جاوید احمد غامدی کا ترجمۂ قرآن " البیان" : خصائص و امتیازات (۱)

ماہنامہ اشراق ، اکتوبر 2018

قرآن مجید کو اس وضاحت کے ساتھ اتاراگیاہے کہ یہ سراسرہدایت اورحق کے معاملے میں پیداہوجانے والے اختلافات میں خداکی آخری حجت ہے۔اس کی دین میں یہی حیثیت ہے کہ اسے سیکھنے اوردوسروں کوسکھانے کاکام ہر زمانے میں حقیقی مسلمانوں کاہدف رہا ہے۔یہ کام شروع دورمیں بہت سادہ اورکسی حدتک آسان بھی تھاکہ لوگ اس کی زبان سے مکمل طورپرآشنا،اس کی آیات کے پس منظر اور جس ماحول میں یہ اُتریں،اُن سے اچھی طرح سے واقف تھے۔لیکن یہ قدرے مشکل اور پیچیدہ ہوتا چلا گیاجب اس کتاب کے براہ راست مخاطبین اس دنیامیں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں کی زبان میں کچھ ناگزیرتبدیلیاں رونماہونے لگیں۔ الفاظ میں متولد مفاہیم پیدا ہوئے تو بعض اسالیب متروک ہوکرنئی نئی صورتوں میں ظاہرہونے لگے۔اس سلسلے کی ایک مشکل اُن نومسلموں کے ہاں بھی پیدا ہوئی جو عربی زبان سے قطعی نابلدہونے کی بناپر اپنے اورقرآن کے درمیان میں ایک قدرتی حجاب دیکھتے تھے۔ 

یہ حالات تھے جن میں صاحبان علم کواس بات کا شدت سے احساس ہواکہ فہم قرآن کے کام کوباقاعدہ علمی طریقے سے انجام دیاجائے ۔سواُنھوں نے اسے متعددزبانوں میں بیان کرنا شروع کیاجوترجمہ کی ایک مستقل اورشان دار روایت کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔اس سے پہلے کتاب کا اصل مدعا جاننے کے لیے انھوں نے بہت سی تفسیری کاوشوں کابھی اہتمام کیااوراس کے لیے عام طورپردوطریقوں کواختیارکیا:ایک یہ کہ اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کے بجاے صرف اگلے لوگوں کی آراکونقل کردیااوردوسرے یہ کہ اصل زبان سے استشہادکرتے ہوئے اورتاریخ کی حتمی شہادت اور آیات کے بین السطورسے مددلیتے ہوئے خوداس کے مطالب کوبیان کیا۔یہ کوششیں بہت سالوں تک اسی طرح ہوتی رہیں اور مسلمانوں کے تفسیری علم میں گراں قدراضافے کاباعث بنیں۔

تاہم،یہ سلسلہ زیادہ دیرجاری نہ رہ سکااورجلدہی اپنی فطری صورت سے محروم ،بلکہ بڑی حدتک اس سے اجنبی ہو کر رہ گیا۔ یہ اُس وقت ہواجب مسلمانوں پرمنطق ،فلسفہ اورتصوف اُن کے خارج سے اوربعض فقہی اورکلامی عصبیتیں اُن کے داخل سے اثر اندازہونا شروع ہوئیں۔منطق کاغلبہ ہواتو قرآن کاایک کلام ہونااوراس لحاظ سے نطق ہونا،نظروں سے بالکل اوجھل ہوگیا۔ فلسفے کا رواج ہواتواس کی سادگی کاحسن گہناگیااوریہ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والا ایک معمہ اورچیستان بن کررہ گیا۔تصوف کے زیراثراِس میں سے وہ وہ مضامین ڈھونڈ نکالنے کی سعی ہوئی کہ اس کے الفاظ اپنی حکومت بالکل کھوبیٹھے اورانجام کار’’باطن‘‘ کے محکوم محض قرارپائے۔ اور گروہی تعصبات نے تو اس معاملے میں قیامت ہی برپاکردی کہ آیات کواُن کے اصل مفہوم سے یک سر غیر متعلق کیا اور انھیں بے کارکی بحثوں میں اپنی تائید اور دوسروں کی مخالفت کا ایندھن بناکے رکھ دیا۔

