شان نزول کے بارے میں مولانا مودودی ؒ کا نکتۂ نظر

مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے " آیا کہ سورۃ الدھر مکی ہے یا مدنی "  مفسرین کے اختلافات کا تجزیہ کیا ، اس بارے میں  روایت کا درایتی تجزیہ کرکے  اس کے زمانہ نزول کا تعین کیا ۔  ساتھ ہی شان نزول کے  بارے میں  سلف کے نکتۂ نظر کا  ذکر بیان کیا۔  سورتوں ، آیاتوں کے شان نزول اور زمانہ نزول کے بارے میں  ان کی یہ بحث نہایت دلچسپ اور اہم ہے،  اس سے  شان نزول کے بارے میں ان کا نکتۂ نظر بھی معلوم ہوتا ہے ۔ وہ  لکھتے ہیں ۔ 


" اکثر مفسرین اس( سورۃ الدھر ) کو مکی قرار دیتے ہیں۔ علامہ زمخشری، امام رازی، قاضی بیضاوی، علامہ نظام الدین نیسا بوری، حافظ ابن کثیر اور دوسرے بہت سے مفسرین نے اسے مکی ہی لکھا ہے، اور علامہ آلوسی کہتے ہیں کہ یہی جمہور کا قول ہے لیکن بعض دوسرے مفسرین نے پوری سورت کو مدنی کہا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ سورت ہے تو مکی مگر آیات 8 تا 10 مدینے میں نازل ہوئی ہیں ۔



جہاں تک اس سورت کے مضامین اور انداز بیاں کا تعلق ہے، وہ مدنی سورتوں کے مضامین اور انداز بیان سے بہت مختلف ہے، بلکہ اس پر غور کرنے سے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہ صرف مکی ہے بلکہ مکہ معظمہ کے بھی اس دور میں نازل ہوئی ہے جو سورۃ مدثر کی ابتدائی سات آیات کے بعد شروع ہوا تھا۔ رہیں آیات 8 تا 10 تو وہ پوری سورت کے سلسلۂ بیان میں اس طرح پیوست ہیں کہ سیاق و سباق کے ساتھ کوئی ان کو پڑھے تو ہرگز یہ محسوس نہیں کرسکتا کہ ان سے پہلے اور بعد کا مضمون تو 15 – 16 سال پہلے نازل ہوا تھا اور اس کے کئی سال بعد نازل ہونے والی یہ تین آیتیں یہاں لا کر ثبت کر دی گئیں ۔

دراصل جس بنا پر اس سورت کے، یا اس کی بعض آیات کے مدنی ہونے کا خیال پیدا ہوا ہے وہ ایک روایت ہے جو عطاء نے ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرات حسن و حسین (رض) بیمار ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بہت سے صحابہ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بعض صحابہ نے حضرت علی (رض) کو مشورہ دیا کہ آپ دونوں بچوں کی شفا کے لیے اللہ تعالیٰ سے کوئی نذر مانیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ (رض) اور ان کی خادمہ فضہ (رض) نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے دونوں بچوں کو شفا عطا فرما دی تو یہ سب شکرانے کے طور پر تین دن کے روزے رکھیں گے۔ اللہ کا فضل ہوا کہ دونوں تندرست ہوگئے اور تینوں صاحبوں نے نذر کے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ حضرت علی (رض) کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ انہوں نے تین صاع جو خرید لیے (اور ایک روایت میں ہے کہ محنت مزدوری کر کے حاصل کیے) پہلا روزہ کھول کر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک مسکین نے کھانا مانگا۔ گھر والوں نے سارا کھانا اسے دے دیا اور خود پانی پی کر سو رہے۔ دوسرے دن پھر افطار کے بعد کھانے کے لیے بیٹھے تو ایک یتیم آگیا اور اس نے سوال کیا۔ اس روز بھی سارا کھانا انہوں نے اس کو دے دیا اور پانی پی کر سو رہے۔ تیسرے دن روزہ کھول کر ابھی کھانے کو بیٹھے ہی تھے کہ ایک قیدی نے آ کر وہی سوال کردیا اور اس روز کا بھی پورا کھانا اسے دے دیا گیا۔ چوتھے روز حضرت علی (رض) دونوں بچوں کو لیے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے دیکھا کہ بھوک کی شدت سے تینوں باپ بیٹوں کا برا حال ہو رہا ہے۔ آپ اٹھ کر ان کے ساتھ حضرت فاطمہ (رض) کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ بھی ایک کونے میں بھوک سے نڈھال پڑی ہیں۔ یہ حال دیکھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رقت طاری ہوگئی۔ اتنے میں جبریل (علیہ السلام) حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ لیجیے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اہل بیت کے معاملہ میں آپ کو مبارک باد دی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں یہ پوری سورت آپ کو پڑھ کر سنائی ۔ 

