قیامت کا منظر سُوْرَةُ الزِّلْزَال کی روشنی میں

زمانۂ نزول

اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ، عطاء، جابر اور مجاہد کہتے ہیں کہ یہ مکی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بھی ایک قول اس کی تائید کرتا ہے۔ بخلاف اس کے قتادہ اور مقاتل کہتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی دوسرا قول اس کے مدنی ہونے کی تائید میں نقل ہوا ہے۔

 اس کے مدنی ہونے پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی اُس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن ابی حاتم نے ان سے نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثال ذرۃ شرا یرہ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں اپنا عمل دیکھنے والا ہوں؟ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں، میں نے عرض کیا "یہ بڑے بڑے گناہ؟" آپ نے جواب دیا "ہاں" میں نے عرض کیا "اور یہ چھوٹے چھوٹے گناہ بھی؟" حضور نے فرمایا ہاں۔ اس پر میں نے کہا "پھر تو میں مارا گیا؟" حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "خوش ہو جاؤ اے ابو سعید، کیونکہ ہر نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوگی۔" اس حدیث سے اس سورت کے مدنی ہونے پر استدلال کی بنا یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری مدینے کے رہنے والے تھے اور غزوۂ احد کے بعد سن بلوغ کو پہنچے۔ اس لیے اگر یہ سورت ان کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی، جیسا کہ ان کے بیان سے ظاہر ہے، تو اسے مدنی ہونا چاہیے لیکن صحابہ اور تابعین کا جو طریقہ آیات اور سورتوں کی شان نزول کے بارے میں تھا، اس کی تشریح سورۂ دہر کے مضمون میں بیان کی جا چکی ہے، اس لیے کسی صحابی کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت فلاں موقع پر نازل ہوئي، اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا نزول اسی وقت ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو سعید نے ہوش سنبھالنے کے بعد جب پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے یہ سورت سنی ہو اس وقت اس کے آخری حصے سے خوف زدہ ہو کر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ سوالات کیے ہوں جو اوپر درج کیے گئے ہیں اور اس واقعہ کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہو کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ عرض کیا۔ اگر یہ روایت سامنے نہ ہو تو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والا ہر شخص یہی محسوس کرے گا کہ یہ مکی سورت ہے، بلکہ اس کے مضمون اور اندازِ بیان سے تو اس کو یہ محسوس ہوگا کہ یہ مکہ کے بھی اس ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی جب نہایت مختصر اور انتہائی دلنشین طریقہ سے اسلام کے بنیادی عقائد لوگوں کے سامنے پیش کیے جا رہے تھے۔ 

موضوع اور مضمون


اس کا موضوع ہے موت کے بعد دوسری زندگی اور اس میں ان سب اعمال کا پورا کچا چٹھا انسان کے سامنے آ جانا جو اس نے دنیا میں کیے تھے۔ سب سے پہلے تین مختصر تقریروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی کس طرح واقع ہوگی اور وہ انسان کے لیے کیسی حیران کن ہوگی۔ پھر دو فقروں میں بتایا گیا ہے کہ یہی زمین جس پر رہ کر انسان نے بے فکری کے ساتھ ہر طرح کے اعمال کیے ہیں، اور جس کے متعلق کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ بے جان چیز کسی وقت اس کے افعال کی گواہی دے گی، اس روز اللہ تعالٰی کے حکم سے بول پڑے گی اور ایک ایک انسان کے متعلق یہ بیان کردے گی کہ کس وقت کہاں اس نے کیا کام کیا تھا۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس دن زمین کے گوشے گوشے سے انسان گروہ در گروہ اپنے مرقدوں سے نکل نکل کر آئیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں، اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمل اور مفصل ہوگی کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جو سامنے نہ آ جائے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا ۙ﴿۱﴾ وَ اَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا ۙ﴿۲﴾ وَ قَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا ۚ﴿۳﴾ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا ۙ﴿۴﴾ بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا ؕ﴿۵﴾ یَوۡمَئِذٍ یَّصۡدُرُ النَّاسُ اَشۡتَاتًا ۬ۙ لِّیُرَوۡا اَعۡمَالَہُمۡ ؕ﴿۶﴾ فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔
جب زمین اپنی پُوری شدّت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی(1) ، اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی،(2) اور انسان کہے گا کہ یہ اِس کو کیا ہو رہا ہے،(3) اُس روز وہ اپنے ﴿اُوپر گزرے ہوئے﴾ حالات بیان کرے گی،(4) کیونکہ تیرے ربّ نے اُسے ﴿ایسا کرنے کا ﴾ حکم دیا ہوگا۔ اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے (5) تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھائے جائیں۔(6) پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔(7)   ؏