حالات کے اس تناظرمیں پچھلی صدی میں بعض اہم پیش رفت ہوئیں۔ ہندوستان میں قرآن کے ایک بہت بڑے عارف، حمید الدین فراہی،خداکی اس کتاب پرتان دیے گئے پردوں کو ہٹانے کاگویا عزم لے کر پیدا ہوئے۔ وہ اس طرح کہ زندگی بھریہ کتاب اُن کی مساعی کا ہدف رہی۔وہ اسی کی خاطرجیے،بلکہ صحیح لفظوں میں کہاجائے تووہ جتنی عمرجیے،اسی کے اندرجیے۔خداکی طرف سے بھی یہ انعام ہوا کہ اُس نے اپنی کتاب کوسمجھنے کافطری منہاج اُن پر بالکل کھول دیا۔اُنھوں نے اِس کے لیے کچھ اصول مرتب کیے اور بعض سورتوں کی تفسیربھی لکھی۔ اُن کے یہی مرتب کردہ اصول تھے جن کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبرقرآن‘‘ کے نام سے پورے قرآن پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مولاناکے پیش نظرچونکہ ان اصولوں کی روشنی میں تفسیرکرنے کاصحیح طریق واضح کر دینا تھا، اس لیے اُن کا انہماک زیادہ تر تفسیر میں رہااور وہ ترجمہ پرزیادہ توجہ نہ دے سکے۔ 

محترم جاویداحمدغامدی نے ’’البیان‘‘ لکھی تواسی کام کوآگے بڑھایااورترجمے میں بھی ان اصولوں کی رعایت کرنے کاپوراپورااہتمام کیا اور مزید یہ کہ وہ خودبھی قرآن کے جیدعالم ہیں،اس لیے کئی مقامات پراپناایک منفرداور مستقل موقف بھی بیان کیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانافراہی نے اس کام کی بنیادیں فراہم کیں۔ مولانا اصلاحی نے اُنھی پرایک عمارت اُٹھائی۔ غامدی صاحب نے بھی اس کاایک حصہ تعمیرکیااورمزیدیہ کہ اس کی تزیین وآرایش کابھی اچھاخاصا انتظام کیا۔ اور جہاں تک راقم کی اِس تحریرکامعاملہ ہے تواس کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ ایک صدی سے زیادہ میں بننے والی اس عمارت میں اور بالخصوص اس کی آخری تعمیر میں، اتفاق سے کچھ دن گزار چکاہے اور اس کی خوبیوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت بھی رکھتا ہے، اس لیے اُس کے دل میں اب یہ شدیدتمناہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس کاخوب خوب چرچا کرے تاکہ وہ سب بھی آئیں،اِس کی سیردیکھیں اوراپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا سامان کریں۔

دووجوہات ہیں کہ ہم نے غامدی صاحب کی’’ البیان‘‘ پرلکھنے کااِرادہ کیاہے:ایک اس وجہ سے کہ ترتیب میں مؤخر ہونے کی بناپر یہ مولانافراہی اورمولانااصلاحی کے کام کی مکمل اور آخری صورت ہے اوراس لیے اس کی خصوصیات بھی بڑی حدتک اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ ہمارے پیش نظراصل میں ترجمہ پر لکھنا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ’’البیان‘‘ ہی وہ کتاب ہے جس میں ترجمہ مکمل طورپر فراہی اصولوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ مزید یہ بات بھی سامنے رہے کہ اس تحریرمیں ہم چاہیں بھی تواس کے تمام خصائص وامتیازات کاجائزہ نہیں لے سکتے، اس لیے ہم صرف چندچیزوں کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کریں گے،جیساکہ حروف، الفاظ، اسالیب اور اس میں پائی جانے والی توضیحات کے بارے میں۔البتہ،ہم یہ کوشش ضرورکریں گے کہ ان چیزوں کواس طرح سے ترتیب دیں کہ قرآن کوطالب علمانہ طرزسے پڑھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک معاون کتاب کی صورت بھی اختیار کرجائے۔

باب اول
حروف

حرف آپس میں مل کرلفظ بناتے ہیں۔۱؂ اس لحاظ سے دیکھاجائے تویہ لفظوں کامحض ایک جزہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ لفظوں کے ساتھ جڑکراورجملوں کے ساتھ مل کر آتے ہیں اور اُس وقت اپناایک مستقل مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ کلام کی معنویت چونکہ بہت کچھ ان کے فہم پر منحصرہوتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ انھیں سمجھنے اوردوسری زبان میں منتقل کرنے کاکام بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ یہ کام ’’البیان‘‘ میں کس قدراحتیاط کے ساتھ کیا گیا ہے، ذیل میں چندحروف کے بارے میں کیاگیاکلام اس کی کافی دلیل ہوسکتا ہے۔

