امام رازی ؒ کی "تفسیر کبیر" کا تعارف

مولانا عمار ناصر 

ماہنامہ اشراق ، مئی 2002


’’مفاتیح الغیب‘‘ یعنی تفسیر کبیر کا شمار تفسیر بالرائے کے طریقہ پر لکھی گئی اہم ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ اس کی تصنیف چھٹی صدی ہجری کے نام ور عالم اور متکلم امام محمد فخر الدین رازی (۵۴۳ھ ۔ ۶۰۶ھ) نے شروع کی ، لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں اس کی تکمیل، حاجی خلیفہ کی رائے کے مطابق قاضی شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقی نے اور ابن حجر کی رائے کے مطابق شیخ نجم الدین احمد بن محمد القمولی نے کی۔ یہ بات بھی معین طور پر معلوم نہیں کہ تفسیر کا کتنا حصہ خود امام صاحب لکھ پائے تھے ۔ ایک قول کے مطابق سورۂ انبیا تک ، جبکہ دوسرے قول کے مطابق سورۂ فتح تک تفسیر امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی ہے۔ ۱؂ تاہم اس معاملے میں سب سے زیادہ تشفی بخش اور مدلل نقطہ نظر الاستاذ عبد الرحمن المعلمی نے اپنے مضمون ’’حول تفسیر الفخر الرازی‘‘ میں اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط داخلی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ تفسیر کے درج ذیل حصے خود امام صاحب نے لکھے ہیں ، جبکہ باقی اجزا الخولی یا القمولی کے لکھے ہوئے ہیں:
۱۔ سورۂ فاتحہ تا سورۂ قصص
۲۔ سورۂ صافات ، سورۂ احقاف
۳۔ سورۂ حشر، مجادلہ اور حدید
۴۔ سورۂ ملک تا سورۂ ناس ۲؂


خصوصیات: 

جامعیت

تفسیر کبیر کی نمایاں ترین خصوصیت، جس کا اعتراف اکابر اہل علم نے کیا ہے، اس کی جامعیت ہے۔ وہ جس مسئلہ پر لکھتے ہیں، اس کے متعلق جس قدر مباحث ان سے پہلے پیدا ہو چکے ہیں، ان سب کا استقصا کر دیتے ہیں۔ محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں :


’’رازی کی تفسیر کو علما کے ہاں عام شہرت حاصل ہے کیونکہ دوسری کتب تفسیر کے مقابلے میں اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مختلف علوم سے متعلق وسیع اور بھرپور بحثیں ملتی ہیں۔ ‘‘(التفسیر والمفسرون۱/ ۲۹۳)

علامہ انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں :


’’قرآن کریم کی مشکلات میں مجھے کوئی مشکل ایسی نہیں ملی جس سے امام رازی نے تعرض نہ کیا ہو، یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات مشکلات کا حل ایسا پیش نہیں کر سکے جس پر دل مطمئن ہوجائے۔ ‘‘ (البنوری، محمد یوسف ،یتیمۃ البیان ۲۳)

طریق تفسیر

ہر آیت کی تفسیر میں امام صاحب کا طریقہ حسب ذیل ہے:

۱۔ آیت کی تفسیر، نحوی ترکیب، وجوہ بلاغت اور شان نزول سے متعلق سلف کے تمام اقوال نہایت مرتب اور منضبط انداز میں پوری شرح ووضاحت سے بیان کرتے ہیں۔

۲۔ آیت سے متعلق فقہی احکام کا ذکر تفصیلی دلائل سے کرتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔

۳۔ متعلقہ آیات کے تحت مختلف باطل فرقوں مثلاً جہمیہ، معتزلہ، مجسمہ وغیرہ کا استدلال تفصیل سے ذکر کر کے اس کی تردید کرتے ہیں۔

ان میں سے پہلے دو امور کا ذکر اگرچہ دوسرے اہل تفسیر بھی کرتے ہیں ، لیکن یہ ذخیرہ ان میں منتشر اور بکھرا ہوا ہے، جبکہ تفسیر کبیر میں یہ تمام مباحث یک جا مل جاتے ہیں۔ البتہ تیسرے امر کے اعتبار سے تفسیر کبیر اپنی نوعیت کی منفردتفسیر ہے۔

