جاوید احمد غامدی کا ترجمۂ قرآن " ​البیان" : خصائص و امتیازات (3)

رضوان اللہ 

ماہنامہ اشراق ، اکتوبر 2018 


’’تنوین‘‘

تنوین بھی ایک حرف ہے کہ اسے نحوی حضرات ’’ن‘‘ کاقائم مقام قراردیتے ہیں۔یہ اصل میں تنکیرکے لیے آتی ہے،مگرکلام عرب میں اس سے بعض دوسرے معانی کوبھی اداکیاجاتاہے۔ان میں سے ایک معنی تفخیم شان کابھی ہے اوراس کاترجمہ عام طورپراس کے صرف ایک پہلو کے لحاظ سے کیاجاتاہے،مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ’’البیان‘‘ میں تفخیم کی اس تنوین کاترجمہ ہرجگہ ایک سانہیں کیاگیاکہ مختلف مقامات پراس کے مختلف پہلومرادہواکرتے ہیں،مثلاً:

۱۔ عظمت

سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.(النور ۲۴: ۱)
’’یہ ایک عظیم سورہ ہے جس کوہم نے اتاراہے اوراس کے احکام (تم پر)فرض ٹھیرائے ہیں اوراس میں نہایت واضح تنبیہات بھی اتاری ہیں تاکہ تم یادرکھو۔‘‘


یہاں ’سُوْرَۃٌ‘ کی تنوین اصل میں اس کی عظمت اوراہمیت کے اظہارکے لیے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مبتدا محذوف کی خبرہے اوراس حذف سے مقصودیہ ہے کہ ساری توجہ خبرپرمرکوزہوکررہ جائے۔مزیدیہ کہ اگلے جملے، جیساکہ اسے ہم نے اتاراہے،اس کے احکام فرض ٹھیرادیے ہیں ،اس میں نہایت واضح تنبیہات اتاردی ہیں؛ان سب سے بھی ’سُوْرَۃٌ‘ کے اس لفظ میں عظمت واہمیت کاپہلوپیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ایک عظیم سورہ‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے۔

۲۔ برتری

بَلْ قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلآی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۲۲)
’’ہرگزنہیں،بلکہ یہ توکہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ داداکوایک برترطریقے پرپایاہے اورہم اُنھی کے قدم بہ قدم ٹھیک راستے پرچل رہے ہیں۔‘‘


عرب کے لوگ صرف اس لیے شرک کواپنادین قرارنہیں دیتے تھے کہ یہ اُن کے باپ داداکاطریقہ تھا،بلکہ وہ اُسے حق بھی سمجھتے تھے۔آیت میں ’وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ‘ کے الفاظ بھی یہی بات بتارہے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں ’اُمَّۃٍ‘ کی تنوین محض تنکیر کے لیے نہیں آئی ،جیساکہ عام طورپر مترجمین نے سمجھاہے ،بلکہ یہ اُن کے اُس زعم کوبیان کرنے کے لیے آئی ہے جس کے مطابق شرک ہی بہتراورسب سے بڑھ کر دین تھا۔یہی وجوہ ہیں کہ ’’البیان‘‘ میں اسے ’’برتر ‘‘کے لفظ میں ادا کیاگیاہے۔

۳۔ خوبی

وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِسَیْنَآءَ تَنْبُتُ م بِالدُّھْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ.(المومنون ۲۳: ۲۰)
’’اسی طرح وہ درخت بھی اگایاہے جوطورسیناسے نکلتاہے ۔وہ روغن لیے ہوئے اگتاہے اور(روغن کی صورت میں)کھانے والوں کے لیے ایک اچھاسالن بھی۔‘‘


یہاں خداکی طرف سے کیے گئے ربوبیت کے بے مثل انتظام کوبیان کیاجارہاہے۔امتنان کے اس پہلوکالحاظ رکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت محض روغن زیتون کے سالن ہونے کابیان نہیں ،بلکہ اِس سالن کے ایک بڑی اچھی نعمت ہونے کابیان ہے۔ان آیات کے مخاطبین کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ اُن کے ہاںیہ روغن سالن کے طورپر استعمال ہوتااوربہت زیادہ پسندکیاجاتاتھا اور اسے ایک مقوی غذابھی قرار دیا جاتا تھا۔ ’صِبْغٍ‘ کی تنوین اصل میں اِس کی انھی خوبیوں کابیان ہے ،اوراسی وجہ سے ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ایک اچھا سالن‘‘کیاگیاہے۔

