75۔ سورۃ القیامۃ : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سوہ بھی، گروپ کی سابق سورتوں کی طرح، انذار قیامت کی سورۃ ہے۔ سابق سورۃ کا خاتمہ اس مضمون پر ہوا ہے کہ اس یاد دہانی سے اعراض کرنے والوں کے اعراض کی اصل وجہ یہ ہے کہ انسان کے اندر نیکی اور بدی کا جو شعور اللہ تعالی نے رویعت فرمایا ہے یہ سرگشتگان دنیا اس کو ضائع کر بیٹھے ہیں۔ سنت الہی یہ ہے کہ جو لوگ اس کو زندہ رکھتے ہیں ان کو مزید ہدایت و روشنی نصیب ہوتی ہے اور جو اس کو ضائع کربیٹھتے ہیں وہ ایسے اندھے بہرے بن جاتے ہیں کہ ان پر کوئی تذکیر بھی کارگر نہیں ہوتی ۔
        اس سورۃ میں ایسی حقیقت کو اچھی طرح مبرہن کردینے کے لئے نفس لو امہ کی، جو ہر انسان کی فطرت کے اندر و دیعت ہے، اللہ تعالی نے قسم کھائی ہے اور اس کو قیامت کے ثبوت میں ایک دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، یہ انسان کے اندر ایک مخفی زاجر کی حیثیت رکھتا ہے جو اس کو جب وہ کسی بدی کا ارتکاب کرتا ہے، ملامت اور سرزنش کرتا ہے۔ انسان کے اندر اسکا پایا جانا نہایت واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ اس دنیا میں مطلی العنان اور غیر مسئول بنا کر نہیں چھوڑا گیا کہ چاہے وہ نیکی کرے یا بدی اس کے خالق کو اس سے کچھ بحث نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے اندر اس طرح کے کسی زاجر کو بٹھانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ انسان ایک عالم اصغر ہے اس کے اندر نفس لو امہ کا پایا جانا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس عالم اکبر کے اندر بھی ایک نفس لو امہ ہے جس کو قیامت کہتے ہیں۔ وہ ایک دن ظہور میں آئے گی اور ان تمام لوگوں کو ان کی بداعمالیوں پر سرزنش کرے گی جنہوں نے اپنے اندر کے مخفی زاجر کی تنبیہات کی پروا نہ کی ۔
        اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے عدالت کبریٰ کا ایک عکس ہر انسان کے اپنے وجود کے اندر نفس لوامہ کی عدالت صغریٰ کی شکل میں موجود ہے جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ جو شخص کوئی برائی کرتا ہے وہ کہیں پس پردہ نہیں کرتا بلکہ خدا کی عدالت کے دروازے پر اور اس کے مقرر کیے ہوئے کوتوال کے روبرو کرتا ہے، چنانچہ نفس لو امہ کی شہادت پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ ’ بل یذید الانسان لیفجرامامہ‘ (بلکہ انسان اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرنا چاہتا ہے) اسی حقیقت کی وضاحت آگے کی آیات میں یوں فرمائی ہے کہ (بل الانسان علی نفسہ بمیرۃ ولو القی معاذیرہ) بلکہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے اگرچہ وہ کتنے ہی عذرات تراشے ۔
یہ امر یہاں محلوظ رہے کہ جدید فلسفہ اخلاق کے ماہروں نے بھی چند بنیادی نیکیوں کا نیکی ہونا اور چند معروف برائیوں کا برائی ہونا بطور اصول موضوعہ تسلیم کرکے اپنی بحث کا آغاز کیا ہے۔ اگرچہ وہ یہ نہیں بتا سکے کہ ان نیکیوں کا نیکی یا ان برائیوں کا برائی ہونا انہوں نے کہاں سے جانا جس کے سبب سے ان کی ساری عمارت بے بنید رہ گئی ہے لیکن یہ حقیقت انھیں تسلیم ہے کہ بنیادی نیکیوں اور بنیادی برائیوں کے شعور سے انسان محروم نہیں ہے۔ قرآن نے اس سورۃ میں اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت کے اندر نہ صرف نیکی اور بدی کا شعور دریعت فرمایا ہے بلکہ اس کے اندر ایک مخفی زاجر ضمیر بھی رکھا ہے جو برائیوں کے ارتکاب پر اس کو سرزنش کرتا اور نیکیوں پر اس کو شاباش دیتا ہے اور پھر اسی نفسیاتی حقیقت پر اس نے قیامت اور جزاء و سزا کی دلیل قائم کی ہے کہ جس فاطر نے ہر انسان کے نفس کے اندر اس کی بدعملی پر سرزنش اور اس کی نیکی پر تحسین کے لئے یہ اہتمام فرمایا ہے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس مجموعی کائنات کے لیے کوئی ایسا دن نہ لائے جس میں اس پوری دنیا کا محاسبہ ہو اور ہر شخص اپنی نیکیوں کا صلو اور اپنی بدیوں کی سزا پائے ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سوہ میں مطالب کی ترتیب اس طرح ہے
