قرآن مجید کا اسلوب - ابوالبشر احمد طیب

تاریخ شاہد ہے کہ قرآن مجید سے متعلق مسلمانوں کی خدمات اور جدت طرازیوں کی ایک طویل داستان ہے، کسی نے قرآن مجید کے مفردات پر توجہ دی تو کسی نے قرآن کی  کتابت اور رسم الخط پر ، بعض نے قرآن کی قراءات اور مخارج حروف کی درست ادائیگی  پر عمر بیتادی، تو کچھ اہل علم نے قرآن کی زبان اور قواعد پر اپنی پوری  توجہ صرف کردی  اور کچھ لوگوں نے قرآن کے مضامین، معانی اور مطالب کو اہم سمجھا، کسی نے قرآن کے عقلی دلائل پر توجہ دی اور کسی نے اصول دین اور معاصر مسائل کا استنباط کیا، یا  کسی نے قرآن کی فصاحت و بلاغت نیز قرآن کے الفاظ کے معانی حقیقی اور مجازی  پر نگاہ ڈالی۔ غرض قرآن مجید  کے نزول  کے بعد علوم و فنون کے ایسے شاہکار سامنے آئیے جس کی مثال سابقہ اقوام میں نہیں ملتی ۔

 قرآن کی پہلی  وحی  ہی علم اور آگاہی سے متعلق تھی، مسلمان علم و حکمت کی اہمیت سے واقف تھے ارشاد باری تعالی ہے : 

" وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ(البقرة : 269)" 
( اور جس کو حکمت ملی ، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔) 

ہمارےعلماء نے  قرآن مجید کے اسالیب میں پنہاں خصوصیات کو مختلف ناموں سے بیان کیا ہے ۔  یہاں ان میں سے چند خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 

1- نظم قرآن 

اس سے مراد قرآن مجید کے کلمات اور الفاظ، آیات اور سورتوں کی بندش اور قرآن مجید کے مضامین کا باہمی ربط ہے ، جس کے لیے علماء نے" نظم قرآن" کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ نظم کےمعنی موتیوں کو ایک لڑی میں پرودینا ، گویا قرآن مجید کے الفاظ ، فقرے ، آیات اور سورتیں یا مضامین خوبصورت موتیوں کی طرح ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ۔ بعض علماء نے آیات اور سورتوں کی ترتیب کیے لیے " نظام " اور " تناسب " کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے ، جبکہ الفاظ اورکلمات کی ترتیب کےلیے " نظم " کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ 

 قرآن مجید کے الفاظ کے نظم و نسق کا ایک پہلو صوتی ہم آہنگی ہے اس میں  الفاظ کو فقرے میں اس طرح جوڑا کیاگیا تا کہ وہ انسانی کلام کی فصاحت و بلاغت کے معیار کے مطابق ہو، اور قاری یا سامع کی سماعت میں خوشگوار تاثر پیدا ہو، اس پہلو سے قرآنی الفاظ کے صوتی ہم آہنگی کس درجہ اعلی ہے؟ وہ کسی مصری قاری کی تلاوت سن کر اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ اس کا اعتراف جدید دور کے صوتی نظام کے ماہرین نے بھی کیا ہے انہوں نے جدید آلات کی مدد سے قرآنی الفاظ کی صوتی آہنگ کا جائزہ لیا تو ان کے سامنے قرآن  کى صوتی آہنگ کا اعجاز ظاہر ہوا ۔

 اسی طرح علماء کے نزدیک  قرآن کریم کے تمام مضامین ، معانی اورمطالب میں باہم ربط پا یا جاتا ہے۔ بعض علماء نے قرآن مجید کے اس اسلوب کو ( بلا کسی تشبیہ کے ) غزل مسلسل کی طرح قرار دیا، جس طرح ایک غزل میں ہر شعر بظاہر الگ الگ معلوم ہوتا ہے لیکن غور کرنے سے تمام اشعار میں ایک گہری معنوی مناسبت پائی جاتی ہے ۔ جس کو وحدۃ الموضوع کہا جاتا ہے ۔ ہر شعر یا مختلف مضامین کے مابین ایک ہم آہنگی ہوتی ہے۔ 
   
