قرآن کے معانی اور مطالب کی تعیین

انسان کو بیان کی صلاحیت دی گئی ہے انسان کی معاشرتی زندگی کا مدار اسی صلاحیت پر ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں : ایک تکلم دوسرا سمع ۔ 


متکلم اپنے مدعا کو الفاظ کا جامہ پہنا کر سامع کے حوالے کرتا ہے، اور سامع انھیں سن کر ان کے ساتھ جڑے معانی سے متکلم کے مدعا کو پالیتا ہے۔ 


متکلم سے سامع تک جو چیز پہنچتی ہے، وہ صرف الفاظ ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ چہرے اور ہاتھوں کے تاثرات و اشارات، لیکن یہ بیان کا ایک فی صد سے زیادہ حصہ نہیں ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ الفاظ — بہ حیثیت مفردات اور بہ حیثیت کلام — متکلم کے منشاو مراد تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ یعنی ہم الفاظ کے سوا کسی بھی اور چیز سے متکلم کے ذہن میں نہیں جھانک سکتے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ خاص طور سے اس وقت جب متکلم اب ہمارے پاس موجود نہ ہو کہ ہم دوبارہ اس سے پوچھ سکیں۔ لیکن اگر دوبارہ پوچھیں گے بھی تو پھر بھی واسطہ الفاظ ہی سے پڑے گا۔ یہی صورت قرآن کی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے عربی زبان کے لاکھوں الفاظ میں سے ان کا چناؤ کیا ہے۔ آخر کوئی وجہ ہے کہ اللہ علیم و حکیم نے صرف انھی الفاظ کو اپنی بات کہنے کے لیے چنا۔ مثلاً سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے 'اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ' کے بجاے 'الشکرُ لِلّٰہِ'، یا 'للّٰہ الحمدُ' کیوں استعمال نہیں کیا؟ سورۂ فاتحہ ہی میں، 'مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ' (الآیۃ ۴) کے الفاظ پر مشتمل جملہ کیوں بنایا ہے، 'مالک یوم القیامۃ' کیوں نہیں کہا؟ 'اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ' (الآیۃ ۱) میں کم از کم قرآن کی حد تک اجنبی لفظ 'الْکَوْثَر' کیوں چنا؟ 'اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِلْعٰلَمِینَ' (آل عمران۳: ۹۶) آیت میں 'بمکۃ' کے بجاے 'بِبَکَّۃَ' کیوں بولا گیا ہے اور 'وَہُوَ الَّذِیْ کَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ بِبَطْنِ مَکَّۃَ...' (الفتح ۴۸: ۲۴) میں 'مَکَّۃ' کے بجاے 'بکۃ' کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟ زانی اور زانیہ کو سو کوڑے مارو میں ''کنوارے زانی اور زانیہ'' کے الفاظ کیوں نہیں بولے گئے؟ ظاہر ہے، جس بات کو ادا کرنا پیش نظر تھا، اس کے لیے مناسب ترین الفاظ یہی تھے۔

 اب اگرہم ان کا خیال نہ کریں تو خدائی چناؤ کی توہین ہوگی۔ ہماری مراد یہ ہے کہ متکلم کے الفاظ، اس کا چناؤ ہیں اور یہ چنیدہ الفاظ ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جو ہمیں متکلم کے مدعا تک پہنچا سکتے ہیں۔ اوپر کی مثالوں سے واضح ہے، متکلم کلام میں جب لفظ چن رہا ہوتا ہے تو وہ بعض لطیف پہلوؤں کا خیال بھی رکھ رہا ہوتا ہے۔ مثلاً 'بکۃ' اور 'مکۃ' کے استعمال کا فرق واضح ہے کہ 'بکۃ' کا لفظ اپنے تاریخی حوالے کو ساتھ لے آئے گا، جب کہ 'مکۃ' کا لفظ عادت میں مستعمل ہونے کی وجہ سے تاریخی حوالے کو ساتھ نہیں لاتا۔ اب اگر کوئی 'بکۃ' کی جگہ 'مکۃ' بول دے ، تو اس کے خیال میں تو کوئی بڑی خرابی نہیں ہوئی، لیکن زبان جاننے والے جانتے ہیں کہ آیت کی ساری جان ہی نکل جائے گی۔ اس لیے متکلم کے لفظوں کے ساتھ بے اعتنائی یا ان کو خارج سے متعین کرنے کی سعی متکلم کی سخن گوئی پر حرف لانے کے مترادف ہے۔


لفظ میرے خیال میں متکلم کے منہ سے نکلتے ہی ، وہی حرمت پالیتاہے جو ہر شخص کی جان، مال اور آبرو کو حاصل ہے، وہی اس کے الفاظ کو حاصل ہو جاتی ہے۔ ان میں کسی طرح کی خیانت درست نہیں ہے۔