(ابن مہران کی روایت میں ہے کہ آیت " ان الابرار یشربون " سے لے کر آخر تک آیات سنائیں گئیں مگر ابن مردویہ نے ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آیت " و یطعمون الطعام " ۔۔۔ حضرت علی اور حضرت فاطمہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اس قصے کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔) 

یہ پورا قصہ علی بن احمد الواحدی نے اپنی تفسیر البسیط میں بیان کیا ہے اور غالباً اسی سے زمخشری، رازی اور نیسا بوری وغیرہم نے اسے نقل کیا ہے۔

یہ روایت اول تو سند کے لحاظ سے نہایت کمزور ہے۔ پھر درایت کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسکین، ایک یتیم اور ایک قیدی اگر آ کر کھانا مانگتا ہے تو گھر کے پانچوں افراد کا پورا کھانا اس کو دے دینے کی کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک آدمی کا کھانا اس کو دے کر گھر کے پانچ افراد چار آدمیوں کے کھانے پر اکتفا کرسکتے تھے۔ پھر یہ بھی باور کرنا مشکل ہے کہ دو بچے جو ابھی ابھی بیماری سے اٹھے تھے اور کمزوری کی حالت میں تھے، انہیں بھی تین دن بھوکا رکھنے کو حضرت علی اور حضرت فاطمہ جیسی کامل فہم دین رکھنے والی ہستیوں نے نیکی کا کام سمجھا ہوگا۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے معاملے میں یہ طریقہ اسلامی حکومت کے دور میں کبھی نہیں رہا کہ انہیں بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ وہ اگر حکومت کی قید میں ہوتے تو حکومت ان کی خوراک اور لباس کا انتظام کرتی تھی، اور کسی شخص کے سپرد کیے جاتے تو وہ شخص انہیں کھانے پلانے کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ اس لیے مدینہ طیبہ میں یہ بات ممکن نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا۔ تاہم ان تمام نقلی اور عقلی کمزوریوں کو نظر انداز کر کے اگر اس قصے کو بالکل صحیح ہی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ اس سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جب آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس نیک عمل کا صدور ہوا تو جبریل (علیہ السلام) نے آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے اہل بیت کا یہ فعل بہت مقبول ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹھیک وہی پسندیدہ کام کیا ہے جس کی تعریف اللہ تعالیٰ نے سورۃ دہر کی ان آیات میں فرمائی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیات نازل بھی اسی موقع پر ہوئی تھیں۔

 شان نزول کے بارے میں بہت سی روایات کا حال یہی ہے کہ کسی آیت کے متعلق جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں موقع پر نازل ہوئی تھی تو دراصل اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ آیت اس واقعہ پر ٹھیک چسپاں ہوتی ہے۔ امام سیوطی نے اتقان میں حافظ ابن تیمیہ ؒ  کا یہ قول نقل کیا ہے کہ

” راوی جب یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی ہے تو کبھی اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہی معاملہ اس کے نزول کا سبب ہے، اور کبھی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے اگرچہ وہ اس کے نزول کا سبب نہ ہو “

آگے چل کر وہ امام بدر الدین زرکشی کا قول ان کی "کتاب البرہان فی علوم القرآن"  سے نقل کرتے ہیں کہ

” صحابہ اور تابعین کی یہ عادت معروف ہے کہ ان میں سے کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آیت کا حکم اس معاملہ پر چسپاں ہوتا ہے، نہ یہ کہ وہی اس واقعہ کے نزول کا سبب ہے۔ پس دراصل اس کی نوعیت آیت کے حکم سے استدلال کی ہوتی ہے نہ کہ بیان واقعہ کی“


( تفہیم القرآن جلد ششم ص 181-182، سید ابوالاعلی مودودیؒ )