۴۔ ہولناکی

وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا.(النساء ۴: ۳۰)
’’اوریادرکھوکہ جولوگ ظلم وزیادتی کے ساتھ ایساکریں گے، اُن کوہم ضرورایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیں گے۔‘‘


قرآن میں عمل اورجزاکے درمیان میں مشابہت کی بہت سی مثالیں مذکورہوئی ہیں۔اس آیت میں اسی اصول پر فرمایا ہے کہ جوظلم وزیادتی کرتے ہوئے نافرمانی کاارتکاب کرے گا،اُسے ہم سزابھی بڑی سخت اورہولناک دیں گے۔ اس پہلوکالحاظ کیاجائے تو ’نَارًا‘ کی تنوین سزاکے ہولناک ہونے کابیان ہے اوراس لفظ کاترجمہ’’ایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ‘‘ کرنا،بہت زیادہ موزوں ہے۔

۵۔ حسن و شان

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَھُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۵)
’’پھرجوایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے،وہ ایک شان دارباغ میں شاداں فرحاں رکھے جائیں گے۔‘‘


جن لوگوں نے کفراورتکذیب کی زندگی گزاری ،اُن کے بارے میں فرمایاہے کہ وہ آخرت کے روز عذاب میں پکڑے ہوئے ہوں گے۔ان کے مقابلے میں جولوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ،مذکورہ آیت میں اُن کے حسن انجام کابیان فرمایا ہے۔ یہ حسن انجام محض ایک باغ کے بجاے کسی ایسے باغ کادیاجاناہی ہوسکتاہے جو اپنی خوب صورتی اورشان میں بہت زیادہ بڑھاہوا ہو۔ ’یُحْبَرُوْنَ‘ کے لفظ کی رعایت رہے توبھی اِس باغ میں یہ وصف آپ سے آپ پیدا ہو جاتا ہے۔ ’رَوْضَۃٍ‘ کی تنوین باغ کے اِسی وصف کابیان ہے اور ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ اسی لیے ’’شان دار باغ‘‘ کے الفاظ میں ہواہے۔

۶۔ تکبیر

خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.(العنکبوت ۲۹: ۴۴)
’’زمین اورآسمانوں کوخدانے برحق پیداکیاہے۔اس میں یقینابہت بڑی نشانی ہے ایمان والوں کے لیے۔‘‘


مقصدحق کی تذکیراوراُس کی طرف رہنمائی کے لیے قرآن میں عام طورپرتین بڑے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے: انفسی، تاریخی اور آفاقی۔یہاں ان میں سے آخری کاذکر فرمایاہے۔زمین وآسمان کی یہ تخلیق جس طرح قرآن میں ایک بڑی دلیل کے طورپربیان ہوتی ہے، اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ یہ واقعہ میں بھی بہت بڑی دلیل ہے۔اس نظر سے دیکھاجائے تو ’لَاٰیَۃً‘ کی تنوین اس دلیل کے بڑے ہونے ہی کابیان ہے۔
یہ تنوین بعض اوقات تفخیم کے بجاے تحقیرکی ہوتی ہے، مگر ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ بھی ہرجگہ ایک سا نہیں کیاگیا:

۷۔ تصغیر

وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۴۶)
’’تمھارے پروردگارکے عذاب کاکوئی جھونکابھی انھیں چھوجائے توپکاراُٹھیں گے کہ ہاے ہماری بدبختی! بے شک،ہم ہی ظالم تھے۔‘‘


