110۔ سورۃ النصر : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

سورہ کا عمود، سابق سورۃ سے تعلق اور مطالب کا خلاصہ
سابق سورہ…… الکفرون…… سے متعلق وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ برأت، ہجرت اور معناً اعلان جنگ کی سورۃ ہے۔ اب اس سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت دی گئی ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خاص نصرت غیبی ظاہر ہوگی، مکہ فتح ہوگا اور جس مشن پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مامور فرمایا آپ اس سے سرخ روئی کے ساتھ فارغ ہو کر اپنے رب کی خوشنودی و رضامندی سے سرفراز ہوں گے۔ سورۂ فتح کی ابتدائی آیات میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ وہاں ہم نے وضاحت سے اس کے ہر پہلو پر بحث کی ہے۔ تفصیل کے طالب اس پر ایک نظر ڈال لیں ۔
ہجرت، جہاد اور فتح و نصرت میں جو گہرا ربط ہے اس کی طرف ہم سابق سورہ…… الکفرون…… میں بھی اشارہ کرچکے ہیں اور اس کتاب کے دوسرے مقامات میں بھی اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھئے کہ رسولوں کی دعوت میں ہجرت کا مرحلہ ہی وہ مرحلہ ہے جب ان کی قوم پر اللہ کی حجت تمام ہوئی ہے، جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ، قوم سے الگ ہو کر، اپنی ایک خاص ہیئت تنظیمی بنائی ہے، جب قوم تمام صالح عناصر سے خالی ہوجانے کے سبب سے بالکل ایک جسد بے روح ہو کر رہ گئی ہے اور اہل ایمان اپنے عقائد و تصورات کی آزاد فضا میں پہنچ کر ایک ایسی ناقابل تسخیر قوت بن گئے ہیں کہ جو ان سے ٹکرایا اس نے شکست کھائی اور جس پر وہ گرے اس کو پاش پاش کر کے رکھ دیا۔ چنانچہ رسولوں نے اپنے دشمنوں سے جو جنگ کی ہے وہ ہمیشہ ہجرت کے بعد ہی کی ہے اور اس جنگ میں اگرچہ جماعت کی تربیت کے پہلو سے بعض اوقات آزمائشیں بھی ان کو پیش آئی ہیں لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ان کو وہ فتح حاصل ہوئی ہے جس کو چیلنج کرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوئی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں ۔
ہجرت اور فتح و نصرت کے درمیان یہی وہ رشتہ ہے جس کے سبب سے یہ سورۃ جو بالاتفاق مدنی ہے، ایک مکی سورۃ کی مثنیٰ قرار پائی۔ اس سورۃ کے زمانہ نزول سے متعلق دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ فتح مکہ کے بعد نازل ہونے والی سورتوں میں یہ سب سے آخری سورۃ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ فتح مکہ سے پہلے اس کی بشارت کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اسی دوسرے قول کو ترجیح حاصل ہے ۔
اس کی اول وجہ یہ ہے کہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے یہ بات واضح ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ملت ابراہیم ( علیہ السلام) پر ہوئی تھی اور ملت ابراہیم ( علیہ السلام) کا اصل مرکز چونکہ بیت اللہ ہی تھا اس وجہ سے اس کو خائنوں کے تسلط سے آزاد اور ملت ابراہیمی کی خصوصیات سے معمورو آباد کرنا آپ کے مشن کا اصلی اور تکمیلی کام تھا۔ چنانچہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدۃ۔ ٥ : ٣) میں اسی کام کو آپ کا تکمیلی کام قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو کام ہوئے وہ سب اسی کے توابع و مقتضیات تھے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ عرب میں اصل طاقت قریش ہی کی تھی جو مکہ پر قابض تھے اور بیت اللہ کے متولی ہونے کے سبب سے تمام عرب پر اپنی دھاک جمائے ہوئے تھے۔ ان کی طاقت کو توڑ دینا ہی اصل فتح تھی۔ ان کی طاقت توڑے بغیر کوئی فتح نہ حقیقی معنوں میں فتح ہو سکتی تھی اور نہ ان کی طاقت کے ٹوٹ جانے کے بعد کسی اور کے لئے یہ امکان باقی رہ جاتا تھا کہ وہ مسلمانوں کی کسی درجہ میں بھی کوئی مزاحمت کرسکے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ یہاں جس نصرت اور جس فتح کا ذکر ہے اور وہ جس انداز سے آیا ہے وہ عام نصرت اور فتح نہیں ہے بلکہ یہ اس نصرت اور فتح کا ذکر ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے وعدوں اور سنت الٰہی کے تقاضوں کی روشنی میں ہجرت کے بعد ہر مسلمان کے دل میں رچی بسی ہوئی تھی اور جس کے ظہور کا ہر مسلمان دل سے متمنی تھا۔ یہ وہ نصرت ہے جس کا ذکر سورۂ مجادلہ کی آیت ٢١ کتب اللہ لا غلبن انا و رسلی (اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول) میں آیا ہے۔ اور یہ اس فتح و نصرت کا حوالہ ہے جس کا ذکر سورۂ صف آیت ١٣ میں بدیں الفاظ وارد ہوا ہے : و اخری تحبونھاء نصر من اللہ و فتح قریب ( اور ایک اور عظیم فیروز مندی بھی ہے جس کی تم تمنا رکھتے ہو، وہ ہے اللہ کی نصرت اور عنقریب ظہور میں آنے والی فتح) ان آیات میں جس نصرت اور فتح کی طرف اشارہ ہے ظاہر ہے کہ اس کا تعلق فتح مکہ سے ہے اس کے سوا کسی اور فتح و نصرت کو یہاں مراد لینے کی گنجائش نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اس سورۃ کا نزول فتح مکہ کے بعد مانا ہے انہیں ایک روایت کے سمجھنے میں غلط فہمی پیش آئی ہے لیکن اس پر نہ یہاں بحث کی گنجائش ہے اور نہ غالباً ہماری ساری بحث غور سے پڑھ لینے کے بعد اس کی کوئی خاص ضرورت ہی باقی رہے گی ۔

یہ سورۃ اپنیمزاج کے اعتبار سے یکسر بشارت ہے۔ فیصلہ کن نصرت کی بشارت، مکہ کی آزادی کی بشارت، اللہ کے دین میں لوگوں کے جوق درجوق داخل ہونے کی بشارت اور آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مفوضہ مشن سے سرخ روئی کے ساتھ فارغ ہونے کی بشارت۔ اس آخری بشارت سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ اب دنیا سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رخصت ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے اس وجہ سے آپ کو اپنے رب کی حمد و تسبیح میں مزید اضافہ کر دینا چاہئے تاکہ اس عظیم انعام کا حق بھی ادا ہو جو تکمیل دین کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرمایا اور خدائے تواب کی مزید عنایت بھی آپ کو حاصل ہو تاکہ آپ اپنی سعی کا بڑے سے بڑا اجر اپنے رب کے پاس پائیں۔ اسی ٹکڑے سے قرآن کے سب سے بڑے نکتہ دان حضرت ابن عباس (رض) نے یہ نکتہ نکالا کہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ نکتہ دقیق ہے، جس کے دقیق ہونے کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق (رض) نے اس کی تحسین و تصویب فرمائی ہے۔ لیکن یہ نکتہ بھی اپنے اندر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک بہت بڑی بشارت رکھتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ہم متعلق آیت کی تفسیر کے تحت کریں گے ۔