’’ف‘‘

یہ حرف قرآن میں کثرت سے استعمال ہواہے اوراپنے اندربہت سے معانی لیے ہوئے ہے ۔قدیم تراجم میں اسے عام طور پر ’’پس‘‘ سے بیان کیاجاتاہے اور نسبتاًنئے ترجموں میں ’’سو‘‘اور’’تو‘‘سے۔ان میں سے’’پس‘‘ عربی زبان کی’’ف‘‘ ہی کی طرح معنی ومفہوم کی بہت سی جہتیں رکھتاہے اوراپنے اندریہ صلاحیت بھی رکھتاہے کہ ’’ف‘‘ کو بڑی حدتک بیان کردے۔مگرہم جانتے ہیں کہ آج کے قاری کے لیے اس کے تمام پہلوؤں کااِدراک کرنااورصرف اس ایک لفظ سے کلام میں موجودمختلف معانی کواخذکر لینااب کسی طرح بھی ممکن نہیں رہا۔ کچھ ایساہی معاملہ ’’سو‘‘ اور ’’تو‘‘ کا بھی ہے۔چنانچہ اس صورت احوال میں لازم ہوجاتاہے کہ ہم کسی آیت میں’’ ف‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو کے وہی الفاظ استعمال کریں جو اُس مقام میں اُس سے مرادلیے گئے ہوں۔ہمارے خیال کے مطابق ’’البیان‘‘ میں چند دوسرے تراجم کی طرح ، بلکہ اس سے کچھ مزیدبڑھ کر اس ضرورت کالحاظ رکھاگیاہے ۔ذیل میں ہم ’’البیان‘‘ میں کیے گئے ’’ف‘‘کے مختلف ترجموں کی چندمثالیں پیش کرتے ہیں:

۱۔ البتہ

وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا. وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ھَضْمًا.(طٰہٰ۲۰: ۱۱۱۔ ۱۱۲)
’’اس دن نامرادی ہے اُن کے لیے جوظلم کابوجھ اٹھائے ہوئے ہوں۔اِس کے برخلاف جونیک عمل کرے گا اور اس کے ساتھ ایمان بھی رکھتاہوگا،اُس کو البتہ اُس دن کسی حق تلفی اورکسی زیادتی کا اندیشہ نہ ہوگا۔‘‘


مذکورہ آیت میں ’فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا‘ کی ’’ف‘‘ کاترجمہ عام طورپر’’تو‘‘اور’’سو‘‘سے کیاگیاہے۔ اس سے عام قارئین پریہ بالکل بھی واضح نہیں ہوپاتاکہ یہ جملہ ’قَدْ خَابَ‘ کے تقابل میں آنے کی وجہ سے اپنے اندرمقابلے کا مفہوم اور ایک طرح کی تاکیدبھی رکھتاہے۔ 

ان کے بجاے’’ البتہ‘‘ کالفظ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بڑی آسانی سے ان دونوں پہلوؤں کوبیان کررہاہے۔

۲۔ لیکن

حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ. فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ ۲: ۲۳۸۔ ۲۳۹) 
’’اپنی نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص اُ س نمازکی جودرمیان میں آتی ہے ،اوراللہ کے حضورمیں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔پھراگرخطرے کاموقع ہوتوپیدل یاسواری پر،جس طرح چاہے پڑھ لو۔لیکن جب امن ہو جائے تواللہ کواُسی طریقے سے یادکروجو اُس نے تمھیں سکھایاہے ،جسے تم نہیں جانتے تھے۔‘‘


ان آیات کااصل مدعایہ ہے کہ نمازوں کی حفاظت کی جائے اورانھیں خشوع وخضوع کے ساتھ اداکیاجائے۔پھر خوف کی حالت میں ایک رخصت کابیان کرکے ’فَاِذَآ اَمِنْتُمْ‘ کے الفاظ میں اصل مدعاکی پھرسے تاکیدکردی گئی ہے۔ اس ’’ف‘‘کے لیے زیادہ تر مترجمین نے ’’پھر‘‘کالفظ استعمال کیاہے۔اس کے مقابلے میں ’’البیان‘‘ میں ’’لیکن‘‘ کا لفظ آیاہے جوبخوبی بتا رہاہے کہ یہ رخصت اصل حکم میں محض استثنا کی حیثیت رکھتی ہے اوراس کادوسرافائدہ یہ ہوا ہے کہ یہ اصل حکم کی اہمیت کو نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہونے دے رہا۔

۳۔ تاہم

فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا م نَبَاتًا حَسَنًا.(آل عمران ۳: ۳۷)
’’تاہم اُس کے پروردگارنے اُس لڑکی کوبڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایااورنہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا۔‘‘