ہر دور میں علماء نے قرآن مجید کی اس اندرونی ساخت ، آیات و سورتوں کی ترتیب اور تناسب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ قرآن مجید کے مضامین کا باہمی تعلق اور ربط کس نوعیت کی ہے ؟ اور اس لے بھی کہ عام قاری جب قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو بظاہر مضامین میں بے ربطی محسوس کرتا ہے یا بہت سارے مضامین ایک طرح کے نظر آتے ہیں یا ایک ہی جگہ یا سورت میں مختلف مضامین یکجا ملتے ہیں ، اگر کسی جگہ توحید کا مضمون ہے تو آخرت کا بھی ہے، کہیں نبی کا تذکرہ ہے تو ساتھ ہی مختلف اقوام پر تبصرہ بھی ، کہیں اخلاقی تعلیمات ہیں تو ساتھ ہی فقہی احکام بھی ، قرآن مجید کے  اس طرح کے بنیادی مضامین تقریبا ہر سورت اورہر جگہ موجود ہیں۔     

مثلا سورہ فاتحہ کا آغاز توحید کے مضمون سے ہوتا ہے پھر فورا ہی آخرت کا ذکر آجا تا ہے اس کے بعد عبادت اور استعانت کا ذکر ہوا ، پھر صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا ہے، ساتھ ہی انعام یافتہ لوگوں  اور ضالین کی گمراہی کی طرف اشارہ  ۔ 

غرض یہ تمام مضامین اس ایک سورت میں موجود ہیں ۔ یہی اسلوب یا نظم، پورے قرآن مجید اور ہر سورت میں موجود ہے ۔  مفسرین کو معلوم ہوا کہ  اگر اس اندرونی ساخت یعنی نظم و نسق کو نظر انداز کرکے کسی کلمہ یا آیت کی تفسیر اور تشریح کی گئی ہے تو وہ قرآن کے اصل مدعا اور مطلب سے ہٹ جاتا ہے ۔ اس لئے علماء نے قرآن مجید کی اندرونی ساخت، آیات اور سورتوں کی ترتیب اور تناسب کو جاننے کی کوشش کی ہے ۔

اس نظم ونسق کا اعجاز یہ ہے کہ قرآن مجید کے تمام مضامین ہروقت قاری کی نظر میں ہوتےہیں ، دوسرا یہ ہے کہ قرآن مجید کے معانی اور مضامین اس طرح بکھرے ہوئے نہیں ہیں جس طرح دیگر آسمانی کتابوں میں ہیں ۔ بائبل کی کتابوں کو موضوعات کے حساب سے مرتب کیا گیا ہے ۔ سب سے پہلے کتاب پیدائش ، اس میں کائنات کی تخلیق کا ذکر ہے ، اسی  طرح  سے دیگر کتب کی ترتیب ہے ، اس کا نقصان یہ ہوا کہ جس کو کسی خاص موضوع سے دلچسپی ہے اس کا مطالعہ کر کے باقی دیگر موضوعات کو ہاتھ نہیں لگاتا ، اس لے کروڑوں یہودی اور عیسائی ایسے ہوں گے جنہوں نے بائبل کے ان حصوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی جن سے ان کو لگاؤ نہیں تھی ۔ انہوں نے تورات ، زبور، انجیل کا صرف وہی حصہ پڑھا جس کی ان کو ضرورت تھی۔