ترجیح و محاکمہ

امام صاحب نے اپنی تفسیر میں جمع اقوال پر اکتفا نہیں کی ،بلکہ دلائل کے ساتھ بعض اقوال کو ترجیح دینے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سے تفسیر کے متعلقہ علوم وفنون میں ان کی دسترس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ تفسیر گویا سابقہ تفسیری ذخیرے پر ایک محاکمہ کا درجہ رکھتی ہے۔

مختلف تفسیری اقوال میں ترجیح قائم کرتے ہوئے امام صاحب بالعموم حسب ذیل اصول پیش نظر رکھتے ہیں :

۱۔ اگر کسی قول کی تائید میں صحیح حدیث موجود ہو تو اس کو ترجیح دیتے ہیں۔

’ونفخ فی الصور‘ کی تفسیر میں تین اقوال نقل کرتے ہیں: ایک یہ کہ صور ایک آلہ ہے ، جب اس کو پھونکا جائے گا تو ایک بلند آواز پیدا ہوگی ۔ اس کو خداوند تعالیٰ نے دنیا کی بربادی اور اعادۂ اموات کی علامت قرار دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ لفظ بفتح الواو ہے اور ’صورۃ‘ کی جمع ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ’’جب صورتوں میں روح پھونکی جائے گی۔‘‘ تیسرا یہ کہ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مقصد مردوں کا اٹھانا اور ان کو جمع کرنا ہے۔ امام رازی نے ان اقوال میں سے پہلے قول کو اس بنا پر ترجیح دی ہے کہ اس کی تائید میں رسول اللہ کی حدیث موجود ہے۔ ۳؂

۲۔ جو مفہوم عقل کے مطابق ہو، اس کو راجح قرار دیتے ہیں۔

سورۂ نساء کی آیت ’خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا‘ کی تفسیر میں عام مفسرین کا خیال یہ ہے کہ حضرت حوا علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور اس کی تائید میں حدیث بھی موجود ہے۔ لیکن امام رازی ابو مسلم کی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں جن کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کی جنس سے ان کی بیوی کو پیدا کیا۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کر سکتے تھے، اسی طرح حضرت حوا علیہا السلام کو بھی کر سکتے تھے، پھر ان کو حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ۴؂

اسی طرح سورۂ کہف میں ذو القرنین کے قصہ میں ارشاد باری ہے :


حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِءَۃٍ ۔ ( الکہف ۱۸: ۸۶)
’’یہا ں تک کہ جب وہ آفتاب کے غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو سورج کو کیچڑ کی ایک نہر میں ڈوبتے دیکھا۔‘‘

اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ سورج درحقیقت کیچڑ میں ڈوبتا ہے ، لیکن امام رازی کے نزدیک یہ تفسیر بالکل عقل کے خلاف ہے ، کیونکہ سورج زمین سے کئی گنا بڑا ہے اس لیے وہ زمین کی کسی نہر میں کیسے ڈوب سکتا ہے؟ ۵؂

۳۔ جب تک کسی لفظ کا حقیقی اور معروف معنی مراد لینا ممکن ہو، اس وقت تک اس کا مجازی یا غیر معروف معنی مراد نہیں لیتے۔

مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ میں ’وفار التنور‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لفظ ’تنور‘ کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد وہی تنور ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد سطح زمین ہے۔ تیسرا یہ کہ اس سے مراد زمین کا بلند حصہ ہے۔ چوتھا یہ کہ اس سے مراد طلوع صبح ہے۔ پانچواں یہ کہ یہ محاورتاً واقعہ کی شدت کی تعبیر ہے۔ ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام رازی لکھتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ کلام کو حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے اورحقیقی معنی کے لحاظ سے تنور اسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں روٹی پکائی جاتی ہے۔ ۶؂