منکرین اللہ کے رسول کامذاق اڑاتے،اُنھیں عذاب سے خبردارکیاجاتاتو جلدی مچاتے ہوئے خوداس عذاب کی طلب کرتے، یہاں تک کہ اس کے وقوع پربے تکے سوال اُٹھادیتے۔اُن کے اس رویے پرفرمایاہے کہ خداکاعذاب تو بہت بڑی چیزہے ، اُنھیں اگراس کا ذراسا جھونکا بھی چھوجائے تواُن کی یہ ساری مشیخت اوراکڑفوں ختم ہوکررہ جائے۔ اس روشنی میں دیکھیں تو ’نَفْحَۃٌ‘ کی تنوین یہاں اس جھونکے کااپنی جسامت میں حقیرہونا بیان کررہی ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے ’’کوئی جھونکا بھی‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں اوردیکھ لیاجاسکتا ہے کہ یہ تینوں الفاظ مل کر کس خوب صورتی سے یہ سارامعنی اداکر رہے ہیں۔

۸۔ حقارت

وَّاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا.(الجن ۷۲: ۶)
’’اوریہ بھی کہ (انسان کچھ پہلے ہی سرکش تھے،پھر)انسانوں میں سے کچھ احمق ہمارے اِن جنوں میں سے کچھ شریروں کی دہائی دیتے رہے تواِنھوں نے اُن کی سرکشی بڑھادی۔‘‘


اس آیت میں انسانوں کی یہ حماقت بیان ہوئی ہے کہ وہ جنوں کی دہائی دیتے رہے اوراس حماقت کا یہ نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جن چونکہ خود شریر تھے،اس لیے انھوں نے انسانوں کی سرکشی میں اوراضافہ کردیا۔اس لحاظ سے دیکھاجائے تو آیت میں ’رِجَالٌ‘ کی تنوین دونوں جگہ تحقیر کے خاص پہلو،یعنی حقارت کے لیے آئی ہے۔البتہ ،یہ حقارت ’رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ‘ میں انسانوں کی حماقت اور ’رِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ‘ میں جنوں کی شرارت پر پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے’’ احمق‘‘ اور’’شریر‘‘کے دومختلف الفاظ لائے گئے ہیں۔
ذیل کی آیت میں تحقیرکے دونوں پہلواکٹھے ہوگئے ہیں،یعنی کسی شے کااپنی جسامت اوراپنی حیثیت ،دونوں میں معمولی درجے کا ہونا اور ’’البیان‘‘ میں انھی دو پہلوؤں کو ’’ذرا سی‘‘ کے الفاظ میں اداکیاگیاہے:
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ.(النحل ۱۶: ۴)
’’اُس نے انسان کوایک ذراسی بوندسے پیدا کیا تو دیکھتے ہوکہ یکایک وہ ایک کھلاہواحریف بن کراٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘‘


بعض اوقات یہ تنوین تقلیل اورتکثیرکے مضمون کوبھی بیان کرتی ہے:

۹۔ قلت

فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ.(التوبہ ۹: ۱۲۲)
’’مگرایساکیوں نہ ہواکہ اُن کے ہرگروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیداکرتے ۔‘‘


دوردرازکے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں تھاکہ وہ تعلیم وتربیت کی غرض سے سب کے سب مدینہ کے لیے نکل کھڑے ہوتے اورنہ دین اسلام کایہ مزاج ہی ہے کہ وہ ان سب کے نکل آنے پر اصرار کرتا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی ہرجماعت میں سے کچھ لوگ ہی نکلتے۔ آسانی سے سمجھ لیاجاسکتا ہے کہ ’طَآءِفَۃٌ‘ کی تنوین یہاں تقلیل کے لیے آئی ہے جسے ’’کچھ لوگ‘‘کے الفاظ میں اداکیا گیاہے۔

۱۰۔ کثرت

فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ م بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ.(الصف ۶۱: ۱۴)
’’چنانچہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک بڑا گروہ اپنے کفر پر جما رہا۔‘‘


