72۔ سورۃ الجن : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔سورۃ کا عمود، سابق سورۃ سے تعلق اور مطالب کا تجزیہ
یہ سورۃ سابق سورۃ نوح کی توام سورہ ہے۔ دونوں کی عمو د میں کوئی بنیاد فرق نہیں ہے۔ قوم نوح کے لیڈروں نے جس ضد و مکابرت کا مظاہرہ کیا۔ پیغمبر کی دعوت سے جس طرح انہوں نے اپنے کان بند کر لیے اور پھر اس کا جو انجام ان کے سامنے آیا اس کی نہایت ہی موثر اور عبرت انگیز تصویر قریش کے لیڈروں کے سامنے سورۂ نوح میں رکھ دی گئی ہے۔ اب اس سورۃ میں ان کو یہ دکھایا جا رہا ہے کہ جس قرآن سے وہ اس درجہ بیزار ہیں کہ اس کو سن کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے، منہ نو چ لینے کو جھپٹتے اور دامن جھاڑ کے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اسی کو سن کر جنوں کی ایک جماعت اس قدر اثر پذیر ہوتی ہے کہ وہ فوراً اپنی قوم کے اندر اس کی دعوت پھیلانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جنوں کے جس واقعہ کا حوالہ یہاں ہے اس کا ذکر سورۂ احقاف کی آیت ٢٩، ٣٢ میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں ہم نے ذکر کیا ہے کہ اس کو سنانے سے مقصود ایک تو قریش کو غیرت دلانا ہے کہ جنات، جو قرآن کے براہ راست مخاطب بھی نہیں ان کا حال تو یہ ہے کہ کبھی سررا ہے بھی ان کے کانوں میں اس کی بھنک پڑگئی ہے تو وہ اس کو سن کر تڑپ اٹھے اور ایک تم ہو کہ خاص تمہارے ہی لیے یہ اترا اور تمہی کو اس کی دعوت دینے کے لیے اللہ کا رسول اپنے رات دن ایک کیے ہوئے ہے لیکن تم ایسے بد قسمت ہو کہ اس کی کسی بات کا تمہارے دلوں میں اترنا تو درکنار تم اس کے سنانے والوں کے جانی دشمن بن گئے ہو۔ دوسرا مقصد اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ اگر آپ کی قوم کے اشرار اس قرآن کی ناقدری کر رہے ہیں تو آپ اس سے آر زدہ خاطر نہ ہوں۔ جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں وہ اس سے فیضاب نہیں ہوں گے، خواہ آپ کتنے ہی جتن کریں۔ البتہ جن کے اندر کچھ صلاحیت ہوگی ان کے کانوں میں اگر اتفاق سے بھی اس کے کچھ کلمات پڑجائیں گے تو وہ ان کے اندر گھر کرلیں گے، خواہ وہ اس کے مخاطب ہوں یا نہ ہوں اور خواہ ان کو سنانے کے لیے کوئی اہتمام کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو ۔

جنوں کے جس تاثر کا اس سورہ  میں حوالہ دیا گیا ہے اس سے اگرچہ وہ لوگ متاثر نہیں ہوں گے جو صرف محسوسات کے غلام ہیں اور جو ان چیزوں کے سرے سے وجود ہی کے منکر میں جو ان کے محسوسات کے دائرہ سے باہر ہیں لیکن اس طرح کے لوگ یہاں مخاطب بھی نہیں ہیں۔ یہاں مخاطب مشرکین قریش ہیں جو اتنے بلید نہیں تھے کہ صرف انہی چیزوں کو مانیں جنہیں چھوتے اور دیکھتے ہوں۔ وہ جنوں کو نہ صرف مانتے تھے بلکہ ان سے رابطہ رکھنے کے لیے انہوں نے کہا نت کا پورا نظام قائم کر رکھا تھا اس وجہ سے قرآن نے ایک اہم واقعہ کی حیثیت سے ان کو جنوں کے یہ تاثرات سنائے کہ وہ چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھائے۔ کاہنون کے واسطے سے وہ جنوں کے اشرار کی القا کی ہوئی جھوٹی خبریں سنتے تھے۔ قرآن نے ان کے سامنے ان کے اخیار کی ایک سچی رپورٹ رکھی تاکہ جن کے اندر خیر و شر میں امتیاز کی کچھ صلاحیت ہے وہ اس سے ایمان کی طرف رہبری حاصل کریں۔ قرآن نے غیب کے جو حقائق بیان کیے ہیں وہ اسی مقصد سے بیان کیے ہیں کہ حق کے طالب ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اگرچہ محسوسات پرست اس کو واہمہ کی خلاقی قرار دیں گے لیکن نا اہلوں کی ناقدری کے سبب سے قدرت خلق کو اپنی فیض بخشی سے محروم نہیں کرتی ۔