جاوید احمد غامدی کا ترجمۂ قرآن " ​البیان" : خصائص و امتیازات (2)


 جاوید احمد غامدی کا ترجمۂ قرآن
" ​البیان" : خصائص و امتیازات (2) 

’’واو‘‘

’’واو‘‘ کا حرف بھی قرآن میں کثرت سے استعمال ہواہے ۔اسے مترجمین بالعموم’’اور‘‘کے لفظ سے اداکرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے درست ہے کہ عربی کے ’’واو‘‘ کی طرح یہ بھی اپنے اندرمعنی و مفہوم کی بہت سی وسعتیں رکھتا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کواپنی گرفت میں لے لینا، ایک عام قاری کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ قرآن کے اصل فہم کوترجمے میں منتقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ’’ واو‘‘جس مقام پرجس معنی میں استعمال ہوا ہو، وہاں اُسی معنی کواداکرنے والے اردوکے الفاظ لائے جائیں۔ ’’البیان‘‘ میں یہ اہتمام کس قدر کیا گیا ہے، ذیل کی چندمثالیں بڑی حدتک اسے بیان کردیتی ہیں:

۱۔ ہاں

وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.(النساء ۴: ۵)
’’ہاں،اِس سے فراغت کے ساتھ اُن کوکھلاؤ،پہناؤاوراُن سے بھلائی کی بات کرو۔‘‘


یتیموں کے بارے میں فرمایاہے کہ اگروہ نادان اوربے سمجھ ہوں تواُن کامال اُن کے حوالے نہ کرو۔اس ہدایت کا منشا یہ بالکل نہیں تھا کہ اُن کی واجبی ضروریات کوبھی پورانہ کیاجائے،چنانچہ اصل حکم پراستدراک کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوھُمْ‘۔ یعنی، جہاں تک اُن کی ضروریات کاتعلق ہے توانھیں فراغت کے ساتھ پورا کرو۔ یہاں ’’واو‘‘کاترجمہ’’ اور‘‘کے لفظ سے کریں تویہ مدعاکسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں ’’ہاں‘‘ کا لفظ آسانی سے اس مشکل کوحل کردیتاہے۔
’’البیان‘‘ میں بعض مقامات پرکلام کی مناسبت سے اس’’ہاں‘‘میں مزیدلفظوں کا اضافہ بھی کیاگیاہے،جیساکہ ’’ہاں،البتہ‘‘ یا ’’اورہاں‘‘وغیرہ:


وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۹)

’’ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔‘‘

یہاں ’’ہاں‘‘کے ساتھ ’’البتہ‘‘کااستعمال درخت کے پاس نہ جانے کے حکم میں پائی جانے والی ایک طرح کی تاکید کو بیان کر رہا ہے۔
وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ. (البقرہ ۲: ۱۸۷)
’’اور ہاں، تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو (رات کو بھی) بیویوں کے پاس نہ جانا‘‘


’وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ‘ کا ’’واو‘‘ اُس بات میں استثنا کو بیان کر رہا ہے جوکئی جملے پیچھے مذکورہوئی ہے اوراس کے بعد اس کی بعض ضمنی تفصیلات آگئی ہیں۔ چنانچہ بہتریہی تھا کہ ’’ہاں‘‘لاکرجس طرح استثناکوبیان کیاجائے،اسی طرح ’’اور‘‘ لاکراُس دورپڑی ہوئی بات کو ذراقریب بھی کردیاجائے۔

۲۔ بلکہ

اُولٰٓئِکَ لَاخَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۷۷)
’’اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ،اوراللہ قیامت کے دن نہ اُن سے بات کرے گا،نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گااورنہ اُنھیں(گناہوں سے)پاک کرے گا،بلکہ وہاں اُن کے لیے ایک دردناک سزا ہے۔‘‘


جنھوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہداوراپنی قسموں کے بدلے میں دنیاکے مفادات کوترجیح دی ہے ،ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ اُنھیں آخرت میں کوئی فائدہ نہ ملے گا،بلکہ یہ سب ملناتوبہت دور کی بات: ’وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘، اُنھیں تو وہاں درد ناک عذاب بھگتنا ہو گا۔ دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’’اور‘‘کے بجاے ’’بلکہ‘‘ کااستعمال اس ساری بات کوکس خوبی سے اداکررہاہے۔
بعض مقامات پر’’بلکہ‘‘کے ساتھ اِس ’’واو‘‘سے پہلے کی بات کوبھی دہرا دیاگیاہے اوراس سے کلام کی معنویت اورزیادہ کھل گئی ہیں اوروہ قریب الفہم بھی ہوگیا ہے:


وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ. وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِئُوْنَ. وَزُخْرُفًا.(الزخرف ۴۳: ۳۳- ۳۵)

’’اگریہ اندیشہ نہ ہوتاکہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے (اورکوئی ایمان پرنہیں رہے گا) تو جو لوگ خداے رحمن کے منکرہورہے ہیں،اُن کے گھروں کی چھتیں ہم چاندی کی کردیتے اورزینے بھی جن پر وہ چڑھتے اوراُن کے گھروں کے دروازے اور اُن کے تخت جن پروہ تکیے لگا کر بیٹھتے، بلکہ (چاندی ہی نہیں)، سونے کے بھی۔‘‘

۳۔ اب

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۲۳)
’’دونوں بول اٹھے:پروردگار،ہم نے اپنے اوپرظلم کیاہے،اب اگرتوہماری مغفرت نہ فرمائے گااورہم پررحم نہ کرے گاتوہم ضرور نامراد ہو جائیں گے۔‘‘


یہ آدم وحواکی توبہ کے الفاظ ہیں۔اُنھوں نے پہلے اعتراف کیاہے کہ ہم نے غلطی کاارتکاب کیا اوراس طرح اپنے اوپرظلم کیا ہے۔پھرعرض کیاہے: ’وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا‘۔ اِس ’’واو‘‘ کاترجمہ ’’اور‘‘کے بجاے ’’ اب‘‘ کے لفظ سے کریں توغلطی کے بعد اُن کی پشیمانی اوراس کے بعداپنے آپ کوخداکے آگے ڈال دینا،یہ دونوں ہی جہتیں بڑی خوب صورتی کے ساتھ اداہوجاتی ہیں۔

۴۔ اس کے برخلاف

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(النمل ۲۷: ۱۵)
’’اس کے برخلاف ہم نے داؤد اورسلیمان کوبڑاعلم عطافرمایاتھا،(مگروہ ہمارے حضورجھکتے ہی چلے گئے) اور اُنھوں نے کہا: شکر ہے اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پرفضیلت عطافرمائی ہے۔‘‘


پہلے فرعون اوراُس کی قوم کاذکرکیاہے جن کے ظلم اورگھمنڈکی وجہ سے اُن پرخداکاعذاب نازل ہوا۔اس کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان کاذکرکیا جوخداکی نعمتوں کو پاکرکسی تکبرمیں مبتلانہیں ہوئے،بلکہ اُس کا حددرجہ شکر ادا کرنے والے ہوئے۔ ان دو رویوں کے باہم مختلف ہونے کوواضح کرنے کے لیے ’’البیان‘‘ میں ’وَلَقَدْ‘ کے واو کا ترجمہ ’’اس کے برخلاف‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے اورہمارے خیال میںیہی زیادہ صحیح ہے ۔
’’البیان‘‘ میں’’واو‘‘کے اس ترجمہ کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں،اس لیے کہ قرآن میں اِنذاراوربشارت کے نقطۂ نظر سے اکثردوباہم متضاد معاملات زیربحث آتے ہیں۔

۵۔ لیکن

قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ.(البقرہ ۲: ۲۱۷)
’’کہہ دوکہ اِس میں قتال بڑی ہی سنگین بات ہے،لیکن اللہ کی راہ سے روکنااوراُس کونہ ماننااوربیت الحرام کا راستہ لوگوں پربندکرنااوراُس کے رہنے والوں کووہاں سے نکالنااللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔‘‘


