70 ۔ سورۃ المعارج : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق ۔

یہ سورۃ سابق سورۃ الحاقۃ کی مثنیٰ ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ انداز عذاب و قیامت جس طرح سابق سورۃ کا موضوع ہے اسی طرح اس کا بھی موضوع ہے۔ دونوں کے ظاہر اسلوب میں بھی بڑی مشابہت ہے جس طرح سابق سورۃ میں اثبات جزاء و سزا پر، وسط سورۃ میں، قسم کھائی گئی ہے اسی طرح اس سورۃ کے وسط میں بھی اسی نوعیت کی قسم ہے۔ خاص پہلو اس کا یہ ہے کہ اس میں ان متمردین کو تنبیہ فرمائی ہے جو عذاب و نیامت کا مذاق اڑاتے اور اس کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔ ان کے رویہ پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ یہ بہت ہی تنک ظرف اور تھڑوے لوگ ہیں۔ اس وقت خدا نے ان کو جوڈھیل دی ہے توان کے پائوں زمین پر نہیں پڑ رہے ہیں۔ ذرا گرفت میں آجائیں تو ساری شیخی بھول جائیں گے۔ ان سے چندے درگزر کرو۔ ان کے فیصلہ کا وقت آیا ہی چاہتا ہے۔ جب وہ وقت آجائے گا تب انہیں اندازہ ہوگا کہ جس چیز کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے وہ کیسی ہولناک چیز نکلی ۔

ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ

سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے ۔
(١۔ ٧) ان لوگوں کو سرزنش جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زچ کرنے کو عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہوئے تھے۔ ان کو آگاہی کہ کافروں کو جس عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے وہ ایک دن آ کے رہے گا اور کوئی اس کو دفع کرنے والا نہیں بنے گا، لیکن خدا کے دنوں کو لوگ اپنے پیمانوں سے نہ ناپیں۔ اس کی بارگاہ بہت بلند ہے۔ وہاں تک رسائی کے لیے تو فرشتوں اور جبریل کو بھی پچاس ہزار سال کے برابر کا ایک دن لگتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر جمیل کی تلقین اور یہ اطمینان دہانی کہ جس دن کو یہ تنگ نظر بہت دور خیال کر رہے ہیں ہم اس کو بہت قریب دیکھ رہے ہیں ۔

(٨۔ ١٨) قیامت کے دن کی تصویر کہ اس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کے مانند سرخ اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی مانند پراگندہ ہوجائیں گے۔ ہر ایک کی قوت و حمیت بالکل منتشر ہو کر رہ جائے گی۔ کوئی کسی کا پرسان حال نہیں رہے گا۔ اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے آدمی اپنے سارے عزیزوں، محبوبوں، خاندان، قبیلہ بلکہ زمین کی ہر چیز کو فدیہ میں دے دینا چاہیے گا۔ دوزخ کے شعلوں کی لپیٹ اس کی چمڑی ادھیڑ لے گی۔ وہ ان سب کو کھینچ بلائے گی جنہوں نے دعوت حق سے اعراض کیا اور دولت جمع کرنے اور ستینے میں لگے رہے ۔

(١٩۔ ٣٥)۔ اس حقیقت کا اظہار کہ لوگوں کا عام حال یہ ہے کہ ذرا خدا کی کسی گرفت میں آجائیں تو واویلا شروع کر دیتے اور مایوس ہوجاتے ہیں اور اگر ڈھیل مل جائے تو اس کے شکر گزار ہونے کے بجائے اتراتے اور اکڑتے ہیں اور اسکے بخشے ہوئے مال پر خزانے کے سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس عام حالت سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جن کو خدا کی بندگی کی توفیق حاصل ہوئی۔ ان کے مال میں بے شک سائلوں اور محتاجوں کا حق ہوتا ہے۔ وہ روز جزاء سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ خدا کا عذاب نچنت رہنے کی چیز نہیں ہے۔ وہ اپنی شہوات کو لگا م لگاتے ہیں۔ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھتے اور اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں۔ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جو جنت میں عزت کا مقام پائیں گے ۔

(٣٦۔ ٤٤ ) ان لوگوں کے حال پر اظہار تعجب جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے عذاب و قیامت کا ذکر سنتے ہی آپ کا منہ بند کر دینے کے لیے آپ پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ان کے اس زعم کی طرف اشارہ کہ ان کو اس دنیا میں جو عیش و آرام حاصل ہے آخرت ہوئی تو اس سے بڑھ کر وہاں ان کو عیش و آرام حاصل ہوگا۔ اس زعم کے سبب سے ان کے دلوں پر عذاب کی دھمکی بڑی شاق گزرتی تھی۔ ان کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی خلقت کو یاد رکھیں۔ نہ دوبارہ پیدا کیے جانے کو بعید از امکان سمجھیں اور نہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ جو مشرق و مغرب کا رب ہے وہ ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر پہلے بھی زیادہ قادر ہے۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین صبر کہ یہ لوگ جو سخن سازیاں کر رہے ہیں کرلینے دو۔ وہ یوم مرعو د دور نہیں ہے جن دن یہ قبروں سے نہایت تیزی سے نکلیں گے، ان کی نگاہی جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی ۔