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 1

اصل الفاظ ہیں زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا۔ زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں۔ پس زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو جھٹکے پر جھٹکے دے کر شدت کے ساتھ ہلا ڈالا جائے گا۔ اور چونکہ زمین کو ہلانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین کا کوئی مقام یا کوئی حصہ یا علاقہ نہیں بلکہ پوری کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی۔ پھر اس زلزلے کی مزید شدت کو ظاہر کرنے کے لیے زِلْزَالَهَا کا اس پر اضافہ کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں " اس کا ہلایا جانا " اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایسا ہلایا جائے گا جیسا اس جیسے عظیم کرے کو ہلانے کا حق ہے، یا جو اس کے ہلائے جانے کی انتہائی ممکن شدت ہوسکتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس زلزلے سے مراد وہ پہلا زلزلہ لیا ہے جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگا یعنی جب ساری مخلوق ہلاک ہوجائے گا اور دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ لیکن مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا، یعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے۔ یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے کیونکہ بعد کا سارا مضمون اسی پر دلالت کرتا ہے۔

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 2
یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ انشقاق آیت 4 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ " اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی" اس کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مرے ہوئے انسان زمین کے اندر جہاں جس شکل اور جس حالت میں بھی پڑے ہوں گے ان سب کو وہ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور بعد کا فقرہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس وقت ان کے جسم کے تمام بکھرے ہوئے اجزاء جمع ہوکر از سر نو اسی شکل و صورت میں زندہ ہوجائیں گے جس میں وہ پہلی زندگی کی حالت میں تھے، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو وہ یہ کیسے کہیں گے کہ زمین کو یہ کیا ہورہا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ صرف مرے ہوئے انسانوں ہی کو وہ باہر نکال پھینکنے پر اکتفا نہ کرے گی، بلکہ ان کو پہلی زندگی کے افعال و اقوال اور حرکات و سکنات کی شہادتوں کا جو انبار اس کی تہوں میں دبا پڑا ہے اس سب کو بھی وہ نکال کر باہر ڈال دے گی۔ اس پر بعد کا یہ فقرہ دلالت کرتا ہے کہ زمین اپنے اوپر گزرے حالات بیان کرے گی۔ تیسرا مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ سونا، چاندی، جواہر اور ہر قسم کی دولت جو زمین کے پیٹ میں ہے اس کے بھی ڈھیر کے ڈھیر وہ باہر نکال کر رکھ دے گی اور انسان دیکھے گا کہ یہی ہیں وہ چیزیں جن پر وہ دنیا میں مرا جاتا تھا، جن کی خاطر اس نے قتل کیے، حق داروں کے حقوق مارے، چوریاں کیں، ڈاکے دالے، خشکی اور تری میں قزاقیاں کیں، جنگ کے معرکے برپا کیے اور پوری قوموں کو تباہ کر ڈالا۔ آج وہ سب کچھ سامنے موجود ہے اور اس کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا اس کے لیے عذاب کا سامان بنا ہوا ہے۔

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 3
انسان سے مراد ہر انسان بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ زندہ ہوکر ہوش میں آتے ہی پہلا تاثر ہر شخص پر یہی ہوگا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے، بعد میں اس پر یہ بات کھلے گی کہ یہ روز محشر ہے۔ اور انسان سے مراد آخرت کا منکر انسان بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ جس چیز کو وہ غیر ممکن سمجھتا تھا وہ اس کے سامنے برپا ہورہی ہوگی اور وہ اس پر حیران و پریشان ہوگا۔ رہے اہل ایمان تو ان پر یہ حیرانی و پریشانی طاری نہ ہوگی، اس لیے کہ سب کچھ ان کے عقیدہ و یقین کے مطابق ہورہا ہوگا۔ ایک حد تک اس دوسرے معنی کی تائید سورۃ یسین کی آیت 52 کرتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ اس وقت منکرین آخرت کہیں گے کہ مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا " کس نے ہمارے خواب گاہ سے ہمیں اٹھا دیا"؟ اور جواب ملے گا ۆھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ۔ " یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمان نے وعدہ کیا تھا اور خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں نے سچ کہا تھا"۔ یہ آیت اس معاملہ میں صریح نہیں ہے کہ کافروں کو یہ جواب اہل ایمان ہی دیں گے، کیونکہ آیت میں اس کی تصریح نہیں ہے، لیکن اس امر کا احتمال ضرور ہے کہ اہل ایمان کی طرف سے ان کو یہ جواب ملے گا۔