اسی طرح ’ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ‘،’ ’جس نے مال غنیمت میں خیانت کی، وہ اس مال کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا‘‘ کی تفسیر میں دو قول نقل کرتے ہیں : ایک یہ کہ حقیقتاً ایسا ہی ہوگا ۔ دوسرا یہ کہ اس تعبیر سے محض عذاب کی سختی بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ علم قرآن میں جو اصول معتبر ہے، وہ یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر قائم رکھنا چاہیے ، الا یہ کہ کوئی اور دلیل اس سے مانع ہو۔ یہاں چونکہ ظاہری معنی مراد لینے میں کوئی مانع نہیں اس لیے اسی کو قائم رکھنا چاہیے۔۷ ؂

۴۔ اس قول کو مختار قرار دیتے ہیں جو کلام کی نحوی ترکیب کے وجوہ میں سے بہتر وجہ کے مطابق ہو۔
سورۂ بقرہ کی آیت ’ولکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین‘ کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ ’ما انزل‘ میں ’ما ‘ نافیہ ہے یا موصولہ، نیز اس کا عطف ’السحر‘ پر ہے یا ’ما تتلوا الشیاطین‘پر۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ ’ما ‘کو موصولہ قرار دینا اور اس کا عطف ’السحر‘ پر کرنا زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ جو لفظ قریب ہے، اس پر عطف کرنا بعید لفظ پر عطف کرنے سے زیادہ مستحسن ہے۔ ۸؂
آیات وسور میں باہمی ربط

امام رازی قرآن مجید میں نظم کے قائل ہیں اور اپنی تفسیر میں آیات اور سورتوں کا باہمی ربط نہایت اہتمام سے بیان کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے جو کوششیں کی ہیں، ان کی اہمیت کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ مولانا تقی عثمانی کا خیال یہ ہے :


’’آیتوں کے درمیان ربط ومناسبت کی جو وجہ وہ بیان فرماتے ہیں ، وہ عموماً اتنی بے تکلف، دل نشین اور معقول ہوتی ہے کہ اس پر دل نہ صرف مطمئن ہو جاتا ہے ، بلکہ اس سے قرآن کریم کی عظمت کا غیر معمولی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ‘‘(علوم القرآن ،۵۰۴)

جبکہ مولانا امین احسن اصلاحی فرماتے ہیں:


’’اس سلسلے میں ان کی کوششیں کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ نظم قرآن کھولنے کے لیے جو محنت درکار تھی، اس کے لیے ان کے جیسے مصروف مصنف کے پاس فرصت مفقود تھی۔‘‘ (مبادی تدبر قرآن)

تاہم اصولی طور پر امام رازی نظم کی رعایت پر نہایت شدت سے اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ حم السجدہ کی آیت ’ولوجعلناہ قرآنا اعجمیا لقالوا لو لا فصلت آیاتہ ‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :


’’لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے جواب میں اتری ہے جو ازراہ شرارت یہ کہتے تھے کہ اگر قرآن مجید کسی عجمی زبان میں اتارا جاتا تو بہتر ہوتا ۔ لیکن اس طرح کی باتیں کہنا میرے نزدیک کتاب الہٰی پر سخت ظلم ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ قرآن کی آیتوں میں باہم دگر کوئی ربط وتعلق نہیں ہے ، حالانکہ یہ کہنا قرآن حکیم پر بہت بڑا اعتراض کرنا ہے۔ ایسی صورت میں قرآن کو معجزہ ماننا تو الگ رہا، اس کو ایک مرتب کتاب کہنا بھی مشکل ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ شروع سے لے کر آخر تک ایک مربوط کلام ہے۔ ‘‘(التفسیرالکبیر ۲۷/ ۱۳۳)

اس کے بعد اس آیت کی تفسیر لکھ کر فرماتے ہیں:


’’ہر منصف جو انکار حق کا عادی نہیں ہے، تسلیم کرے گا کہ اگر سورہ کی تفسیر اس طرح کی جائے جس طرح ہم نے کی ہے تو پوری سورہ ایک ہی مضمون کی حامل نظر آئے گی اور اس کی تمام آیتیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کریں گی۔ ‘‘(التفسیرالکبیر ۲۷/ ۱۳۳)