حرام مہینوں میں قتال کے بارے میں پوچھاگیاتوفرمایاہے کہ ان میں قتال کرناواقعتا سنگین بات ہے ۔اس کے بعد استدراک کرتے ہوئے فرمایاہے: ’وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ...‘ یعنی، جو رویہ مشرکین نے اختیارکررکھاہے، وہ تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔یہاں ’’واو‘‘ کا ترجمہ’’ اور‘‘سے کریں تویہ مضمون کچھ ہلکا سا ہوجاتاہے ،مگراس کے مقابلے میں ’’لیکن‘‘ کالفظ اسے پوری شدت کے ساتھ بیان کررہاہے۔
اگراستدراک کی اس ’’واو‘‘کونہ سمجھاجائے اوراسے اداکرنے کے لیے لفظ بھی’’اور‘‘ہی کااستعمال میں لایا جائے تو بعض اوقات اصل مدعانظروں سے اوجھل ہو جاتا، حتیٰ کہ بعض صورتوں میں بالکل خلط ملط ہوکررہ جاتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں:
وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ.(النساء ۴: ۱۱)
’’لیکن ترکے کاچھٹاحصہ،(اس سے پہلے)میت کے والدین میں سے ہرایک کوملناچاہیے،اگراُس کی اولاد ہو۔‘‘


مترجمین نے عام طورپراس ’’واو‘‘کوعطفِ جمع کی واوسمجھااوراس کاترجمہ بھی اس لحاظ سے ’’اور‘‘کے لفظ کے ساتھ کیاہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وراثت کی بعض صورتوں میں وہ الجھنیں پیداہوئیں جوخداکے مقررکردہ حصوں میں کمی بیشی کیے بغیرکسی طرح سلجھ نہیں سکیں۔ ’’البیان‘‘ میں کیے گئے’’لیکن‘‘کے ترجمہ سے کوئی الجھن سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی کہ اِس’’ لیکن‘‘ کایہ ناگزیرتقاضاہے کہ ترکے میں سے والدین کے حصے بچوں کومال دینے سے پہلے ہی نکال لیے جائیں۔
بعض مقامات پریہ ’’واو‘‘استدراک کے ساتھ ساتھ حال کے مضمون پربھی محیط ہوجاتی ہے۔اس طرح کے مواقع پر ’’لیکن‘‘ کے ساتھ کچھ مقدرمفہوم کااضافہ کرکے اسے بیان کیاگیاہے،جیساکہ مثال کے طورپراس آیت میں:



فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۴۷)

’’اس کے بعدبھی اگروہ تمھیں جھٹلائیں توکہہ دوکہ تمھارے پروردگارکی رحمت میں بڑی وسعت ہے، لیکن (اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کی دی ہوئی مہلت ختم ہوگئی تو)مجرموں سے اُس کاعذاب ٹالا نہ جاسکے گا۔‘‘

۶۔ جب کہ

قَالَ رَبِّ اَ نّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا.(مریم ۱۹: ۸)
’’اُس نے عرض کیا:پروردگار،میرے ہاں لڑکاکیسے ہوگا،جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اورمیں خودبڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔‘‘


’وَّکَانَتِ امْرَاَتِی عَاقِرًا‘۔ یہ ’’واو‘‘ حال کے لیے آئی ہے اوراس کے لیے ’’اور‘‘ کا لفظ اب کچھ زیادہ فصیح نہیں رہا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے ایک سے زیادہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ زکریا علیہ السلام کو جب لڑکے کی بشارت دی گئی تواسے مان لینے میں اُنھیں کچھ ترددلاحق ہوا کہ اُن کے ظاہری حالات اِس بشارت کے بالکل بھی موافق نہیں تھے۔اُن کے اِس تردداور بظاہرناممکن حالات کے بیان کو ان دونوں کے درمیان میں ’’جب کہ ‘‘کے الفاظ لاکرہی بہتر طورپرادا کیاجاسکتاتھا۔

۷۔ دراں حالیکہ

وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ.(النساء ۴: ۴۶)
’’دراں حالیکہ اگروہ ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘، ’اسْمَعْ‘ اور ’انْظُرْنَا‘ کہتے تواُن کے لیے بہترہوتا اورموقع ومحل کے مطابق بھی۔‘‘


یہودمیں سے کچھ لوگ دین میں طعن کرنے کے لیے رسول اللہ کی مجلس میں بعض لفظوں کوتوڑموڑکربولتے تھے۔ اُن کے بارے میں فرمایا ہے: ’وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا‘ ۔یہ ’’واو‘‘بھی حال کے لیے ہے اوراس کاترجمہ ’’دراں حالیکہ‘‘ کے لفظ سے کرنے میں یہ خوبی ہے کہ یہود کے اس گروہ کے لیے ایک مناسب اوربہتررویے پرتشویق واضح کی جائے اور ان پراس حسرت کااظہاربھی کیاجائے کہ وہ تو کتاب کے حاملین ہونے کی وجہ سے اس بات کے سزاوارتھے کہ دین میں طعن کرنے کے بجاے آگے بڑھ کراسے قبول کرنے والے ہوتے ۔