(2-1) قیامت کی قسم خود قیامت کی قطعیت پر اور انسان کے اندر نفس لوامہ کے وجود سے قیامت کے حق میں ایک نفسیاتی شہادت اور اس حقیقت کا انکشاف کہ جو منکرین اس کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرکھپ اور گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ممکن نہیں ہے، ان کا یہ خیال خود انے کے اپنے ضمیر کی شہادت کے خلاف ہے ان کی مثال اس بے باک چور کی ہے جو کہ توال کیسامنے چوری کرتا ہے ۔
(15-7) قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کو جو اب کہ آج تو یہ ایک بدیہی حقیقت کو جھٹلانے اور پغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زچ کرنے کے لئے یامت کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن جب اس کی ہولناک ہلچل برپا ہوگی تو کہیں گے کہ اب کہاں بھاگیں ! حالانکہ اس وقت کسی کے لئے خدا کے سوا کوئی اور ٹھکانا نہیں ہوگا۔ ہرایک سے اس دن اس کے ایک ایک عمل کی بابت پر سش ہونی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان سے مخفی نہیں ہے اگرچہ وہ اس پر پردہ ڈالنے کے لئے کتنی ہی سخن سازیاں کریں ۔
(19-16) پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلد بازی سے اجتناب کی ہدایت اور صبر کی تلقیین کی مخالفین خواہ کتنی ہی جلدی مچائیں لیکن تم ان سے متاثر ہو کر قرآن کے اتارے جانے کے لئے جلدی نہ کرو بلکہ جس رفتار سے یہ اتر رہا ہے اس کو اطمینان سے اخذ کرو اور لوگوں تک اس کو پہنچائو۔ اللہ تعالی اس کو اپنی حکمت و مصلحت کے تحت نازل فرما رہا ہے اور اسکے جمع و ترتیب، حفاظت و صیانت اور اس کی توضیح، تبین ہر چیز کی ذمہ داری اس نے اپنے اوپر لی ہے۔ ان معاملات میں کسی پہلو سے تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
(65-60) منکرین قیامت کے ملامت کو تمہاری یہ ساری سخن سازیاں کسی دلیل پر مبنی ہنیں ہیں۔ تم جو کچھ کہہ رہے ہو خود اپنے ضمیر کے خلاف محض اس وجہ سے کہہ رہے ہو کہ تم اس دنیا کا عشق رکھتے ہو اور آخرت کو نظر انداز کررہے ہو حالانکہع آخرت ایک حقیقت ہے۔ اس دن بہت سے چہرے شاداب اور اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے اور بہتوں کے چہرے بگڑے ہوئے اور وہ یہ گمان کررہے ہوں گے کہ ان پر کوئی کمر توڑ دینے والی مصیبت ٹوٹنی ہے ۔
کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو شتربے مہار کی طرح چھوڑے رکھے گا۔ ہر ایک کو موت کی جان کنی سے سابقہ پیش آنا ہے اور اسی بے بسی و بے کسی کے حال میں اپنے رب کی طرف جانا ہے۔ بدقسمت ہے وہ جس نے نہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا نہ نماز پڑھی بلکہ جب اس کو یاد دہانی کی گئی تو نہایت رعونت سے منہ موڑ کر اپنے لوگوں میں چل دیا۔ ہر شخص کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس خدا نے انسان کو منی کے ایک قطرہ سے وجود بخشا اور اس کا تسوبہ کرکے گوناگوں صفات سے اس کو آراستہ کیا اس کے لیے اس کے مرکھپ جانے کے بعد دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہوگا ۔