عقلی انداز

امام رازی اپنے زمانے کے عقلی اور فلسفیانہ علوم کے بلند پایہ عالم تھے ۔ مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والے کلامی اختلافات اور ان کی مذہبی وعقلی بنیادوں پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام کے مختلف مسائل پر یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہونے والے اعتراضات سے بھی وہ پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ قدرتی طور پر ان کی تفسیر پر عقلی رنگ غالب ہے اوران کی بحثوں میں ان تمام علوم کی بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے جن کے مطالعہ کا موقع امام صاحب کو میسر آیا تھا۔ تفسیر کبیر میں اس عقلی ذوق کا اظہار حسب ذیل صورتوں میں ہوا ہے:

۱۔ اسلامی عقائد کی براہین ودلائل سے تائید

امام صاحب نہ صرف اسلامی عقائد کا دفاع بڑی حمیت اور جوش سے کرتے ہیں ، بلکہ اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ سورۂ سبا کی آیت ۱۲ میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا اور جنات کو مسخر کر دیا۔ بعض لوگوں نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ہوا سے مراد تیز رفتار گھوڑے اور جنات سے مراد طاقت ور انسان ہیں۔ امام رازی یہ قول نقل کر کے لکھتے ہیں:
’’یہ بات بالکل غلط ہے۔ کہنے والے نے اس لیے کہی ہے کہ اس کا اعتقاد کمزور ہے اور اسے اللہ کی قدرت پر اعتماد نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہر ممکن پر قادر ہیں اور یہ باتیں بھی ممکنات میں سے ہیں۔‘‘(التفسیر الکبیر۲۵/۲۴۷)

۲۔ اسلامی فرقوں کے کلامی جھگڑے

کلامی اختلافات امام صاحب کی دلچسپی کا خاص موضوع ہیں اور وہ موقع بموقع معتزلہ اور اشاعرہ کے مابین نزاعی مسائل پر بحثیں کرتے ہیں۔ امام صاحب اشاعرہ کے گرم جوش ترجمان ہیں اور جیسا کہ ہم آگے عرض کریں گے، ان کی حمایت میں حدود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں۔

۳۔ دینی حقائق کی عقلی تعبیر

امام صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی آیات جن میں عقل سے ماورا حقائق کا اظہار کیا گیا ہو ، عام طریقے سے ان کی تفسیر کرنے کے بعد ان کی فلسفیانہ تعبیر بھی پیش کرتے ہیں۔

۴۔ ملحدین کے اعتراضات کے جوابات

تفسیر کبیر میں قرآنی مضامین پر ملحدین کے اعتراضات سے بکثرت تعرض کیا گیا ہے۔ ان کے جواب میں امام صاحب یا تو مناظرانہ انداز میں ان کی تردید کرتے ہیں یا آیات کی توجیہ وتاویل کر کے ان کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہیں۔
۵۔ احکام شریعت کے اسرا ر
تفسیر کبیر میں بہت سے مقامات پر شرعی احکام کے اسرار اور ان کی حکمتیں بھی زیر بحث آئی ہیں۔ کتاب کے عمومی مزاج کے تحت ان کی توضیح میں بھی فلسفیانہ ذوق غالب ہے۔

اسرائیلیات

تفسیر بالروایت کے طریقے پر لکھی گئی کتب تفسیر میں ایک بڑا حصہ اسرائیلی روایات کا ہے۔ قرآن مجید میں امم سابقہ یا رسول اللہ کے زمانہ کے جن واقعات واحوال کا اجمالاً تذکرہ ہوا ہے، ان کی تفصیلات مہیا کرنے کے شوق میں غیر محتاط مفسرین نے بے سروپا روایات کا ایک انبار لگا دیا ہے۔ یہ روایات بالعموم روایت کے معیار کے لحاظ سے ناقابل استناد اور عقل ودرایت کے اعتبار سے بالکل بے تکی ہیں۔ اسی لیے محقق مفسرین نے ان کو اپنی تفسیروں میں جگہ دینے سے گریز کیا ہے ۔ امام رازی کا طریقہ بھی اس سلسلے میں احتیاط پر مبنی ہے۔

