73۔ سورۃ المزمل : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا زمانہ نزول اور عمود

یہ سورۃ اور بعد کی سورۃ …المدثر… دونوں بالکل ہم رنگ و ہم مزاج اور توام ہیں۔ عام مفسرین نے ان کو بالکل ابتدائی سورتوں میں سے شمار کیا ہے لیکن ان کے مطالبہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس دور میں نازل ہوئی جب قریش کے امراء و اغنیاء کی طرف سے دعوت کی مخالفت اتنی شدت اختیار کرچکی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس صورت حال سے نہایت مغموم و متفکر رہنے لگے ہیں ۔

ایک انسان جب اپنے ماحول میں ہر شخص کی مخالفت اور اس کے طعن و طنز کا ہدف بن کر رہ جائے درآن حالیکہ اللہ تعالی کی طرف سے وہ اس ماحول ہی کی اصلاح پر مامور ہو تو اس کے غم دالم کا جو حال ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اس صورت حال سے قدرتاً اس پر خلوت پسندی اور خلق سے بے تعلقی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ اٹھتا ہے تو اپنی چادر لپیٹ کر چلتا ہے تو اس میں لپٹ کر بیٹھتا ہے تو اس میں گوشتہ گیر ہو کر اور لیٹتا ہے تو اس میں چھپ کر اس لیے کہ تنہا اس کی چادر ہی ہوتی ہے جس کے دامن میں فی الجملہ اس کو اپنے باطن میں غوطہ زن ہونے اور اپنے خالق سے تعلق وتوصل کے لیے سکون و اطمینان ملتا ہے ۔

اس کا تھوڑابہت تجربہ تو ہر اس شخص کو ہوتا ہے جو خلق و خالق سے متعلق اپنی دمہ داریوں کا احساس رکھنے والا ہو لیکن انبیاء علیہم السلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے وہ خلق کے لیے سراپا رحمت و شفقت اور اپنے رب کی ڈالی ہوئی ذمہ داریوں کے معاملے میں نہایت حساس ہوتے ہیں وہ اپنی جان توڑ مساعی و اصلاح کے باوجود جب دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی مخالفت بڑھتی جارہی ہے تو ان کو گمنان گزرتا ہے کہ مبادا اس میں انہی کی کسی کوتاہی کو دخل ہو۔ یہ چیز ان کے غم و فکر کو اور زیادہ بڑھا دیتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو مطعون کرکے اپنے دل کو تسلی دینے کے بجائے خود اپنے اندر خلوت گزیں ہو کر صورت کا صحیح حل ڈھونڈ ھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ذہنی کیفیت میں ان کو اپنی سب سے بڑی غم گسار اپنی چادر ہی محسوس ہوتی ہے جس میں چھپ کر گویا وہ اپنے ماحول سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں ۔

چادر میں لپٹنے والے عربی میں مزمل کہتے ہیں اس لفظ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ نے آپ کی اسی فکر مندی کا سراغ دیا ہے۔ یہ نہایت پیار کا خطاب ہے۔ اس دلنواز خطاب سے مخاطب کرکے آپ کو وہ طریقہ بتایا گیا ہے جو اس غم و الم کو دور کرکے آپ کے اندر وہ توت و عزیت پیدا کرے گا۔ جو موجودہ اور آئندہ پیش آنے والے حالات سے عہدہ برآہونے کے لیے ضروری ہے۔ گویا اس سورۃ میں حالات سے نبرو آزما ہونے کے لئے آپ کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی گئی ہے اور ساتھ ہی وہ نسخہ بھی بتایا گیا ہے جو حوصلہ کو بلند اور کمر ہمت کو مضبوط رکھنے کے لئے نہایت کیمیا اثر ہے ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

        سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے ۔
(14-1) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی تاکید کہ شب میں قیام لیل کا اہتمام کرو جس میں قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ اس سے دل کو ثبات اور دماغ کو بصیرت حاصل ہوگی جو آگے کی بھاری ذمہ داریوں کے اٹھانے کا اہل بنائے گی۔ اسی طرح دن میں بھی تسبیح و تہلیل کے لیے بڑی گنجائش ہے تو اپنے رب کے ذکر میں مطمئن اور اس کے دامن رحمت میں پناہ گیر رہو۔ مشرق اور مغرب کا خداوند وہی ہے تو اپنا معاملہ اسی کے سپرد کرو۔ تمہارے اعدار جوبکواسیں کررہے ہیں اس کو صبر کے ساتھ نظر انداز کرو اور ان کا معاملہ ہم پر چھوڑوہم ان سے نمٹنے کے لئے تنہا کافی ہیں۔

(19-15) قریش کے لیڈروں کو تہدید و وعید کہ جس طرح ہم نے اپنے دین کی گواہی دینے کے لئے فرعون کی طرف اپنا رسول بھیجا اسی طرح تمہاری طرف بھی ہم نے اپنا رسول بھیجا ہے تو رسول کی نافرمانی کا جو انجام فرعون اور اس کی قوم کے سامنے آیا اس انجام کو یاد رکھو۔ اگر تم نے اسی کی روش اختیار کی تو کوئی وجہ نہیں کہ تمہارا انجام اس سے مختلف ہو۔ اس دن کو یاد رکھو جس کا ہول بچوں کو بوڑھا بنادے گا اور جس کے بوجھ سے آسمان پھٹتا پڑ رہا ہے۔ اس سے آگاہ کرنے کے لئے ہم نے یہ یا و دہانی اتار دی ہے تو جسے سلامتی چاہے وہ اپنے رب کی راہ اختیار کرلے ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہے ۔

(20) آخر میں ایک مدنی آیت جس میں حالات کے تبدیل ہوجانے کے سبب سے اس حکم میں کسی قدر تخفیف کردی گئی ہے جو ابتدائی آیات میں دیا گیا ہے اور اس کسر کے جبر کے لئے بعض ایسے بدل بتا دیے گئے جو اصل مقصد کی حفاظت کرنے والے اور بدلے ہوئے حالات کے مناسب ہیں ۔