۸۔ حقیقت یہ ہے کہ

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.(الانفال ۸: ۲۹)
’’ایمان والو،اگرتم خداسے ڈرتے رہے تووہ تمھارے لیے فرقان نمایاں کرے گااورتمھارے گناہ تم سے جھاڑ دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے فضل والاہے۔‘‘


اس آیت میں مومنین سے تقویٰ کی شرط پربعض انعامات کے وعدے فرمائے ہیں اورپھرتقویٰ کی طرف راغب کرنے اوران وعدوں کو مزیدمؤکد کرنے اوریہ بتانے کے لیے کہ اُس کی رحمتوں کوصرف ان وعدوں تک محدودنہ سمجھ لیاجائے، فرمایا ہے: ’وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘۔ ’’البیان‘‘ میں حال کی اس ’’واو‘‘ کاترجمہ ’’حقیقت یہ ہے کہ‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے جس سے یہ سارے مقاصد بڑی حدتک ادا ہو جاتے ہیں۔
بعض مقامات پر’’حقیقت یہ ہے کہ ‘‘کے ساتھ کسی اورلفظ کااضافہ بھی کیاگیاہے اوربعض مواقع پر اس کے ساتھ کسی مقدر مفہوم کو بھی کھول دیاگیاہے،جیساکہ ذیل کی یہ آیتیں:
اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَکَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا.(النساء ۴: ۵۰)
’’انھیں دیکھو،(اپنے دعووں سے)یہ اللہ پر کیسا افترا باندھ رہے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ صریح گناہ ہونے کے لیے تویہی کافی ہے۔‘‘


یہاں ’’اور‘‘کا لانااس لیے بھی ضروری تھاکہ اُن کے جرم کی شناعت اورخداکی طرف سے اُس کے اظہارمیں پائی جانے والی مبادرت کوبھی ظاہر کیاجائے۔
وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآءِرٌ وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ.(النحل ۱۶: ۹)
’’اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے، جب کہ راہیں ٹیڑھی بھی ہیں۔(اب تمھیں اختیارہے کہ جو راہ چاہے، اختیار کرو)، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگروہ چاہتاتوتم سب کو (اُسی ایک راہ کی )ہدایت دے دیتا۔‘‘


یہاں’’ورنہ‘‘اوراس سے پہلے مقدرجملہ اس لیے نکالاگیاہے تاکہ پچھلی بات پر ’وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ‘ کاعطف موزوں ہوسکے۔

۹۔ اور اس طرح

الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ.(البقرہ ۲: ۲۷)
’’جواللہ کے عہدکواُس کے باندھ لینے کے بعدتوڑدیتے ہیں اوراللہ نے جس چیزکے جوڑنے کاحکم دیاہے ،اُسے کاٹتے ہیں ،اور اس طرح زمین میں فسادبرپاکرتے ہیں۔‘‘


اس آیت میں اللہ کے عہدکوتوڑنے اوررحمی رشتوں کوکاٹ دینے کایہ نتیجہ بیان ہواہے کہ زمین میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’وَیُفْسِدُوْنَ‘ کے ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’اور اس طرح‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے ۔ اس کے بجاے اگر’’ اور‘‘سے ترجمہ کیا جاتا توفساد فی الارض پہلی دوباتوں کانتیجہ ہونے کے بجاے تین کاتیسراہوکررہ جاتا۔
یہی ’’واو‘‘ذیل کی آیت میں بھی آئی ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۹) 
’’پروردگار،اوراُنھی میں سے تواُن کے اندرایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں اُنھیں سنائے اوراُنھیں قانون اور حکمت سکھائے اوراس طرح اُنھیں پاکیزہ بنائے۔‘‘