حضرت مریم کی والدہ نے اپنابچہ خداکے لیے وقف کرنے کی نذرمانی۔توقع کے برعکس،ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی توانھیں اس بات کاکچھ ملال ہواکہ وہ بیٹے کے بجاے اُسے وقف کررہی ہیں۔مگرخدانے اسی بیٹی کوقبول فرمایا اور بڑی اچھی طرح سے قبول فرمایا۔اسی بات کو ’فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ‘ کے جملے میں بیان کیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تویہاں ’’ف‘‘کاترجمہ’’تاہم‘‘ کے لفظ سے کرنابڑامعنی خیزہے اوروالدۂ مریم کے اِس تردد، اور اس کے باوجودخداکی طرف سے ہونے والی قبولیت کوخوب خوب بیان کررہاہے۔

۴۔ اچھا تو

فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ.(البقرہ ۲: ۲۶۰)
’’اچھا،تو چارپرندے لے لو،پھراُن کواپنے ساتھ ہلالو۔‘‘


سیدناابراہیم علیہ السلام نے خداسے درخواست کی کہ مجھے دکھائیں کہ آپ مردوں کوکس طرح سے زندہ کریں گے؟ فرمایا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے ؟عرض کیا:ایمان تورکھتاہوں،لیکن خواہش ہے کہ میرادل پوری طرح سے مطمئن ہو جائے۔ اس پرفرمایاہے کہ اگرتم ایمان رکھتے ہواورمحض شرح صدرکے لیے یہ دیکھناچاہتے ہوتویوں کرو کہ ..... اور اس ساری بات کے لیے یہاں صرف ’’ف‘‘ کواستعمال کیا ہے۔اب دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’’ پس‘‘ اور’’پھر‘‘کے مقابلے میں ’’البیان‘‘ میں لائے گئے ’’اچھا، تو‘‘کے الفاظ اس بات کوکس خوب صورتی سے ادا کررہے ہیں۔
ایک مقام پر’’ف‘‘کاترجمہ انھی ’’اچھاتو‘‘کے الفاظ میں کیاہے ،مگراس سے کلام کے ایک اورپہلوکوکھولاہے:
وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ.(الجاثیہ ۴۵: ۳۱) 
’’رہے وہ جنھوں نے ماننے سے انکارکردیاتھا،اُن سے کہاجائے گا:اچھاتومیری آیتیں کیاتمھیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟مگر تم نے تکبرکیااورتم مجرم لوگ تھے۔‘‘


یہ آخرت کے دن کابیان ہے۔یہاں ’’اچھاتو‘‘کے الفاظ ایک تومنکروں کی طرف خداکے اُس التفات کوبیان کر رہے ہیں جس کے بعد اُن سے شدیدبازپرس ہواچاہتی ہے،اوردوسرے اُس تردید کوبھی بیان کررہے ہیں جو خدا کی طرف سے اُن کی متوقع معذرتوں پر کی گئی ہے۔

۵۔ اچھا

فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۷۱)
’’اچھا، انتظارکرو،میں بھی تمھارے ساتھ انتظارکرتاہوں۔‘‘


حضرت ہودعلیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید کواس طرح سے پیش کیاکہ ان سے خیرخواہی کاحق ادا کر دیا۔ قوم نے پھربھی ماننے سے انکارکیاتواُن کے ایمان سے قطعی مایوس ہوکراورکچھ دھمکی آمیزاسلوب میں فرمایا ہے: ’فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ‘۔ ’’البیان‘‘ میںیہاں ’’ف‘‘ کاترجمہ’’ اچھا‘‘ کے لفظ سے کیا گیا ہے اور ہمارے خیال میں مایوسی اوردھمکی کے ان دو پہلوؤں کو بہت واضح طورپربیان کررہاہے۔

۶۔ آخرکار

فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا.(الاعراف ۷: ۷۲)
’’آخرکار ہم نے اُس کواوراُنھیں جواُس کے ساتھ تھے،اپنی رحمت سے بچالیا۔‘‘


یہ سیدنا ہود علیہ السلام کی سرگذشت کاآخری جملہ ہے۔کچھ عرصہ گزرجانے کے بعداُن کی دھمکی کے واقع ہو جانے اورجس مقصد سے یہ سرگذشت سنائی گئی ہے،اُسے بیان کرنے کے لیے یہاں’’ف‘‘لائی گئی ہے۔ ’’آخرکار‘‘ کا لفظ اصل میں انھی دونکتوں کانہایت بلیغ بیان ہے۔

۷۔ اب

فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَصَدَفَ عَنْھَا.(الانعام ۶: ۱۵۷)
’’اب اُن سے بڑھ کرکون ظالم ہوگاجواللہ کی آیتوں کوجھٹلادیں اوراُن سے منہ موڑیں۔‘‘