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 4
حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھ کر پوچھا " جانتے ہو اس کے وہ حالات کیا ہیں"؟ لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ فرمایا " وہ حالات یہ ہیں کہ زمین ہر بندے اور بندی کے بارے میں اس عمل کی گواہی دے گی جو اس کی پیٹھ پر اس نے کیا ہوگا۔ وہ کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں کام کیا تھا۔ یہ ہیں وہ حالات جو زمین بیان کرے گی" (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، عبد بن حمید، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، بیہقی فی الشعب) حضرت ربیعہ الخرشی کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا " ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تمہاری جڑ بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے خواہ اچھا ہو یا برا"۔ (معجم الطبرانی) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " قیامت کے روز زمین ہر اس عمل کو لے آئے گی جو اس کی پیٹھ پر کیا گیا ہو" پھر آپ نے یہی آیات تلاوت فرمائیں (ابن مردویہ، بیہقی) حضرت علی کے حالات میں لکھا ہے کہ جب آپ بیت المال کا سب روپیہ اہل حقوق میں تقسیم کر کے اسے خالی کر دیتے تو اس میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر فرماتے " تجھے گواہی دینی ہوگی کہ میں نے تجھ کو حق کے ساتھ بھرا اور حق ہی کے ساتھ خالی کردیا"۔

زمین کے متعلق یہ بات کہ وہ قیامت کے روز اپنے اوپر گزرے ہوئے سب حالات اور واقعات بیان کرے گی، قدیم زمانے کے آدمی کے لیے تو بڑی حیران کن ہوگی کہ آخر زمین کیسے بولنے لگے گی، لیکن آج علوم طبیعی کے اکتشافات اور سینما، لاؤڈاسپیکر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیپ ریکارڈ، الیکڑانکس وغیرہ ایجادات کے اس دور میں یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ زمین اپنے حالات کیسے بیان کرے گی۔ انسان اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں، ریڈیائی لہروں میں، گھروں کی دیواروں اور ان کے فرش اور چھت کے ذرے ذرے میں، اور اگر کسی سڑک یا میدان یا کھیت میں آدمی نے باتکی ہو تو ان سب کے ذرات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دہروا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ انسان اپنے کانوں سے اس وقت سن لے گا کہ یہ اس کی اپنی ہی آوازیں ہیں، اور اس کے سب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اسی کا لہجہ ہے۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس حالت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گرد و پیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر ان پر نقش ہوچکی ہے۔ بالکل گھپ اندھیرے میں بھی اس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شعاعیں موجود ہیں جن کے لیے اندھیرا اور اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں، یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آجائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے اعمال کو براہ راست خود جانتا ہے، مگر آخرت میں جب وہ عدالت قائم کرے گا تو جس کو بھی سزا دے گا، انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے دے گا۔ اس کی عدالت میں ہر مجرم انسان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا جائے گا اس کو ایسی مکمل شہادتوں سے ثابت کردیا جائے گا کہ اس کے مجرم ہونے میں کسی کلام کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ سب سے پہلے تو وہ نامہ اعمال ہے جس میں ہر وقت اس کے ساتھ لگے ہو ٤ ے کراما کاتبین اس کے ایک ایک قول اور فعل کا ریکارڈ درج کر رہے ہیں (قٓ۔ آیات 17۔18۔ الانفطار آیات 1 تا 12) یہ نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ پڑھ اپنا کارنامہ حیات، اپنا حساب لینے کے لیے تو خود کافی ہے (بنی اسرائیل 14) انسان اسے پڑھ کر حیران رہ جائے گا کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جو اس میں ٹھیک ٹھیک درج نہ ہو (الکہف 49) اس کے بعد انسان کا اپنا جسم ہے جس سے اس نے دنیا میں کام لیا ہے۔ اللہ کی عدالت میں اس کی اپنی زبان شہادت دے گی کہ اس سے وہ کیا کچھ بولتا رہا ہے، اس کے اپنے ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے کہ ان سے کیا کیا کام اس نے لیے ( النور 24) اس کی آنکھیں شہادت دیں گے، اس کے کان شہادت دیں گے کہ ان سے اس نے کیا کچھ سنا۔ اس کے جسم کی پوری کھال اس کے افعال کی شہادت دے گی۔ وہ حیران ہوکر اپنے اعضا سے کہے گا کہ تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو؟ اس کے اعضا جواب دیں گے کہ آج جس خدا کے حکم سے ہر چیز بول رہی ہے اسی کے حکم سے ہم بھیبول رہے ہیں ( حم السجدہ 20 تا 24) اس پر مزید وہ شہادتیں ہیں جو زمین اور اس کے پورے ماحول سے پیش کی جائیں گی جن میں آدمی اپنی آوازیں خود اپنے کانوں سے اور اپنی حرکات کی ہوبہو تصویریں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دل میں جو خیالات، ارادے اور مقاصد چھپے ہوئے تھے، اور جن نیتوں کے ساتھ اس نے سارے اعمال کیے تھے وہ بھی نکال کر سامنے رکھ دیے جائیں گے، جیسا کہ آگے سورۃ عادیات میں آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے قطعی اور صریح اور ناقابل انکار ثبوت سامنے آجانے کے بعد انسان دم بخود رہ جائے گا اور اس کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کا موقع باقی نہ رہے گا (المرسلات، آیات 35۔36)