تزکیہ اصل میں کتاب وحکمت کی تعلیم کالازمی نتیجہ ہے، نہ کہ اس سے الگ دین کاایک مقصد۔ ’وَیُزَکِّیْھِمْ‘ کی ’’واو‘‘ کا ترجمہ بھی’’ اور اس طرح سے ‘‘کے الفاظ میں کریں تودین اُس آمیزش سے بالکل پاک ہوجاتاہے جوتزکیے کے نام پرغیراسلامی نظریات کواس میں داخل کرکے کی گئی ہے۔ 
’’اوراس طرح ‘‘کے الفاظ بعض مقامات پرنتیجے کی’’ واو‘‘کے بجاے تفصیل کی ’’واو‘‘کے لیے بھی لائے گئے ہیں، جیساکہ اس آیت میں:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ. (الزخرف ۴۳: ۳۲) 
’’دنیاکی زندگی میں ان کی معیشت کاسامان توان کے درمیان ہم نے تقسیم کیاہے اوراس طرح تقسیم کیا ہے کہ ایک کے درجے دوسرے پربلندرکھے ہیں‘‘

۱۰۔ اور اس کے لیے

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا.(العنکبوت ۲۹: ۱۷)
’’تم اللہ کوچھوڑکرمحض بتوں کوپوج رہے ہواوراس کے لیے جھوٹ گھڑتے ہو۔‘‘


سیدناابراہیم اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم اللہ جیسی ہستی کو چھوڑکربتوں کی پوجاکررہے ہوجن کے بارے میں واضح ہے کہ وہ تمھارے رزق پرکوئی اختیار نہیں رکھتے ،چنانچہ اپنے اس شرک کوبنیادفراہم کرنے کے لیے تم اُن کے بارے میں اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتے ہو۔ ایک مقصدکوپانے اوراس کے لیے کوئی تدبیرکرنے کے لیے ’’واو‘‘ کا یہی استعمال ہے جسے ’’البیان‘‘ میں ’’اور اس کے لیے‘‘ کے الفاظ میں ادا کیاگیاہے۔
ذیل کی آیت میں بھی اس ’’واو‘‘کاصحیح ادراک اوراسی لحاظ سے اس کاصحیح ترجمہ ایک اورطریقے سے اُس بدعت پر خط تردیدپھیر دیتا ہے جو تزکیے کے نام پر،افسوس یہ کہ دین میں راہ پاگئی ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’اُسی نے امیوں کے اندرایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جواُس کی آیتیں اُنھیں سناتااوراُن کاتزکیہ کرتا ہے، اور اس کے لیے اُنھیں قانون اورحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘

۱۱۔ یعنی

وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.(البقرہ ۲: ۵۳)
’’اوریادکروجب ہم نے موسیٰ کوکتاب،یعنی(حق وباطل کے لیے)فرقان عطافرمائی،اس لیے کہ (اس کے ذریعے سے )تم ہدایت حاصل کرو۔‘‘


قرآن میں انبیاے کرام پراترنے والی کتابوں کے متعلق یہ صراحت فرمائی گئی ہے کہ وہ اختلافات کوختم کرنے کے لیے آتی ہیں۔ تورات کی بھی یہی حیثیت تھی جسے یہاں ’الْفُرْقَان‘ کے لفظ اورتفسیرکے’’ واو‘‘کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’یعنی‘‘ کے لفظوں میں کرنا،نہایت برمحل اوراصل مدعاکوبہت زیادہ واضح کردینے والا ہے۔
ذیل کی یہ آیت بھی اس واوکو’’یعنی ‘‘کے لفظ سے اداکرنے کی ایک اچھی مثال ہے:
وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ.(آل عمران ۳: ۴۸)
’’اور اللہ اُسے قانون اورحکمت سکھائے گا،یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دے گا۔‘‘


چونکہ تورات میں زیادہ ترقانون بیان ہواہے اورانجیل میں حکمت کی باتیں،اس لیے انھیں بالترتیب قانون اور حکمت سے تعبیر کر لیاگیاہے۔
تفسیر کے اس’’واو‘‘ کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو قرآن کے قاری پر اس کے فہم کی ایک نئی دنیا کھل جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت میں:۳؂
وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ.(الحجر ۱۵: ۸۷)
’’ہم نے تم کوسات مثانی،یعنی قرآن عظیم عطا کر دیا ہے۔‘‘