مسلمانوں سے فرمایاہے کہ وہ اللہ کے مددگاربنیں گے تووہ بھی لازماًاُن کی مددکرے گا،جیساکہ ایک زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اللہ کے مددگاربنے اوراس کے باوجودکہ بنی اسرائیل میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے،اللہ نے اُنھیں ان کے دشمنوں پر غالب کیا۔اس سیاق میں اوراس کے ساتھ اگرسورہ کے مرکزی مضمون کوبھی سامنے رکھاجائے توآیت میں اول الذکر ’طَآئِفَۃٌ‘ کی تنوین توتقلیل کے لیے ہے ،مگر ثانی الذکر ’طَآئِفَۃٌ‘ کی تنوین تکثیرکے لیے آئی ہے ،چنانچہ اس کا ترجمہ ایک ’’بڑا گروہ‘‘ کیاگیاہے۔
تنوین سے کسی شے کی تعمیم بھی مرادلی جاتی ہے:
۱۱۔ تعمیم
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ. وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ. وَشَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ.(البروج ۸۵: ۱- ۳)
’’برجوں والاآسمان گواہی دیتاہے اوروہ دن بھی جس کاوعدہ تم سے کیاجارہاہے،اور(دنیامیں)ہردیکھنے والا، (اگر وہ عبرت کی نگاہ سے دیکھے)اورجوکچھ وہ دیکھ رہاہے۔‘‘


یہاں قیامت پراستدلال کیاجارہاہے اوراس کے لیے آسمان میں کیے گئے نگرانی کے انتظام اورخود قیامت کے دن کوپیش کیا ہے۔اسی طرح آفاق میں موجودبے شمار نشانیوں اوراُن سے عبرت حاصل کرنے والے بہت سے لوگوں کابھی ذکرکیاہے کہ یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ قیامت واقع ہوکررہے گی۔اس لحاظ سے دیکھیں تو ’شَاھِدٍ‘ اور ’مَشْھُوْدٍ‘ کی تنوین اصل میں تعمیم کی ہیں اوراسی وجہ سے ان کاترجمہ’’ ہردیکھنے والا‘‘اور’’جوکچھ وہ دیکھ رہا ہے‘‘ کے الفاظ میں ہواہے۔
تنوین کراہت کے لیے بھی آتی ہے اوراس کراہت اورناپسندیدگی کے بھی ایک سے زائدپہلومرادہواکرتے ہیں:

۱۲۔ اِعراض

قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ.(المائدہ ۵: ۱۰۲)
’’تم سے پہلے ایک قوم نے اِسی طرح کی باتیں پوچھیں،پھراُنھی کے منکرہوکررہ گئے تھے۔‘‘


یہودکے بارے میں فرمایاہے کہ ایسابھی ہواکہ اُنھوں نے خداکاحکم سن کرلیت ولعل سے کام لیااوراُس پر بے جا سوالات پوچھنا شروع کردیے اورجب خداکی طرف سے جواب دیاگیاتوپھربھی مان لینے کے بجاے اُن کا انکار کر دیا۔ یہاں یہودکی قوم کے لیے محض ’قَوْمٌ‘ کا لفظ لایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ متکلم اُن سے اِعراض اور اپنی بے زاری کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ’’ایک قوم‘‘ کے الفاظ اصل میں اُسی اعراض کابیان ہیں۔

۱۳۔ نفرت

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْھًا فَنَرُدَّھَا عَلآی اَدْبَارِھَآ.(النساء ۴: ۴۷)
’’اے وہ لوگو،جنھیں کتاب دی گئی،اُس چیزکومان لوجوہم نے اُن چیزوں کی تصدیق میں اتاری ہے جو خود تمھارے پاس موجود ہیں۔مان لو،اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑدیں اوراُن کوپیچھے کی طرف الٹ کر برابر کر دیں۔‘‘


اہل کتاب کووعیدسنائی جارہی ہے کہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کواستعمال نہ کرنے کا ارادہ کررکھاہے ،اس لیے اُن کے چہروں پر اب آنکھ اورکان وغیرہ کی گویاضرورت نہیں رہی اور بہتریہی ہے کہ ان چہروں کو بالکل سپاٹ بنا دیا جائے۔ یہاں اُن کے چہروں کے لیے ’وجوہہم‘ نہیں، بلکہ ’وُجُوْھًا‘ کہا ہے اوراس تنوین سے مقصودیہ ہے کہ متکلم کو اُن سے صرف بے زاری نہیں، بلکہ اس قدر نفرت ہے کہ اُن کا ذکرکرنابھی اُسے روا نہیں۔ ’’البیان‘‘ میں اسی نفرت کو ادا کرنے کے لیے چہرے کے ساتھ کسی اورلفظ کو استعمال کرنے کے بجاے محض ’’چہرے‘‘کالفظ لایا گیا ہے۔