لیے سردار قافلہ ابو سفیان نے اس پُر خطر علاقہ میں پہنچتے ہی ایک آدمی کو مکہ کی طرف دوڑا دیا تاکہ وہاں سے مدد لے آئے۔ اس شخص نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدیم قاعدے کے مطابق اپنے اونٹ کے کام کاٹے، اس کی ناک چیر دی، کجادے کو الٹ کر رکھ دیا اور اپنا قمیص آگے پیچھے سے پھاڑ کر شور مچانا شروع کردیا کہ : یا معشر قریش! اللطیمہ الطیمہ، اموالکم مع ابع سفیان قد عرض لھا محمد فی اصحابہ، لا اریٰ ان تدرکوھا، الغوث، الغوث، (قریش والو! اپنے قافلہ تجارت کی خبر لو، تمہارے مال جو ابوسفیان کے ساتھ ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آدمی لے کر ان کے در پے ہوگیا ہے، مجھے امید نہیں کہ تم انہیں پا سکو گے، دوڑو دوڑو مدد کے لیے)۔ اس پر سارے مکہ میں ہیجان بر پا ہوگیا۔ قریش کے تمام بڑے بڑے سردار جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ تقریباً ایک ہزار مردان جنگی جن میں سے ٦٠٠ زرہ پوش تھے اور جن میں ١٠٠ سواروں کا رسالہ بھی شامل تھا، پوری شان و شوکت کے ساتھ لڑنے کے لیے چلے۔


ان کے پیش نظرصرف یہی کام نہ تھا کہ اپنے قافلے کو بچا لائیں بلکہ وہ اس ارادے سے نکلے تھے کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں، اور مدینہ میں یہ مخالف طاقت جو ابھی نئی نئی مجتمع ہوئی شروع ہوئی ہے اسے کچل ڈالیں، اور اس نواح کے قبائل کو اس حد تک مرعوب کر دیں کہ آئندہ کے لیے یہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہوجائے۔


اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے، جو حالات سے ہمیشہ باخبر رہتے تھے، محسوس فرمایا کہ فیصلہ کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے جبکہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کر ڈالا گیا تو تحریک اسلامی ہمیشہ کے لیے بےجان ہوجائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے نئے دارالہجرت میں آئے ابھی پورے دوسال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بےسروسامان، انصار ابھی ناآزمودہ، یہودی قبائل برسر مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقتور عنصر موجود، اور گردوپیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی، ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچا کر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جائے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کر دیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب واثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان، مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عزم فرمالیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے۔


