74۔ سورۃ المدثر : تعارف، مضامین اور مطالب کا تجزیہ - مولانا امین احسن اصلاحی

ا۔ سورۃ کا عمود اور سابق سورۃ سے تعلق
یہ سورۃ سابق سورۃ …المزمل… کی توام ہے۔ دونوں کے عمود میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ نام بھی دونوں کے باکل ہم معنی ہیں۔ سابق سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس ’ قول ثقیل‘ کے تحمل کے لئے تیاری کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اس میں اس کا واضح الفاظ میں اظہار کردیا گیا ہے کہ آپ کمربستہ ہو کر لوگوں کو انداز کریں۔ مخالفتوں کے علی الرغم اپنے موقف حق پر ڈٹے رہیں۔ دشمنوں کے معاملہ کو اللہ پر چھوڑیں اور اس امر کو ہمیشہ محلوظ رکھیں کہ آپ کا فریضہ اس قرآن کے ذریعہ سے لوگوں کو صرف یاد دہانی کردینا ہے ہر ایک کے دل میں اس کو اتار دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے اس کو قبول وہی کریں گے جو سنت الہی کے مطابق اس کے قبول کرنے کے اہل ہوں گے۔ جو اس کے اہل نہیں ہیں وہ اس سے بیزاری رہیں گے خواہ ان کی ہدایت کے لئے آپ کتنے ہی جتن کریں ۔
ب۔ سورۃ کے مطالب کا تجزیہ
سورہ کے مطالب کی ترتیب اس طرح ہے
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کی کہ آپ کمربستہ ہو کر لوگوں کے انذار کے لئے اٹھیں۔ اپنے رب ہی عظمت و کبریائی کا اعلان کریں۔ اپنے دامن دل کو ہر قسم کے غبار سے پاک رکھیں۔ شرک کی ہر چھوت سے دور رہیں۔ اپنی جدوجہد برابر جاری رکھیں اور اپنے رب کی خاطر تمام مخالفتوں کے علی الرغم حق پر ڈٹے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی کو برومند کرے گا اور آپ کی دعوت پھلے پھولے گی۔
(17-11) لوگوں کو قیامت کے ہول سے اچھی طرح آگاہ کردیں کہ وہ دن کافروں کے لئے بڑا ہی سخت ہوگا، اس کو آسان چیز نہ خیال کریں جو اپنے مال و جاہ کے غرور میں مست اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ جو کچھ انہیں دنیا میں حاصل ہے آخرت ہوئی تو اس میں بھی انہیں حاصل رہے گا بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ پائیں گے، وہ اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ جکب اللہ نے ان کو پیدا کیا تو وہ اپنی مائوں کے پیٹ سے تنہا اس دنیا میں آئے۔ ما ال و جاہ میں سے کوئی چیز بھی ان کے ساتھ نہ تھی پھر اللہ نے انکو مال و اولاد سے نوازا اور ان کے لئے کامیابیوں کی گونا گون راہیں کھولیں لیکن وہ اپنے رب ے شکر گزار ہونے کے بجائے اس رعونت میں مبتلا ہوگئے کہ جو کچھ انہیں حاصل ہے وہ ان کا پیدائشی حق ہے جس طرح یہ یہاں حاصل ہے آخرت ہوئی تو اس سے بڑھ چڑھ کر وہاں حاصل ہوگا۔ حالانکہ ان کا یہ زعم بالکل باطل ہے۔ اس میں پمھنس کر وہ ہماری آیات کے دشمن بن کراٹھ کھڑے ہوئے تو یاد رکھیں کہ اس کی پاداش میں انہیں ایک بڑی ہی سخت چڑھائی چڑھنی پڑے گی ۔
(25-18) قریش کے ممتر دین نے قرآن اور اس کے انداز کی تکذیب کے لیے جو بہانا تراشا اور جس اشکبار کے ساتھ اس کا اظہار کیا اس کی تصویر اور ان کی بدبختی پر اظہار افسوس کہ انہوں نے قرآن کا بہت ہی غلط اندازہ کیا، وہ اس کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جادو بیانی کا کرشمہ اور اس کے انذار کو بالکل ناقابل التفات سمجھے حالانکہ اس کی ایک بات حقیقت ہے جو ان کے سامنے آئے گی ۔
(31-26) اس دوزخ کی تصویر جس سے اٹکل کے تیر کے چلانے والوں کو سابقہ پیش آئے گا۔ ساتھ ہی ایک برسر موقع تنبیہ کہ یہ متکبرین چوکنہ ہمہ درانی کے زعم میں بھی مبتلا ہیں اس وجہ سے دوزخ کا جو حال ان کو سنایا گیا ہے اس کی بعض باتوں کو وہ مذاق کا ہدف بنا لیں گے، کہیں گے بھلا اس طرح کی باتیں بیان کرنے کا کیا فائدہ ؟ حالانکہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ خاص حکمت سے بیان فرما رہا ہے جس کے اندر صلاحیت اور علم کی طلب ہے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے، رہے وہ جو جہل کے باوجود غرور ہمہ درانی میں مبتلا ہیں وہ ان کے سبب سے فتنہ میں مبتلا ہوں گے اور اپنی عاقبت برباد کریں گے ۔
(48-32) قیامت کی ایک آفاقی دلیل اور اس کی تکذیب کرنے والوں کی جہالت پر اظہار تعجب کہ وہ اس کائنات کے اس سب سے بڑے حادثہ سے کس طرح پخت ہیں۔ قرآن لوگوں کو اس سے آگاہ کررہا ہے تاکہ جو اس کے لئے تیاری کرنی چاہیں وہ کرلیڈ اور جو منہ موڑنا چاہتے ہیں ان پر صحبت تمام ہوجائے کہ وہ کوئی عذر نہ پیش کرسکیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس دن ہر شخص اپنے اعمال کے عوض گرد ہوگا۔ اس کا عمل ہی اس کو چھڑائے گا اور عمل ہی جہنم میں لے جائے گا اس دن کسی بھی سعو و سفارش ذرا بھی کسی کو نفع نہ پہنچائے گی۔ اس دن کی کامیابی صرف اصحاب الممین کو حاصل ہوگی۔ وہ جنت میں براجمان ہوگئے اور وہیں سے بیٹھے بیٹھے وہ دوزخ والوں سے معلوم کریں گے کہ وہ دوزخ میں کیوں پڑے تو وہ ان کے جواب میں برملا اپنے ان جرائم کا اعتراف کریں گے جو ان کی اس بدانجامی کے سبب ہوئے ۔
(52-49) قرآن سے بدکنے والوں کے حال پر تعجب ان کے بدکنے کے اصلی اباب کی طرف اشارہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کہ آپ ان لوگوں کی پروا نہ کریں۔ آپ کا کام صرف یاد دہانی ہے جو لوگ اس یاد دہانی سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے وہ اپنا حشر خود دیکھیں گے۔ اس سے فائدہ وہی اٹھائیں گے جو سنت الہیٰ کے تحت اس کے سزا وار ہوں گے ۔