بعض مقامات پر اس ’’واو‘‘ کو ’’یعنی‘‘ کے لفظ میں اداکرنے سے وہ بے سودبحثیں بالکلیہ ختم ہوجاتی ہیں جوگروہی تعصبات کی وجہ سے قرآن میں پیداکرلی گئی ہیں۔مثال کے طورپریہ آیت:
قَدْْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ.(المائدہ ۵: ۱۵) 
’’تمھارے پاس یہ اللہ کی طرف سے ایک روشنی آگئی ہے،یعنی ایک ایسی کتاب جو(دین وشریعت سے متعلق ہرچیزکو)واضح کر دینے والی ہے۔‘‘

۱۲۔ ’’واو‘‘ کے دیگر ترجمے

۱۔ وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ.(القصص ۲۸: ۲۳)
’’اور(اس کام کے لیے ہمیں ہی آناپڑتاہے،اس لیے کہ)ہمارے والدبہت بوڑھے ہیں۔‘‘


’’البیان‘‘ میں بعض مواقع پریہ التزام کیاگیاہے کہ ’’واو‘‘کاترجمہ’’اور‘‘کے لفظ میں کرتے ہوئے اُس کے ساتھ مقدر بات کوبھی ظاہر کر دیا جائے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پرکھڑی ہوئی عورتوں سے کہا: ’مَا خَطْبُکُمَا‘۔ اُنھوں نے دوباتوں سے متعلق استفسار کیا:ایک یہ کہ تم عورتیں ہوکریہاں کیوں آئی ہو؟ اور دوسرے یہ کہ اگرتم آگئی ہو تو اب اپنے گلے کوروک کر کیوں کھڑی ہو؟ انھوں نے جواب میں کہاکہ ہم چرواہوں کی اِس بھیڑمیں اپنے جانوروں کوپانی نہیں پلاسکتیں،اس لیے انھیں روک کرکھڑی ہیں۔اورہم خودیہاں اس لیے آئی ہیں کہ: ’وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ‘۔ ’’البیان‘‘ کے ترجمے میں ’’اور‘‘ کا لفظ بتارہاہے کہ یہ سوال کے دوپہلوؤں میں سے ایک کاجواب ہے اور مقدر جملہ اُس مطابقت کوبیان کررہاہے جو موسیٰ علیہ السلام کے سوال اور عورتوں کی طرف سے دیے گئے جواب کے درمیان میں پائی جاتی ہے۔
۲۔ وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَ لُوْنَ.(الصافات ۳۷: ۲۷) 
’’اُس وقت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے کہ باہم سوال وجواب کریں۔‘‘


پچھلی آیتوں میں آخرت کامنظربیان ہواہے جب مجرموں اوراُن کے ساتھیوں اوراُن کے باطل معبودوں کو دوزخ کاراستہ دکھا دیاجائے گا۔ ’وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ‘ کی ’’واو‘‘ اِن آیتوں سے مفہوم ہونے والے ظرف کو بیان کر رہی ہے، چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ ’’اُس وقت‘‘ کے لفظوں میں کیاگیاہے۔
۳۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ. وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ ےَتَغَامَزُوْنَ. وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلآی اَھْلِھِمُ انْقَلَبُوْا فَکِھِیْنَ.(المطففین۸۳: ۲۹۔۳۱) 
’’(وہ بھی دن تھے کہ)یہ مجرم ایمان والوں پرہنستے تھے، جب اُن کے پاس سے گزرتے توآنکھوں سے اشارے کرتے تھے، جب اپنے لوگوں میں پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے۔‘‘


’’البیان‘‘ میں کئی مقامات پر’’واو‘‘کاترجمہ چھوڑدیاگیاہے کہ وہاں کلام اسے خودہی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں اسی لیے ’وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ‘ اور ’وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا‘ کے ’’واو‘‘ کا ترجمہ نہیں کیا گیا اور اگر ایسا کیا جاتا تو کلام کی روانی میں حددرجہ خلل آتااوراس میں بننے والی تصویرایک سے زائد تصویروں میں تبدیل ہوجاتی۔
۴۔ وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ.(العنکبوت۲۹: ۵۳) 
’’یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘‘


بعض اوقات یہ’’واو‘‘محض عطفِ جملہ کی ہوتی ہے ،اس لیے یہ ضروری نہیں ہوتاکہ اس کالفظوں میں ترجمہ کیاجائے۔

________

۳؂ اس آیت کی تفصیل کے لیے ’’البیان‘‘ میں لکھی ہوئی تفسیر کی مراجعت کی جاسکتی ہے۔