اسرائیلی روایات، درحقیقت ، دو طرح کی ہیں:

بعض ایسی ہیں کہ ان میں واردتفصیلات قرآن وسنت کے مسلمات سے تو نہیں ٹکراتیں ، لیکن فہم قرآن کے حوالے سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں امام رازی ان کو نقل تو کرتے ہیں ، لیکن ان کی تردید یا تائید کیے بغیر یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ ان سے اعتنا کرنا ایک بے کار کام ہے ، کیونکہ یہ تفسیر کے اصل مقصد کے لحاظ سے کارآمد نہیں ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا، اس کی تعیین میں تفسیری روایات مختلف ہیں۔ بعض کے مطابق یہ گیہوں کا درخت تھا، بعض کے نزدیک انگور اور بعض کے ہاں انجیر کا۔ امام رازی ان روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے اس درخت کی تعیین نہیں ہوتی ، اس لیے ہم کو بھی اس تعیین کی ضرورت نہیں ، کیونکہ اس قصہ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم کو متعین طور پر اس درخت کا علم ہو۔ جو چیز کلام کا اصل مقصود نہیں ہوتی، اس کی توضیح بعض اوقات غیر ضروری ہوتی ہے۔ ۹؂

قرآن مجید میں مذکور قیامت کی علامات میں ایک علامت دابۃ الارض کا نکلنا بھی ہے۔ مفسرین نے اس جانور کے حجم، اس کی خلقت اور اس کے نکلنے کے طریقے کے متعلق بے شمار روایات اکٹھی کی ہیں، لیکن امام رازی فرماتے ہیں کہ قرآ ن مجید سے ان میں سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی ، اس لیے اگر ان کے متعلق رسول اللہ سے کوئی حدیث مروی ہو تو وہ قبول کر لی جائے گی ، ورنہ وہ ناقابل التفات قرار پائے گی۔ ۱۰؂

اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی ساخت اور اس کی لمبائی چوڑائی کے متعلق مختلف تفسیری اقوال نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اس قسم کی بحثیں مجھے اچھی نہیں لگتیں ، کیونکہ ان کا علم غیر ضروری ہے اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اور ان میں غور و فکر کرنا فضول ہے، بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ ہم کو یقین ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو صحیح جانب پر دلالت کرے۔ ۱۱؂

دوسری قسم ان روایات کی ہے جوقرآن وسنت کے مسلمات کے صریح معارض اور ان کی بنیاد کو ڈھا دینے والی ہیں۔ ایسی روایات بالعموم بعض انبیا سابقین کے واقعات کے تحت نقل ہوئی ہیں۔ تمام محقق مفسرین نے ان کی تردید کی ہے، چنانچہ امام رازی نے بھی حسب ذیل روایات کو بے اصل قرار دیا ہے :

واقعہ ہاروت وماروت کے ضمن میں مروی روایات جن کے مطابق یہ دونوں فرشتے تھے جو زمین پر بھیجے گئے اور ایک عورت کے ساتھ بدکاری کی خواہش میں بت پرستی ،شراب نوشی اور قتل کے مرتکب ہوئے۔ ۱۲؂

سورۂ اعراف کی آیت ۲۴ کے الفاظ ’فلما آتاھما صالحا جعلا لہ شرکاء فی ما آتاھما‘ کے تحت مروی روایت جس میں ذکر ہے کہ اس آیت میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کا ذکر ہے جنھوں نے ابلیس کے ورغلانے میں آکر اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھ دیا۔ ۱۳؂

حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے ضمن میں مروی روایت جس کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام آمادۂ گناہ ہو گئے تھے جس پراللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا جنھوں نے ان کو دھکیل کر ہٹایا اور وہ بالکل ناکارہ ہو گئے۔ ۱۴؂

حضرت داؤد علیہ السلام کے واقعہ کے تحت مروی روایات جن کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام اوریا کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے اور اس کے خاوند کو قتل کرا کے اس سے نکاح کر لیا۔ ۱۵؂