قریش سے فرمایاہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے اُتاری ہے کہ مباداتم کہوکہ کتاب توہم سے پہلے کے دو گروہوں پر اتاری گئی تھی اورہم اُن کے پڑھنے پڑھانے سے بالکل بے خبرتھے۔یاکہوکہ اگرہم پرکتاب اتاری جاتی توہم اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔سو تمھارے پروردگارکی طرف سے ایک واضح حجت اورہدایت ورحمت تمھارے پاس آگئی ہے ۔اس کے بعدفرمایا ہے: ’فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ‘۔ یہاں ’’ف‘‘کامطلب یہی ہے کہ اس کتاب کے آجانے کے بعدتمھارے سب عذر ختم ہوگئے ہیں،چنانچہ جو اب بھی اسے جھٹلادے گا، آخر اُس سے بڑا ظالم کون ہوگا۔ ’’اب‘‘ کا لفظ اسی مطلب کواداکرنے کے لیے لایاگیاہے۔

بعض مقامات پرموقع کلام اورفعل کے تکمیلی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اسی ’’اب‘‘کے ساتھ کچھ اور لفظوں کا اضافہ بھی کیاگیا ہے۔جیساکہ مثال کے طورپر’’اب ذرا‘‘اور’’اب جاؤ‘‘وغیرہ:
فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ.(البقرہ ۲: ۲۵۹) 
’’اب ذرااپنے کھانے اورپینے کی چیزوں کو دیکھو، اِن میں سے کوئی چیزسڑی نہیں۔‘‘
فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۶۸)
’’اب جاؤ اوروہ کرو جس کاتمھیں حکم دیا جا رہا ہے۔‘‘

۸۔ اُس وقت

ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۴)
’’پھرتمھارے پروردگارہی کی طرف تم سب کوپلٹناہے۔اُس وقت وہ تمھیں بتادے گاجس چیزمیں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘


یہاں ’’ف‘‘کاترجمہ عام طورپر’’پھر‘‘سے کیاگیاہے۔اس کے بجاے’’اُس وقت‘‘ کے الفاظ اس اعتبار سے بہت بہترہیں کہ یہ اُس کے ظر ف ہونے کوبھی بیان کررہے ہیں اورمعنی میں اس سے پچھلے جملہ کے ’’ثم‘‘، یعنی ’’پھر‘‘ سے اس کے مختلف ہونے کوبھی نمایاں کررہے ہیں۔’’ف‘‘کے اس ظرفیہ استعمال کی اوربھی کئی مثالیں قرآن میں موجود ہیں، جیساکہ مثال کے طوپر:

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ.(الفتح ۴۸: ۱۸)
’’اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کررہے تھے،اُس وقت اللہ نے جان لیاجوکچھ اُن کے دلوں میں تھاتواُس نے اُن پر طمانیت اتار دی۔‘‘

۹۔ پھر یہی نہیں

فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَالَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ. (آل عمران ۳: ۵۶) 
’’پھریہی نہیں،اِن منکروں کومیں دنیااورآخرت ،دونوں میں سخت سزادوں گا،اوروہ کوئی مددگارنہ پائیں گے ۔‘‘


یہاں بنی اسرائیل کے انکارکے نتیجے میں خدائی دینونت کے ظہورکااعلان ہوا ہے۔ یعنی، اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان لوگوں سے الگ کرکے اپنے پاس لے جائے گا اورماننے والوں کواُن کے منکروں پرغلبہ عطاکرے گا اور آخرت میں ان سب کے اختلافات کی حقیقت بھی کھول دے گا۔اورصرف یہی نہیں ہوگا،بلکہ منکروں کو دنیا اور آخرت، دونوں میں عذاب اورماننے والوں کواُن کی محنت کاصلہ بھی عطا کرے گا۔ ’فَاَمَّا الَّذِیْنَ‘ کے’’ ف‘‘ کا ترجمہ ’’پھریہی نہیں‘‘ کے الفاظ میں کریں تویہ ساری بات اداہوجاتی ہے۔اس کے بجاے ’’سو‘‘لایا جائے تو اصل بات کسی طرح بھی واضح نہیں ہوپاتی اوراگر’’پھر‘‘لایاجائے توسرے سے اصل مدعاہی خراب ہوجاتاہے۔
۱۰۔ مگر
وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ. (الجاثیہ ۴۵: ۳۱) 
’’رہے وہ جنھوں نے ماننے سے انکارکردیاتھا،اُن سے کہاجائے گا:اچھاتومیری آیتیں کیاتمھیں پڑھ کرنہیں سنائی جاتی تھیں؟مگر تم نے تکبرکیااورتم مجرم لوگ تھے۔‘‘


