معرکۂ احد کے واقعات پر قرآن کا تبصرہ

معرکۂ احد کے واقعات پر قرآن کا تبصرہ

سورہ آل عمران کی  آیات 121 تا 129 میں   ان واقعات و حالات پر تبصرہ ہے جو غزوہ احد کے موقع پر پیش آئے اور یہ سلسلہ بیان اس  سورۃ کے آخر تک چلا جاتا ہے ۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی اپنی ہی ایک جماعت کے بے تدبیری سے جو شکست پیش آئی اس نے اسلام اور کفر کی اس کشمکش سے تعلق رکھنے والے ہر گروہ پر کسی نہ کسی پہلو سے اثر ڈالا۔ مسلمانوں میں جو لوگ کمزور ایمان والے  تھے وہ اس حادثہ سے بد دل ہوگئے اور ان کی اس بددلی سے منافقین نے فائدہ اٹھا کر ان کے دلوں میں اسلام، اسلام کے مستقبل اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مختلف قسم کے وسوسے بھرنے شروع کردئیے۔ یہود کو بھی اس حادثے سے بڑی شہ ملی، وہ از سرِ نو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں سرگرم ہوگئے۔ قریش کو بدر کی شکست سے جو ضرب پہنچی تھی اس کا زخم بھی گویا اس واقعہ سے مندمل ہوگیا اور وہ پھر یہ حوصلہ کرنے لگے کہ اسلام کو زک پہنچائی جا سکتی ہے ۔
یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ احد کے واقعات پر تبصرہ کر کے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو اس موقع پر مخالفین، لوگوں کے ذہنوں میں پیدا کر رہے تھے۔ ساتھ ہی یہی بہترین موقع تھا اس بات کے لیے کہ مسلمانون کی کمزوریوں اور غلطیوں پر گرفت کی جائے اور آئندہ ان کو ان سے احتراز کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ یہ امت کمزوریوں سے پاک ہو کر اس منصب کی ان ذمہ داریوں کی صحیح طور پر اہل ہوسکے، جس پر ’ کنتم خیر امۃ‘ والی آیت میں اس کو سرفراز کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب اس سورۃ میں بات یہاں تک پہنچی کہ تمہی غالب اور فتحمند ہوگے اور تمہارے مخالفوں کی کوئی چال بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی بشرطیکہ تم صبر اور تقوی پر قائم رہو تو بہترین موقع گویا احد کے واقعات پر تبصرہ کر کے یہ دکھانے کا آگیا کہ صبر اور تقوی کے پہلو سے وہ کیا خامیاں ابھی جماعتی زندگی میں موجود تھیں جو اس افتاد کا باعث ہوئیں اور اس سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کے کیا کیا سبق ملتے ہیں۔ (ماخوذ از تدبر قرآن، امین احسن اصلاحی  ) 

اس کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگ احد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
شوال سن ٣ ہجری کی ابتدا میں کفار قریش تقریباً ٣ ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، اور پھر وہ جنگ بدر کے انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے، جو شہادت کے شوق سے بےتاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار ان کے اصرار سے مجبور ہو کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا۔ ایک ہزار آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلے، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبداللہ ابن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ عین وقت پر اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کرلیا تھا، مگر پھر اولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہوگیا۔ ان باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں (مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جبیر کے زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کر دی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا۔ “ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لوٹنا شروع کردیا۔ ادھر جن تیر اندازوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تاکیدی حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بر وقت فائدہ اٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کردیا۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوگئے۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کر دیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد و پیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود زخمی ہوچکے تھے۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ ہیں، چنانچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے۔ اس موقع پر یہ ایک معما ہے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار مکہ کو خود بخود واپس پھیر دیا۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہوچکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے۔(تفہیم القرآن، سید ابوالاعلی مودودیؒ  )

 اب اس روشنی میں  آیات کی تلاوت فرمائیے ۔ 

 وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ  ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ      (١٢١)
(جب تم صبح کو اپنے گھر سے نکلے اور مسلمانوں کو جنگ کے مقامات پر متعین کیا اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔)

