قرآن کی زبان عربی بطور یونیورسل لنگوئج

                قرآن کی زبان عربی بطور یونیورسل لنگوئج  


   ماہرین لسانیات نے ایک بڑا دلچسپ سوال اٹھایا کہ انگریزی اور عربی میں سے کس زبان پر سب سے پہلے موت واقع ہوگی ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے جا ن لینا چاہیے کہ  آج انٹر نیٹ واحد ذریعہ ہے جس  کے ذریعے سے پوری دنیا جہاں کے معلوما ت تک  رسائی ہوتی ہے، انٹر نیٹ استعمال کرنے والے سب سے  زیادہ انگریزی زبان استعمال کرتے ہیں ۔چند سیکنڈ میں  انگریزی کا  ایک  لفظ لکھ کر مطلوبہ معلومات تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج دنیا کے  ہر  ملک میں بچوں سے لیکر بڑوں تک انگریزی زبان کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں، کسی اجنبی زبان سیکھنے میں سب سے پہلی  ترجیح  انگریزی زبان ہی ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں انسانی معلومات اور روابط کے لیے  ہمیشہ ہمیشہ  صرف انگریزی زبان ہی راج کرے گی؟ کیا تاریخ اس کا ثبوت دیتی ہے؟ نہیں، بلکہ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ آج سے سوسال پرانی کئی زبان مٹ چکی ہے نہ ان کو سمجھنے والے ہیں اور نہ بولنے والے ۔ اس  کا مطلب یہ ہوا کہ آج جو انگریزی زبان ہے ،آنے والے زمانے میں اس کا وجود  نہیں  ہوگا۔  ماہرین لسانیات کہتے ہیں  کہ زبانیں بھی دیگر  زندہ چیزوں کی طرح ہیں ہر زبان  کی بھی  ایک ابتدائی عمر ہوتی ہے ، پھر جوانی، اس کے بعد اس  پر موت واقع ہو جاتی ہے ۔
  
   برطانیہ کی یونیورسٹی میں عربی زبان اور یونیورسل لنگوئج کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر سعید شر بینی  جوکہ مصری نثراد ہیں  ایک مرتبہ میڈیاسے بات کرتے ہو ئے کہا کہ ہمارے کرہ ارض پر پائی جانے والی  602 زبانوں میں سے  آج تقریبا 400 زبانیں مر چکی ہیں، تحقیقات سے معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں  زبانون کی موت میں سب سے زیادہ تیزی آئی ہے ۔تقریبا ہر ہفتہ ایک زبان موت کا شکار ہوتی ہے  ،  جبکہ  پچھلے  سال یہ عمل  ہر دو ہفتہ کے حساب سے تھا، جبکہ بیس سال پہلے ہر سال ایک زبا ن پر موت واقع ہوتی تھی اس طرح حساب سے اندازہ لگایا گیا کہ اگلے  2090ء تک کرہ ارض پر صرف ایک زبا ن زندہ بچے گی ۔
  
     ماہرین نے سوال اٹھایا کہ وہ کون سی زبان ہوگی؟ تحقیق کے بعد وہ  اس نتیجے پر پہنچیں ہیں  کہ تمام زبانوں کے  خاتمے کے بعدصرف عربی زبان زندہ  ہو گی ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف  عربی زبان کیوں ؟ ایک تحقیق کے مطابق  کہ اگلے پچاس سال میں انگریزی زبان کسی دوسری زبان میں تبدیل ہوجائے گی اس کی اصلی صورت جو اب ہے باقی  نہیں رہے گی ۔ اس کی ایک مثال جیسے انگریزی زبان میں مختلف زمانوں کے ساتھ افعال کی تعبیرات میں شدید  اختلاف پا جاتا ہے یہاں تک کہ معروف زمانے  ماضی، حال ،مستقبل کے بجائے بیسوں استعمالات ہیں، ماہرین لسانیات کے نزدیک یہ زبان کا ایک خلل ہے۔ آج کل برطانیہ کے سکولوں میں  انگریزی  کی  ان مختلف تعبیرات  کی تعلیم جاری ہے،  اسی طرح چینی زبان میں  بھی افعال کی تعبیرات میں زمانہ  کا وجود ہی نہیں ۔اس کی جگہ کل، آج، اور آئندہ کل کے اضافی الفاظ شامل ہیں۔ لیکن عربی زبان اپنی تمام معروف قدیم اساسیات کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔ یونیورسل لنگوئج کے  علماء اس کو عربی زبان کی قدامت اور دائم الحیات ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔ مسلمانوں کو خصوصا عربوں کو  اس بات فخر ہونا چاہییے کہ اللہ تعالی نے  اپنی آخری  کتاب عربی  زبان میں نازل کرکے قیامت تک کےلے  اس کو زندگی عطا کردی ہے ۔
    غرض انگریزی زمانہ حال  کی عالمی   زبان ہے مسلمانوں کو  اس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے لیکن سات ہی یونیورسل لنگوئج  عربی سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے ۔ بلاشبہ  جیسے احادیث نبوی ﷺ میں پشین گوئی  کی گئی ہے مستقبل میں  دنیا میں مسلمانوں کی عالمی قیادت کے لے ایک عالمی زبان کی بھی ضرورت ہوگی اس  بارے میں   ضروری تیاری کر لینی  چاہیے  ۔ ایک اطلاع کے مطابق  جامعہ  برطانیہ  میں  یونیورسل لنگوئج کے ماہرین نے اس کی تیاری شروع کردی ہے ، اسی طرح جامعہ ٹوکیو جاپان میں بھی اس پر کام کا آغاز ہوچکا ہے ۔
   آخر میں قرآن کا یہ اشارہ بھی ذہن میں رہے کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر  مکہ (ام القری)   انسانی آبادی کی ماں ہے  اور تاریخی شواہد بھی اس  کی تائید کرتے ہیں کہ اس قطعۂ  ارض پر معلوم تاریخ تک جو زبان رائج رہی وہ عربی تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرہ ارض  پر جو سب سے پہلا انسان آباد ہوا یعنی آدم ؑ تو ان کی زبان بھی عربی رہی ہوگی، بلاشبہ  اسی زبان سے باقی تمام زبانوں نے جنم لیا ہوگا۔ اس لحاظ سے عربی کو ام اللسان ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔

    اس بارے میں  قرآن کا یہ وعدہ بھی اہم ہے کہ  قرآن کی حفاظت کا ذمہ دار خود اللہ تعالی ہے اس کا اعلان قرآن میں  آج سے چودہ صدیاں پہلے کر دیا گیا ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ۔  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا  کے فقرہ میں  حصر کا جو مضمون پایا جاتا ہے اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا  ہے کہ اس  کتاب  کی  نبی پاک ﷺ پر ذمہ داری صرف تبلیغ و دعوت کی تھی۔  رہا اس کتاب کی حفاظت اور اس کے قیام و بقا کا مسئلہ تو  اللہ نے فرمایا ، یہ ہم سے متعلق ہے اس کی حفاظت اور اس کے قیام و بقا کا انتظام ہم کریں گے۔ بلاشبہ اس حفاظت کی ذمہ داری  میں قرآن کی زبان بھی شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کن کن شکلوں میں پورا فرمایا، تاریخ میں اس سوال کا پورا جواب موجود ہے۔ اس کی  تفصیل  جاننے کے لیے قرآنی علوم کی تاریخ کا مطالعہ  ضروری ہے ۔

     آج جو جو مذہبی صحائف دنیا کی مختلف قوموں کی عقیدت کا مرکز ہیں۔ ان کے ماننے والوں کا بھی یہ دعویٰ نہیں کہ ان کے مذہبی صحیفے اصل زبان میں محفوظ  ہیں۔ صرف قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے  "لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ "کہ باطل اس میں کسی جانب سے حملہ آور نہیں ہوسکتا۔ اور ان چودہ صدیوں کے طویل عرصہ میں اسلام کا کوئی دشمن ثابت نہیں کرسکا کہ اس میں کوئی تحریف ہوئی ہو، یورپ کے مستشرقین جن میں سے بعض نے اپنی پورذہانت اور عزیز عمریں قرآن کے اس دعویٰ کو غلط ثابت کرنے کے لیے ضرف کیں، وہ بھی آخر کار یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ یہ کتاب ہر قسم کی تحریف اور تغیر سے پاک ہے۔ میور (MUIR) سے زیادہ دشمن اسلام کون ہوگا۔ اسلام اور بانی اسلام کے خلاف اس کی زہر افشانیاں رسوائے عالم ہیں۔ اسے بھی یہ لکھنا پڑا (THERE IS PROBABLY IN THE WORLD NO OTHER BOOK WHICH HAS REMAINED TWELVE CENTURIES WITH SO PUREATEXT. یعنی اغلباً دنیا میں قرآن کے علاوہ کوئی ایسی اور کتاب نہیں جس کا متن بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے یوں پاک رہا ہو۔