اللہ تعالیٰ کامنکرین سے یہ پوچھنا کہ تمھیں میری آیتیں کیاپڑھ کرنہیں سنائی جاتی تھیں؟ استفسار کے لیے نہیں، بلکہ اقرارکے لیے ہوگا۔مطلب یہ ہوگاکہ تمھیں میری آیتیں واقعتا پڑھ کرسنائی جاتی تھیں۔چنانچہ اس کے بعد ’فَاسْتَکْبَرْتُمْ‘ کی ’’ف‘‘ کا ترجمہ ’’مگر‘‘ سے کرنا ہی زیادہ موزوں ہو سکتا ہے جو اس بات کو بھی بیان کر رہا ہے کہ اُن پر یہ آیتیں یقیناپڑھ کرسنائی جاتی تھیں اوراُس ملامت کوبھی بیان کر رہاہے جوان آیتوں کے مقابلے میں استکبارکرنے پر اُنھیں کی جارہی ہے۔

۱۱۔ اس لیے

وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ.(البقرہ ۲: ۸۸)
’’اورانھوں نے کہا:ہمارے دلوں پرغلاف ہیں۔نہیں،بلکہ اِن کے اس کفرکی وجہ سے اللہ نے اِن پرلعنت کردی ہے، اس لیے اب یہ کم ہی مانیں گے۔‘‘


یہودنے مسلسل انکارکی روش اختیارکی تواس کی پاداش میں خداکی طرف سے اُن پرلعنت کردی گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس لعنت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتاہے کہ ملعونین ایمان لانے سے یک سرمحروم ہوجاتے ہیں،چنانچہ فرمایا ہے: ’فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ‘۔ اس لیے اب یہ کم ہی مانیں گے۔یہاں’’ف‘‘کو’’اس لیے‘‘کے الفاظ میں بیان کرنا،اس اعتبار سے زیادہ صحیح ہے کہ لعنت اور ایمان سے مستقل محرومی ۲؂ کے درمیان میں جوسبب اور مسبب کاتعلق پایا جاتا ہے، یہ اُسے بہت اچھی طرح سے واضح کر دیتا ہے۔

۱۲۔ اس کے باوجود

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ.(البقرہ ۲: ۷۵)
’’اس کے باوجود،(مسلمانو)،کیاتم ان سے یہ توقع رکھتے ہوکہ یہ تمھاری بات مان لیں گے۔‘‘


اس مقام پریہودکے ہاں دینی امورمیں پائے جانے والے گریزاوراُن کی سرکشی کابیان ہواہے۔اس دوران میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ‘۔ دیکھ لیاجاسکتاہے کہ یہاں ’’ف‘‘ کاترجمہ ’’اس کے باوجود‘‘کے الفاظ میں ادا کرنابہت زیادہ مناسب ہے اورمسلمانوں کواُن کی سادہ لوحی پر بہت اچھے طریقے سے متنبہ کررہاہے جویہودکے اِس منفی رویے کے باوجوداُن سے بعض مثبت امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔

۱۳۔ اس پر بھی

فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ ۲: ۱۸۴)
’’اس پربھی جوتم میں سے بیمارہویاسفرمیں ہوتووہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔‘‘


ایمان والوں پرروزے فرض کیے گئے ہیں تاکہ اُن میں اللہ کاڈرپیداہو۔روزہ اپنی ذات میں ایک پابندی کانام ہے جو بالعموم نفس پرشاق گزرتی ہے،چنانچہ فرمایاہے کہ یہ بہت زیادہ نہیں،بلکہ گنتی کے چندروز ہیں۔مزیدیہ کہ کسی معقول عذرکی وجہ سے اگریہ مقررہ دنوں میں نہ رکھے جاسکیں تو دوسرے دنوں میں رکھ لیے جائیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تویہاں’’ف‘‘ کاترجمہ ’’اس پربھی‘‘کے الفاظ میں کرنا،جس طرح روزوں کے متعلق رعایت کے پہلو کو بیان کررہاہے ،اسی طرح روزوں میں پائی جانے والی مشقت کے ہلکے پن کی طرف اشارہ کرکے ہمیں اُن کی ترغیب بھی دے رہاہے۔
یہ اسلوب اُن مقامات پربھی آیاہے جہاں کچھ حرمتوں سے بازرہنے کاحکم دیاہے اورمقصد یہی ہے کہ ان احکام میں پائی جانے والی نرمی کونمایاں کیاجائے۔جیساکہ مثال کے طورپرجب مردار،خون، سؤر کا گوشت اورغیراللہ کے نام کاذبیحہ حرام قراردیاتواسی ’’ف‘‘کو استعمال کیاہے اور ’’البیان‘‘ میں وہاں بھی اس کاترجمہ ’’اس پربھی‘‘کے الفاظ ہی سے کیا گیا ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ.(البقرہ ۲: ۱۷۳)
’’اس پر بھی جو مجبور ہو جائے، اس طرح کہ نہ چاہنے والا ہو، نہ حدسے بڑھنے والاتواُس پرکوئی گناہ نہیں۔‘‘