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 5
اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر ایک اکیلا اپنی انفرادی حیثیت میں ہوگا، خاندان، جتھے، پارٹیاں، قومیں سب بکھر جائیں گی۔ یہ بات قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی فرمائی گئی ہے۔ مثلا سورۃ انعام میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس روز لوگوں سے فرمائے گا کہ " لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا" (آیت 94) اور سورۃ مریم میں فرمایا یہ " اکیلا ہمارے پاس آئے گا" (آیت 80) اور یہ کہ " ان میں سے ہر ایک قیامت کے روز اللہ کے حضور اکیلا حاضر ہوگا" (آیت 95) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ تمام لوگ جو ہزار ہا برس کے دوران میں جگہ جگہ مرے تھے، زمین کے گوشے گوشے سے گروہ در گروہ چلے آرہے ہوں گے، جیسا کہ سورۃ نباء میں فرمایا گیا " جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی تم فوج در فوج آجاؤ گے" ( آیت 18) اس کے علاوہ جو مطلب مختلف مفسرین نے بیان کیے ہیں ان کی گنجائش لفظ اشتاتا میں نہیں ہے، اس لیے ہمارے نزدیک وہ اس لفظ کے معنوی حدود سے باہر ہیں، اگرچہ بجائے خود صحیح ہیں اور قرآن و حدیث کے بیان کردہ احوال قیامت سے مطابقت رکھتے ہیں ۔

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 6
اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں، یعنی ہر ایک کو بتایا جائے کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے۔ اگرچہ یہ دوسرے معنی بھی لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ کے لیے جاسکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے لِّيُرَوْا جَزٓاءَ اَعْمَالَهُمْ (تاکہ انہیں ان کے اعمال کی جزا دکھائی جائے) نہیں فرمایا ہے بلکہ لِّيُرَوْا اَعْمَالَهُمْ (تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں) فرمایا ہے۔ اس لیے پہلے معنی ہی قابل ترجیح ہیں، خصوصا جبکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ کافر و مومن، صالح و فاسق، تابع فرمان اور نافرمان، سب کو ان کے نامہ اعمال ضرور دیے جائیں گے ( مثال کے طور پر ملاحظۃ ہو الحاقہ آیات 19 و 25، اور الانشقاق، آیات 7 و 10) ظاہر ہے کہ کسی کو اس کے اعمال دکھانے، اور اس کارنامہ اعمال اس کے حوالہ کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ علاوہ بریں زمین جب اپنے اوپر گزرے ہوئے حالات پیش کرے گی تو حق و باطل کی وہ کشمکش جو ابتدا سے برپا ہے اور قیامت تک برپا رہے گی، اس کا پورا نقشہ بھی سب کے سامنے آجائے گا، اور اس میں سب ہی دیکھ لیں گے کہ حق کے لیے کام کرنے والوں نے کیا کچھ کیا، اور باطل کی حمایت کرنے والوں نے ان کے مقابلہ میں کیا کیا حرکتیں کیں۔ بعید نہیں کہ ہدایت کی طرف بلانے والوں اور ضلالت پھیلانے والوں کی ساری تقریریں اور گفتگوئیں لوگ اپنے کانوں سے سن لیں۔ دونوں طرف کی تحریروں اور لٹریچر کا پورا ریکارڈ جوں کا توں سب کے سامنے لاکر رکھ دیا جائے۔ حق پرستوں باطل پرستوں کے ظلم، اور دونوں گروہوں کے درمیان برپا ہونے والے معرکوں کے سارے مناظر میدان حشر کے حاضرین اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔

 سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 7
اس ارشاد کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہوگی جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو، اسے وہ بہرحال دیکھ لے گا۔ لیکن اگر دیکھنے سے مراد اس کی جزا و سزا دیکھنا لیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور کسی بدی کی سزا پانے سے نہ بچے گا۔ کیونکہ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک ایک برے عمل کی سزا اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی۔ دوسرے اسکے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بدترین کافر و ظالم اور بدکار انسان بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اچھے فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا۔ یہ دونوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہیں، اور عقل بھی اسے نہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے۔ عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں، اور اس کی ایک ایک خدمت کا اجر و انعام دینے کے ساتھ اس کے ایک ایک قصور کو گن گن کر ہر ایک کی سزا بھی اسے دے ڈالیں۔ اسی طرح یہ بھی عقلا ناقابل فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بےشمار احسانات ہوں، وہ آپ سے غداری اور بےوفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے، مگر آپ اس کے مجموعی رویے کو نظر انداز کر کے اس کی ایک ایک غداری کی الگ سزا اور اس کی ایک ایک خدمت کی، خواہ وہ کسی وقت پانی لاکر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو، الگ جزا دیں۔ اب رہے قرآن و حدیث تو وہ وضاحت کے ساتھ مومن، منافق، کافر، مومن صالح، مومن خطاکار، مومن ظالم و فاسق، محض کافر، اور کافر مفسد و ظالم وغیرہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا و سزا کا ایک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا و سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید اصولی طور پر چند باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے :

اول یہ کہ کافر و مشرک اور منافق کے اعمال (یعنی وہ اعمال جن کو نیکی سمجھا جاتا ہے) ضائع کردیے گئے، آخرت میں وہ ان کا کوئی اجر نہیں پاسکیں گے، ان کا اگر کوئی اجر ہے بھی تو وہ دنیا ہی میں ان کو مل جائے گا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف 147۔ التوبہ 17۔67 تا 69۔ ہود 15۔16۔ ابراہیم 18۔ الکہف 104۔105۔ النور 39۔ الفرقان 23۔ الاحزاب 19۔ الزمر 65۔ الاحقاف 20۔

دوم یہ کہ بدی کی سزا اتنی ہی دی جائے گی جتنی بدی ہے، مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی، بلکہ کہیں تصریح ہے کہ ہر نیکی کا اجر اس سے 10 گنا ہے، اور کہیں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ جتنا چاہے نیکی کا اجر بڑھا کر دے۔ ملاحظہ ہو البقرہ 261۔ الانعام 160۔ یونس 26۔27۔ النور 38۔ القصص 84۔ سباء 37۔ المومن 40۔

سوم یہ کہ مومن اگر بڑے گناہوں سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ النساء 31۔ الشوری 37۔ النجم 32۔ 

چہارم یہ کہ مومن صالح سے ہلکا حساب لیا جائے گا، اس کی برائیوں سے درگزر کیا جائے گا اور اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے اس کو اجر دیا جائے گا۔ العنکبوت 7۔ الزمر 35۔ الاحقاف 16۔ الانشقاق 8۔

