108۔ سورۃ الکوثر : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ ۔ مولانا امین احسن اصلاحی

سورہ کا عمود، سابق سورۃ سے تعلق اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت
سابق سورہ…… الماعون…… میں آپ نے دیکھا کہ قریش کے لیڈروں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ بیت اللہ کے جوار میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی ذریت کو جس مقصد کے لئے بسایا اور جس کی خاطر ان کے لئے امن اور رزق کی دعا فرمائی وہ مقصد انہوں نے بالکل برباد کردیا۔ یہ گھر خدائے واحد کی عبادت اور فقراء ویتامی کے حقوق کی حفاظت کے مرکز کی حیثیت سے قائم کیا گیا لیکن اب جو لوگ اس پر قابض ہیں ان کو نہ نماز کی خبر ہے نہ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا کوئی لحاظ ہے۔ اس بات کے بیان سے مقصود ظاہر ہے کہ قریش کے اس فخر و ناز پر ضرب لگانا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس گھر کا متولی جو سمجھے بیٹھے ہیں اور یہ گمان جو رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے منظور نظر ہیں ان کو یہاں سے کوئی ہلا نہیں سکتا، یہ محض ایک زعم باطل ہے۔ لیکن اس سورۃ میں صرف فرد قرارداد جرم بیان کر کے بات ختم کر دی۔ یہ نہیں بتایا کہ اس جرم پر یہ لوگ کس سزا کے مستحق ہیں ؟ یہ بات مستقلاً سورۂ زیر بحث میں بتائی ہے۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست خطاب کر کے بشارت دی ہے کہ اب خیر کثیر کے اس خزانہ یعنی بیت اللہ کو ان خائنو سے لے کر ہم نے تمہاری تحویل میں دیا تو تم اپنے رب ہی کی نماز پڑھنا اور اسی کے لئے قربانی کرنا، ان مشرکوں کی طرح اس کو شرک سے آلودہ نہ ہونے دینا۔ ساتھ ہی مخالفین کو یہ وعید بھی سنا دی کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی جو رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوئیں وہ اس گھر کی بدولت ہی حاصل ہوئیں، اس سے منقطع ہوجانے کے بعد وہ تمام برکتوں سے محروم ہوجائیں گے جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوگا کہ ان کی جڑ ہی کٹ جائے گی۔ ان برکتوں سے اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نوازے گا جو اس کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس کے حقوق ادا کریں گے۔ وہ اس سرزمین میں تمکن و اقتدار حاصل کرکے اس گھر کو اس کے اصل ابراہیمی جمال سے منور کریں گے ۔

یہ سورۃ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، بشارت کی سورۃ ہے اور ’ انا اعطینک‘ میں حرف تاکید اور صیغۂ ماضی وعدے کی قطعیت کے اظہار کے لئے ہے جس کی مثالیں قرآن میں جگہ جگہ موجود ہیں ۔

 اللہ تعالیٰ کے ہاں جو بات طے ہوجاتی ہے اس کو کوئی دوسرا بدل سکنے پر قادر نہیں اس وجہ سے اگرچہ وہ مستقبل کے متعلق ہو لیکن قطعیت کے اظہار کے لئے ماضی کے صیغہ میں کی جاتی ہے بالخصوص بشارت کے مواقع ہیں ۔

مکی زندگی کے آخری دور میں، جب مسلمانوں پر مکہ میں عرصۂ حیات تنگ ہو رہا تھا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے فتح و غلبہ کی بشارت مختلف سورتوں میں دی گئی ہے۔ یہ بشارت بھی اسی نوعیت کی ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس بشارت ہی کے سبب سے اس سورۃ کو واقعۂ حدیبیہ کے دور سے متعلق مانا ہے، استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، لیکن میرے نزدیک اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ قرب ہجرت کی سورتوں میں مسلمانوں کی تسلی کے لئے اس قسم کی بشارتیں دی گئی ہیں اور وہ ہر گروپ کی آخری مکی سورتوں میں موجود ہیں۔ ان کے حوالے نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

قریش پر روز اول ہی سے یہ بات واضح تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان کا جھگڑا یہ ہے کہ ملت ابراہیم پر کون ہے، وہ یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ پھر اسی جھگڑے کا لازمی نتیجہ یہ بھی وہ سمجھتے تھے کہ بیت اللہ کی تولیت کا اصلی حقدار وہی ہے جو اصل ملت ابراہیم کا وار ث ہے۔ قریش اپنے موروثی پندار کی بنا پر اپنے آپ کو ملت ابراہیم ( علیہ السلام) کا وارث اور بیت اللہ کی تولیت کا حق دار سمجھتے تھے اور یہ رعونت ان کے اندر اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ وہ حرم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) کے نماز پڑھنے کے بھی روادارنہ تھے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے ذہن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوچکی تھی کہ بیت اللہ پر قریش کا قبضہ غاصبانہ ہے اور ایک دن اس کو ان کے قبضہ سے آزاد کرانا بعثت محمدی کی اصل غایت ہے ۔

یہ بات بھی فریقین پر واضح تھی کہ جو اس گھر سے کٹا وہ ایک شاخ بریدہ ہو کے رہ جائے گا اور اس کی جڑ سارے عرب سے کٹ جائے گی۔ یہ چیز بھی مقتضی تھی کہ ہجرت کے موقع پر ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو اطمینان دلا دیا جائے کہ بیت اللہ کی خدمت و تولیت کا شرف ان کے لئے مقدر ہوچکا ہے۔ جو کشمکش اس وقت قریش کے ساتھ برپا ہے وہ اللہ کے رسول کے غلبہ پر منتہی ہوگی اور جڑ اللہ کے رسول کی نہیں کٹے گی، جیسا کہ قریش گمان رکھتے ہیں، بلکہ اعدائے رسول کی کٹے گی۔ درحقیقت نصرت الٰہی کی یہی بشارت تھی جس نے مسلمانوں کے لئے ہجرت جیسے کٹھن امتحان کو آسان بنا دیا ورنہ ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ کوئی آسان بازی نہیں تھی ۔