نقائص

اپنی تمام تر افادیت اور خوبیوں کے باوجود تفسیر کبیر خامیوں سے پاک نہیں ہے ۔ ہم ذیل میں ان چند امور کا ذکر کرتے ہیں جن پر اہل علم نے اعتراض کیا ہے۔

غیر متعلق مباحث کی کثرت

تفسیر کبیر کے ایسے عقلی مباحث جن سے منصوصات کی تائید یا ان کی تفہیم میں مدد ملتی ہے، ان کی تمام منصف مزاج اہل علم نے قدر کی ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ اس تفسیر میں ایک بڑا ذخیرہ ایسے فنی مباحث کا بھی ہے جن کا قرآن کی تاویل وتشریح سے کوئی تعلق نہیں اور جنھیں امام صاحب نے محض اپنے عقلی ذوق کی تشفی کے لیے تفسیر کا حصہ بنا دیا ہے۔ محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں:


’’تفسیر دیکھنے سے ظاہر ہے کہ امام رازی کو زیادہ سے زیادہ نکتے استنباط کرنے اور دائرۂ گفتگو کو وسیع سے وسیع تر کرنے کا ازحد شوق ہے۔قرآن کے الفاظ سے کسی موضوع کا ذرا بھی تعلق نظر آئے تو وہ اس کو دائرۂ بحث میں لے آتے اور اس سے متعلق نکات استنباط کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ‘‘ (التفسیر والمفسرون ۱/ ۲۹۶)

تفسیر کے مقدمہ میں خود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کی زبان سے یہ بات نکلی کہ سورۂ فاتحہ سے دس ہزار فوائد اور نکات استنباط کیے جا سکتے ہیں ، لیکن بعض لوگوں نے اس کو ناممکن قرار دیا۔ چنانچہ میں نے اس بات کو ممکن الحصول ثابت کرنے کے لیے فاتحہ کی تفسیر میں اس قدر تطویل سے کام لیا ہے۔ ۱۶؂ (تفسیر کبیر میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر ۲۹۰ صفحات کو محیط ہے) ۔ اس ذوق کا نتیجہ یہ ہے کہ کتاب کا ایک بہت بڑا حصہ ریاضی، طیبعیات، ہیئت، فلکیات، فلسفہ اور علم کلام کے طویل مباحث کی نذر کر دیا گیا ہے۔

تفسیر کبیر کا یہ پہلو غالباً تمام اہل علم کی نظروں میں کھٹکا ہے اور اس حوالے سے اس پر تنقید کی گئی ہے۔ سیوطی لکھتے ہیں :


’’صاحب علوم عقلیہ بالخصوص امام رازی نے اپنی تفسیر کو حکما، فلاسفہ اور اور ان جیسے لوگوں کے اقوال سے بھر دیا اور ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کی طرف اس طرح نکل گئے کہ دیکھنے والا تعجب کرتا ہے کہ آیت کے موقع ومحل سے اس کو کیا مطابقت ہے؟ ابو حیان بحر میں لکھتے ہیں کہ امام رازی نے اپنی تفسیر میں بہت سی طویل چیزوں کو جمع کر دیا ہے، جن کی ضرورت علم تفسیر میں نہیں ، اسی لیے بعض علما نے کہا ہے کہ تفسیر کبیر میں ہر چیز ہے، صرف ایک تفسیر نہیں ہے۔ ‘‘(السیوطی، جلال الدین عبد الرحمن: الاتقان ۲/ ۱۹۰)

الدکتور محمد حسین ذہبی بھی اس کی تائید کرتے ہیں :


’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس کتاب کو علم کلام اور طبیعی وکائناتی علوم کا انسائیکلو پیڈیا کہنا زیادہ بہتر ہے ، کیونکہ یہ پہلو اس پر اس قدر غالب ہے کہ اس کی تفسیر ہونے کی حیثیت دب کر رہ گئی ہے۔‘‘ ( التفسیر والمفسرون ۱/ ۲۹۵)