یہ آیت  تمہید ہے اس تبصرے کی جو جنگ احد کے واقعات اور ان سے پیدا شدہ اثرات پر آگے آ رہا ہے۔ یہ جنگ چونکہ ابھی تازہ تازہ ہوئی تھی، اس وجہ سے ہر شخص کے سامنے تھی، نام لیے بغیر بھی اس کے واقعات کی طرف اشارہ کردینا کافی تھا۔ لیکن یہ تبصرہ چونکہ بعض ایسے حالات و اثرات پر بھی تھا جن کے بعض گوشے بعض پارٹیوں کی درپردہ سازشوں سے تعلق رکھنے والے تھے یا ان کا تعلق ذہنی و قلبی تصورات و تاثرات سے تھا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات، سمیع و علیم، کا حوالہ دے کر تمہید ہی میں سب کو متنبہ کردیا کہ اس تبصرے پر کسی کے لیے چون و چرا، ردوقدح اور بحث و تردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ تبصرہ اس کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا سنتا ہے۔ اس نے جو کچھ بھی کہا ہے سب کچھ بے خطا سمع و علم پر مبنی ہے ۔  (ماخوذ از تدبر قرآن، امین احسن اصلاحی  ) 

ذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا  ۙوَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا  ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ     (١٢٢)
(جب تم میں سے دو جماعتوں نے ارادہ کیا کہ ہمت ہار دیں اور اللہ ان دونوں جماعتوں کا مدد گار تھا۔ اور اللہ ہی پر چاہئے کہ مومنین بھروسہ کریں ۔)

 اس آیت میں  جن دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے، مفسرین کے بیان کے مطابق، وہ قبیلہ خزرج کے بنو سلمہ اور قبیلہ اوس کے بنو حارثہ ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے اندر منافقین کی شرارت کی وجہ سے کچھ بزدلی پیدا ہوئی لیکن پھر وہ سنبھل گئے۔ منافقین درحقیت اس جنگ کے لیے نکلنا نہیں چاہتا تھے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس کمزوری کا اندازہ تھا۔ چنانچہ آپ نے یہ چاہا کہ نکلنے سے پہلے صحیح صورتِ حال سامنے آجائے۔ اس کے لیے امتحاناً آپ نے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال رکھا کہ قریش کا مقابلہ مدینہ کے ہی اندر سے کیا جائے یا باہر نکل کر، اس کا جواب سچے اور پکے مسلمانوں کی طرف سے تو ظاہر ہے کہ یہی ہوسکتا ہے کہ باہر نکل کر، چنانچہ انہوں نے پورے جوش وجذبے کے ساتھ یہی جواب دیا۔ لیکن منافقین نے مدینہ میں محصور ہو کر مقابلے کی مصلحتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ آنحضرت نے جب صورتِ حال کا اندازہ کرلیا، منافقین کی کمزوری آپ پر واضح ہوگئی تو آپ نے وہی کیا جو آپ کے دل میں تھا اور جس کا اظہار آپ کے جان نثار ساتھیوں نے کیا تھا۔ منافقین نے جب دیکھا کہ ان کی یہ سازش ناکام ہوگئی تو وہ نکلنے کو تو مسلمانوں کے ساتھ نکلے، لیکن نکلنے کے بعد ان کے لیڈر ابن ابی نے ان کو ورغلایا اور اس چیز کو بہانہ بنا کر کہ اس کے مشورے کی قدر نہیں کی گئی، راستے میں تین سو آدمیوں کے لشکر کے ساتھ الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے قدرتی طور پر مسلمانوں کی بعض جماعتوں کے حوصلے پر اثر پڑا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار کفار کے مقابلے میں کل ایک ہزار تھی۔ ایک ہزار آدمیوں میں سے تین سو آدمیوں کا عین موقع پر فرار، ظاہر ہے کہ ایک اہم حادثہ تھا جس سے کمزور طبائع کا اثر لینا قدرتی امر تھا۔ قرآن نے اس کمزوری پر گرفت کی اور فرمایا کہ جو مسلمان اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتے ہیں اللہ ان کا مددگار اور کارساز ہوتا ہے اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان خدا کی مدد اور اس کی کارسازی پر پورا پورا بھروسہ رکھیں۔ جب خدا ساتھ ہے تو منافقوں اور بزدلوں کی کوئی جماعت ساتھ چھوڑ بھی دے تو اس سے کیا بنتا بگڑتا ہے ۔ (تدبر قرآن )

 وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ     (١٢٣)

(آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کرچکا تھا حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔ )

ایمان اور  توکل کا تقاضا واضح کرنے کے بعد بدر کے واقعہ کی بھی یاد دہانی فرما دی کہ جب تمہاری عددی قلت اور مادی بے سروسامانی کے باوجود ابھی کل خدا نے تمہاری مدد فرمائی اور تمہیں شاندار فتح دی تو اس خدا سے کیوں مایوس ہوتے ہو وہ آج بھی تمہارا حامی و ناصر اور ولی و کارساز ہے ۔
  اذلۃ‘ ذلیل کی جمع ہے۔ ذلیل عزیز کا مقابل لفظ ہے۔ عزیز کے معنی ہیں غالب، زور آور اور دوسروں کی دسترس سے باہر، ذلیل کے معنی کمزور، ناتوان اور دوسروں کے لیے لقمہ تر کے ہیں۔ اخلاقی رذالت اس لفظ کے بنیادی اجزا میں سے نہیں ہے بلکہ اس کے لوازم بعیدہ میں سے ہے۔ چنانچہ یہ لفظ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً ’’أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ : وہ مسلمانوں کے لیے نہایت نرم اور کافروں کے لیے نہایت سخت ہیں‘‘۔ یعنی اگر کفار ان کے اندر انگلی دھنسانا اور ان کو اپنے اغراض کے لیے نرم کرنا چاہیں تو وہ پتھر کی چٹان ہیں لیکن مسلمانوں کے لیے نہایت نرم خو ہیں۔ وہ ان سے جس طرح چاہیں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آیت زیر بحث میں بھی یہ لفظ مسلمانوں کی صرف اس وقت کی عددی و مادی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، اس میں اخلاقی ضعف و ذلت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ۔

فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ، میں تقوی کا لفظ، جیسا کہ ہم آیت 120 کے تحت اشارہ کرچکے ہیں، اپنے وسیع معنی میں ہے، یعنی ایمان اور توکل اور خدا کو ولی اور کارساز ماننے کے تقاضے کے خلاف بزدلی اور بے ہمتی کی راہ اختیار کرنے سے بچو۔ خدا کی شرک گزاری کا صحیح حق ادا کرنے کے لیے یہ تقوی ضروری ہے۔ جو لوگ عزم و ہمت سے خالی ہوں گے وہ شیطان سے ہر قدم پر مار کھائیں گے اور حق کے بجائے باطل کی راہ اختیار کرلیں گے۔ ایسے لوگ خدا کی شکر گزاری کا حق ادا نہ کرسکیں گے ۔


مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایک طرف دشمن تین ہزار ہیں اور ہمارے ایک ہزار میں سے بھی تین سو الگ ہوگئے ہیں تو ان کے دل ٹوٹنے لگے۔ اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ الفاظ کہے تھے۔
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ    ١٢٤  بَلٰٓى ۙاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ      ١٢٥
 بےشک، اگر تم صبر کرو اور خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو جس آن دشمن تمہارے اوپر چڑھ کر آئیں گے اسی آن تمہارا رب ﴿تین ھزار نہیں﴾ پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَلِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ ۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ     ١٢٦ 
’ جعلہ‘ میں ضمیر کا مرجع وہ وعدہ نصرت ہے جو اوپر والی آیت میں مذکور ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ سے جو تمہاری مدد کا خاص طور پر وعدہ فرمایا تو یہ اس لیے کہ یہ تمہارے لیے بشارت کا باعث ہو اور تمہیں مخالفین و منافقین کے رویّے سے جو بد دلی ہوئی ہے وہ دور ہوجائے۔ اگر یہ بشارت نہ بھی اترتی جب بھی اہل ایمان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ فتح و نصرت ہمیشہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ عزیز و غالب ہے جس کو چاہے فتح و غلبہ عطا فرمائے، اور حکیم بھی ہے اس وجہ سے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اس آیت پر مزید بحث ہم سورۂ انفال میں کریں گے ۔
(تدبر قرآن )