قرآن کریم عربی زبان کے لے حجۃ ہے

قرآن کریم عربی زبان کے لے حجۃ ہے:

قرآن مجید نبی خاتم الزماں ﷺ کا سب عظیم معجزہ ہے ۔ قرآ ن کا چلینج نزول قرآن سے قیامت تک قاہم رہے گا ۔ (قرآن جیسی ایک سورت لاؤ) کا کسی عربی دان نے آج تک کوئی جواب نہیں دیا ۔اس لسانی اعجاز کا علم ایک قاری کو اس وقت ہو گا جب وہ قرآن کے اسالیب، نظم الفاظ یعنی کلام میں اسم ،فعل ،حرف کی مکانی اور معنوی حیثیت سے آشنا ہو گا ۔
بعض نحویوں اور صرفیوں نے قرآنی الفاظ اور اسالیب کو اپنے وضع کردہ قواعد کی روشنی میں شاذ (یعنی کم استعمال ہو نے والا ) کہا ۔ جس پر بعض علما ء نے سخت تنقید کی ۔ جب ہم قدیم کتب صرف ونحو کا مطالعہ کر تے ہیں جیسے کتاب سیبویہ ، دیگر کتب تو ان میں قرآنی شواہد اور مثالیں شاذو نادر ہی نظر آتی ہیں ۔کتاب سیبویہ جو قواعد صر ف اور نحو پر سب سے قدیم اور بنیادی کتاب ہے ۔ اس کے مشہور شارح ابو جعفر النحاس کے مطابق اس میں قواعد کے شواہد اور مثالوں کی تعدا د شعراء کے کلام سے (1050) ہیں جبکہ قرآن مجید سے صرف (373)۔ اسی طرح مبرد کی کتاب " المقتضب " اور دیگر قدیم نحویوں کی کتب کا بھی یہی حال ہے ۔
کچھ نحویوں نے ائمہ قرّا ء کو طعنہ دیا کہ وہ عربی زبان سے نابلند تھے ۔ بعض قراءت جو قواعد نحویہ کے خلاف تھی غلط قرار دیا ۔ بعض نحویوں کے قواعد قرآن کے استعمال کے خلاف ہیں ۔
بعض نے بڑی جرات کی، انہوں یہ دعوی کیا کہ قرآن میں بعض اسالیب نہیں ہیں جبکہ تبع سے معلوم ہوتاہےکہ وہ اسالیب قرآن میں موجود ہیں ۔ اس طرح کی چند غلطیوں کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :
1- مشہور نحوی سہلی کےنزدیک متبدا کی خبر میں اگر جملہ فعلیہ ہو (س ) کا استعمال درست نہیں ہے ۔ جبکہ قرآن میں بے شمار مثالیں ہیں جن میں مبتدا کی خبر جملہ فعلیہ ہے اور اس ( س) آیا ہے ۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ (سورہ نساء : 122)
وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا (سورہ نساء :162)
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ(سورہ نساء :175) یہ صرف ایک ہی سورہ کی مثالیں ہیں ۔
2- سیوطی نے اپنی کتا ب( الاتقان ج 1 ص 170) میں لکھا کہ( کم )استفہامیہ قرآن میں استعمال نہیں ہو ا جبکہ ایسے تین مقامات قرآن میں ہیں جن میں "کم " بطور خبریہ استعمال ہو ا ۔
کئی نحویوں نے آیا ت قرآنی جو ان کے وضع کردہ قواعد کے خلاف تھیں ان میں تعلیل اور تاویل سے کام لیا، عام طور پر مفسرین نے نحویوں کی ان تعلیلات پر بہت کم توجہ دی، البتہ بعض ائمہ کرام نے نحویوں کی ایسی جرءت پر سخت گرفت بھی کی ہے ۔
کوئی دعوی تو نہیں کرسکتا کہ قرآن میں عربی زبان کے ہر اسلوب کلام موجود ہے یا قرآن میں علماء کے وضع کردہ تمام قواعد نحویہ کے شواہد اور مثالیں موجود ہیں البتہ قرآن نے جن اسالیب کو استعمال کیا وہ کلام انسانی اور عربی اسالیب کلام کے لے حجۃ ، میزان ہے ۔ ہماری نظر  میں کلام انسانی کو قرآن کے اسالیب کی تشریح اور تفہیم کے لیے معیار بنانا کسی صورت درست نہیں ہے ۔ بلکہ قرآن مجید کے اسالیب اور استعمالات اپنے اپ حجت ہیں ۔  بعض نحویوں نے اس نکتہ کو سمجھنے میں غلطی کی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے قرآن کے بعض  اسالیب کو شاذ یا عربی قواعد کے خلاف کہا ۔