متکلمانہ جانب داری

تفسیر کبیر پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں امام صاحب نے کلامی جھگڑوں کے حوالے سے ایک خاص نقطۂ نظر کی وکالت کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے حسب ذیل ہے:


’’مسلمانوں کا تعلق جب عجمی قوموں سے ہوا اور ان کے علوم اور ان کے فلسفہ سے ان کو سابقہ پڑا تو دینی مسائل پر سوچنے کا وہ انداز فکر وجود میں آیا جس کو ہم علم کلام کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس علم کلام نے بھی ہمارے اندر مختلف مکتب خیال پیدا کیے اور ان میں سے ہر مکتب خیال کے لوگوں نے اپنے مخصوص افکار ونظریات کو مسلمانوں میں مقبول بنانے کے لیے قرآن مجید کی تفسیریں لکھیں۔ ان تفسیروں کا مقصد ، درحقیقت قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے زیادہ ان افکار ونظریات کے دلائل فراہم کرنا تھا جو ان تفسیروں کے لکھنے والوں نے اپنے متکلمانہ طرز فکر سے پیدا کیے تھے۔ اس طرز پر ہمارے ہاں جو تفسیریں لکھی گئیں، ان میں سب سے زیادہ مشہور اور اہمیت رکھنے والی تفسیریں دو ہیں : ایک علامہ زمخشری رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کشاف اور دوسری امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کبیر۔ ان میں سے مقدم الذکر معتزلہ کے مکتب خیال کے ترجمان ہیں اور موخر الذکر اپنی تفسیر میں ہر جگہ اشاعرہ کے نظریات کی وکالت کرتے ہیں۔‘‘ (مبادی تدبر قرآن ۱۸۵)

اشعریت کی حمایت میں امام رازی کے اس غلو کی شکایت علامہ شبلی نعمانی نے بھی کی ہے:


’’امام صاحب نے علم کلام کی بنیاد اشاعرہ کے عقائد پر قائم کی اور اس سینہ زوری سے اس کی حمایت کی کہ اشاعرہ کے جو مسائل تاویل کے محتاج تھے، ان میں تاویل کا سہارا بھی نہ رکھا اور پھر ان کی صحت پر سیکڑوں دلیلیں قائم کیں۔ مثلاً اشاعرہ اس بات کے قائل تھے کہ انسان اپنے افعال پر قدرت موثرہ نہیں رکھتا ، تاہم جبر سے بچنے کے لیے انھوں نے کسب کا پردہ لگا رکھا تھا۔ امام صاحب نے یہ پردہ بھی اٹھا دیا اور صاف صاف جبر کا دعویٰ کیا۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں جا بجا اس دعویٰ کی تصریح کی ہے اور اس پر دلیلیں قائم کی ہیں۔ اسی طرح خدا کے افعال کا بغیر کسی مصلحت وحکمت کے ہونا، حسن وقبح کا عقلی نہ ہونا، زندگی کے لیے جسم کا مشروط نہ ہونا، دیکھنے کے لیے لون وجسم وجہت کا مشروط نہ ہونا، کسی شے میں کسی خاصیت کا نہ ہونا، اشیاء میں سبب ومسبب کا سلسلہ نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام مسائل پر سیکڑوں دلیلیں قائم کیں اور انھی مسائل کو اعتزال اور سنیت کا معیار قرار دیا ، چنانچہ ان کی تمام کتب کلامیہ اور تفسیر کبیر انھی مباحث سے بھری پڑی ہیں ۔‘‘ (شبلی نعمانی، الکلام ۶۳)

ایک مثال سے امام رازی کے اس طرز فکر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:

امام رازی اور تمام اشاعرہ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو تکلیف ما لا یطاق دیتا ہے ،یعنی ان پر ایسا بوجھ ڈالتا ہے جس کو اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اس پر انھوں نے اپنی تفسیر میں مختلف آیات کے ذیل میں متعدد دلیلیں بیان کی ہیں۔ لیکن سورہ بقرہ کی آخری آیت واضح طور پر ان کے اس مسلک کی تردید کرتی ہے۔ ارشاد باری ہے : ’لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعھا‘۔ ’’اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں انھوں نے متعدد تاویلات سے آیت کے واضح مفہوم کو پلٹنے کی کوشش کی ہے ، لیکن ان کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے دوسری جگہ ایک عجیب دلیل دیتے ہوئے آیت کے ظاہری مفہوم کو رد کر دیا ہے ۔ لکھتے ہیں :