 اگر قرآن مجید کے مضامین بھی اسی ترتیب سے ہوتا مثلا ایک کتاب عقائد ، ایک کتاب قانون ، ایک کتاب اخلاق ، تو قرآن پاک سے مسلمانوں کی دلچسپی کا حشر وہی ہوتا جوتورات اور انجیل کا ہوا ۔ یہی معاملہ دیگر علوم کی کتابوں کے ساتھ بھی ہے ۔ جس کو ادب سے دلچسپی ہے وہ کبھی معاشیات کی کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتا ، اور جس کو فلسفہ سے لگاؤ ہے وہ کبھی دیگر کتابوں سے دلچسپی نہیں لیتا بلکہ فلسفہ کی کتب ہی زیادہ مطالعہ کرتا ہے ۔

  نظم قرآن کے بارے میں ہمارے قدیم مفسرین میں امام رازی ؒ کا نام سب سے زیادہ روشن ہے انہوں نے سورتوں اور بعض جگہ آیاتوں کی مناسبت بیان کی ہے، برصغیر میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے مختلف سورتوں کے مضامین کے مابین ربط اور ان  کی ترتیب میں پنہاں حکمتوں کو بیان کیا ، مولانا حمید الدین فراہی ؒ اور ان کے شاگر مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے ایک خاص نظام دریافت کیا ، پھر اس کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی ؒ اپنی تفسیر تدبر قرآن لکھی ہے۔ ان کے علاوہ سید ابوالاعلی مودودی ؒ اور مولانا مفتی شفیع ؒ نے بھی اپنی اپنی تفسیر میں سورتوں اور مضامین قرآن  کے مابین مناسبت کی نشان دہی کی ہے ۔

2- خطیبانہ اسلوب 


قرآن مجید کا اسلوب خطیبانہ ہے ، یہ قدیم عربی خطابت سے قریب ضرور ہے لیکن اس کی طرح نہیں، بلکہ قرآن مجید کا انداز خطابت کئی لحاظ سے مختلف ہے، قرآن کا جو حصہ نازل ہوتا آپ ﷺ اس کی تلاوت فرماتے اور پھر انہیں خطبات کو تحریری شکل دی جاتی ۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ آپ ﷺ بجائے تقریر کے قرآن مجید کی تلاوت فرمائی ۔  ایک مرتبہ آپ ﷺ حرم شریف میں تھے کفار مکہ جمع تھے اور آپ کے ساتھ استہزاء کر رہے تھے ۔ آپ نے خطاب کا ارادہ فرمایا ہی تھا کہ سورہ نجم نازل ہونی شروع ہوگئی تو اپنی تقریر کے بجائے سورہ نجم کی تلاوت فرمائی ۔ 

مقرر جب تقریر کرتا ہے تو دوران خطاب بہت سی باتیں سامعین کی عقل اور فہم پر چھوڑ دیتاہے لیکن یہی باتیں جب تحریر میں لائی جاتی ہیں تو اس میں  بہت سی باتیں جن کا تعلق براہ راست سامعین سے یا ماحول سے ہوتی ہیں  رہ جاتی ہیں اس طرح  ایک قاری کے لیے تقریر کو تحریر کی صورت میں  سمجھنے میں دقت ہوتی ہے، یا تحریر شدہ تقریرکے سیاق و سباق کو ملانے لیے بعض وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ قاری  تقریرکے مدعا کو سمجھنے میں کچھ کمی محسوس کرےگا،  اس لے قرآن مجید  کو سمجھنا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس ماحول اور اس دور کے حالات سے براہ راست آشنا تھے لیکن بعد والوں کے لیے قرآن مجید کو سمجھنے میں  مشکل پیش آئی۔ اس لیے مفسرین نے قرآن مجید کے خطبات کے تمام اشارات کو پر کرنے کی کوشش کی، اسی فن کو علماء نے تفسیر کا نام دیا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ 

اس کی ایک مثال یہ ہے ارشاد باری تعالی ہے : 

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (4)
 ( سورۃ المزمل) 

یہاں ہر فقرہ انتہائی مختصر ہے، ان جملوں کا مخاطب آپ ﷺ ہیں ، اس لیے آپ ﷺ کو ہی براہ راست اس خطاب کا علم تھا کہ یہاں کس لفظ کس فقرہ سے کیا مراد ہے؟  پھر بعد کے زمانے میں مفسرین نے اس خطیبانہ کلام کی تفصیلات  بیان کی ہے ۔ جس کی مثالیں تفسیر کی کتابوں ميں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ 

