111۔ سورہ مسد : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق و لاحق سے تعلق
اس سورۃ کے عمود اور سابق و لاحق سے اس کے تعلق پر استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ایسی جامع اور حکیمانہ بحث کی ہے کہ ہم اپنی طرف سے کچھ لکھنے کے بجائے اسی کے بعض اہم اقتباسات میں پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں۔ مولانا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
’’ سورۂ نصر کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت فتح مکہ پر تمام کی۔ اسی طرح آپ کے لائے ہوئے صحیفہ کو اس فتح عظیم کے ذکر پر ختم کیا۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ حق اپنے مرکز پر پہنچ گیا۔ خانۂ کعبہ کے مرکز توحید و اسلام اور سرچشمۂ ملت ابراہیم ( علیہ السلام) ہونے کے سبب سے فتح مکہ ہی آپ کی بعثت کا گویا آخری اور تکمیلی کام تھا۔ اس کے بعد صرف ثابت قدمی اور استقامت کی ضرورت رہتی تھی جس کے لئے تین سورتیں اس کے بعد لگا دی گئیں۔ سورۂ اخلاص، جو تمام معارف توحید کا خزانہ اور دین کی بنیاد ہے اور سورۂ خلق و سورۂ ناس دعائے استقامت کی تعلیم اور شیاطین جن و انس کی تاخت سے سے اس خزانہ کی حفاظت کے لئے ۔‘‘
اس کے بعد مولانا علیہ الرحمۃ سورۂ نصر، سورۂ اخلاص اور معوذ تین (سورۂ فلق اور سورۂ ناس کے اس جھرمٹ میں سورۂ لہب کے رکھے جانے کی حکمت یہ بیان فرماتے ہیں :
’’ اس تمہید سے واضح ہوا کہ یہ تمام سورتیں… سورۂ نصر، سورۂ اخلاص اور معوذ تین باہم دگر مربوط ہیں اس وجہ سے سورۂ لہب کا ان کے درمیان رکھا جانا بھی لازماً کسی حکمت پر مبنی ہوگا ورنہ پورا سلسلۂ نظم درہم برہم ہوجائے گا۔ چنانچہ غوروفکر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورۂ نصر میں جس فتح و غلبہ کا ذکر ہے سورۂ لہب میں اسی کی وضاحت و بشارت۔ گویا یوں فرمایا گیا کہ اللہ نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غلبہ دیا اور اس کے دشمن کو برباد کیا۔ چنانچہ دوسرے مقام میں یہ بات یوں واضح فرمائی گئی :
جاء الحق و زھن الباطل ان الباط لکاف زھوقا (بنی اسرائیل۔ ١٧ : ٨١)
حق نمودار ہوگیا اور باطل برباد ہوا۔ بلاشبہ باطل مٹنے ہی کی چیز ہے ۔
اس نظم کی نہایت خوبصورت مثال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس خطبہ میں بھی ہے جو آپ نے فتح مکہ کے دن، خانہ کعبہ کے دروازے پر دیا۔ آپ نے فرمایا :
لا الہ الا اللہ وحدہ و صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزمر الاحزاب وحدہ
خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پو را کیا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور دشمنوں کی تمام پارٹیوں کو یکہ و تنہا شکست دی ۔
بظاہر تو یہ تین الگ الگ فقرے ہیں لیکن ایک صاحب نظر کے لئے ان تینوں کے اندر علی الترتیب تین سورتوں کے مضمون پنہاں ہیں۔ پہلا فقرہ ’ لا الہ الا اللہ وحدہٗ‘ سورۂ کا فرون کے ہم معنی ہے۔ دوسرا فقرہ ’ وصدق وعدہ و نصر عبدہ‘ سورۂ نصر کا ہم مضمون ہے۔ تیسرا جملہ ’ وھز مرالاحزاب وحدہٗ اور سورۂ لہب ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں۔ معلوم ہوا کہ جس طرح یہ تینوں فقرے ایک صاحب نظر کے لئے بالکل مربوط و منظم ہیں اسی طرح جو لوگ ان سورتوں کے مضامین پر غور کریں گے وہ ان سب کو ایک ہی زنجیر کی مربوط کڑیوں کی شکل میں پائیں گے ۔
ب۔ اس امر کا بیان کہ یہ سورۃ مدنی اور فتح مکہ کی بشارت ہے
ایک اہم سوال اس سورۃ سے متعلق یہ بھی ہے کہ یہ  مکی ہے یا مدنی ؟ ہمارے مفسرین نے عام طور پر اس کو مکی قرار دیا ہے لیکن یہ رائے کچھ قوی نہیں معلوم ہوتی۔ اس کے حق میں واحد دلیل جو ان کی طرف سے پیش کی گئی ہے یہ ہے کہ یہ جواب ہے ابولہب کی اس گستاخی کا جو اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت ہوئی کہ اپنے قریبی اعزہ کو خدا کے عذاب سے ڈرائیں تو ایک دن آپ علی الصباح کوہ صفا پر چڑھ گئے اور وہاں ’ واصباحا‘ کا نعرہ لگایا۔ عرب میں یہ نعرہ خطرہ کا الارم سمجھا جاتا۔ یہ نعرہ سن کر قریش کے تمام خاندان آپ کے گرد جمع ہوگئے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر گراں تمہارے اوپر حملہ کے لئے گھات لگائے ہوئے ہے تو کیا تم باور کرو گے، سب نے جواب دیا کہ ہاں ہم ضرور باور کریں گے، ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں پایا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو میں ایک سخت عذاب سے آگاہ کر رہا ہوں جو تم پر آنے والا ہے۔ یہ سن کر ابولہب نے سبقت کر کے کہا : تبالک الھذا دعوتنا !‘ (تیراناس ہو، کیا اسی لئے تم نے ہم سب کو دعوت دی ! )
مفسرین اسی واقعہ کو اس سورۃ کا شان نزول قرار دیتے ہیں کہ جب تبالک کے الفاظ سے ابولہب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا …کے لئے اس کی اور اس کی بیوی کی مذمت میں یہ سورۃ اتاری۔ یہ واقعہ ظاہر ہے کہ مکہ کے بالکل ابتدائی دور میں پیش آیا اس وجہ سے مفسرین کے نزدیک سورۃ کا نزول بھی اسی دور میں ہوا ہے۔ جہاں تک اس واقعہ کا تعلق ہے اس سے تو انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن یہ بات مختلف وجوہ سے عمل نظر ہے کہ یہ سورۃ ابولہب کے جواب اور اس کی اور اس کی بیوی کی مذمت میں نازل ہوئی ہے ۔
اول تو یہی بات کھٹکتی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں میں سے کسی کی گستاخی کا اس طرح ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے۔ جہاں تک مخالفت اور توہین و دل آزاری کا تعلق ہے ابولہب کی کچھ خصوصیت نہیں ہے۔ مکہ اور طائف کے اکثر لیڈر اس جرم میں شریک رہے ہیں لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی تمام زیادتیوں کے جواب میں خود بھی صبر و علم کا رویہ اختیار فرمایا، اپنے صحابہ (رض) کو بھی اسی کی تاکید فرمائی اور اسی رویہ کی تاکید آپ کو بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی فرمائی گئی۔ ان میں سے کسی کے جواب میں بھی، خواہ اس کی گستاخی کی نوعیت کتنی ہی سنگین رہی ہو، آپ کی زبان مبارک سے کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلا جس میں مذمت کا کوئی پہلو ہو۔ آپ کو حکمت اور دل پذیر موعظت کے ساتھ دعوت کی ہدایت فرمائی گئی تھی اور آپ نے اس ہدایت پر ہمیشہ عمل فرمایا۔ مذمت اور سب دشتم تو درکنار آپ نے اپنی قوم کے کفار کو کفار کے لفظ سے بھی، جیسا کہ سورۂ کافرون کی تفسیر میں وضاحت ہوچکی ہے، اس وقت خطاب فرمایا ہے، جب ان پر اتمام حجت ہوچکا ہے اور وقت آگیا ہے کہ آپ قوم سے اعلان برأت کر کے ہجرت کر جائیں۔ یہی طریقہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے دوسرے انبیاء علیہم السلام کا بھی رہا ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت کے بالکل آغاز ہی میں اپنے چچا کے ایک فقرہ سے اس درجہ آزردہ ہوجائیں کہ اس کی مذمت کے جواب میں آپ کی تسکین قلب کے لئے ایک ایسی سورۃ نازل کی جائے جس میں مفسرین کے بقول صرف اسی کی نہیں بلکہ اس کی بیوی کی بھی خبر لی گئی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ’ تبالک‘ کے الفاظ اور ’ تبت یدا ابی لہب‘ کے الفاظ میں باعتبار مفہوم بڑا فرق ہے۔ ’ تبالک‘ کے الفاظ تو بے شک بددعا، مذمت اور تحقیر کے لئے آتے ہیں لیکن یہ بات نہیں ہے کہ ’ تب‘ سے جو دوسرے محاورات پیدا ہوئے ہیں ان کے اندر بھی لازماً ہجو و مذمت کا مفہوم پایا جائے۔ اگر ’ تبالابی لہب‘ کے الفاظ ہوتے تب تو اس گمان کے لئے گنجائش تھی کہ اس کو ابولہب کی بات کا ترکی بہ ترکی جواب سمجھا جائے لیکن الفاظ ’ تبت یدا ابی لہب‘ کے ہیں۔ اس محاورے کے اندر ہجو و مذمت اور بددعا کا مضمون نہیں بلکہ، جیسا کہ آیت کی تفسیر کے تحت ہم واضح کریں گے، ابولہب کیا قتدار کے ڈھے جانے، اس کے انصار و اعوان کے ٹوٹ جانے اور اس کی دولت و حشمت کے برباد ہوجانے کا مضمون پایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ یہ جملہ انشائیہ نہیں بلکہ خبر یہ ہے اور یہ خبر ماضی کے صیغہ میں ابولہب کی بربادی کی پیشن گوئی ہے جو اس وقت کی گئی ہے جب اس پر حجت تمام کی جا چکی ہے۔ پس یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ یہ بالکل ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی ہے بلکہ اس کا نزول اس وقت ہوا ہے جب ابولہب کی تباہی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اس کی موت غزوۂ بدر کے کچھ بعد واقع ہوئی ہے اس وجہ سے اس کا نزول بھی اسی کے لگ بھگ ہوا ہے۔ اسلوب کلام سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ سورۃ اس کی موت سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اگر موت کے بعد نازل ہوتی تو اس کا اسلوب کلام اس سے مختلف ’ الم تر کیف‘ یا اس سے ملتا جلتا ہوتا۔ ماضی کا یہ اسلوب بیان مستقبل میں ہونے والے واقعات کی قطعیت کے اظہار کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کی بکثرت مثالیں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں ۔