احادیث بھی اس معاملہ کو بالکل صاف کردیتی ہیں۔ اس سے پہلے ہم سورۃ انشقاق کی تفسیر میں وہ احادیث نقل کرچکے ہیں جو قیامت کے روز ہلکے حساب اور سخت حساب فہمی کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمائی ہیں (تفہیم القرآن، جلد ششم، الانشقاق، حاشیہ 6) حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ " یا رسول اللہ کیا میں اس ذرہ برابر برائی کا نتیجہ دیکھوں گا جو مجھ سے سرزد ہوئی"؟ حضور نے فرمایا " اے ابوبکر دنیا میں جو معاملہ بھی تمہیں ایسا پیش آتا ہے جو تمہیں ناگوار ہو وہ ان ذرہ برابر برائیوں کا بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوں، اور جو ذرہ برابر نیکیاں بھی تمہاری ہیں انہیں اللہ آخرت میں تمہارے لیے محفوظ رکھ رہا ہے" (ابن جریر، ابن ابی حاتم، طبرانی فی الاوسط، بیہقی فی الشعب، ابن المنذر، حاکم، ابن مردویہ، عبد بن حمید) حضرت ابو ایوب انصاری سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ " تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا اس کی جزا آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کرے گا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی شکل میں بھگت لے گا" (ابن مردویہ) قتادہ نے حضرت انس کے حوالہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ "اللہ تعالیٰ مومن پر ظلم نہیں کرتا، دنیا میں اس کی نیکیوں کے بدلے وہ رزق دیتا ہے اور آخرت میں ان کی جزا دے گا۔ رہا کافر، تو دنیا میں اس کی بھلائیوں کا بدلہ چکا دیا جاتا ہے، پھر جب قیامت ہوگی تو اس کے حساب میں کوئی نیکی نہ ہوگی" ( ابن جریر) مسروق حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ عبداللہ بن جدعان جاہلیت کے زمانہ میں صلح رحمی کرتا تھا، مسکین کو کھانا کھلاتا تھا، مہمان نواز تھا، اسیروں کو رہائی دلواتا تھا۔ کیا آخرت میں یہ اس کے لیے نافع ہوگا ؟ حضور نے فرمایا نہیں، اس نے مرتے وقت تک کبھی یہ نہیں کہا کہ رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین " میرے پروردگار، روز جزا میں میری خطا معاف کیجیو"۔ (ابن جریر) اسی کے جوابات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض اور لوگوں کے بارے میں بھی دیے ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں نیک کام کرتے تھے، مگر مرے کفر و شرک ہی کی حالت میں تھے۔ لیکن حضور کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی نیکی اسے جہنم کے عذاب سے تو نہیں بچا سکتی، البتہ جہنم میں اس کو وہ سخت سزا نہ دی جائے گی جو ظالم اور فاسق اور بدکار کافروں کو دی جائے گی۔ مثلا حدیث میں آیا ہے کہ حاتم طائی کی سخاوت کی وجہ سے اس کو ہلکا عذاب دیا جائے گا (روح المعانی)

تاہم یہ آیت انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزق اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے، اور یہی حال بدی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے، یونہی نظر انداز کر دینے والی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کسی چھوٹی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے، کیونکہا یسی بہت سی نیکیاں مل کر اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک بہت بڑی نیکی قرار پاسکتی ہیں، اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بدی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں۔ یہی بات ہے جس کو متعدد احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عدی بن حاتم سے یہ روایت منقول ہے کہ حضور نے فرمایا " دوزخ کی آگ سے بچو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا دینے یا ایک اچھی بات کہنے ہی کے ذریعہ سے ہو"۔ انہی حضرت عدی سے صحیح روایت میں حضور کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ " کسی نیک کام کو بھی حقیر نہ سمجھو خواہ وہ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں ایک ڈول ڈال دینا ہو، یا یہی نیکی ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملو"۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے عورتوں کو خطاب کر کے فرمایا " اے مسلمان عورتو، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہاں کوئی چیز بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو"۔ مسند احمد، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے " اے عائشہ ان گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی پرستش بھی ہونی ہے"۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا " خبردار، چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہنا، کیونکہ وہ سب آدمی پر جمع ہوجائیں گے یہاں تک کہ اسے ہلاک کردیں گے"۔ (گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، النساء حاشیہ 53۔ جلد پنجم، النجم حاشیہ 32)

(ماخوذ از تفہیم القرآن ج 6، سید ابوالاعلی مودودی ؒ )