معرکہ ایمان اور کفر



" ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میں ان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے مگر یہ مقام اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم یا وہ دوسرے کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہر حال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر۔ جو لوگ اس جہاد اور صبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سربلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ "جہاد" ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور "صبر" اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے کدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میں ایک بیج کا بار آور ہونا ۔


ایک شخص اللہ کے راستہ پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیا میں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو رد عمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرار ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوی ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلا آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان و مال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعد ہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے نہ کہ کوئی سرسری معاملہ ۔" (1)

جہاد صبر اور شہادت کے مقابل "وہن، ضعف اور استکانت ہیں قرآن کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے وہن، جہاد کے مقابل ، ضعف صبر کے مقابل اور استکانت شہادت کے مقابل معانیوں کے لے استعمال ہوئے ہیں ۔ جہاد صبراور شہادت کے الفاظ قوت کے اظہار کے مفہوم کے لیے مشترک ہیں ، جب کہ وہن ضعف اور استکانت کے الفاظ اظہارِ کمزوری کے مفہوم کے لیےمشترک ہیں۔ لیکن ان تینوں میں ایک نازک سا فرق بھی ہے۔ موت سے خوف اور زندگی کی محبت سے دل میں جو بزدلی پیدا ہوتی ہے، یہ وہن ہے۔ اس وہن سے ارادے اور عمل میں جو تعطل پیدا ہوتا ہے وہ ضعف ہے۔ اس ضعف سے حریف کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا جو نتیجہ ظہور میں آتا ہے وہ استکانت ہے ۔

۔۔۔۔اللہ کے نبیوں نے جہاد کیا اور اس جہاد میں اللہ کے بہت سے نیک بندوں نے ان کا ساتھ دیا ہے اور انہیں اس راہ میں مصیبتوں اور ہزیمتوں سے بھی سابقہ پیش آیا ہے لیکن اس چیز کا اثر ان پر یہ نہیں پڑا کہ وہ ہمت ہار جائیں، تھڑ دلا پن دکھائیں یا دشمن کے آگے گھٹنے ٹیک دیں بلکہ انہوں نے راہِ حق میں استقامت دکھائی اور اللہ ایسے ہی لوگوں کو دوست رکھتا ہے ۔" (2)

" احد کی جنگ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے۔ اس وقت کچھ مسلمانوں میں پست ہمتی پیدا ہوگئی۔ مگر اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں جن کی دینداری کسی شخصیت کے اوپر قائم نہ ہو۔ اللہ کو وہ دین داری مطلوب ہے جب کہ بندہ اپنی ساری روح اور ساری جان کے ساتھ صرف ایک اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ مومن وہ ہے جو اسلام کو اس کی اصولی صداقت کی بنا پر پکڑے نہ کہ کسی شخصیت کے سہارے کی بنا پر۔ جو شخص اس طرح اسلام کو پاتا ہے اس کے لیے اسلام ایک ایسی نعمت بن جاتا ہے جس کے لیے اس کی روح کے اندر شکر کا دریا موجزن ہوجائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ زندگی اس کے لیے ایک ایسی ناپائدار چیز بن جاتی ہے جو کسی بھی لمحہ موت سے دوچارہونے والی ہو۔ وہ کائنات کو ایک ایسے خدائی کارخانہ کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے جہاں ہر واقعہ خدا کے اذن کے تحت ہورہا ہے۔ جہاں دینے والا بھی وہی ہے اور چھیننے والا بھی وہی۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی راہ کے سچے مسافر ہیں۔ اللہ اگر چاہتا ہے تو دنیا کا عزت و اقتدار بھی ان کو دے دیتا ہے اور آخرت کے عظیم اور ابدی انعامات تو صرف انہیں کے لیے ہیں۔ تاہم یہ درجہ کسی کو صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں پورا اترے۔ اس کے ظاہر سہارے کھوئے جائیں تب بھی وہ اللہ پر اپنی نظریں جمائے رہے۔ جان کا خطرہ بھی اس کو پست ہمت نہ کرسکے۔ دنیا برباد ہو رہی ہو تب بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ اس کے سامنے کوئی نقصان آئے تو اس کو وہ اپنی کوتاہی کا نتیجہ سمجھ کر اللہ سے معافی مانگے۔ کوئی فائدہ ملے تو اس کو خدا کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرے۔ مومن کا یہ امتحان جو ہر روز لیا جا رہا ہے کبھی ان ہلا دینے والے مقامات تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں زندگی کی بازی لگی ہوئی ہو۔ ایسے مواقع پر بھی جب آدمی بزدلی نہ دکھائے۔ نہ وہ بے یقینی میں مبتلا ہو اور نہ کسی حال میں دین کے دشمنوں کے سامنے ہار ماننے کے لیے تیار ہو تو گویا وہ امتحان کی آخری جانچ میں بھی پورا اترا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہر قسم کی سرفرازیاں ہیں۔ تاریخ میں وہی لوگ سب سے زیادہ قیمتی ہیں جنہوں نے اس طرح اللہ کو پایا ہو اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ کے منصوبہ میں شامل کردیا ہو۔ نازک مواقع پر اہل ایمان کا باہم متحد رہنا اور صبر کے ساتھ حق پر جمے رہنا وہ چیزیں ہیں جو اہل ایمان کو اللہ کی نصرت کا مستحق بناتی ہیں ۔(3) 


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(1) تفسیر تذکیر القرآن ، سورہ آل عمران : 139۔143، مولانا وحیدالدین خان 

(2) تدبر قرآن ، سورہ آل عمران : 1469، مولانا امین احسن اصلاحی 

(3) تفسیر تذکیر القرآن ، سورہ آل عمران : 144-148 ، مولانا وحید الدین خان