الفاظ ،اہل زبان کی زندگی میں موجود اشیا و تصورات (entities) کی علامتیں ہیں۔ ان اشیا و تصورات کے ساتھ ان کا تعلق صرف زبان جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ اشیا و تصورات کا الفاظ سے یہ تعلق لفظوں کی آواز میں نہیں، بلکہ اہل زبان کی زندگی میں ان کے استعمالات سے بنے حافظے میں ہوتا ہے۔ لفظ 'پانی' کی آواز کس شے کی علامت ہے، یہ صرف اردو جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ اگر لفظوں کی آواز ہی میں یہ معنی ہوتے تو ہمیں کوئی زبان سیکھنے کی حاجت نہ رہتی۔ مثلاً آج کل ہمارے ملک میں چینی قوم جابجا نظر آتی ہے۔ لیکن مجال ہے ان کی زبان سے نکلنے والی آوازوں کے معنی ہم پا سکیں۔ لہٰذا، کلام کی — اپنے تمام اجزا سمیت — معنی آفرینی ہر زبان کے اہل زبان کی زندگی میں ہے۔


قرآن و حدیث کے مدعا تک پہنچنے کا بھی یہی واحد اور اصل راستہ ہے کہ اللہ و رسول کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ان سے آگاہی ان کے بولے گئے الفاظ ہی سے ہوسکتی ہے۔ وہ الفاظ اپنے زمانۂ نزول یا لمحۂ ورود میں زندگی میں کیسے مستعمل تھے، کیونکہ الفاظ اہل زبان کی زندگی میں پیوست ہوتے ہیں، الگ سے کسی جگہ نہیں پائے جاتے۔ انھی کی زندگی میں ان کے مصداقات، استعمالات، اور متعلقات موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً 'جہیز' کا لفظ ہم باسیانِ پاک و ہند کے ذہن میں جو معنی رکھتا ہے، وہ پورا تصور سمجھانے کے بعد بھی غیروں کواس سے متعلق کیفیات سمجھا دینا مشکل ہو گا۔ ذیل کے دو جملے، جہیز کے معنی سے نہیں، بلکہ معاشرے میں جہیز سے جڑے واقعات و احساسات کے بغیر سمجھ نہیں آسکتے۔ 


الفاظ جس طرح ہماری زندگی اور معاشرے سے جڑے ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے جذبات یا معاشرے کے تہذیبی احساسات سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ کلام میں ایک تہذیبی یا جذباتی ماحول تشکیل کرتے ہیں۔ یہ تہذیبی یا جذباتی احساسات کلام میں جب آتے ہیں، اور جو ماحول تشکیل کرتے ہیں، وہ ماحول ایک اور پہرے دار بن جاتاہے، جو جملوں میں لازماً درآتا ہے۔اس ماحول کی روشنی میں کلام ملی، قومی، وطنی، تہذیبی ، دینی اور نہ جانے کتنے قسم کے احساسات سے ہمارے دل میں تحریک، تجمد، کشش یا کھچاؤ پیدا کرتا ہے۔ یوں لفظ ہماری نفسیاتی احساسات کا نمایندہ بھی بن جاتا ہے۔

الفاظ غصہ، نفرت، تنگ نظری، کشادگی، جرأت، بزدلی، غرض کئی جذبات و احساسات کو لیے کلام میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔کسی کتاب پر کسی نے تقریظ لکھی بظاہر اس میں کوئی منفی لفظ استعمال نہیں ہوا تھا،بلکہ مجموعی مضمون مثبت ہی تھا۔ مگراس تقریظ کو پڑھنے کے بعدایک صاحب نے کہا کہ لگتا ہے کہ مصنف اور تقریظ نگار کے مابین اَن بن ہے ، کیونکہ کتاب کی خوبی جس طرح کی تقریظ کا تقاضا کرتی ہے، تقریظ ویسی نہیں ہے۔ 



مثلاً سورۂ احزاب کا درج ذیل مقام موقع محل کو سمجھنے کے لیے کسی زیادہ غور وفکر کا محتاج نہیں ہے:


اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا. وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا. یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا. لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَایُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا. مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا. سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا.(الاحزاب ۳۳: ۵۷۔۶۲)