۱۴۔ اِس طرح

فَرَجَعْنٰکَ اِلآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَےْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ.(طٰہٰ ۲۰: ۴۰)
’’اِس طرح ہم نے تم کوتمھاری ماں کی طرف لوٹادیاکہ اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اوراُس کوغم نہ رہے۔‘‘


حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے خداسے الہام پاکراُنھیں دریاکے حوالے توکردیا،مگر اپنے بچے سے یہ دوری برداشت کرنا اُن کے لیے کوئی آسان ہدف نہ تھا۔سوخدانے اپنی تدبیرسے کچھ ایسے انتظامات کیے کہ یہ سب دوریاں ختم ہو گئیں۔ ان انتظامات کی تفصیل ذکرکرنے کے بعدان کانتیجہ یوں بیان فرمایا ہے: ’فَرَجَعْنٰکَ اِلٰی اُمِّکَ‘۔ ’’اس طرح‘‘ کے الفاظ اصل میں اسی نتیجے کوبیان کررہے ہیں۔
قرآن میں اس ’’ف‘‘کواوربھی کئی مقامات پرلایاگیاہے،جیساکہ مثال کے طورپریہ آیت:
وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ.(البقرہ ۲: ۵۰) 
’’اور یاد کرو، جب ہم نے تمھیں ساتھ لے کر دریا چیر دیا اور اِس طرح تمھیں بچالیا۔‘‘

۱۵۔ ورنہ

وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۹)
’’ہاں ،البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا،ورنہ ظالم ٹھیروگے۔‘‘


حضرت آدم سے کہاگیاہے کہ وہ اوران کی بیوی اس باغ میں رہیں اوراس میں سے جہاں سے چاہیں، کھائیں۔ ہاں، ان پرایک پابندی ضرورہے کہ وہ اس درخت کے پاس نہ جائیں۔ ’فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘ کہ اس کی خلاف ورزی پر وہ خداکے ہاں ظالم قرار پائیں گے۔ اس پابندی اورخلاف ورزی کی صورت میں نکلنے والے اس کے نتیجے کو ’’ورنہ‘‘ کا یہ لفظ ’’پس‘‘ یا ’’پھر‘‘ کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح سے اداکررہاہے۔
ذیل کی اس آیت میں بھی ’’ف‘‘اسی مفہوم کے لیے آیاہے:
وَ لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَ کُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(الاعراف ۷: ۷۳)
’’اورکسی برے ارادے سے اِس کوہاتھ نہ لگانا، ورنہ ایک دردناک عذاب تمھیں آپکڑے گا۔‘‘

۱۶۔ ’’ف‘‘ کے دیگر ترجمے

۱۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ فَلَیْسَ مِنِّیْ.(البقرہ ۲: ۲۴۹)
’’اس کی صورت یہ ہوگی کہ جواِس کاپانی پیے گا،وہ میراساتھی نہیں ہے۔‘‘


طالوت جب اپنی افواج کولے کرنکلے تواُنھوں نے لوگوں کوبتایاکہ اللہ نے فیصلہ کیاہے کہ وہ ایک ندی کے ذریعے سے تمھارا امتحان کرے گا۔ اس امتحان کی صورت کیا ہو گی؟ کہا: ’فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ فَلَیْسَ مِنِّی‘۔ یہ ’’ف‘‘ تفصیل کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ’’ اس کی صورت یہ ہوگی‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے۔

۲۔ وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا.(البقرہ ۲: ۶۰)
’’اوریادکرو،جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی توہم نے کہا: اپنی لٹھیا اِس پتھر پر مارو۔ (اُس نے ماری) تو اُس سے بارہ چشمے بہ نکلے۔‘‘


’فَانْفَجَرَتْ‘ کی اس ’’ف‘‘سے پہلے جونحویوں کے ہاں فاے فصیحہ کہلاتی ہے،کوئی بات محذوف مانی جاتی ہے۔ ’’البیان‘‘ میں پہلے اُس بات یعنی،’’اُس نے ماری‘‘ کو ظاہر کیا گیا ہے اور پھر ’’تو‘‘ کے ساتھ اُس کاترجمہ کیا گیا ہے۔

۳۔ قَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ. فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً.(الذاریات ۵۱: ۲۷۔ ۲۸)
’’اُس نے کہا: کیوں آپ کھاتے نہیں؟پھر(اُن کے تردد کو دیکھ کر) اُس نے اپنے دل میں اُن سے کچھ اندیشہ محسوس کیا۔‘‘