3-  ایجاز اور جامعیت  

 قرآن مجید میں مختلف مضامین ہیں، احکام،  شرائع، امثال، مواعظ ، تاریخی واقعات، مظاہر کائنات  اور مناظر قیامت، اللہ تعالی نے  ان  تمام باتوں کی وضاحت کےلیے مختلف  اسلوب تعبیر اختیار فرمایا، تشبیہ ، تمثیل، انشائیہ ، خبریہ، وغیرہ ۔ لیکن یہ سب  اسالیب غیرمعمولی ایجاز اور جامعیت کے حامل ہیں ، یہ ایجاز اگرچہ مدنی سورتوں میں بھی ہے لیکن مکی سورتوں کے ایجاز کی شان ہی اور ہے ۔ بعض جگہ ایک ایک لفظ میں معانی کا سمندر پنہاں ہے ۔ مکی سورتوں کے ایجاز کی ایک مثال یہ ہے۔  ارشاد باری تعالی ہے : 

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ( سورۃ المدثر ) 

اس آیت میں ہر فقرہ ایک ایک لفظ پر مشتمل ہے جیسے :  فَأَنْذِرْ ، فَكَبِّرْ ،فَطَهِّرْ، فَاهْجُرْ،  تَسْتَكْثِرُ، فَاصْبِرْ۔۔۔۔۔۔ ہر فقرہ الگ الگ ہدایات اور نصیحتوں  پر مشتمل ہے، جن کا مخاطب براہ راست آپ ﷺ ہیں، اس لئے مفسرین نے ان الفاظ اور فقروں  کی تفسیر آپ ﷺ کی سیرت پاک کی روشنی میں کی ہے،  جیسے "المدثر" ایک پورے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب آپ ﷺ پر پہلی بار غار حراء میں جبرائیل ؑ وحی لے کر آئے تھے تو آپ ﷺ کو نبوت کی ذمہ داری کا اتنی شدت سے احساس ہوا کہ آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرمارہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو، مجھے چادر میں لپیٹ دو، اس خطاب میں  يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سے اس پورے واقعہ کی طرف اشارہ ہے، اس سے قرآن کے اسلوب کی جامعیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ 

       ارشاد باری تعالی ہے  : 
 ( وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ) ( لقمان : 27)

" زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے ) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے ) ختم نہ ہوں گی"

4-  صداقت اور حقیقت 

 قرآن نے جو کچھ پیش کیا وہ سب صداقت اور حقیقت پر مبنی ہے، قرآن مجید میں کوئی بات خلاف عقل ، خلاف فطرت ، خلاف تہذیب یا اخلاق نہیں ہے۔

چانچہ آج علم اور ادب کی دنیا میں قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی ثقہ تحریر نہیں ہے ۔ یہ ایک متفقہ رائی ہے ، اس بات کے گواہ غیر مسلم سکالر بھی ہیں ۔ اس عظمت اور مقام میں دیگر آسمانی کتب کی کوئی حیثیت نہیں ۔ مغرب کے پاس بائبل کے نام سے آسمانی کتابیں ہیں لیکن وہ جدید مغربی سکالروں کی نظر میں ہمیشہ مشکوک رہی ہیں ۔ قرآن گواہی دیتا ہے کہ

( فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ ( البقرة :  79) 
 " پس تباہی ہے اُن لوگوں کیلے جو اپنے ہاتھوں سے تحریر لکھ کر ، لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے  تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ۔ اُن کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے  اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت ہے۔" 
  یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی طویل تاریخ میں اسلام کے نظریات اور خالص علم وادب کے مابین کبھی تعارض پیدا نہیں ہوا، اگرچہ  جدید دور میں  بعض نام نہاد روشن خیال ادباء اورنقاد کو یہ غلطی فہمی ہوئی کہ دین کا یا دینی نصوص کا ادب اور فن سے کیا تعلق ہے؟   یہ غلط فہمی در اصل مغرب سے منتقل ہوکر آئی ، چند مسلم ادیبوں  کے ذہنوں پر سوار ہوگئی، جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ سچا ادب اور اور دین کے مابین کبھی تصادم نہیں ہوا۔ 

 بد قسمتی سے انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب کے پاس ادب اور فن کے نام سے ایسے لٹریچر وجود میں آئیے، جن کا حقیقی دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔  جس طرح ہومر نے اپنے الیڈ کی بنیاد من گھڑت افسانوں پر رکھی ہے اسی طرح جدید افسانہ اور ڈرامہ میں سچے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں۔ فکشن کے نام سے بہت سے افسانے اور ڈرامے  جھوٹے واقعات پر مبنی  ہیں ۔ جبکہ قرآن پاک اس طرح کے فنی خرافات سے پاک ہے۔  ارشاد باری تعالی ہے :   (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ )،  قرآن نے علمی صداقت اور تاریخی حقائق کو ایسے اسلوب میں پیش کیا ہے  جو بجائے خود ایک معجزہ ہے۔

علماء اسلام نے ہر دور میں شعراء اور ادباء کا خیر مقدم کیا ۔ عربی ، فارسی اور اردو زبان کی ہزار سالہ تاریخ گواہ ہیں کہ اس دور کے تمام بڑے بڑے شعراء اور ادباء مسلمان تھے جنہوں نے دینی علوم کے ساتھ ساتھ ادب کی بھی قیادت کی ۔

5- معجزانہ اسلوب

قرآن کے معجزانہ اسلوب کو سب سے پہلے عرب کے ادباء ، خطباء اور ماہرین لغت نے محسوس کیا، اس لیے غلط فہمی سے کبھی قرآن کو جادو کا منتر اور کبھی شاعری کہتے، لیکن ان کو معلوم ہوا کہ قرآن نہ شاعری ہے نہ جادو کا منتر بلکہ قرآن مجید ایک منفرد نوعیت کا کلام ہے، اس کی مثال نہ عرب کی شاعری میں ہے نہ خطابت میں اور نہ عرب کی کہانت اور جادوئی منتر میں، قرآن میں شعر جیسی غنائیت اور موزونیت تو ہے پر وہ شاعری نہیں، قرآن میں  خطابت کا زور بیان بھی ہے لیکن وہ عرب خطباء کے کلام سے بالکل مختلف ہے، کلام عرب کی طرح  اختصار و جامعیت بھی ہے، لیکن اس میں  معانی و مطالب اور معارف و حقائق کی گہرائی بھی ہے ، حکمت و دانائى کی موتیاں بھی ، اس میں دلائل اور براہین کا تنوع اور استدلال اور قوت بیان بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ان سب کے ساتھ یہ کلام فصاحت اور بلاغت کے اس اعلی معیار پر فائز ہے جس تک جن و بشر ملکر بھی نہیں پہنچ سکتے۔ 

ارشاد ہوا : 

وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ  فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ( البقرة : 23،  24)
              
ترجمہ : اگر تم قرآن کے بارے میں ذرہ بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ ) پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بلالو۔ پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کرسکو اور یقینا کبھی نہیں کرسکوگے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ 

اس آیت میں خاص کر عرب کو زبردست چلینج دیا گیا ہے کہ اگر ایسا کلام کوئی انسان بنا سکتا ہے تو تم بڑے فصیح و بلیغ ہو تم سب مل کر قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ،  ساتھ ہی قرآن مجید نے دعوی کیا ہے کہ تم سب مل کر بھی ایسا نہیں کر سکوگے اور واقعہ یہ ہے کہ اہل عرب جو اپنی زبان و ادب پر ناز کرتے تھے ان سب کو اس چلینج کے بعد سانپ سونگھ گیا اور کوئی شخص یہ چلینج قبول کرنے کے لیے آگے نہ بڑھا، بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں اور خطیبوں  نے اس خدائی کلام کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اس طرح قرآن کا اعجاز ان پرہمیشہ ہمیشہ کے لیے  ثابت ہوگیا ۔ 