اس فیصلہ کن اقدام کا ارادہ کر کے آپ نے انصار و مہاجری کو جمع کیا اور ان کے سامنے ساری پوزیشن صاف صاف رکھ دی کہ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر چلا آرہا ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے گا، بتاؤ تم کس کے مقابلہ پر چلنا چاہتے ہو؟ جواب میں ایک بڑے گروہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار ہوا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے۔ لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش نظر کچھ اور تھا اس لیے آپ نے اپنا سوال دہرایا۔ اس پر مہاجرین میں سے مقداد بن عمرو نے اٹھ کر کہا یا رسول اللہ ! امض لما امرک اللہ، فانا معک حیثما احببت، لا نقول لک کما قال بنوا سرائیل لموسٰی اذھب انت وربک فقاتلا انا ھٰھُنا قاعدون، وٰلِکن اذھب انت وربک فقاتلا انا معکما مقاتلون مادامت عین منا تطرف۔ ”یا رسول اللہ، جدھر آپ کا رب آپ کو حکم دے رہا ہے اسی طرف چلیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں جس طرف بھی آپ جائیں۔ ہم بنی اسرائیل کی طرح یہ کہنے والے نہیں ہیں کہ جاؤ تم اور تمہارا خدا دونوں لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ نہیں ہم کہتے ہیں چلیے آپ اور آپ کا خدا، دونوں لڑیں اور ہم آپ کے ساتھ جانیں لڑائیں گے جب تک ہم میں سے ایک آنکھ بھی گردش کر رہی ہے۔“ مگر لڑائی کا فیصلہ انصار کی رائے معلوم کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا، کیونکہ ابھی تک فوجی اقدامات میں ان سے کوئی مدد نہیں لی گئی تھی اور ان کے لیے یہ آزمائش کا پہلا موقع تھا کہ اسلام کی حمایت کا جو عہد انہوں نے اول روز کیا تھا اسے وہ کہاں تک نباہنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے براہ راست ان کو مخاطب کیے بغیر پھر اپنا سوال دہرایا۔ اس پر سعد بن معاذ اٹھے اور انہوں نے عرض کیا شاید حضور کا روئے سخن ہماری طرف ہے؟ فرمایا ہاں۔ انہوں نے کہا لقداٰمنا بک وصدقناک و شھدنا ان ماجئت بہ ھو الحق و اعطیناک عھودنا و مواثیقنا علی السّمع و الطاعة۔ فامض یا رسول اللہ لما اردت۔ فوالذی بعثک بالحق لو استعرضت بنا ھٰذا البحر فخضتَہ لخضناہ معک وما تخلف منا رجل واحد۔ ومانکرہان تلقی بنا عدونا غدًا انا لنصبر عندالحرب صُدُقٌ عند اللقآء ولعل اللہ یریک منا مانقر بہ عینک فسر بنا علیٰ برکة اللہ۔”ہم آپ پر ایمان لائے ہیں، آپ کی تصدیق کرچکے ہیں کہ آپ جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اور آپ سے سمع وطاعت کا پختہ عہد باندھ چکے ہیں۔ پس اے اللہ کے رسول، جو کچھ آپ نے ارادہ فرما لیا ہے اسے کر گزریے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اگر آپ ہمیں لے کر سامنے سمندر پر جا پہنچیں اور اس میں اتر جائیں تو ہم آپ کے ساتھ کر دیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہم کو یہ ہرگز ناگوار نہیں ہے کہ آپ کل ہمیں لے کر دشمن سے جا بھڑیں۔ ہم جنگ میں ثابت قدم رہیں گے، مقابلہ میں سچی جاں نثاری دکھائیں گے اور بعید نہیں کہ اللہ آپ کو ہم سے وہ کچھ دکھوادے جسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، پس اللہ کی برکت کے بھروسے پر آپ ہمیں لے چلیں ۔“


ان تقریروں کے بعد فیصلہ ہوگیا کہ قافلہ کے بجائے لشکر قریش ہی کے مقابلہ پر چلنا چاہیے۔ لیکن یہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا۔ جو لوگ اس تنگ وقت میں لڑائی کے لیے اٹھے تھے ان کی تعداد ٣ سو سے کچھ زاہد تھی (٨٦ مہاجرم، ٦١ قبیلہ اوس کے اور ١٧٠ قبیلہ خزرج کے ) جن میں صرف دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ١٧٠ اونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین چار چار اشخاص باری باری سے سوار ہوتے تھے۔ سامان جنگ بھی بالکل ناکافی تھا۔ صرف ٦٠ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ اسی لیے چند سر فروش فدائیوں کے سوا اکثر آدمی جو اس خطر ناک مہم میں شریک تھے دلوں میں سہم رہے تھے اور انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جانتے بوجھتے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ مصلحت پرست لوگ جو اگرچہ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے مگر ایسے ایمان کے قائل نہ تھے جس میں جان و مال کا زیاں ہو، اس مہم کو دیوانگی سے تعبیر کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ دینی جذبے نے ان لوگوں کو پاگل بنا دیا ہے۔ مگر نبی اور مومنین صادقین سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے ہی کا ہے اس لیے اللہ کے بھروسے پر وہ نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے سیدھی جنوب مغرب کی راہ لی جدھر سے قریش کا لشکر آرہا تھا۔ حالانکہ اگر ابتدا میں قافلے کو لوٹنا مقصود ہوتا تو شمال مغرب کی راہ لی جاتی۔ *2*