’فَاَوْجَسَ‘ کی یہ ’’ف‘‘ اپنے ماقبل سے سبب کاتعلق رکھتی ہے ،مگراسے سادہ اندازمیں بیان کیاجائے توکچھ مسائل پیداہوتے ہیں۔مثال کے طورپر،’’سو‘‘یا’’پھر‘‘وغیرہ سے ترجمہ کریں تواس میں ترتیب یاتعقیب کامفہوم پیدا ہو جاتا ہے جویہاں بالکل بھی مقصود نہیں۔ اوراگر’’اس پر‘‘وغیرہ کے الفاظ لائیں توان سے سبب توواضح ہو جاتا ہے، مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کہ ’’آپ کھاتے کیوں نہیں؟‘‘ اوراس بات کے درمیان میں کہ ’’اس نے اپنے دل میں اُن سے کچھ اندیشہ محسوس کیا‘‘،کوئی سبب واضح نہیں ہو پاتا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کاحل یہ نکالاگیاہے کہ ’’پھر‘‘ کا لفظ لاکر ’’اُن کے ترددکودیکھ کر‘‘کاوہ فقرہ بھی لکھ دیاگیاہے جوپچھلے جملوں سے خودبخود مفہوم ہورہاہے۔
اس سے کچھ ملتی جلتی مثال یہ آیت بھی ہے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً.(النساء ۴: ۲۴)
’’پھر(اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا ہے تو) جو فائدہ اُن سے اٹھایاہے ،اُس کے صلے میں اُن کا مہر اُنھیں اداکرو،ایک فرض کے طورپر۔‘‘


’فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‘ کے اس ’’ف‘‘ میں بھی سابقہ جملوں سے مترشح ہونے والا ایک مفہوم مضمرہے۔دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ جب اسے کھول دیاگیا تواس کے نتیجے میں وہ ساری بحث سرے سے ختم ہوگئی جو آیت کے الفاظ اور سیاق و سباق سے صرف نظر کرتے ہوئے بعض حضرات نے یہاں پیداکرلی ہے۔
۴۔ فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(الدخان ۴۴: ۵۸) 
’’سو(اِنھیں اِسی قرآن سے یاددہانی کرتے رہو، اے پیغمبر، اس لیے کہ )ہم نے تواِس کوتمھاری زبان میں نہایت موزوں بنایا ہے،اِسی لیے کہ یہ یاددہانی حاصل کریں۔‘‘


یہ’’ف‘‘پچھلی کسی ایک بات پرنہیں ،بلکہ پورے سلسلۂ کلام پرآگئی ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ’’ف‘‘کا ترجمہ کرتے ہوئے کچھ ایسی وضاحت بھی کردی جائے جوپچھلے سارے مضمون کے ساتھ اس کے اتصال کوبیان کردے۔
۵۔ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْھَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ.(الذاریات ۵۱: ۲۹) 
’’اُس کی بیوی یہ سن کرحیرانی کے عالم میںآگے بڑھی، اپنا ماتھا پیٹا اور بولی: بڑھیا بانجھ، (اب جنے گی)؟‘‘


یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ’’ف‘‘ کاترجمہ ضرورہی کیاجائے،یہ ہرصورت میں لازم نہیں ہوتا۔بعض اوقات اردو کے جملوں کی ترکیب خودہی اسے بیان کررہی ہوتی ہے ۔ایسے میں لفظی ترجمہ پراصرارکیاجائے توکلام کی روانی میں خلل واقع ہوتااوراس کی خوب صورتی بھی بڑی حدتک متاثرہوتی ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اسی لیے ’فَصَکَّتْ وَجْھَھَا‘ کے ’’ف‘‘ کا لفظی ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

________

۱؂ یاد رہے کہ اس تحریرمیں ہم حرف اورلفظ کاباہمی فرق اردوزبان کے لحاظ سے کررہے ہیں،وگرنہ عربی کی نحومیں حرف کوبھی لفظ ہی کہاجاتاہے۔
۲؂ یاد رہے، یہاں ’’کم ہی مانیں گے‘‘ سے مرادیہ نہیں ہے کہ ان کے ایمان کی کچھ نہ کچھ توقع بہرحال ابھی پائی جاتی ہے ۔بلکہ یہ کسی چیزکی مطلق نفی کرنے کا ویساہی اسلوب ہے ، جیساکہ ہم کسی کی بے جاحرکتوں کودیکھ کراس سے بالکل مایوس ہو جائیں اور کہیں کہ اس کے سدھرنے کااب کم ہی اِمکان ہے۔

----------------------

مزید پڑھیں !

جاوید احمد غامدی کا ترجمۂ قرآن و تفسیر " ​البیان" : خصائص و امتیازات (2)