6-  قصص، امثال اور واقعات کا قرآنی اسلوب 

قرآن مجید کے زیادہ تر حصوں کا تعلق قصص، امثال ونظائر، انسانی جذبات واحساسات اور مناظر قیامت اور احوال آخرت کی تعبیرات سے ہیں اور یہ تقریبا تین چوتھائی ہیں، باقی ایک حصہ میں شرعی احکام اور کچھ تنبیہات ہیں۔  قرآن میں ان تمام موضوعات  کی تعبیر کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ( بلاتشبیہ  و تمثیل صرف وضاحت کے لیے ) جدید ادبی اصطلاحات میں واقعہ نگاری، منظر نگاری، تصویر کشی اور شخصیت نگاری یا خاکہ نگاری سے ملتا ہے ، ہم جب قیامت کے مناظر، واقعات، شخصیات اور دیگر مضامین کو قرآن کے لفظوں اور آیات میں  پڑھتے ہیں تو وہ نہ صرف ذہنوں میں نقش ہوتے ہیں بلکہ مجسم اور منقش ہوکر تصور کی نگاہوں کے سامنے نمایاں ہوجاتے ہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے الفاظ کے ذریعے جو تصویر کھینچی ہے رنگ ، سیاہی اور جدید کیمرے بھی اس سے عاجز ہے ، سید قطب شہید کے مطابق قرآن کےانداز بیان اور تعبیر کی اصل اساس ہی تصویر کشی اور منظر نگاری ہے ان کے مطابق اس اسلوب کو قرآن کے اکثر مضامین کے بیان  میں ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ صرف تشریعی احکام کا موضوع اس سے خارج ہے ۔ 

قرآن کریم کے اسلوب کا ایک امتیاز یہ ہے کہ الفاظ ، معانی اور مطالب کی ذہنی اور متخیلہ صورت کو مجسم اور متحرک صورت میں پیش کیا گیا ہے ، تخیل سے مراد وہ معانی جو  انسانی وجدان میں پوشیدہ ہیں،  قرآن نے ان معانی کی  مجسم منظر کشی کی ہے ، ان کے ذریعے تخیل کو حرکت میں لا یاگیا تاکہ متخیلہ صورت ان مناظر اور حرکات سے مشابہ ہوجائے جو خارج کی زندگی میں رنگ اور صورت میں موجود ہے ۔ اگر قرآن ماضی کا کوئی واقعہ بیان کرتا ہے تو قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ واقعہ اس کے سامنے وقوع پذیر ہے اس کا اندازہ جدید دور کی فلم بینی سے کيا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال درج ذیل آیت  ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: 

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ (الانفال: ٢٢)

کچھ شک نہیں کہ اللہ کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتروہ ہے جو  بہرے، گونگے ہیں، جو کچھ نہیں سمجھتے۔ 