یہاں 'یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ' کے الفاظ میں بعض متعین خواتین کو ادناے جلباب کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حکم کس موقع محل میں دیا گیا ہے، اسے یوں نہیں بتایا گیا، بلکہ کلام کے مضمون میں لپیٹ کر بتایا گیا ہے۔ آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ حکم کے سیاق و سباق میں کچھ ایسی تفصیلات دی ہیں جن سے موقع محل واضح ہورہا ہے۔ اس حکم سے پہلے یہ اللہ اور رسول کو اذیت دینے، اورمسلمانوں پر تہمت لگانے والوں کو بتایا گیا ہے کہ انھیں سزا ملے گی، اس لیے کہ وہ 'اثم مبین' کے مجرم ہیں۔ اللہ اور رسول کو اذیت دینے والوں کو دنیا و آخرت کی سزا کی وعید سنائی ہے۔ یہ حکم کا سباق ہوا، پھر سیاق میں مزید باتیں واضح ہوتی ہیں کہ صحابیات کے اس حکم پر عمل کے باوجود اگر یہ لوگ باز نہ آئے تو سخت اقدام کیا جائے گا۔ اس سباق اور بالخصوص سیاق سے معلوم ہوا کہ منافقین ، حسد کے مریضوں ، سنسنی پھیلانے والے دہشت گردوں کی تہمت بازیوں سے بچنے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔ یوں دیکھیے کہ بعض کرداروں کے ساتھ معاملہ کے لیے چند احکام و اقدامات کا ذکر ہوا ہے، اور ایسا کرنے سے موقع محل بھی واضح ہو گیا ہے۔ جن افراد اور گروہوں کا ذکر کرکے انھیں کہا گیا ہے کہ اب رک جاؤ، ورنہ یہ سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ یہ سب الفاظ اس موقع محل سے آگاہ کررہے ہیں، جس میں کلام نازل ہوا تھا۔

 لہٰذا کلام میں ایسے الفاظ موجود ہوتے ہیں، جن میں صدورِ کلام کے وقت کے حالات کی نشان دہی ہو جاتی ہے۔ انھی الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ بات کن سے ہورہی ہے، حکم کی نوعیت کیا ہے وغیرہ۔


اوپر کی ساری گفتگو میں یہ بات واضح ہے کہ الفاظ مفردات اور کلام کی صورت میں پیغام رسانی کا واحد ذریعہ ہیں۔ میں آپ کے مدعا کو اور آپ میرے مدعا کو میرے ذہن میں اتر کر نہیں، بلکہ الفاظ کے فہم ہی سے جان سکتے ہیں۔ میں نے جو پیغام دینا تھا، اس کے لیے میں نے جو الفاظ چنے میں وہی کہنا چاہتا ہوں ، اور جو الفاظ آپ نے چنے آپ وہی کہنا چاہتے تھے۔ آپ کے اور میرے پیغام کے حامل بس وہی الفاظ ہیں جو میں نے اور آپ نے چنے۔ ان الفاظ سے جو معنی سامع تک منتقل ہو گا، بس وہی میرا اور آپ کا مدعا ہے۔ خارج سے کوئی چیز ان الفاظ میں ٹھونسنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے متکلم کی نہیں کسی اور کی بات سنی ہے۔


لہٰذاماضی میں جب ہم نے فقہی اختلافات کے حل کی کش مکش کے دوران میں اپنے حق میں روایاتِ آحاد کو اور قیاس کے نام پر عقل کو استعمال کیا ، تو بعض نے خاموشی سے اور بعض نے علانیہ کلام الٰہی پر تہمت دھر دی کہ اس کے الفاظ کی دلالت تو ظنی ہوتی ہے، اس لیے فیصلہ کے لیے خارج کو بیچ میں لانا پڑے گا، اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اخبار آحاد سے جو چیز خارج سے لائی گئی، وہ پھر الفاظ ہی میں ہوتی تھی، لیکن وہ قطعی شمار ہوتی تھی، اس لیے کہ وہ ہماری پسند کی ہوتی تھی۔ یہ تضادِ فکرایک طرف فطرت پر کھڑا تھا اور دوسری طرف مسلک پرستی پر۔ جب اخبار آحاد کی لفظی دلالت کو فیصلہ کن مانا گیا تو دلالت الفاظ کی قطعیت کی فطرت لاشعور میں کارفرما تھی، اور قرآن کے الفاظ کی دلالت کو ظنی مانا گیا تو اپنے مسلک کی عصبیت کا فسوں نگاہوں پر پٹی باندھ رہا تھا۔ لہٰذا یہ تضاد فکر اخبار آحاد کے الفاظ کی دلالت قطعیت ہے اور الفاظِ قرآن کی دلالت ظنی ہے، دبا رہا۔ حالاں کہ قرآن اور اخبارِآحاد میں بولے گئے ملفوظات کا الفاظ ہونے میں کوئی جوہری فرق نہیں تھا، بلکہ چناؤ میں قرآن کے الفاظ بے خطا تھے۔لیکن پھر بھی مسلک نے آحاد کا پلڑا بھاری کردیا اور قرآن کا ہلکا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کو قرآن کا اصل مقام لوٹایا جائے اور اس کے الفاظ کی حاکمیت مانی جائے۔

(یہ ساجد حمید صاحب کے ایک مضمون " مدعائے متکلم اور الفاظ کی اہمیت" کی تلخیص ہے ۔ )


یہ بھی پڑھیں !