١٧ رمضان کو بدر کے مقام پر فریقین کا مقابلہ ہوا۔ جس وقت دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان ہے اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہیں ہے، تو خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے اور انتہائی خضوع وتضرع کے ساتھ عرض کرنا شروع کیا اللھم ھٰذہ قریش قد اتت بخیلائھا تحاول ان تکذب رسولک، اللھم فنصرک الذی وعدتنی، اللھم ان تھلک ھٰذہ العصابة الیوم لا تعبد”خدایا، یہ ہیں قریش، اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں، خداوند ! بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔“

اس معرکہ کار زار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرین مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی اس کی تلوار کی زد میں آ رہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمائش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنہوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا ہوا ور باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تل گئے ہوں۔ اور انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انہوں نے عرب کے طاقتور ترین قبیلے، قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جا رہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔ یہ جسارتے صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انہیں ذرہ برابر پرواہ نہ رہی ہو۔ آخر کار ان لوگوں کی صداقت ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرور طاقت کے باوجود ان بےسرو سامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے، ٧٠ قید ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جوان کے گلہائے سرِسَبَد اور اسلام کی مخالفت تحریک کے روح رواں تھے اس معرکہ میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح عرب میں اسلام کو ایک قابل لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیسا کہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے”بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا، مگر بدر کے بعد وہ مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا“۔

مباحث :


یہ ہے وہ عظیم الشان معرکہ جس پر قرآن کی اس سورۃ میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ مگر اس تبصرے کا انداز تمام ان تبصروں سے مخطلف ہے جو دنیوی بادشاہ اپنی فوج کی فتحیابی کے بعد کیا کرتے ہیں ۔

اس میں سب سے پہلے ان خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اخلاق حیثیت سے ابھی مسلمانوں میں باقی تھیں تاکہ آئندہ اپنی مزید تکمیل کے لیے سعی کریں ۔


پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ اس فتح میں تائید الہٰی کا کتنا بڑا حصہ تھا تاکہ وہ اپنی جرأت و شہامت پر نہ پھولیں بلکہ خدا پر توکل اور خدا کے رسول کی اطاعت کا سبق لیں ۔


پھر اس اخلاقی مقصد کو واضح کیا گیا ہے جس کے لیے مسلمانوں کو یہ معرکہ حق و باطل برپا کرنا ہے اور ان اخلاقی صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے اس معرکہ میں انہیں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔


پھر مشرکین اور منافقین اور یہود اور ان لوگوں کو جو جنگ میں قید ہو کر آئے تھے، نہایت سبق آموز انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔


پھر ان اموال کے متعلق، جو جنگ میں ہاتھ آئے تھے، مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں اپنا مال نہ سمجھیں بلکہ خدا کا مال سمجھیں، جو کچھ اللہ اس میں سے ان کا حصہ مقرر کرے اسے شکر یہ کے ساتھ قبول کرلیں اور جو حصہ اللہ اپنے کام اور اپنے غریب بندوں کے امداد کے لیے مقرر کرے اس کو برضا و رغبت گوارا کرلیں ۔


پھر قانون جنگ و صلح کے متعلق وہ اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں جن کی توضیح اس مرحلے میں دعوت اسلامی کے داخل ہوجانے کے بعد ضروری تھی تاکہ مسلمان اپنی صلح و جنگ میں جاہلیت کے طریقوں سے بچیں اور اور دنیا پر ان کی اخلاقی برتری قائم ہو اور دنیا کو معلوم ہوجائے کہ اسلام اوّل روز سے اخلاق پر عملی زندگی کی بنیاد رکھنے کی جو دعوت دے رہا ہے اس کی تعبیر واقعی عملی زندگی میں کیا ہے۔

پھر اسلامی ریاست کے دستوری قانون کی بعض دفعات بیان کی گئی ہیں جن سے دارالالسلام کے مسلمان با شندوں کی آئینی حیثیت ان مسلمانوں سے الگ کر دی گئی ہے جو دارالا سلام کے حدود سے باہر رہتے ہوں ۔

-----------------------------------------------
(تفہیم القرآن جلد اول ، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )