112۔ سورۃ الاخلاص : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی


112۔ سورۃ الاخلاص کا تعارف اور مطالب کا تجزیہ
سورہ کا عمود، ترتیب میں اس کا مقام، زمانۂ نزول اور سابق و لاحق سے تعلق
سورہ ان سورتوں میں سے ہے جن کے نام ہی سے ان کے مضمون (عمود) کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کا نام ’ اخلاص‘ ہے اور یہ اخلاص ہی اس کا عمود ہے۔ اخلاص کا مطلب اللہ واحد پر اس طرح ایمان لانا ہے کہ اس کی ذات یا صفات یا ان صفات کے لازمی تقاضوں میں کسی پہلو سے کسی دوسرے کی شرکت کا کوئی شائبہ نہ پایا جائے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کو ماننے کا تعلق ہے۔ دنیا نے اس کو ہمیشہ مانا ہے۔ یہ چیز انسانی فطرت کا بدیہی تقاضا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیطان توحید کا ابدی دشمن ہے اس وجہ سے وہ انسانی فریب دے دے کر اس ماننے میں ایسی ملاوٹیں کرتا رہا ہے کہ ماننا اور نہ ماننا دونوں یکساں ہو کے رہ گیا ہے۔ توحید کی اصل حقیقت کو اجاگر کرتے رہنے ہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے برابر اپنے رسول بھیجے لیکن انسان بار بار اس حقیقت کو پاپا کر کھوتا رہا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید ہی کی خاطر اپنی قوم سے ہجرت کی اور اپنی اولاد کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں بسایا کہ وہ مشرکانہ ماحول سے بالکل محفوظ رہ کر صرف اللہ واحد کی عبادت کرے لیکن پچھلی سورتوں میں آپ نے دیکھا کہ آپ ہی کی ذریت نے آپ ہی کے بنائے ہوئے مرکز توحید (بیت اللہ) کو ایک بت خانے کی شکل میں تبدیل کردیا اور وہ اپنے خود تراشیدہ بتوں کی عصبیت میں اتنی سخت ہوگئی کہ خدا کے آخری رسول سے وہ اس بات پر لڑتی رہی کہ جب تک ان کے بتوں کا مقام تسلیم نہ کرلیا جائے گا وہ خدا کا حق بھی تسلیم نہیں کرے گی یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے جواب میں وہ فیصلہ کن اعلان برأت کرنا پڑا جو سورۂ کافرون میں آپ نے پڑھا ۔
یہ اعلان اگرچہ کافی تھا لیکن اس کا تعلق اصلاً قریش اور مشرکین مکہ سے تھا۔ عرب میں اہل کتاب کے بھی مختلف قبائل تھے۔ یہ لوگ اگرچہ حامل کتاب ہونے کے مدعی تھے لیکن شیطان نے ان کو بھی ورغلا کر شرک کی نہایت گھنائونی قسموں میں مبتلا کر رکھا تھا۔ مدینہ اور اس کے اطراف میں ان کا خاصا اثر تھا یہاں تک کہ دینی معاملات میں اہل عرب بھی ان کی برتری علانیہ تسلیم کرتے تھے ۔
 جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مک میں رہے اس وقت تک تو ان کی مخالفت درپردہ رہی لیکن جب آپ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو ان کی مخالفت بھی علانیہ ہوگئی۔ یہ لوگ چونکہ اہل کتاب تھے اس وجہ سے اسی پندار میں مبتلا رہے کہ قرآن ان کے عقائد و اعمال کو بہرحال مشرکین کے مقابل میں کچھ اونچا درجہ دے گا لیکن قرآن نے ان پر واضح کردیا کہ عقائد ہوں یا اعمال، ہر پہلو سے وہ نہایت گہرے کھڈ میں گر چکے ہیں۔ خاص طور پر نصاریٰ کے شرک پر قرآن نے جو تنقیدکی اس کا اثر ان پر یہ پڑا کہ وہ بھی یہود کی طرح علانیہ میدان مخالفت میں اتر آئے اور مخالفین کے تینوں گروہوں…… مشرکین، یہود اور نصاریٰ……… نے مل کر ایک متحدہ محاذ، اسلام کے خلاف قائم کرلیا۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ اخلاص کی حقیقت واضح کرنے کے لئے آخری سورۃ ایسی جامع ہو کہ وہ شرک کے تمام رخنوں کو یک قلم بند اور مشرکین اور اہل کتاب دونوں پر حجت تمام کر دے۔ چنانچہ یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی۔ اگرچہ ایک گروہ نے اس کو مکی قرار دیا ہے لیکن اس سورۃ کی جامعیت، جیسا کہ آگے وضاحت ہوگی، دلیل ہے کہ یہ مکہ میں ہیں بلکہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے جب اہل کتاب بالخصوص نصاریٰ کی مخالفت بالکل آشکارا ہوگئی ہے ۔
 قرآن میں اس سورۃ کو سورۂ لہب کے بعد جگہ ملی ہے اور ہم پیچھے واضح کرچکے ہیں کہ یہ اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ اب حق کا سب سے بڑا دشمن ختم ہوا اور وقت آگیا کہ اس حقیقی توحید کی منادی اس سرزمین سے پھر بلند ہو جس کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں حرم تعمیر فرمایا۔ سورۂ لہب سے پہلے سورۂ نصر میں فتح کی بشارت تھی۔ اس کے بعد سورۂ لہب میں اسلام کے سب سے بڑے عدد کی ہلاکت کی خبر ہے۔ پھر اس سورہ……الاخلاص……… میں اسلام کے بنیادی پتھر……توحید…… کے اس کے اصلی مقام میں نصب کرنے کا اعلان ہے۔ یہ اعلان پیش نظر رکھئے کہ قریش اور اہل کتاب سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کشمکش ملک و مال کے لئے نہیں تھی بلکہ اس لئے تھی کہ غیر اللہ کی خدائی کے ہر نقش کو مٹا کر اس کی جگہ خدائے وحدہٗ لاشریک کی خدائی کے نقش کو اس طرح اجاگر کردیا جائے کہ کسی کے لئے بھی اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ چنانچہ اس سورۃ میں توحید و اخلاص کا ہر پہلو نمایاں کردیا گیا اور اس کو قرآن کے سب سے آخر میں جگہ دی گئی۔ اس کے بعد جو دو سورتیں ہیں وہ جیسا کہ ہم نے پیچھے اشار ہ کیا، اسی خزانۂ توحید کے پاسبان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ شیطان کی رخنہ اندازیوں سے حفاظت کے لئے وہ اس کے ساتھ لگا دی گئی ہیں ۔

قرآن مجید کی ترتیب اس طرح ہے کہ اس میں سب سے پہلے توحید و اخلاص کی سورۃ ……الفاتحۃ…… کو جگہ دی گئی ہے اور پھر سب سے آخر میں بھی توحید و اخلاص ہی کی سورہ……الاخلاص…… کو جگہ ملی ہے۔ اس سے اس دین میں توحید کی اہمیت و عظمت ظاہر ہوتی ہے کہ وہی اس میں اول بھی ہے اور آخر بھی۔ سورۂ فاتحہ میں خدا کی شکر گزاری کا حق اس پہلو سے واضح فرمایا گیا ہے کہ وہی ’ رب العلمین‘ بھی ہے اور وہی ’ مالک یوم الدین‘ بھی۔ پھر اس سورۃ میں مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے، اللہ تعالیٰ کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو ہر اس رخنہ کو بند کر دینے والی ہیں جن سے شرک کوئی راہ پا سکتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ توحید کی تعلیم میں مبادی کی حیثیت رکھتی ہیں اور مقدمۂ کتاب میں ہم اس آخری گروپ کی اس خصوصیت پر ایک جامع تبصرہ کرچکے ہیں کہ اس میں ان سورتوں کو جگہ ملی ہے جو دین کی تعلیم میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