’’جب کہ ایک مسئلہ اپنی جگہ پر قطعی یقینی ہو تو اس کے بارے میں ظنی اور کمزور دلائل کی بنا پر کچھ کہنا ناجائز ہے۔ مثلاً ’لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا‘ کے متعلق قطعی دلائل سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس کی قسم کی تکلیف ما لا یطاق اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیتا ہے۔ ہم اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں اس کی تائید میں پانچ نہایت محکم دلیلیں لکھ چکے ہیں۔ پس ظاہر ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد وہ نہیں ہو سکتی جو ظاہر آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ (التفسیر الکبیر بحوالہ مبادی تدبر قرآن)

اہل السنۃ کی کمزور ترجمانی

بعض علما کی رائے یہ ہے کہ تفسیر کبیر میں باطل فرقوں کا استدلال تو نہایت بھرپور طریقے سے پیش کیا گیا ہے لیکن اس کے مقابلے میں اہل سنت کی ترجمانی کمزور طریقے سے کی گئی ہے۔ ابن حجر لکھتے ہیں :


’’ان پر یہ اعتراض ہے کہ قوی شبہات پیش کرتے ہیں ، لیکن ان کا تسلی بخش جواب دینے سے عاجز رہ جاتے ہیں، چنانچہ مغرب کے بعض علما نے کہا کہ ان کے اعتراضات نقد ہوتے ہیں اور جواب ادھار۔ شیخ سراج الدین ان پرسخت اعتراض کرتے اور کہتے تھے کہ دین کے مخالفین کے اعتراضات تو نہایت قوت اور زور سے بیان کرتے ہیں ، لیکن اہل سنت کی ترجمانی نہایت کمزور طریقے سے کرتے ہیں۔‘‘ ( التفسیر والمفسرون ۱/ ۲۹۵)

مخالف کے استدلال کو پوری قوت سے پیش کرنے کی عادت کا خود امام رازی نے بھی اعتراف کیا ہے۔ ’نہایۃ العقول‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ وہ مخالف کے استدلال کو اس عمدگی سے پیش کریں گے کہ اگر مخالف خود بھی چاہے تو اس سے اچھے طریقے سے پیش نہ کر سکے گا۔ ۱۷؂


____________


۱؂ التفسیر والمفسرون ۱/ ۲۹۱۔ محمد تقی عثمانی، علوم القرآن ، ۵۰۴۔
۲؂ ضیاء الدین ، تفسیر کبیر اور اس کا تکملہ، مشمولہ ایضاح القرآن، کراچی۲۰۶ ۔ ۲۴۸۔
۳؂ التفسیر الکبیر ۲۴/ ۲۲۰۔
۴؂ التفسیر الکبیر ۹/ ۱۶۱۔
۵؂ التفسیر الکبیر ۲۱/ ۱۶۷۔
۶؂ التفسیر الکبیر۱۷/ ۲۲۶۔
۷؂ التفسیر الکبیر۹/ ۷۳۔
۸؂ التفسیر الکبیر۳/ ۲۱۸۔
۹؂ التفسیر الکبیر۳/ ۵۔
۱۰؂ التفسیر الکبیر۲۴/ ۲۱۸۔
۱۱؂ التفسیر الکبیر۱۷/ ۲۲۴۔
۱۲؂ التفسیر الکبیر ۳/ ۲۱۹۔
۱۳؂ التفسیر الکبیر۱۴/ ۸۶۔
۱۴؂ التفسیر الکبیر ۱۸/ ۱۳۰۔
۱۵؂ التفسیر الکبیر۲۶/ ۱۹۲۔
۱۶؂ التفسیر الکبیر ۱/ ۳۔
۱۷؂ التفسیر الکبیر۔