عربی زبان میں " الدواب"  کا لفظ عموما حیوانات کے لے استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں انسان بھی شامل ہے اس لحاظ سے " دابۃ" کے معنی ہیں زمین پر چلنے والا اور انسان بھی زمین پر چلتا ہے اس لیے اس کو بھی دابۃ کہ دیتے ہیں۔  لیکن اس لفظ کو انسان کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ  عموما حیوانات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ آیت میں  انسان کے لیے "دابۃ"  کا لفظ استعمال کرنا پھر اس کو گونگے بہرے کہ کر اس کی حیوانی حالت کو نمایاں کرنا جس کی وجہ سے وہ  قبول ہدایت سے محروم ہے۔ ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ  اس طرح ایک حیوان نما انسان کی تصویر نمایا ہوکر ہماری نگاہ میں آجا تی ہے اور ساتھ ہی "لایعقلون"  (وہ عقل سے کام نہیں لیتے ) کے اضافہ سے " حیوانی صفات  کی مزید وضاحت ہوگئی۔ اس طرح لغوی اور معنوی اعتبار سے قاری اور قرآن مجید کے الفاظ ، معانی اور متخیلہ صورت کے درمیان ایسی مطابقت ہوجاتی ہے جس طرح جدید اصطلاح کے مطابق ( بلاتشبیہ و تمثیل )  ایک فلم اور فلم بین کے مابین ہوتی ہے، یہ قرآن کے اسلوب بیان کا معجزانہ کمال ہے قرآن کے سوا کسی کلام میں اس جیسی خوبیاں  ہمیں نہیں مل سکتی ۔

 قرآن مجید کا ایک اسلوب منظرنگاری ہے، مختلف مناظر کو عام زندگی  سے قریب تر کر کے پیش کیا ہے ، قرآن نے اپنے معانی کو متحرک لفظوں کی مدد سے ایسی تصویر کشی کی کہ ان مناظر میں ایک طرح کی زندگی پیدا کردی ہے ، مثلا قیامت کے ہولناک مناظر کی تصویر کشی کی ہے۔  ارشاد باری تعالی ہے:

"یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ وَ کَانَتِ الۡجِبَالُ کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا  " ( المزمل : 14)

جس دن زمین اور پہاڑ کا نپنے لگیں اور پہاڑ ریت کے ٹیلے ہوجائیں گے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہوا :

" فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا  السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ " ( المزمل :17) 

 تو اس دن س تم  کیونکر بچوگے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس سے آسمان پھٹ جائے گا ۔
        قرآن کی تلاوت کے وقت ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کائنات کی ہرچیز زندہ اور متحرک ہے درخت،  انسان ، حیوان ، پہاڑ ، جنگل ، سمندر، بادل ، زمین،  آسمان ، چاند،  سورج،  ستارے  گویا ہر چیز زندہ مناظر ہے کائنات میں کوئی چیز مردہ اور بے جان اور ساکت نہیں ۔ جیسے " یسبح لہ ما فی السموات والارض"  کے مطابق کائنات میں ہر سو، ہر چگہ، ہر لمحہ اس کےمظاہر کی تسبیحات گونج رہی ہیں۔ جیسے ایک جگہ صبح کا منظر قرآن میں ملتا ہےگویا ایک جاندار کی طرح سانس لیتا محسوس ہوتا ہے ،  ارشاد باری تعالی ہے :

والصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسْ  (التکویر)  اور صبح کی قسم جب وہ سانس لیتی ہے !

اسی طرح  قرآن کی زبان میں رات بھی ایک جاندار کی طرح چلنے لگتی ہے۔

،واللَّیْلِ اِذَا یَسْر (الفجر : 4 )  قرآن کے نزدیک دن تیزی سے بھاگ کر رات کو تلاش کر تا ہے ۔

یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ   (الاعراف : 54)  "وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا  چلا آتا ہے "
        یہ چند مثالیں ہیں، اس طرح کی مثالیں قرآن کی ہر سورت اور ہر جگہ موجود ہیں ۔ 

----------------------------------------------
مصادر و مراجع : 

1- مولانا سید ابوالاعلی مودی ؒ کا مقدمہ جو تفہیم القرآن جلد اول میں ہے۔
2- مولا حمید الدین فراہی کے مختلف عربی مضامین جو اردو ترجمہ اور تشریح کے ساتھ  ان کے شاگرد مولانا امیں احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے شائع کیے ہیں۔
3- سید قطب شہید کی کتاب "التصویر الفنی فی القرآن" جس کا  اردو ترجمہ  پروفیسر غلام احمد حریری نے"  قرآن مجید کے فنی محاسن" کے نام سے کیا ہے ۔